پانامہ کا بینڈ باجا
پچھلے دنوں عمران خان (دھرنا پلس) اور میاں نواز شریف (پانامہ پلس) کے درمیان پھر ایک مرتبہ زور آزمائی ہوئی
سوپ، اوپیرا، طویل دورانیے کے انڈین ڈراموں میں جن کو عرف عام میں عورتوں کے ڈرامے کہا جاتا ہے پورے دو سال بعد پتہ چلتا ہے کہ ''ساس بھی کبھی بہو تھی۔'' پتہ نہیں جو یہ ڈرامے نہیں دیکھتے ان کو کیسے پتہ چل جاتا ہے۔ یہی حال پاکستان میں جمہوریت کا ہیً 70 سال ہو گئے، اب پتہ چل رہا ہے کہ ہم جس کو مارشل لا سمجھتے تھے وہ دراصل جرنیلی جمہوریت تھی اور جس کو ہم جمہوریت سمجھ رہے ہیں وہ دراصل اشرافیائی آمریت ہے۔ عوامی جمہوریت ادھر ہے نہ ادھر تھی۔
پچھلے دنوں عمران خان (دھرنا پلس) اور میاں نواز شریف (پانامہ پلس) کے درمیان پھر ایک مرتبہ زور آزمائی ہوئی۔ اس کی معقول وجوہات ہیں۔ دوستی کا کیا سوال؟ نواز شریف کے ہوتے ہوئے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی خواہش، ایک سنہری خواب ہی رہے گا۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکا، ایک مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ نہیں ملی۔ دوسرا دو مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہ چکا۔ قانون میں ترمیم کروا کر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے۔ اس مرتبہ عمران خان اپنے دھرنا پراجیکٹ پر اتنے اعتماد سے آگے بڑھ رہے تھے کہ لگتا تھا کہ ان کو اپنی کامیابی کا یقین ہے کہ اپنے سب سے پرانے حلیف سے بھی انتہائی ڈپلومیٹک انداز میں فاصلہ پیدا کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ یکایک یوٹرن لینا پڑا؟ عمران خان کے دو اہداف تھے۔
(1)۔ رائے ونڈ میں جلسہ عام کر کے نواز شریف پر دباؤ ڈالنا کہ استعفیٰ دیں۔ (2)۔ اسلام آباد میں دھرنا دے کر (ن) لیگ کی حکومت کو مفلوج کردینا۔ سوال یہ ہے کہ سڑکوں پر آنے سے پہلے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر فیصلے کا انتظارکیوں نہیں کیا گیا کہ آیا پٹیشن قابل سماعت ہے یا نہیں۔
سیاست میں جمہوریت اور ڈپلومیسی (دل میں کچھ زباں پرکچھ) کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب کسی انسان کو اپنے جذبات اور زبان پر قابو ہو۔ جو عمران خان میں نہیں ہے۔ بے شک وہ سچ بولتے ہیں لیکن غلط وقت پر یا غلط جگہ پر۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حزب اختلاف کا ہر جلسہ پرامن ہوتا ہے کیونکہ اس میں شرکت کرنے والوں کو ہانک کر لایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر گڑبڑ ہوتی ہے تو اس میں حکمراں پارٹی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کا یہ حق بنتا ہے کہ حکومت کے خلاف دھرنا دے، جس میں اسلام آباد کے ڈی چوک کے دنگل میں ڈی جے بٹ کے بینڈ باجے پر منگل منایا جائے، احتجاجی جلوس نکالے جس میں اسلام آباد میں پھولوں کا ایک گملا یا کھڑکی کا ایک شیشہ بھی نہ ٹوٹے، یادگار جلسہ کرے جس میں انسانوں کا سمندر کرسیوں پر بیٹھا تالیاں بجا بجا کر ٹھاٹھیں مارے، اور تاریخی خطاب کرے۔ ''اوئے فلاں...!''
