ہمارے بزرگ اور ہمارا کل

یہ بات برحق اور مسلّم ہے کہ پاکستان میں ہنرمندوں، جفاکشوں، محنت کشوں کی کوئی کمی نہیں ہے

ڈاکٹر ناصر مستحسن

اگر پڑھے لکھے اور مہذب معاشرے سے مراد وہاں تعلیمی معیار کاشرح خواندگی کا اونچا ہونا ہی مراد ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ بات جانتے و مانتے ہیں کہ پڑھے لکھے آدمی یا شخص سے مراد یہ ہے کہ وہ لکھنا اور پڑھنا دونوں اچھی طرح جانتا ہو اور اچھے یا برے میں امتیاز کرسکتا ہو۔ لیکن جہاں معاملات سوجھ بوجھ، ہنرمندی، ہوش مندی اور قومی غیرت پر سلجھ رہے ہیں تو وہاں ضروری نہیں کوئی بہت پڑھا لکھا شخص ہی عمل پیرا ہو اور اس کام پر متفقہ الیہ عمل بھی کروا رہا ہو، وہاں تعلیم سے محروم کوئی شخص کمال ہنرمندی سے مسائل حل کر رہا ہو، یہ بھی تو ممکن ہے۔ لیکن تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ حقیقت ہے جس سے کوئی بھی پڑھا لکھا شخص انکار نہیں کرسکتا۔

یہ بات برحق اور مسلّم ہے کہ پاکستان میں ہنرمندوں، جفاکشوں، محنت کشوں کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا معیار پست اور پست ترین ہورہا ہے، معاشرہ فرد سے بنتا ہے، اگر افراد میں مجموعی تعداد غیر تعلیم یافتہ ہے تو معاشرہ علمی کیسے کہلائے گا؟ تعلیمی معیار جن جن ملکوں اور قوموں کا 90% یا 100% ہے تو وہاں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط و توانا ہیں، وہاں سربراہان مملکت بھی آئین و قانون سے بالا نہیں ہیں اور جن ملکوں میں جہالت یا تعلیمی معیار پست ہے تو وہاں غریب کے لیے قانون کچھ اور امیر کے لیے کچھ۔ ''رشوت دیتے ہوئے پکڑا گیا، رشوت دے کر چھوٹ جا'' یہ کہاوت ہمارے معاشرے کے لیے ہی وجود میں آئی ہے۔

پرانے وقتوں میں لوگ ذرایع معاش کے لیے بہت چھوٹی عمروں میں نکل پڑتے تھے، بغیر اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے، ہونا تو اس کے برعکس چاہیے تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھتے، جنہوں نے اپنی سوجھ بوجھ، عقلمندی و ہوشمندی سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرا اور تعلیم سے ہاتھ چھڑا لیے، آپ ان کو عقلمند، ہوشمند تو کہہ سکتے ہیں، لیکن جہاں مسئلہ ان کی تعلیمی قابلیت کا آئے گا تو وہ شخص محض آئیں بائیں شائیں ہی کرے گا۔ کیا آپ اور میں اس کو پڑھا لکھا شخص کہہ سکتے ہیں؟ بیشک آپ اس شخص کو نیک اور ہنرمند (Loyal Skilled Person) تو کہہ سکتے ہیں لیکن کیا اس کا شمار تعلیم کے عالمی معیار کے ساتھ بغیر جانبدار ہوئے اس کو پڑھا لکھاکہہ یا کہلواسکتے ہیں؟

اب یہاں میڈیا کا رول پچھلے دس سال میں اچھا یا برا اس بات سے قطع نظر یہ رہا ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز، کوئز پروگرامز کے ذریعے معلومات عامہ کو بڑھاوا ملا ہے۔ 24 گھنٹے ٹی وی کے آگے بیٹھ کر ٹی وی ٹاک شوز سن سن کر ہنرمند، تعلیم یافتہ ہونے لگے، ہر چوک، ہر محلّے، ہر چوراہوں، بسوں میں، دفتروں میں، ایسے حضرات کی کمی نہیں جو تعلیم کے میدان میں صفر ہیں لیکن ناقص فلسفے میں ارسطو ہیں۔ کوئی نہ کوئی گروپ جو دن میں محنت مزدوری کرتا ہے یا ہنرمندی کے ذریعے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے وہ شام کے وقت معاشرے کا بہت ہی معتبر اور پڑھا لکھا شخص مانا جاتا ہے، کوئی اس کی بات سے انکار کردے تو اگلے سے زیادہ جاہل کوئی نہیں ہوتا۔ خدارا! اس روش کو عام نہ ہونے دیں، جنہوں نے حصول علم کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا، علم حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دیں، بھوکا رہ کر، کم کھاکر، اذیتیں سہہ کر، دن میں کام کرکے، شام کو اسٹریٹ لائٹس کے نیچے بیٹھ کر پڑھا ہو اور اپنی تعلیم کا معیار اونچا ہی رکھا ہو، ان میں اور ایک ہنرمند میں واضح فرق ہونا چاہیے۔ میرا مقصد کسی کو بھی نیچا دکھانا ہرگز نہیں ہے، میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ بس اس صدی میں اپنے بچوں کے لیے وہ کر جائیں جو ہم میں سے اکثر ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے کیا تھا۔ اپنی اولاد کو اچھی و معیاری تعلیم دلوائیں اور ان کو معاشرے کا ایک فعال رکن بنائیں، چند نام نہاد اسکولز کی تعلیم کہیں زیادہ پست ہوسکتی ہے، ایک اچھے سرکاری اسکول سے اور ایک سرکاری اسکول کی تعلیم کہیں زیادہ اچھی ہوسکتی ہے ایک نام نہاد انگلش میڈیم اسکول سے، جن کی فیسوں کے بارے میں سن کر عقل دنگ اور زبان گنگ ہوجاتی ہے، ہوش اڑ جاتے ہیں۔


