این جی اوز اور ملکی حقائق

یو ایس ایڈ بے شمار منصوبوں پر کام کررہی ہے لیکن برسرزمین اس کی کوئی ٹھوس شہادت نظر نہیں آتی۔


Adnan Ashraf Advocate December 21, 2012
[email protected]

موجودہ گلو بلائزیشن دور میں این جی اوز کا کردار بڑی اہمیت کا ہوچکا ہے۔ جہاں یہ تنظیمیں دنیا کے مختلف حصوں میں فلاح و بہبود اور انسانی خدمات انجام دیتی ہیں، وہیں ان تنظیموں کے پس پردہ دیگر محرکات بھی ہوتے ہیں۔ ان تنظیموں کے ذریعے بہت سے سیاسی، سماجی اور مذہبی مقاصد بھی باآسانی اور غیر محسوس طریقے سے حاصل کرلیے جاتے ہیں، خاص طور پر ہمارے ملک میں این جی اوز پر حکومت کا کوئی کنٹرول نظر آتا ہے نہ ہی چیک اینڈ بیلنس۔ ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں پر باقاعدہ نظر رکھنے اور ان کو ملنے والی ملکی و غیر ملکی رقوم کا آڈٹ کرنے کا کوئی نظام وضع ہے نہ ہی حکومت کو ا س سے کوئی دلچسپی ہے، حالانکہ حکومت کو ملکی مفاد میں این جی اوز کا آڈٹ کرکے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ جن این جی اوز کو غیر ملکی امدادی اداروں یا حکومتوں سے امداد ی رقوم مل رہی ہیں اس کے پس پردہ کیا محرکات ہیں۔

یہ رقم کن مقاصد کے لیے دی جارہی یا ظاہر کی جارہی ہے اور کہاں استعمال ہو رہی ہے۔ یہ این جی اوز اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں ہر طرح آزاد ہیں۔ غیر ملکی ادارے پاکستان میں این جی اوز کو سالانہ اربو ں ڈالرز کی امداد فراہم کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ایک طرف تو اس رقم کے درست استعمال کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، دوسرے یہ امداد فراہم کر نے والے ادارے پاکستانی این جی اوز سے اپنے مطلوبہ مقاصد کے لیے کام لیتے ہیں۔ این جی اوز کی خاص تعداد ریسرچ بیس پروجیکٹس پر بھی کام کرتی ہے جن کے نتائج امداد دینے والے اداروں کوفراہم کرتی ہیں، اگر کوئی بھی ادارہ، ملک یا حکومت، پاکستان سے متعلق کوئی ڈیٹا یا کوئی اور معلومات یا اعداد و شمار حاصل کرناچاہتا ہے تو اس کا سب سے موثر ذریعہ یہ این جی اوز ہوسکتی ہیں، جن کو وہ امداد دے کر بہت سے ہدف باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔

ملک میں ایسی این جی اوز بھی کام کررہی ہیں جو کسی غیر ملکی این جی اوز کا پاکستان چیئر قائم کرلیتی ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی و پامالی میں حکومت کے علاوہ این جی اوز بھی برابر کی ذمے دار ہوتی ہیں۔ ملک میں بعض این جی اوز کے کردار سے یہ بات قطعی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہیں۔ ایسے نان ایشوز کو بڑے ایشوز کے طور پر ظاہر کرکے ساری دنیا میں واویلا مچادیتی ہیں جن سے پاکستانی معاشرہ اور مذہب بدنام ہو یا پھر کسی خاص سیاسی یا قانونی معاملے پر پروپیگنڈا کے ذریعے غلط تاثر دے کر اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرکے دباؤ کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔

اس کی حالیہ مثالیں لال مسجد آپریشن، مختاراں مائی کیس، برقعہ بردار خواتین پر تشدد کی جعلی فلم، شمالی علاقہ جات میں خواتین کے اغوا اور قتل کا جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ، تیزاب پھینکنے کے واقعات پر ڈاکومینٹری فلم اور اس پر آسکر ایوارڈ، اور ملالہ یوسف زئی جیسے لاتعداد واقعات ہیں۔ لال مسجد آپریشن کی بنیاد اسلام آباد میں قائم مساج سینٹر اور فحاشی کا اڈا بنا جو علاقہ مکینوں کی متعدد شکایات کے باوجود قائم و دائم تھا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومتی رٹ کے لیے کھلا چیلنج بنا ہوا تھا، جب مدرسے کی طالبات نے اس اڈے کے خلاف اقدام اٹھایا تو اس کو حکومت سمیت تمام این جی اوز نے حکومتی رٹ چیلنج کرنے سے تعبیر کیا پھر اس پر پروپیگنڈا کرکے آپریشن کا جواز پیدا کیا گیا اور سیکڑوں کمسن بچیوں اور خواتین کو بارود کی نذر کردیا گیا۔

اس آپریشن پر آنٹی شمیم کے انسانی حقوق اور مساج سینٹر کا دفاع کرنے والی کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو ان سیکڑوں کمسن بچیوں اور خواتین کے حقوق نظر نہ آئے۔ اسی طرح این جی اوز نے مختاراں مائی کا کیس ضرورت سے زیادہ مشتہر کیا، دنیا بھر میں اس پر پروپیگنڈا کیا گیا، سربراہان حکومت سے اس کی ملاقاتیں کرائی گئیں، یونیورسٹی سے لے کے یو این او تک اس کے خطابات کرائے گئے، لیکچر اور پریس کانفرنس کرائی گئیں ۔ انسانی حقوق کی جدوجہد کے ایوارڈ اور ایشین ہیروئن کے خطاب سے نوازا گیا۔ مختاراں مائی کے ساتھ جو انسانیت سوز اور بہیمانہ ظلم کیا گیا تھا وہ انتہائی قابل مذمت اور قابل داد رسی تھا لیکن عین انہی دنوں میں فیصل آباد میں سونیا ناز اور سوئی میں پی پی ایل کی ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ رونما ہونے والے روح فرسا وحشیانہ واقعات بھی سامنے آئے تھے جس کے خلاف ان دونوں خواتین نے تن تنہا بہت کوشیش کیں کہ انھیں انصاف میسر آئے مگر عین اس دن جب مختاراں یواین او میں خطاب کررہی تھی اس دن ڈاکٹر شازیہ لندن میں پریس کانفرنس میں یہ دہائی دے رہی تھی کہ '' مجھے انصاف نہیں ملا بلکہ ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔''

ڈاکٹر شازیہ کے پیچھے یہ این جی اوز کیوں نہیں آئیں، محض اس لیے کہ اس کے منہ میں اپنے الفاظ نہیں ڈالے جاسکتے تھے؟ اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اس سے پاکستانی معاشرہ اور مذہب بدنام نہیں کیا جاسکتا تھا؟ یا پھر یہ کہ اس وقت کے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے واقعے کے نامزد ملزمان کو کسی عدالتی کارروائی سے قبل ہی بے گناہ قرار دے دیا تھا؟ برقعہ پوش خواتین پر تشدد کی فلم بعد میں جعلی ثابت ہوئی، شمالی علاقہ جات میں خواتین کے رقص پر ان کے قتل کی کہانی اور پروپیگنڈا بھی جھوٹا ثابت ہوا۔

جب سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کی تنظیم کے عہدیداروں کو فوری طور پر تحقیقات کے لیے روانہ کیا اور ان عہدیداروں نے ان خواتین سے ملاقات کرکے اس واقعے کی تردید کردی۔ Save the face کو آسکر ایوارڈ سے نواز کر پاکستانی معاشرت کو خوب بدنام کیا گیا لیکن اس واقعے کی مضروب اور فلم کی مرکزی کردار خاتون کو فلم کا معاوضہ نہ ملنے پر اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینے پر کوئی تنظیم اس کی داد رسی کے لیے نہیں آئی، نہ ہی نہتی چیچن خواتین کے قتل اور خواتین کو زندہ درگور کرنے کے واقعات پر ان کا ضمیر جاگا۔ اس قسم کے لاتعداد واقعات ان این جی اوز کے عزائم اور دہرے معیار کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مخصوص طاقتوں کے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان طاقتوں کے ایجنٹ کچھ صحافیوں کے روپ میں موجود ہیں جو میڈیا کے موثر اور خطرناک ہتھیار کو بھی استعمال کرتے ہیں، بڑی طاقتیں اس ذریعے کو ملکوں کو فتح کرنے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔

اس وقت صرف سندھ میں سات ہزار کے قریب این جی اوز کام کررہی ہیں جن کا آڈٹ کرنے اور سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور انھیں ملنے والی ملکی و غیر ملکی امداد کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ گزشتہ روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اکنامک افیئر ڈویژن، وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن سے این جی اوز کے طریقہ کار کے بارے میں خصوصی بریفنگ مانگی ہے جو غیر ملکی امداد خصوصاً کیری لوگر بل کے اربوں ڈالرز سے چلنے والے ترقیاتی منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔ کمیٹی نے یو ایس ایڈ کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جو اپنے طور پر تمام امور انجام دے رہی ہے۔ کمیٹی کے ایک رکن نے نشاندہی کی ہے کہ کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ یو ایس ایڈ بے شمار منصوبوں پر کام کررہی ہے لیکن برسرزمین اس کی کوئی ٹھوس شہادت نظر نہیں آتی، نہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کے کیا نتائج یا فوائد ہیں۔

اربوں ڈالرز کی خطیر امدادی رقوم کے حصول کے باوجود تعلیم، صحت اور فلاح و بہبود کے دیگر شعبوں میں این جی اوز کی جانب سے کوئی خاطر خواہ نتائج نظر نہیں آتے، البتہ ان کی توجہ کے خاص مرکز ایسے موضوعات ہیں جنھیں چھیڑ کر مغربی استعمار کے ایجنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ لہٰذا حکومت کو ایسی این جی اوز کو جو آڈٹ کرانے اور اپنی سرگرمیاں ظاہرکرنے سے گریزاں ہوں، پابندی عائد کردینی چاہیے۔ملکی سالمیت اور قومی مفادات کی خیر خواہ این جی اوز کی قدر افزائی ہونی چاہیے۔ اس سے حکومت کی بہت سی مشکلات خودبخود ختم ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