بھلا ایسے سریلے اور رنگین دھرنے کو کون مائی کا لعل روکنے کی سنگین غلطی کر سکتا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان جس طرح پچھلے دھرنے میں اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور کھلے بندوں امپائرکا ذکر کر بیٹھے نتیجتاً امپائر (اگر تھا تو) اتنا گھبرا گیا انگلی کھڑی کرنے کی بجائے انگوٹھا دکھا دیا۔ اس مرتبہ بھی عمران خان رائیونڈ کے کامیاب جلسے کے بعد اپنے جذبات اور زبان کو قابو میں نہ رکھ سکے زبان پھسل گئی اور ایک ایسا لفظ استعمال کیا جو اپنی ماہیت میں خودکش بمبار کی تاثیر رکھتا ہے۔اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔
بین الاقوامی سفارتکاری کا مرکز ہے۔ جہاں ملک کے دفاعی اور حساس اداروں کے ہیڈکوارٹرز ہیں۔ ایسے شہر کو Lock Down یعنی مفلوج کر دینے کی دھمکی دینا آ بیل مار کہنے کے مترادف ہے۔ Lock Down(مفلوج) کردینے کے تعلق سے جو منظر اسلام آباد میں نظر آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کے مکین اپنے اپنے گھروں میں محبوس ہیں۔ تمام تعلیمی، سرکاری و نیم سرکاری، نجی ادارے بند ہیں، ٹرانسپورٹ بند ہے۔
اسلام آباد پھولوں کا ایک گملہ یا کھڑکی کا ایک شیشہ بھی سلامت نہیں ہے۔ اس صورتحال کا وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے اسلام آباد کے مکینوں کو محبوس ہونے سے بچانے کے لیے عمران خان کے گھر کے اطراف رکاوٹیں کھڑی کر کے عمران خان کوگھر تک محدود کر دیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے تمام داخلی راستوں پر پولیس فورس کھڑی کر دی۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ اسلام آباد کو Lock Down (مفلوج) کرنے کے لیے آنے والے قافلوں کو آنسو گیس کے گولوں کی اسٹیج کے باہر رکھیں یوں اسلام آباد والوں نے سکون کا سانس لیا اور وزیر داخلہ کی واہ واہ ہوگئی۔
مذکورہ بالا ساری کتھا ایک طرف لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانامہ لیکس کی ولادت باسعادت سے لے کر سپریم کورٹ میں قابل سماعت قرار دیے جانے تک اس کو زندہ رکھنے کا سارا کریڈٹ پاکستان کی ایک رکنی حزب اختلاف عمران خان کو جاتا ہے۔ ورنہ تو پانامہ لیکس کی لاش کب کی تاریخ کی کچرہ کنڈی میں دفن ہوچکی ہوتی۔ باقی ساری پارٹیاں تو منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی تھیں کیونکہ ایک بھی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔حالات حاضرہ کے مطابق تین پیشیاں ہوچکی ہیں باضابطہ سماعت شروع ہونے سے پہلے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔ میاں نواز شریف کے کیس میں بیانات میں تضاد، واقعات بے ربط، منطق بودی اور دلائل پھسپھسے ہیں، مثلاً
A: میاں نواز شریف: جدہ کی فیکٹری بیچ کر 64 ملین ریال یعنی 17 ملین ڈالر سے لندن کے لگژری فلیٹ خریدے گئے۔ جدہ کی فیکٹری کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟
مریم نواز (صاحبزادی)۔ میرا کوئی پیسہ نہیں لگا۔ کلثوم نواز (بیگم)۔ بچوں کی تعلیم کے لیے پیسے لندن بھیجے جاتے تھے۔ حسن نواز (چھوٹے صاحبزادے)۔ فلیٹ کرایے پر لیے گئے تھے جن کا کرایہ ہر تین ماہ بعد پاکستان سے جاتا تھا۔ حسین نواز (بڑے صاحبزادے)۔ الحمد اللہ یہ فلیٹ میرے ہیں جس میں مریم نواز بھی شامل ہے، تہمینہ درانی (بیگم شہباز شریف) میاں شریف دیندار آدمی تھے۔ یہ ناانصافی کیسے کر سکتے تھے کہ مریم نواز، شہباز شریف، حسن نواز، حمزہ شہباز کے ہوتے ہوئے لندن کے فلیٹ صرف حسین نوازکو دے دیتے۔
