کنٹرول لائن کھولنے کا مطالبہ

بھارت اور پاکستان کی فوجیں جہاں تھیں وہاں رک گئیں اور ایک سیزفائر لائن بن گئی۔


Dr Tauseef Ahmed Khan December 21, 2012
[email protected]

کشمیر کی لائن آف کنٹرول مکمل طور پر کھول دیں، حریت پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد پہنچنے کے بعد کہا کہ کنڑول لائن کو محدود طور پر کھولنا کافی نہیں ہے اور محدود پیمانے پر سامان کی نقل و حرکت کی اجازت بھی ناکافی ہے۔ لائن آف کنٹرول کشمیر کو دو حصوںمیں تقسیم کرتی ہے۔

بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں سری نگر، جموں، لداخ اور پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں مظفرآباد، میر پور باغ وغیرہ علاقے شامل ہیں۔ جب 1948 میں نامعلوم قوتوں کی ایما پر قبائلی لشکر کشمیر میں داخل ہوئے اور لوٹ مار اور عورتوں کی بے حرمتی کی تو مہاراجہ کشمیر کی دعوت پر بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوگئی پھر پاکستانی فوجی دستوں نے سری نگر کی طر ف پیش قدمی کی۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل میں لے گئے۔ سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی اپیل کی، کشمیر میں استصواب رائے کرانے اور تمام غیر ملکی فوجوں کی واپسی کی قرارداد منظور ہوئی۔ بھارت اور پاکستان کی فوجیں جہاں تھیں وہاں رک گئیں اور ایک سیزفائر لائن بن گئی۔ یہ سیز فائر لائن 550 کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی بھارت اور پاکستان دونوں نے خلاف ورزی کی اور بھارت نے کشمیر میں استصواب رائے کے مطالبے کو فراموش کردیا۔ پاکستان نے کشمیر کی آزادی کو اپنی بنیادی پالیسی قرار دیا اور دفاع پر تمام وسائل خرچ ہونے لگے۔ جب 60 کی دہائی میں چین اور بھارت میں تبت کے مسئلے پر لڑائی ہوئی اور یہ خدشہ پیدا ہوا کہ پاکستان چین کی حمایت میں جنگ میں شریک ہوجائے گا تو امریکا کی مداخلت پر بھارت اور پاکستان میں کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات ہوئے مگر چین اور بھارت میں جنگ بندی کے ساتھ بھارت نے یہ مذاکرات ختم کردیے۔

جنرل ایوب خان کے نوجوان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے 60 کی دہائی میں چین اور افروایشیائی ممالک سے دوستی پر خصوصی طور پر زور دیا۔ ان کے چین کے وزیر اعظم چواین لائی، انڈونیشیا کے صدر سوکارنو سے ذاتی تعلقات قائم ہوئے۔ بھٹو نے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر پیش کیا اور کشمیر کی آزادی کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک فضا ہموار کی۔ 1965 کے وسط میں پاکستانی فوج نے آپریشن جبرالٹر شروع کیا، آزاد کشمیر سے کمانڈوز سیزفائر لائن عبور کرکے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں داخل ہوئے ان میں سے کچھ پکڑے گئے اور انھوں نے بھارتی فوج کو آپریشن جبرالٹر سے آگاہ کیا۔ بھارتی فوج نے آپریشن شروع کیا، دوسری جانب پاکستانی فوج نے مزید کارروائی شروع کی۔ جب پاکستانی فوج دریائے بیاس عبور کرکے سری نگر کے قریب پہنچ گئی تو بھارتی فوج 6 ستمبر 1965 کی رات کو بین الاقوامی سرحد عبور کرکے واہگہ میں داخل ہوئی، بعد ازاں 17 دن کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی مداخلت پر دونوں ممالک جنگ روکنے پر تیار ہوئے۔

سوویت یونین کے وزیر اعظم کوسیجن نے جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو تاشقند میں مذاکرات کے لیے مدعو کیا تو معاہدہ تاشقند ہوا۔ دونوں ممالک نے اپنی فوجیں بین الاقوامی سرحدوں تک واپس بلا کر جنگی قیدیوں کو رہا کردیا یوں آپریشن جبرالٹر ختم کردیا گیا۔ 1971 کی جنگ کے بعد وزیر اعظم بھٹو شملہ گئے اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت نے پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں کی رہائی اور ہزاروں میل علاقے کو واپس کردیا۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو معاہدہ شملہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے بھارتی وزیر اعظم کو یقین دہانی کرائی کہ کشمیر کے مسئلے کو سردخانے میں ڈال دیا جائے گا اور 3 جولائی 1972 کو شملہ میں ہونے والے معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان کے درمیان ملٹری کنٹرول لائن قائم ہوئی۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملٹری کنٹرول لائن بین الاقوامی سرحد کی حیثیت نہیں رکھتی، پھر فوج نے سیاچن اور کارگل میں بھارت کے خلاف محاذ کھولے مگر ناکامی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔

ممتاز صحافی حمید اختر مرحوم کا کہنا تھا کہ شیخ عبداﷲ 50 کی دہائی میں پاکستان آئے تھے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کی کوشش کی تھی مگر دارالحکومت کراچی سے کوئی حکومتی عہدیدار ملاقات کے لیے نہیں آیا۔ 60 کی دہائی میں نئی تجاویز کے ساتھ پھر لاہور آئے تھے مگر بھارتی پنڈت نہرو کے اچانک انتقال کی بنا پر ان کا مشن ناکام رہا، انھیں فوری طور پر بھارت جانا پڑا۔ بھارت نے 60 کی دہائی میں بھارتی یونین کے آئین کی شق 360 شامل کی جس کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہوئی۔ وادی کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بنا پر شہریوں کو خصوصی مراعات حاصل ہوئیں۔ شیخ عبداﷲ نے 70 کی دہائی میں مسز اندرا گاندھی سے معاہدہ کیا اور کشمیر کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ بھارتی جنتاپارٹی کی حکومت نے 90 کی دہائی میں آئین میں دی گئی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا پھر ریاست کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی، وادی میں کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج نے کارروائی کی، اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان جنگ کے خاتمے کے بعد مجاہدین کی تنظیموں نے کمانڈوز مقبوضہ کشمیر میں بھجوانے شروع کیے۔

ان کمانڈوز نے جہاد کے لیے بھارتی فوجیوں کے علاوہ دانشوروں، ادیبوں، اساتذہ اور منتخب نمایندوں کو قتل کیا۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں انسانی حقو ق کی پامالی کے تمام ریکارڈ توڑدیے، ہزاروں لوگ قتل ہوئے، بہت سے لوگ لاپتہ ہوئے۔ بی بی سی کے سینئر صحافی وسعت اﷲ خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے سری نگر میں قاتلوں اور مقتولین کی قبریں ایک ہی قبرستان میں دیکھی ہیں۔ اس زمانے میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ کشمیری رہنما یاسین ملک سمیت ہزاروں نوجوانوں نے کنٹرول لائن کی دوسری طرف قائم کیمپوں میں جنگی تربیت حاصل کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رویے میں تبدیلی آئی وہ بھارت کی عملداری قبول کرنے اور بندوق کا راستہ ترک کرنے پر آمادہ ہوئے۔ جماعت اسلامی کے رہنما علی گیلانی کا حریت کانفرنس سے اختلاف ہوا، وہ بھارتی حکومت سے مذاکرات پر تیار نہیں ہوئے۔

اب یاسین ملک جیسے نوجوانوں نے بھارتی یونین کے آئین میں مسائل کا حل تلاش کرنا شروع کیا۔ جنرل مشرف نے عالمی صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے بھارت سے دوستی کی۔ انھوں نے پہلی دفعہ پاکستان کے پرانے موقف سے انحراف کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے لیے چھ حل پیش کیے۔ بھارتی حکومت کو پہلی دفعہ جنرل مشرف کی تجاویز پر دفاعی موقف اختیار کرنا پڑا۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے مسئلے کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے مگر 2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے بعد سب کچھ سبوتاژ ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کرنے کی تجویز پیش کی مگر ممبئی دہشت گردی کے واقعے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات سرد رویے کی نفسیاتی حدوں کو عبور کرگئے ۔

بھارت نے 1990 میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ رکاوٹیں تعمیر کرنا شروع کیں اور 2004 میں رکاوٹیں تعمیر کرنے کا منصوبہ مکمل ہوا۔ کشمیر کا شمار دنیا کے بہترین سیاحتی زون میں ہوتا ہے۔ اس علاقے میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف مسلمانوں کے خاندان آباد ہیں۔ بھارتی فوج کی سرگرمیوں اور کشمیر حریت پسندوں کی کارروائیوں کی بنا پر یہ خطہ گولہ بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا، سیاحوں کی آمد ختم ہوگئی۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد جنرل مشرف حکومت کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ کشمیری حریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی، سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان بس سروس اور ٹرک سروس شروع ہوئی، بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے سرحدی علاقوں کے ڈپٹی کمشنروں کو مقامی باشندوں کو پرمٹ پر سرحد پار کرنے کی اجازت دی۔ محدوداجازت کے باوجود 60 سال سے بچھڑے ہوئے کچھ خاندان مل گئے، کئی بوڑھے افراد کو اپنے آبائی گھروں کو دیکھنے کا موقع ملا مگر دونوں ممالک کے سرد گرم تعلقات کی بنا پر یہ سہولتیں بہتر نہیں ہوئیں۔ آج بھی بہت سے خاندانوں کے افراد دریائے نیلم کے دونوں کناروں پر پانی کے شور کے باوجود بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سال کے وسط میں وادی نیلم کے شہریوں نے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں شروع کرنے پر سخت احتجاج کیا تھا، ان شہریوں کا یہ استدلال تھا کہ کالعدم تنظیموں کے کارکن لائن آف کنٹرول عبور کرتے ہیں تو بھارتی فوج گولہ باری شروع کردیتی ہے جس کی بنا پر انسانوں اور جانوروں کی ہلاکت کے ساتھ زرعی اور معاشی سرگرمیاں ختم ہوجاتی ہیں، اس لیے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی ہونی چاہیے۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا جنگی حل موجود نہیں ہے اور نہ کوئی اور آئیڈیل حل ممکن ہے مگر دونوں طرف کے کشمیریوں کی آمدورفت میں رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔ کشمیر کو نو وار زون قرار دے کر سیاحتی مراکز کو ترقی دینی چاہیے، اس طرح اس خطے میں خوشحالی آئے گی اور دونوں طرف کے کشمیریوں کے رابطے مضبوط ہوں گے تو کشمیری اپنے مسئلے کا حل خود تلاش کریں گے۔ اس ضمن میں میر واعظ عمر فاروق کی اس تجویز پر سنجیدگی سے بحث ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