جعلی تعلیم دستاویزات یا جعلی ڈگریوں کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ ان کو حاصل کرنے والا شخص پڑھا لکھا اور مہذب ہو؟ کوئی بھی غیر تعلیم یافتہ شخص ان کو حاصل کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ شخص جو کتابوں میں ہوتا ہے، وہ اپنے ذہنوں میں، رویوں میں لاسکتا ہے؟ وہ جعلی ڈگری کے بل پر کہیں بھی کچھ بھی کرسکتا ہے، لیکن ذرایع ابلاغ کے بیشتر ذریعوں کو سلام، جس نے پاکستان کی 70% فیصد غیر پڑھی لکھی عوام کو ان لوگوں کا چہرہ تو دکھایا، جو جونک بن کر اس قوم کا، اس ملک کا اور اس ملک کے لوگوں کا لہو پی رہے ہیں۔

چلیں آج سے ہی ایک عہد کرتے ہیں کہ اپنا اپنا ووٹ صرف اور صرف پڑھے لکھے لوگوں کو دیں گے، ایسے لوگوں کو دیں گے جن کی ماضی میں کارکردگی اچھی رہی ہو، جو کندن سے سونا بننے تک کے عمل میں عوام کے ساتھ رہے ہوں۔ دیے سے دیا جلائیں، پھر دیکھیے پاکستان کی پارلیمان میں 100% فیصد وہی لوگ ہوں گے جو تعلیمی معیار کے مطابق پڑھے لکھے اور مہذب کہلائے جاتے ہیں۔

بہت ہی افسوس اور ٹھنڈی آہ بھر کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ جن اسکولوں میں سے آپ کے، ہمارے، باپ دادا پڑھ کر نکلے وہ سرکاری اسکولز ہی تھے، بہت ہی نامناسب معیار زندگی کے ساتھ کچھ کرنے کی ٹھان لینے والے ایسے لوگ آج پاکستان کی بیورو کریسی، ٹیکنو کریسی میں، عدلیہ میں، طب کے شعبوں میں، تعلیم کے شعبوں میں، انجینئرنگ کے شعبوں میں، صحافت کے شعبوں میں اپنا اپنا لوہا منواچکے ہیں اور اعلیٰ حکومتی اعزازات سے نوازے بھی گئے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایسے اسکول، گھوسٹ اسکولز ہوگئے جن کے نام پر اربوں روپے لیے اور دیے جاتے ہیں۔

صرف اور صرف حکومت کو ہر بات پر موردالزام ٹھہرانا یہ بھی تو ایک بچکانہ سوچ کا شاخسانہ ہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ اپنی سی سعی کرکے خود کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کریں، خود کو باشعور بنائیں، بالغ النظری کا عملی ثبوت پیش کریں، اس کے لیے آپ کو جدوجہد کرنا پڑے گی۔ بڑی قومیں برے وقتوں کو اپنے لیے ایک Acid Test بناکر اپنی کی ہوئی غلطیاں سدھارتی ہیں اور مسائل پر قابو پاکر وسائل کا صحیح سمت میں استعمال ہی ان کو زندہ و جاوید رکھتا ہے، آپ کے جو بھی وسائل ہیں کم ازکم ان کو تو بروئے کار لائیں، مانا کہ مسائل ہی مسائل ہیں، لیکن اگر تاریخ میں خود کو بڑی قوم ثابت کرنا ہے تو مسائل سے نکل کر خود کو کندن سے سونا بناکر ہی ممکن ہے، ورنہ تاریخ آپ کو قصۂ پارینہ بنانے میں دیر نہیں کرے گی اور ایسا ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ روس کی حاکمیت اور پھر اس کے بخیے ادھڑتے ہوئے سب ہی نے دیکھے ہیں، وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنے تھنک ٹینک سے صحیح طور پر کام نہیں لیا تھا۔ لہٰذا وہ سپر پاور سے زیرو ہوگئے۔
Load Next Story