منزل ابھی دور ہے
محسوس ہورہا ہے، جیسے پاکستان کروٹ بدل کر تبدیل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے
محسوس ہورہا ہے، جیسے پاکستان کروٹ بدل کر تبدیل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں بعض ایسے فیصلے اور اقدامات ہوئے ہیں، جو دنیا کے کسی دوسرے ملک کے لیے تو اچنبھے کی بات نہیں ہوتے، لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں ان کی خاصی اہمیت ہے، کیونکہ ہمارا معاشرہ نیم قبائلی اور طاقتور جاگیردارانہ کلچر کی بندشوں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے جمہوری نظم حکمرانی کے تقاضوں کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر رہا ہے۔
جہاں تک2013 میں ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا معاملہ ہے، تو یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا، لیکن جنرل راحیل شریف کی اپنی مدت ملازمت کی تکمیل پر ریٹائرمنٹ اور ان کی جگہ نئے آرمی چیف کا تقرر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی انتظامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں سویلین حکومتوں کے مختلف ادوار میں کئی بار اس نوعیت کی تقرریاں ہوچکی ہیں۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے صوابدیدی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جنرل ایوب خان کی تقرری کی تھی۔ بھٹو مرحوم نے آئین کے مطابق جنرل ٹکا خان اور اس کے بعد جنرل ضیا الحق کی تقرری کی تھی۔
1988سے1997کے دوران ملک میں 58(2) Bکی وجہ سے یہ اختیار صدر کو منتقل ہوگیا تھا۔ لہٰذا وزیراعظم سے صرف مشاورت کی جاتی تھی۔ چنانچہ جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ پر پہلے جنرل آصف نواز جنجوعہ اور ان کے انتقال کے بعد جنرل وحید کاکڑ کی تقرری اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان مرحوم نے میاں نواز شریف سے مشاورت کے بعد کی تھی۔
جنرل جہانگیرکرامت کی تقرری بے نظیر بھٹو کی مشاورت سے اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے کی تھی۔1997میں 58(2) Bختم کردی گئی تھی، اس لیے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ ایک بار پھر وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہوگیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاالدین بٹ (جو پائے تکمیل تک نہ پہنچ سکی) کی تقرری میاں نواز شریف نے اپنی دوسری وزارت عظمیٰ کے دور میں کی تھی۔ اپنے تیسرے دور اقتدار میں میاں نواز شریف کو دو بار موقع ملا کہ وہ آرمی چیف کا تقررکریں۔ پہلے جنرل راحیل اور اب جنرل قمر جاویدباجوہ ۔ البتہ فوجی حکمرانوں نے اپنی مدت ملازمت میںحسب ضرورت ازخود توسیع کی جو ایک الگ موضوع بحث ہے۔
حالیہ دنوں میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ابہام اس لیے پیدا ہوا، کیونکہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ رکھنے والے بعض حلقوں نے منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اس ایشو کو غیر ضروری طورپر اچھا لاتھا۔ یہ حلقے جو سرد جنگ کی نفسیات سے باہر نہیں نکل سکے ہیں، کسی نہ کسی حوالے سے غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ فوج میں تقرریاں، ترقیاں اور تعیناتیاں کبھی مسئلہ نہیں رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تاج برطانیہ سے دو انتہائی منظم اور باصلاحیت ادارے ورثے میں ملے تھے۔ان میں سے ایک سول بیوروکریسی اور دوسرا فوج۔ سول بیوروکریسی کو فیوڈل مائنڈ سیٹ رکھنے والی حکمران اشرافیہ نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد تباہ کردیا، لیکن فوج چونکہ پاکستان کی قومی سلامتی کا واحد منظم ادارہ ہے، اس لیے اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نہ تو اجازت دی گئی اور نہ ہی کسی کو جرأت ہوسکی۔
اس لیے ان عناصر کو منہ کی کھانی پڑی جو کسی ایڈونچر کے منتظر رہتے ہیں۔ فوج کے اندرونی ڈھانچے کی مضبوطی کا بنیادی سبب اس کے اندر تقرریوں، ترقیوں اور تعیناتیوں میں میرٹ اور شفافیت کا مکینزم ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے چیف کی تقرری پر ایک مرتبہ(1999) کے سوا کبھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم نے اپنے صوابدیدی اختیارکو استعمال کرتے ہوئے جنرل ایوب خان کو چھ جرنیلوں پرسبقت دیتے ہوئے بری فوج کا سربراہ مقررکیا تھا۔ جنرل موسیٰ میرٹ پر سربراہ بنے تھے۔ جنرل یحییٰ کو چار سینئر جرنیلوں پر سبقت دے کر فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
