سی پیک میں روس کی شمولیت

نظریاتی طور پر تو غوث بخش بزنجو خود کمیونسٹ مفادات کے کسی حد تک نمایندہ کے طور پر نمایاں مانے جاتے رہے


Anis Baqar December 01, 2016
[email protected]

HYDERABAD: سی پیک منصوبہ میں شمولیت کے حوالہ سے روسی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بر وقت وضاحتی بیان اپنی جگہ تاہم سی پیک کی موجودہ گزرگاہ سے روس کی دلچسپی آج سے نہیں بلکہ انقلاب روس کے بعد جوزف اسٹالن کے زمانے سے دوسری جنگ عظیم کے بعد 1946 سے ہے۔ اسی دور سے بلوچستان میں سرداروں اور سیاسی لیڈروں کو روس سے قربت رہی ہے اور یہاں پر کمیونسٹ عناصر نے خاصا سیاسی کام کیا تھا، اس کی چھاپ ان ناموں سے ظاہر ہوتی ہے جو بلوچستان کے لوگ رکھا کرتے تھے اور خاصے مانوس تھے۔

نظریاتی طور پر تو غوث بخش بزنجو خود کمیونسٹ مفادات کے کسی حد تک نمایندہ کے طور پر نمایاں مانے جاتے رہے مگر آپ اس نام سے خود کیا تجزیہ کرتے ہیں، مثلاً شیر محمد مری اپنے آپ کو جنرل شیروف کہلاتے تھے اور اکثر بلوچستان کی بغاوتوں میں یہ عناصر پیش پیش رہے ہیں۔ روس جو انقلاب کے وقت سوویت یونین کہلاتا تھا، وسطی ایشیائی ریاستیں سوویت یونین سے الحاق کیے ہوئے تھیں جن میں تاجکستان، آذربائیجان، ترکمانستان وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ریاستیں گو سوویت یونین سے الحاق کیے ہوئے تھیں مگر امریکا کی طرف سے ایک سرد جنگ میں ان مسلم ریاستوں میں ترقی کی رفتار اس قدر تیز نہ تھی جتنی کہ مغربی ریاستیں تھیں۔

روسی ترجمان کے مطابق اقتصادی راہداری سے متعلق پاکستان سے روسی حکام نے کسی قسم کے خفیہ مذاکرات نہیں کیے اور سی پیک میں اس کی شمولیت کی خبریں درست نہیں ہیں، تاہم اپنے آیندہ دو طرفہ تجارتی امکانات کے باعث یہ موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے ، اس لیے اگر آپ کو یاد ہو تو ماضی کے اوراق الٹیں، پاکستان بھی سیٹو اور سینٹو Seato-Cento کا رکن تھا، جو خود اس راہ میں رکاوٹ بنا رہا، چین کی آزادی کو بھی امریکا نے تسلیم نہ کیا تھا اور ابتدا میں روس چین کے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔

چین کے لانگ مارچ میں جہاں تقریباً دس لاکھ نفوس شامل تھے جن میں ماؤزے تنگ کے علاوہ لیوشاؤچی، چواین لائی، لن ییاؤ اور دیگر عوامی کمانڈروں کے علاوہ روس کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے جوزف اسٹالن کے 80 ہزار جاں بازوں نے حصہ لیا، اس لیے جب تک ماؤزے تنگ حیات رہیوہ ہر سال یوم انقلاب کے موقع یادگار پر کامریڈ جوزف اسٹالن کی تصویریں آویزاں کرتے رہے اور جب سے روس نے اسٹالن پر تنقید شروع کی خصوصاً خروشیف کے دور میں 1960 کی دہائی میں، چین نے روس پر تنقید کی اور تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔

مگر ایک وقت تھا سن 50 کے ابتدائی دور میں شمالی کوریا اور امریکی نواز جنوبی کوریا کے خلاف دونوں ایک تھے مگر مجموعی طور پر چین اور روس میں عالمی منظرنامے پر دونوں ملک ایک ہی صفحے پر رہے اور روس میں پوتن کے دور حکومت میں سوویت یونین کے خاتمے کے باوجود روس چین تعلقات قریب تر ہیں۔ روس کو اپنی مسلم ریاستیں کھونے کا بڑا صدمہ ہے، خصوصاً پوتن کو، مگر یہ اس لیے ہوا کیونکہ روس کی مسلم ریاستوں کی وہ ترقی نہ ہوسکی جس کی وہ مستحق تھیں اور گوربا چوف نے ایک گولی چلائے بغیر بزور قلم از خود ان کو آزاد کردیا۔ یہ علاقہ آج بھی لینڈ لاک (Land Lock) کہلاتا ہے، گویا زمین نے قفل لگا رکھا ہے مگر روس اس علاقے میں چین کے سہارے داخل ہوا ہے، جس کے بہت اہم پہلو ہیں، خصوصاً اس کے عالمی منظر نامے پر بہت اہم اثرات ہوں گے۔

عالمی سیاست میں چین نے روس کو یہ راستہ ایک نئے انداز سے فراہم کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے لیے بھی ایک منفعت بخش کام ہے، اس طرح عرب ریاستوں کا وہ پھیلاؤ جو پاکستان میں بڑھ رہا تھا رفتہ رفتہ سکڑ جائے گا، کیونکہ شام کی جنگ روس اور عرب ریاستوں میں تناؤ کا سبب ہے، اس کے علاوہ روس کو ایشیائی ریاستوں میں اس لیے سبقت رہے گی کیونکہ یہ علاقے ماضی میں اس کے ساتھ تھے اور وہاں کے مکینوں کو روٹی کپڑا اور مکان کی سہولت سوویت یونین نے ان کو دی اور روس نے ایک گولی چلائے بغیر ان کو نوک قلم سے آزاد کردیا، جو انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔

گویا روس کو اس کا کھویا ہوا علاقہ سیاسی طور پر مل گیا اور ان علاقوں میں روس نواز کلچر اور روسی زبان آج بھی موجود ہے، لیکن تعلیمی اعتبار سے یہ علاقے کسی بھی مغربی ملک سے کم نہیں، اسی لیے پاکستانی طالب علم ایک زمانے میں انھی مسلم ریاستوں میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے جاتے رہے ہیں، دوسری اہم بات یہ ہے کہ غیر ممالک خصوصی طور پر مغرب اور امریکا میں ان کی ڈگریوں کو یکساں مانا جاتا ہے جب کہ پاکستانی ایم بی بی ایس کو امریکا جاکر وہاں کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی مساوی تعلیم گردانی جاتی ہے۔

اس لیے تو خلائی تحقیق کے میدان میں روس امریکا کے مشترکہ منصوبے ہیں اور خلائی فیول اسٹیشنوں میں ان کا اشتراک عمل ہے جس کی تشہیر پاکستان میں نہیں صرف اختلافی مسائل پر بڑی بڑی خبریں لگتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں سائنسی تحقیق کے میدان میں خصوصاً خلائی تحقیق پر دونوں ملکوں میں خاصا اتفاق ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بھارت میں فلسطین کی تنظیم آزادی کے دفاتر تھے مگر آج کا بھارت اسرائیلی گٹھ جوڑ کا حامل ہے۔ اس کے فوجی بھارتی افواج کو ایجیٹیشن کو قابو کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ کشمیر میں آنکھوں میں چھرے مارنے کا عمل اسرائیلی تربیت کا نتیجہ تھا، اسی طرح نکسل باڑی اور ماؤ نواز باغیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی بھارت نے اسرائیل کی مدد لی ہے اور وہ چھتیس گڑھ میں بھارتی فوج کی معاونت میں مصروف ہیں۔ اس لیے روس اور چین کی گزرگاہ ہمارے علاقے سے ایک دفاعی قوت کی نفسیاتی حمایت تسلسل سے پاکستان کے حق میں ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا جو بلوچستان کے وہ باغی جو معاملات کی نزاکت کو نہ سمجھ سکے وہ بھی پاکستان کے اس عمل میں شامل ہوجاتے اور اس کے لیے مرکزی حکومت کوئی خصوصی ڈیل کا آغاز کرے، جس میں میری ناقص رائے کے بدلے غوث بخش بزنجو کے لائق صاحبزادے حاصل بزنجو جن کو وزارت کا قلم دان سپرد کیا گیا ہے اس میں ان کو بلوچستان کی خصوصی سیاسی حکمت عملی کا قلم دان سپرد کیا جائے اور ان کی آرا پر عمل کیا جائے۔

نیشنل پارٹی کے پاس آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جنھوں نے حیدرآباد سازش کیس سے قبل بلوچستان میں بھٹو حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ مانا کہ ان میں سے اکثر خاموش ہوگئے اور بہت سے خدا کو پیارے ہوگئے۔ مگر جو لوگ بھی عمر کے آخری مرحلے میں ہیں ان کو منانے کے لیے حاصل بزنجو اور ان کے ساتھیوں کو اس اہم کام پر آمادہ کیا جائے اور کسی نہ کسی طرح اگر ایک فیصد مخالفت بھی موجود ہے تو اس کو بھی ختم کیا جائے کیونکہ آنے والا وقت ڈالروں کی کھیپ لانے کو ہے جس کا عندیہ غیر ملکی رویے سے ہوتا ہے۔

ایران گو زمین سے مقفل ملک نہیں اور اس کے پاس کامل بندرگاہیں ہیں مگر سی پیک میں شمولیت کے لیے ایران بھی کوشاں ہے، جس کا اظہار صدر روحانی کئی بار کرچکے ہیں، مگر خلیجی ریاستوں اور ایران کی کشمکش کی بدولت یہ مسئلہ اپنے انجام کو نہ پہنچ سکا۔ چونکہ سی پیک ایک نہایت سود مند پروجیکٹ ہے کیونکہ ہمارا ہر صوبہ اس بات کا خواہش مند ہے کہ زیادہ سے زیادہ راستہ اس کے صوبے سے گزرے تاکہ روزگار کے زیادہ مواقع حاصل ہوں، شاہراہیں، ہوٹل ان کی گزرگاہوں سے متصل رہیں، اس لیے یہ عمل ضروری ہے کہ بلوچوں کو یہ احساس نہ ہو کہ لب کے قریب سمندر ہو، جہاں ہزاروں شپ (Ship) لنگر انداز ہوں اور وہ اس سے بڑا فیض نہ اٹھا سکیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ تاریخ کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردے اور حاصل بزنجو سے وہ فائدہ اٹھائیں کہ مورخ ہمیشہ ان کو اور اس وقت کی حکومت کو یاد رکھے کہ وفاقی حکومت پاکستان نے تو آخری وقت تک کوشش کی۔

اگر صورت حال اس سمت میں بڑھتی رہی تو مودی بھی اپنا رویہ ہٹ دھرمی چھوڑنے پر مجبور ہوکر سی پیک میں شمولیت کی درخواست دینے پر مجبور ہوں گے لہٰذا آنے والے مورخ کو پاکستان کبھی یہ موقع نہ دے کہ پاکستان سے کوئی کوتاہی ہوئی۔ پاکستان اور چین کو تو اس منصوبے سے حقیقی فوائد حاصل ہوں گے مگر روس کو سب سے زیادہ سیاسی اور معاشی فوائد ملیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں