شکریہ راحیل شریف
اس وقت پاکستان کے اندر اور باہر خطے کے جو حالات ہیں، ان میں بہت سے امکانات جنم لے رہے ہیں
اس وقت پاکستان کے اندر اور باہر خطے کے جو حالات ہیں، ان میں بہت سے امکانات جنم لے رہے ہیں، پاکستان داخلی سطح پر دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر صورتحال مسلسل کشیدہ ہے، پاکستان کی مسلح افواج کو یہاں بھی انگیج رکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اپنے نئے ڈاکٹرائن کے ساتھ ان سیکیورٹی ایشوز سے نبرد آزما ہو رہی ہیں۔ایسی صورتحال میں شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے، دہشتگردی اورکرپشن پر کاری ضربیں لگانے والے سپہ سالار جنرل راحیل شریف انتہائی باوقار انداز سے رخصت ہوگئے ہیں اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔
پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کا ناقابل فراموش اور روشن ترین عہد بالآخر تمام ہوا، پاک فوج کے سربراہ نے مقررہ وقت پر ریٹائرمنٹ لے کر ایک اچھی مثال قائم کی ہے، گزشتہ بیس برسوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی آرمی چیف نے ایکسٹینشن نہیں لی۔ جنرل راحیل شریف کا تعلق اس خانوادے سے ہیں جس کے بیٹوں نے مادر وطن کے لیے جب ضرورت پڑی اپنا لہو دیا۔ بے شک اس گھرانے کے اور ان جیسے لاتعداد کئی خاندانوں کے پاکستان پر بڑے احسانات ہیں، پاک سرزمین یوں ہی جمی نہیں کھڑی، اسے شہیدوں کے لہو نے جما رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑا سانحہ اوربڑی سے بڑی سازش بھی وطن عزیز کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
جنرل راحیل شریف کو پاکستانی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی، اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے جب افواج پاکستان کے سپہ سالار کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت پاک فوج کی کمان پھولوں کی سیج نہیں تھی۔ یہ سال 2013ء کے وحشت ناک ایام تھے جب پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھا، کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں آگ وخون کا کھیل جاری تھا۔ دہشتگردی کے حملے روزکا معمول تھے، روز ہم لاشیں اٹھاتے تھے، خون اور آگ کی ہولی ہر روزکسی نہ کسی شہر میں کھیلی جاتی تھی، ہمارے پاس ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ہر جانب سے پاک فوج سے یہی مطالبہ کیا جارہا تھا کہ دہشتگردی کے عفریت کو ختم کیا جائے، تاریخ گواہ ہے کہ آرمی چیف نے جس طرح پاکستان کی خدمت کی وہ بے مثال ہے، دہشتگردی کے جن کو انھوں نے کچل دیا ہے اور رہے سہے عناصر کا بھی خاتمہ کیا جارہا ہے۔
ان سے پہلے کم از کم 2 آرمی چیفس نے اس لعنت کو ختم کرنے کی جرات نہیں کی، حکومت وقت جنرل راحیل شریف کی بدولت ببانگ دہل یہ کہنے کے قابل ہوسکی ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے،کچھ عرصہ پہلے تک یہی صاحبان اقتدار خوف طالبان میں لرزہ براندام تھے اورساٹھ ہزار پاکستانیوں کے قتل کے مقدمے میں صرف مذاکرات کو ہی قابل عمل حل سمجھتے تھے۔ شہر قائد طویل عرصے سے آتش فشاں کی طرح دہک رہا تھا،اس شہر پر مجرموں نے قبضہ کررکھا تھا،انھیں بھی نکیل ڈال دی گئی، اسی سپہ سالار اعظم کی پیش قدمی کے سبب کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن گیا، ٹارگٹ کلر خود ٹارگٹ بن گئے، دہشتگردوں کے سہولت کاروں سے ہر سہولت چھن گئی۔
جنرل راحیل شریف ایک تاریخ ساز جرنیل ہیں، انھوں نے اپنے دور میں جو بہادری کے جوہر دکھائے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے ٹھنڈی مشینوں والے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کی بجائے اگلے مورچوں پہ جاکر جوانوں کا حوصلہ بڑھایا، اپنی عیدیں جوانوں کی نذرکردیں۔ جنرل راحیل شریف کی جگہ کوئی اورکمانڈر ہوتا تو اس وقت ملک کی حکمرانی کا منظر نامہ کچھ اور ہوتا، انھوں نے ماضی کے جرنیلوں کی طرح چور دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرکے ملک کی لٹیا ڈبونے کے برعکس پاکستان کو محفوظ بنایا۔ بے شک عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد میں طویل دھرنے حکومتی بساط لپیٹنے کے لیے بہت تھے، ماڈل ٹاؤن سے اٹھائی جانیوالی چودہ لاشیں آسانی سے چودہ سولیوں کو سجاسکتی تھیں، بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارت پر آنکھیں بند کرکے کسی کو بھی غدار ثابت کیا جاسکتا تھا مگر اس کے برعکس سپہ سالار نے اپنی حکومت کو روشنی اور خوشبو کے تحائف دیے۔
اب وہ اپنی مدت مکمل کرکے اس شان کے ساتھ رخصت ہورہے ہیں کہ پورے ملک کا منظر نامہ تبدیل ہوچکا ہے۔ جس وقت جنرل راحیل شریف نے یہ عہدہ سنبھالا تھا اس وقت کے اور آج کے پاکستان میں بہت فرق ہے، ان تین سالوں میں فوج بحیثیت ایک ادارہ اور مضبوط ہوئی ہے، اس معزز ادارے کی فعالیت بہتر ہوئی، جوانوں کا مورال بلند ہوا، سرحدوں کا دفاع پہلے سے موثر بنایا گیا، فوج میں کرپشن کا خاتمہ ہوا، اس ادارے کو مثال بنا کر پیش کیا گیا، اپنا ہی احتساب سب سے پہلے کیا گیا۔ آج کا پاکستان پہلے سے بہت مختلف ہے، اب دہشتگردی کے واقعات میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے، اگرچہ اس عفریت سے مکمل طور پر نجات تو نہیں ملی مگر حالات بہت بہتر ہوئے ہیں، آپریشن ضرب عضب جنرل راحیل شریف کا وہ کارنامہ ہے جس کو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
جنرل راحیل شریف پہلے پاکستانی ہیں جو دنیا بھر کے زیرک سپہ سالاروں میں سرفہرست ہیں۔ جنرل راحیل شریف عظیم ترین جرنیل ہیں، اس کا اقرار دنیا بھرکی اقوام نے کیا ہے بلکہ برطانوی فوج کے سربراہ نے تو کھلے عام جنرل راحیل شریف کی تعریف کی ہے۔ جنرل راحیل شریف صرف سپہ سالار ہی نہیں بلکہ عظیم رہنما بھی ہیں انھوں نے کئی ملکوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پہلی مرتبہ پاکستان کے کسی آرمی چیف نے ایک جنرل سے بڑھ کر ایک عالمی لیڈر کی حیثیت سے اپنا قدوقامت بنایا، بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان کو جس طرح گریٹ گیم کا تختہ مشق بنایا گیا اور ہم حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے اس کھیل میں پھنستے چلے گئے۔ اس دوران جنرل راحیل شریف نے علاقائی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں معاملات کا ادراک کرکے نہ صرف نئی حکمت عملی وضع کی بلکہ پاکستان کو دہشتگردی سے نجات دلانے کے ساتھ خطے اور دنیا کے سیکیورٹی ایشوز کے تناظر میں پاکستان کے کردار کو نمایاں کرنے کی حکمت عملی وضع کی۔
جنرل راحیل شریف نے ایک جرنیل کی حیثیت سے کامیاب سفارتکاری کی اور روس، چین، برطانیہ، سعودی عرب، مشرقی وسطیٰ، ایران، افغانستان و دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ دو سال میں امریکا کے تین دورے کرکے علاقائی سیکیورٹی کے پاکستانی تناظرکو نمایاں کیا اور دنیا کو دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کا نیا وژن بھی دیا۔ آرمی چیف کی قیادت میں پاکستان کی فوج نے دہشتگردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور دیگر آپریشنز میں کامیابیاں حاصل کی، یہ عہد نو کی پہلی فوج ہے جس نے دہشتگردی اورگوریلا جنگوں میں فتوحات حاصل کی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی سفارتکاری سے پاکستان کو اس مقام پر پہنچادیاہے جہاں پاکستان سپر پاور ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ سپر پاور بڑی فوجی یا اقتصادی طاقت کے حامل ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ سپر پاور ایک کردارکا نام ہے، جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔
جنرل راحیل شریف اپنے پیچھے کچھ چیلنجز ضرور چھوڑکر جارہے ہیں اور وہ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے انھیں ملے تھے، اب نئے چیف کو وہ مشن لے کر آگے چلنا ہے جس کے حصول کے لیے جنرل راحیل نے دن رات کام کیا۔ یہ درست ہے کہ ضرب عضب نے فاٹا و دیگر علاقوں میں انتہا پسندوں کی کمر توڑ دی ہے، لیکن فی الحال ملک میں انتہا پسندی کے بارے میں واضح سوچ نہیں پروان نہیں چڑھ سکی۔ ابھی بھی ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے والی فیکٹریاں فعال ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور ر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے، لائن آف کنٹرول اور بیرونی سیکیورٹی کے مسائل الگ ہیں، امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے اسلام دشمن کا صدر منتخب ہوجانا اور نریندر مودی کی پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائیاں آنیوالے دنوں میں پاکستان کے لیے مزید خطرات کی نشاندہی کررہی ہیں۔ اس لحاظ سے نئے فوجی سربراہ کے لیے بھی یہ منصب پھولوں کی سیج نہیں ہوگا۔ اگر جنرل راحیل شریف کی پالیسیوں کو جاری رکھا جائے تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا اس خطے اور دنیا میں کردار بہتر انداز میں تسلیم کرایا جاسکتا ہے اور پاکستان اور خطے کو دہشتگردی سے نجات دلاکر دنیا کو بھی امن کا تحفہ دیا جاسکتا ہے۔