بھٹو مرحوم نے جنرل ٹکا خان کی تقرری میرٹ پرکی تھی، لیکن جنرل ضیا الحق کو آٹھ سینئر جرنیلوں پر سبقت دیتے ہوئے فوج کاسربراہ بنایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ1999 میں جنرل ضیاالدین بٹ کی تقرری پرشاید ردعمل نہیں آتا، اگر جنرل جہانگیر کرامت کا غیر منطقی انداز میں استعفیٰ سامنے نہ آیا ہوتا۔ مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ زیادہ تر توسیع ان چیفس نے لیں، جو اقتدار پر قابض ہوئے۔ملازمت میں توسیع کا حکم نامہ انھوں نے ازخود جاری کیا۔ان کا فیصلہ غیر آئینی اقدام ہواکرتا تھا، مگرجو لوگ آئین کو بالائے طاق رکھ سکتے ہیں، وہ آئین کی ایک یا دو شقوں کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔ اس لیے ان کے اقدامات پر بحث بے معنی ہے۔
جنرل اشفاق کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع اس وقت کے صدرآصف علی زرداری نے دی تھی، مگر اس معاملے میں بھی قواعد وضوابط کو نظر انداز کیا گیا تھا ، کیونکہ انھیں یکمشت تین برس کی توسیع دی گئی تھی جو قواعد وضوابط کے خلاف تھی، کیونکہ سرکاری ملازمت کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی سرکاری افسریا اہلکار کی عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر ریٹارمنٹ کے بعد اس کی خدمات کو جاری رکھنے کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ایک سال کی بنیاد پر صرف تین مرتبہ توسیع دی جاسکتی ہے۔ ایک ساتھ تین برس کی توسیع خلاف ضابطہ ہوتی ہے۔ اس نظیر کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض حلقے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جنرل راحیل شریف کو بھی تین برس کے لیے یکمشت توسیع دیدی جائے گی حالانکہ وقت مقررہ پر اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان وہ دس ماہ قبل ہی کرچکے تھے جس میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں تھی۔
درج بالاامور پر گفتگو کا مقصد آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کرنا ہے۔اس وقت اصل مسئلہ یہ دیکھنا ہے کہ یہ فیصلے اور اقدامات پاکستان میں کس حد تک نظام حکمرانی کو آئین و قانون کے دائرے میں لانے میں مدد دے سکیں گے؟2013میں حکومت کی پرامن منتقلی اور اب تمام تر افواہوں اور منفی پروپیگنڈے کے باوجود آرمی چیف اپنے وعدے کے مطابق ریٹائرمنٹ اور آئین اور قانون کے مطابق نئے چیف کی تقرری اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان میں ادارے استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اگر حکومت اور ہر ریاستی ادارہ آئین اور قانون کے اندر ر ہ کر کام کرنے کا عادی ہوجائے، تو نظام حکمرانی جلد ہی اس پٹری پر آسکتا ہے، جو جدید جمہوری طرز حکمرانی کا طرہ امتیاز ہے۔محسوس یہ ہورہا ہے کہ فوج کے اعلیٰ حلقوں میںبھی یہ سوچ تقویت پاتی جا رہی ہے کہ منتخب حکومت کو اس کی نااہلی کی بنیاد پراٹھا پھینکنا مسائل کا حل نہیں ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں ان گنت پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود اس ادارے کی نیک نامی اور شہرت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے قومی سلامتی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ اداروں کے درمیان مشاورت کے ذریعے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جو حکمرانوں کو فیصلہ سازی میں مدد دیتی ہے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ اختلافات ضرور رہے، لیکن فوج کی اعلیٰ قیادت نے کسی قسم کے ایڈونچر سے ممکنہ حد تک گریز کیا۔ اندازہ یہی ہے کہ موجود چیف بھی اسی پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ کیونکہ ملک کی سلامتی اور بقا اسی میں ہے کہ تمام ریاستی ادارے آئین میں تفویض کیے گئے اختیارات سے تجاوز نہ کریں۔ ساتھ ہی حکومت بھی اپنے مینڈیٹ سے انحراف کرنے یا ماورا اقدامات سے گریز کرے۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ منتخب حکومتوں کی پرامن تبدیلی اورفوج کے سربراہان کی تقرری Routineکے معاملات ہیں، جنھیں نزاعی شکل دینا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ سیاسی اور غیر جمہوری سیٹ اپ کا راستہ روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بدلتے حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔
اس مقصد کے لیے سیاسی جماعتوں سے موروثیت اور اقتدار و اختیار کی مرکزیت کا خاتمہ ضروری ہے۔ کیونکہ اچھی حکمرانی اسی وقت ممکن ہے، جب اقتدار و اختیار ریاست کے نچلے ترین یونٹ تک صحیح معنی میں منتقل ہو، تمام ریاستی امور شفافیت کے ساتھ طے پارہے ہوں اور احتساب کا واضح میکنزم موجود ہو۔ حالیہ واقعات پر بغلیں بجانے کے بجائے یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے جمہوری عمل کے استحکام کی منزل ابھی بہت دور ہے جس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