B: قطری شہزادے کا خط: حسین نواز (جب وہ دو سال کے تھے) سنا تھا کہ ان کے دادا میاں شریف نے قطری شہزادے سے کاروبار میں پیسہ لگایا تھا جو ان کو بعد میں قطری شہزادے نے معہ منافع کے واپس کیا جس سے فلیٹ خریدے گئے۔ اس خط کی فی الوقت کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ قطری شہزادے کو کورٹ میں آکر تصدیق کرنا پڑے گی کہ یہ خط اسی کا ہے اور فریق مخالف کی جرح کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ خیال رہے عدالت چشم دید گواہی پر فیصلہ دیتی ہے سنی سنائی باتوں پر نہیں۔
C: پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کی پہلی پیشی بڑی بھاری پڑی۔ لیگل ٹیم کو عدالت کی برہمی کا نشانہ بننا پڑا۔ کیونکہ وہ اخباری بیانات پر اپنا وقت ضایع کر رہے تھے۔ عدالت نے حامد خان سے کہا کہ آپ سیاست کر رہے ہیں یا کیس لڑ رہے ہیں؟ خود عدالت نے نشاندہی کی کہ پی ٹی آئی کی دستاویزات میں ایک ایسا سرٹیفکیٹ بھی ہے جس پر 7 فروری 2006ء کے دستخط ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے مریم نواز نیسکول لینڈ (آف شور کمپنی) کے میجارٹی شیئرز کی مالک ہیں وغیرہ۔ حامد خان نے پی ٹی آئی کے کیس کی مزید پیروی سے معذرت کر لی۔
اس وقت پانامہ لیکس کا مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چل رہا ہے۔ فریقین خود بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ جو بھی فیصلہ آئے اس کو کھلے دل سے قبول کرلیا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کی مثال مردہ چوہے جیسی ہے۔ وہ نظر آئے یا نہ آئے بدبو سات گھر دور تک جاتی ہے۔ ہر فرد نہ صرف بڑے وثوق سے بلکہ حلفیہ کہہ سکتا ہے کہ اس گھر میں مرا ہوا چوہا ہے۔ اور تو اور راہ چلتے فرد کو روک کر دریافت کریں اس کا بھی یہی ردعمل ہوگا۔ لیکن آپ اس کرپٹ شخص کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے کیونکہ جب آپ عدالت جائیں گے تو عدالت ثبوت مانگے گی اور آپ بطور ثبوت کیا لے جائیں گے؟
پچھلے دنوں عمران خان (دھرنا پلس) اور میاں نواز شریف (پانامہ پلس) کے درمیان پھر ایک مرتبہ زور آزمائی ہوئی۔ اس کی معقول وجوہات ہیں۔ دوستی کا کیا سوال؟ نواز شریف کے ہوتے ہوئے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی خواہش، ایک سنہری خواب ہی رہے گا۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکا، ایک مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ نہیں ملی۔ دوسرا دو مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہ چکا۔ قانون میں ترمیم کروا کر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے۔ اس مرتبہ عمران خان اپنے دھرنا پراجیکٹ پر اتنے اعتماد سے آگے بڑھ رہے تھے کہ لگتا تھا کہ ان کو اپنی کامیابی کا یقین ہے کہ اپنے سب سے پرانے حلیف سے بھی انتہائی ڈپلومیٹک انداز میں فاصلہ پیدا کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ یکایک یوٹرن لینا پڑا؟ عمران خان کے دو اہداف تھے۔
(1)۔ رائے ونڈ میں جلسہ عام کر کے نواز شریف پر دباؤ ڈالنا کہ استعفیٰ دیں۔ (2)۔ اسلام آباد میں دھرنا دے کر (ن) لیگ کی حکومت کو مفلوج کردینا۔ سوال یہ ہے کہ سڑکوں پر آنے سے پہلے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر فیصلے کا انتظارکیوں نہیں کیا گیا کہ آیا پٹیشن قابل سماعت ہے یا نہیں۔
