ہمارا سپہ سالار
ہماری فوجی طاقت کی یہ شان رہی ہے کہ ہمارے سپہ سالار دشمنوں کو زیر ہی نہیں کرتے میدان جنگ کی تاریخ ہی بدل دیتے ہیں
ہماری فوجی طاقت کی یہ شان رہی ہے کہ ہمارے سپہ سالار دشمنوں کو زیر ہی نہیں کرتے میدان جنگ کی تاریخ ہی بدل دیتے ہیں اور حرب و ضرب کے ایسے کرشمے دکھاتے ہیں کہ ان کی تلواریں جنگ و جدل کی نئی تاریخ لکھتی ہیں جو رہتی دنیا تک ایک مثال بن کر زندہ رہتی ہے۔
مسلمان فوج کا ایک وصف یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کسی قوم کو فتح کرنے کے لیے جنگ نہیں کرتی اس کے جوان اپنے دلوں میں شہادت کی تمنا رکھتے ہیں اور اس کے لیے جان لڑا دینے میں نجات سمجھتے ہیں۔ شہادت کسی فوجی کے لیے سب سے بڑا انعام ہے جس کے لیے وہ قربان ہو جاتا ہے۔ مسلمان فوج کے جرنیل خالدؓ بن ولید بستر مرگ پر ماتم کیا کرتے کہ دیکھو میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر تلوار کا کوئی زخم نہ ہو لیکن میں شہادت سے محروم رہ کر بستر پر جان دے رہا ہوں۔
وہ میدان جنگ میرے نصیب میں نہیں تھا جس پر میرا خون بہتا اور میں اپنی زندگی کے جہاد میں سرخرو ہوتا۔ ہمارے ہاں ایک سپاہی بھی نوکری نہیں کرتا وہ کسی مقصد کے لیے قربانی دیتا ہے اور وہ بھی اپنی جان کی۔ وہ قدم بہ قدم ملازمانہ ترقی نہیں کرتا کہ اس اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ سکے وہ ایک ایسی جنگ میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتا ہے جس کا اجر کسی انسان کے پاس نہیں ہوتا۔ وہ اس جنگ کو جہاد کا نام دیتا ہے اور اس میں کام آ جانے کو شہادت کہتا ہے۔
یہ بات مجھے اپنی فوج کے نئے سپہ سالار کی ترقی اور آزمائش پر یاد آئی اور ایک حسرت میرے دل میں جاگ اٹھی کہ ہمیں ایک اور خالد اور ایوبی کب ملے گا۔ درست کہ ہمارے سپہ سالاروں کو خالد اور ایوبی کی تربیت اور ماحول نصیب نہیں ہوا لیکن ان کے دل اسی ایمان سے آباد اور سرشار ہیں جو ہماری فوج کی تاریخ بنانے والوں کی قسمت میں تھا۔ اللہ کا نام لے کر لڑنے والے کا مقابلہ کون کر سکتا ہے لیکن جو کل تھا وہ آج بھی ہمیں عطا کیا جا سکتا ہے۔ ملازمانہ ترقی اور کامیابی اپنی جگہ لیکن وہ کامیابی بھی ایک مسلمان سپاہی کی قسمت میں لکھی گئی ہے جس نے اللہ کے لیے جان دے دی اور اپنے نظریے پر مر مٹا اور وہ مرا کہاں وہ تو ایک ابدی زندگی کی مراد پا گیا۔
کون جانے وہ کس دنیا میں کس صف میں کھڑا کسی کو جان ہی دے رہا ہو گا، اس کے قدموں کی دھمک سے زمین ہل رہی ہو گی اور اس کے نعروں سے فضائیں کانپ رہی ہوں گی۔ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہمارے کسی فوجی کو دشمن شکست نہیں دے سکتا کیونکہ اس کے دل میں جس یقین کی شمع روشن ہے وہ بجھائی نہیں جا سکتی۔ زندہ باد جنرل قمر باجوہ۔
میں یہ چند سطریں اپنے نئے سپہ سالار کے اعزاز میں لکھ رہا ہوں اور اس کی خدمت میں اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کر رہا ہوں۔ بات صرف اتنی نہیں کہ وہ ہمیں ہمارے ہر دم تیار دشمن کو کسی یلغار سے بچائے گا بلکہ وہ دشمن کو نابود کرنے میں کامیاب ہو گا۔ ہمارے ایک حکمران سے ایک ہندو لیڈر نے جنگ پر بات کی تو اسے جواب دیا گیا کہ آپ جنگ کی بات نہ کیا کریں آپ کے لیے یہی خاموشی بہتر ہے اگر جنگ ہو ہی گئی تو دونوں ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کو ختم کر دیں گی لیکن ایک بات یاد رہے کہ مسلمان صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ان کو ختم کرنا ممکن نہیں لیکن ہندو صرف ایک ملک میں ہیں اور اگر ہندوستان ختم ہو گیا تو ہندو ختم ہو گیا۔ اس لیے آپ ایٹمی ملک سہی مگر پاکستان بھی ایٹم سے مسلح ہے اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ دونوں کی تباہی ہے اور ہندو قوم تو صرف ایک ملک میں آباد ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان ان کا تھا اور مسلمان اس میں گھس آئے ہیں۔ اس لیے ان کو نکالنا ہندو مت کا فرض ہے۔ یہ فرض اسے یاد رہتا ہے اور اس کی وزیراعظم اپنی قوم اور مسلمانوں کو بھی یاد دلاتی رہتی ہے۔
اندرا گاندھی نے پاکستان کے دولخت ہونے پر خوش ہو کر جلسہ عام میں کہا کہ ہم نے درحقیقت مسلمانوں کی اس ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لیا ہے جو وہ ہندوستان پر کرتے رہے ہیں۔اندرا نے تو دل کی بھڑاس نکال لی لیکن آج کے ہندو کو بھی معلوم ہے کہ جنرل قمر باجوہ اپنی حفاظت بھی کر سکتا ہے اور کسی جارحیت کا جواب بھی دے سکتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے اور یہی مشورہ بار بار دیا جاتا ہے کہ ہندوستان کسی غلط فہمی میں نہ رہے ہماری فوج کے مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں۔ ہم اس سے بدلہ بھی لے سکتے ہیں اور اسے اس حیثیت میں بھی نہیں رہنے دیں گے کہ وہ ہم سے کوئی گستاخی کر سکے۔ دونوں ملکوں کے لیے امن ہی بہتر راستہ ہے اور دونوں کی زندگی اور سلامتی کا یہی تقاضا بھی ہے۔ اب جنگ تلوار کی جنگ نہیںرہی ایٹم بم کی جنگ ہے جس کا نام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر پھر بھی ہندوستان تیار ہے تو ہم تو ایک نئی زندگی شروع کر لیں گے جس کا ہم سے وعدہ ہے مگر بھارت کا ہندو کہاں جائے گا اسے تو پورے ہندوستان میں پناہ نہیں ملے گی۔
دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام کی نجات اسی میں ہے کہ دونوں مل جل کر امن کے ساتھ زندہ رہیں۔ دونوں کے لیے زندگی کا یہی راستہ سب سے بہتر ہے اور عقل بھی اسے ہی تسلیم کرتی ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں ایٹم سے بچ کر زندگی بسر کرتی رہیں۔ ہم پاکستانی اپنی فوج کو نامور جرنیلوں کے ساتھ مسلح کررہے ہیں۔ جنگ جسے ہم جہاد کہتے ہیں ہمارے عقیدے اور ایمان کا حصہ ہے۔