سیاست میں جمہوریت اور ڈپلومیسی (دل میں کچھ زباں پرکچھ) کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب کسی انسان کو اپنے جذبات اور زبان پر قابو ہو۔ جو عمران خان میں نہیں ہے۔ بے شک وہ سچ بولتے ہیں لیکن غلط وقت پر یا غلط جگہ پر۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حزب اختلاف کا ہر جلسہ پرامن ہوتا ہے کیونکہ اس میں شرکت کرنے والوں کو ہانک کر لایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر گڑبڑ ہوتی ہے تو اس میں حکمراں پارٹی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کا یہ حق بنتا ہے کہ حکومت کے خلاف دھرنا دے، جس میں اسلام آباد کے ڈی چوک کے دنگل میں ڈی جے بٹ کے بینڈ باجے پر منگل منایا جائے، احتجاجی جلوس نکالے جس میں اسلام آباد میں پھولوں کا ایک گملا یا کھڑکی کا ایک شیشہ بھی نہ ٹوٹے، یادگار جلسہ کرے جس میں انسانوں کا سمندر کرسیوں پر بیٹھا تالیاں بجا بجا کر ٹھاٹھیں مارے، اور تاریخی خطاب کرے۔ ''اوئے فلاں...!''
بھلا ایسے سریلے اور رنگین دھرنے کو کون مائی کا لعل روکنے کی سنگین غلطی کر سکتا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان جس طرح پچھلے دھرنے میں اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور کھلے بندوں امپائرکا ذکر کر بیٹھے نتیجتاً امپائر (اگر تھا تو) اتنا گھبرا گیا انگلی کھڑی کرنے کی بجائے انگوٹھا دکھا دیا۔ اس مرتبہ بھی عمران خان رائیونڈ کے کامیاب جلسے کے بعد اپنے جذبات اور زبان کو قابو میں نہ رکھ سکے زبان پھسل گئی اور ایک ایسا لفظ استعمال کیا جو اپنی ماہیت میں خودکش بمبار کی تاثیر رکھتا ہے۔اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔
بین الاقوامی سفارتکاری کا مرکز ہے۔ جہاں ملک کے دفاعی اور حساس اداروں کے ہیڈکوارٹرز ہیں۔ ایسے شہر کو Lock Down یعنی مفلوج کر دینے کی دھمکی دینا آ بیل مار کہنے کے مترادف ہے۔ Lock Down(مفلوج) کردینے کے تعلق سے جو منظر اسلام آباد میں نظر آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کے مکین اپنے اپنے گھروں میں محبوس ہیں۔ تمام تعلیمی، سرکاری و نیم سرکاری، نجی ادارے بند ہیں، ٹرانسپورٹ بند ہے۔
اسلام آباد پھولوں کا ایک گملہ یا کھڑکی کا ایک شیشہ بھی سلامت نہیں ہے۔ اس صورتحال کا وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے اسلام آباد کے مکینوں کو محبوس ہونے سے بچانے کے لیے عمران خان کے گھر کے اطراف رکاوٹیں کھڑی کر کے عمران خان کوگھر تک محدود کر دیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے تمام داخلی راستوں پر پولیس فورس کھڑی کر دی۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ اسلام آباد کو Lock Down (مفلوج) کرنے کے لیے آنے والے قافلوں کو آنسو گیس کے گولوں کی اسٹیج کے باہر رکھیں یوں اسلام آباد والوں نے سکون کا سانس لیا اور وزیر داخلہ کی واہ واہ ہوگئی۔
مذکورہ بالا ساری کتھا ایک طرف لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانامہ لیکس کی ولادت باسعادت سے لے کر سپریم کورٹ میں قابل سماعت قرار دیے جانے تک اس کو زندہ رکھنے کا سارا کریڈٹ پاکستان کی ایک رکنی حزب اختلاف عمران خان کو جاتا ہے۔ ورنہ تو پانامہ لیکس کی لاش کب کی تاریخ کی کچرہ کنڈی میں دفن ہوچکی ہوتی۔ باقی ساری پارٹیاں تو منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی تھیں کیونکہ ایک بھی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔حالات حاضرہ کے مطابق تین پیشیاں ہوچکی ہیں باضابطہ سماعت شروع ہونے سے پہلے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔ میاں نواز شریف کے کیس میں بیانات میں تضاد، واقعات بے ربط، منطق بودی اور دلائل پھسپھسے ہیں، مثلاً
A: میاں نواز شریف: جدہ کی فیکٹری بیچ کر 64 ملین ریال یعنی 17 ملین ڈالر سے لندن کے لگژری فلیٹ خریدے گئے۔ جدہ کی فیکٹری کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟
مریم نواز (صاحبزادی)۔ میرا کوئی پیسہ نہیں لگا۔ کلثوم نواز (بیگم)۔ بچوں کی تعلیم کے لیے پیسے لندن بھیجے جاتے تھے۔ حسن نواز (چھوٹے صاحبزادے)۔ فلیٹ کرایے پر لیے گئے تھے جن کا کرایہ ہر تین ماہ بعد پاکستان سے جاتا تھا۔ حسین نواز (بڑے صاحبزادے)۔ الحمد اللہ یہ فلیٹ میرے ہیں جس میں مریم نواز بھی شامل ہے، تہمینہ درانی (بیگم شہباز شریف) میاں شریف دیندار آدمی تھے۔ یہ ناانصافی کیسے کر سکتے تھے کہ مریم نواز، شہباز شریف، حسن نواز، حمزہ شہباز کے ہوتے ہوئے لندن کے فلیٹ صرف حسین نوازکو دے دیتے۔
B: قطری شہزادے کا خط: حسین نواز (جب وہ دو سال کے تھے) سنا تھا کہ ان کے دادا میاں شریف نے قطری شہزادے سے کاروبار میں پیسہ لگایا تھا جو ان کو بعد میں قطری شہزادے نے معہ منافع کے واپس کیا جس سے فلیٹ خریدے گئے۔ اس خط کی فی الوقت کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ قطری شہزادے کو کورٹ میں آکر تصدیق کرنا پڑے گی کہ یہ خط اسی کا ہے اور فریق مخالف کی جرح کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ خیال رہے عدالت چشم دید گواہی پر فیصلہ دیتی ہے سنی سنائی باتوں پر نہیں۔
C: پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کی پہلی پیشی بڑی بھاری پڑی۔ لیگل ٹیم کو عدالت کی برہمی کا نشانہ بننا پڑا۔ کیونکہ وہ اخباری بیانات پر اپنا وقت ضایع کر رہے تھے۔ عدالت نے حامد خان سے کہا کہ آپ سیاست کر رہے ہیں یا کیس لڑ رہے ہیں؟ خود عدالت نے نشاندہی کی کہ پی ٹی آئی کی دستاویزات میں ایک ایسا سرٹیفکیٹ بھی ہے جس پر 7 فروری 2006ء کے دستخط ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے مریم نواز نیسکول لینڈ (آف شور کمپنی) کے میجارٹی شیئرز کی مالک ہیں وغیرہ۔ حامد خان نے پی ٹی آئی کے کیس کی مزید پیروی سے معذرت کر لی۔
اس وقت پانامہ لیکس کا مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چل رہا ہے۔ فریقین خود بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ جو بھی فیصلہ آئے اس کو کھلے دل سے قبول کرلیا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کی مثال مردہ چوہے جیسی ہے۔ وہ نظر آئے یا نہ آئے بدبو سات گھر دور تک جاتی ہے۔ ہر فرد نہ صرف بڑے وثوق سے بلکہ حلفیہ کہہ سکتا ہے کہ اس گھر میں مرا ہوا چوہا ہے۔ اور تو اور راہ چلتے فرد کو روک کر دریافت کریں اس کا بھی یہی ردعمل ہوگا۔ لیکن آپ اس کرپٹ شخص کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے کیونکہ جب آپ عدالت جائیں گے تو عدالت ثبوت مانگے گی اور آپ بطور ثبوت کیا لے جائیں گے؟