درد دل اور ذوق اجتماعیت
اس آسیبی شکنجے کی گرفت کے خلاف مزاحمت اور کشاکش ہی دراصل کہانی کو اپنے انجام کی جانب روانہ کرتی ہے
ISLAMABAD:
خوف اور پراسراریت کے رنگ میں ڈوبی آسیبی کہانیوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ابتدا سے دیکھنے، سننے یا پڑھنے والوں کو اپنی محویت میں مبتلا کردیتی ہیں، ان کہانیوں کا حقیقت سے کیا اور کتنا تعلق ہوتا ہے اس سے قطع نظر یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ان کہانیوں کا مخصوص احساس سنسنی بن کر حواسوں میں گھس سا جاتا ہے اور ان کی مخصوص کیفیت گویا کلیجہ مٹھی میں جکڑ لیتی ہے۔ ایسی کہانیوں کا عام طور پر ایک مخصوص فارمولہ ہوتا ہے، اس فارمولے کے مطابق ان کہانیوں میں بھی ابتداً زندگی اپنی سچائی یعنی سادگی میں نظر آتی ہے اور پھر بتدریج کسی ماورائی مخلوق کا سایہ یا آسیب کسی نہ کسی انجانی چھیڑ چھاڑ کے سبب زندگی پر اپنی گرفت کسنا شروع کر دیتا ہے۔
اس آسیبی شکنجے کی گرفت کے خلاف مزاحمت اور کشاکش ہی دراصل کہانی کو اپنے انجام کی جانب روانہ کرتی ہے کیونکہ فارمولے کے مطابق ہر آسیبی طاقت کے دفع کے لیے کوئی نہ کوئی چھومنتر ضرور کہانی میں موجود ہوتا ہے۔ یعنی قاعدہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ہر خوف، ہر ظلم اور ہر ظالم کے ورود کا لازماً کچھ نہ کچھ سبب ہوتا ہے جو اسے لاگو یا متحرک کردیتا ہے اور اسی قاعدے کے مطابق ایسی دل گرفتہ و شکستہ صورتحال کا انجام خیر بھی عین ممکن ہے ''اگر فعول چاہے یا چاہیں تو!'' عام بے چینی، خوف اور ہلچل یا دوسرے لفظوں میں محسوس کرنے کی طاقت ہی دراصل وہ پشت پناہ عنصر ہے جو زیادتی کی عدم قبولیت کا محرک بنتا ہے اور باطل کو اس کے انجام قطعی و منطقی سے دوچار کرتا ہے۔
یقینا اس قاعدے کے ڈانڈے قدرت کے اس قانون سے منسلک ہیں جس کی رو سے ''خدا کی لاٹھی برستی ضرور ہے۔'' وہی لاٹھی جسے عام طور پر بے آواز کہا جاتا ہے لیکن یہ انسانی فہم کی لغزش ہے کیونکہ لاٹھی بے آواز نہیں ہوتی ہم ہی درحقیقت زندگی کے شور میں اس کی آواز نہیں سن پاتے۔ قدرت کے قوانین طے شدہ ہیں جہاں کلیہ مکمل ہوگا وہیں فارمولے کے مطابق قانون کا اطلاق لازمی امر ہے خواہ وہ بلا کے نزول کا ہو یا فلاح کے حصول کا۔ اس تناظر میں وطن عزیز کی ارض پاک کے حالات سے دل برداشتہ حوصلوں کے لیے امید کی کرن ضرور دکھائی دیتی ہے، لیکن یہاں ضروری ہے کہ اس آسیب کا کھوج لگایا جائے جو عذاب کی صورت دھرتی کی فضاؤں اور گرم لہو پر مسلط ہوکر رہ گیا ہے، رگوں میں خوف ایسے سرائیت کرگیا ہے کہ انجانے میں دل کسی حادثے کے جیسے منتظر سے رہتے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت پر لعن طعن اور ملامت تو ایک روایت سی بن کر رہ گئی ہے اور وہ بھی بے فیض سی۔ جواب میں حکومتی اور انتظامی سطح پر پالیسی بیانات اور مخصوص اصطلاحوں کی ایک بوچھاڑ ہے جو ہمارے سر ہی پچکائے دیتی ہے۔ خیر! بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ اب تو ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں گے، چاک گریبانی سے بہتر ہے کہ یہ خردمندانہ مرحلہ سر کر لیا جائے۔
چلیں آغاز کرتے ہیں، اپنی نشست پر جمیں اور تھوڑا سا جھک کر اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں، گردن میں سریا ہے اس لیے گردن تنی ہوئی ہے اور تنی ہوئی گردن سے ہمیشہ دوسروں کے غلط اقدامات سامنے آتے ہیں، اپنے کرتوت دکھائی نہیں دیتے، تھوڑی اذیت سہاریں، سریا نکالیں، اب گردن جھکائیں اور دیکھیں کیا نظر آنا شروع ہورہا ہے؟ کچھ شرارتی سی حرکتیں ہیں جن کی شرارت یہ ہے کہ یہ ہمیں ایک با وقار اور ذمے دار فرد میں تبدیل ہونے نہیں دیتیں، اب چونکہ بچپن نہیں رہا اس لیے یہ حرکتیں ہم سے کچھ میل نہیں کھا رہیں، ایک عجیب کراہیت آمیز سا تاثر جنم لے رہا ہے، مثلاً ہم قطار بنانے سے تو معذور ہیں ہی مگر بہ لحاظ عمل متوازن بھی نہیں رہ سکتے۔
ہم اپنے ہیجان پر قابو پانے میں ناکام ہیں اس لیے اس کا نشانہ ہمارے اطراف اور ماحول بن رہا ہے۔ اچھل کود اور شور مچانا ہماری عادت میں داخل ہوچکا ہے۔ ہم سنتے کچھ نہیں صرف بولتے ہیں اور سمجھنے کی تو بات نہ کریں۔ ارے یہ کیا؟ یہاں تو تاحد نظر و فکر صرف ''میں'' ہی نظر آرہی ہے اور اسی ''میں'' کی حد میں ہم زندہ ہیں اور مر رہے ہیں اور اتنی محدود اوقات کے بعد ہم رازق بھی ہیں، عاقل بھی، بالغ بھی، جارح بھی اور شدید ہنسی کا مقام ہے ''انقلابی بھی''۔
کچھ دھواں سا منظر میں حلول کرتا دکھائی دے رہا ہے یا مناظر دھواں ہوئے جارہے ہیں اور شاید ہم بھی، اب سیاہ گھنگھور تاریکی میں ڈولتے ٹٹولتے وجود خود بھی ہیولے معلوم ہورہے ہیں، بصارت سے بصیرت تک سب سیاہ ہے جب ہی تو دن کی روشنی میں بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ جلتی ہوئی عمارت، پھنکارتی ہوئی آگ کی لپیٹیں اور خاکستر ہوتی سیکڑوں جانیں۔ ایک اور منظر ہے یہاں ایک جوان وجود کیمرے کی آنکھ کو غیر فلمی بالکل حقیقی موت کا منظر ریکارڈ کرا رہا ہے، لائیو ریکارڈنگ کیمرے اور چینلز کی برکت سے پوری قوم اس منظر پر ساکت ہے۔ افسوس ہے، دکھ ہے، آنسو ہیں، دعائیں ہیں مگر یہ سب تو جسم کے خودکار نظام کی بدولت ہے اس میں ہماری شمولیت بہ حیثیت ایک زندہ انسان کے کہاں ہے؟ دل میں ایک عجیب وغریب سی حسرت بھری کاش ابھرتی ہے کہ کاش! یہ کسی بھارتی فلم کا منظر ہوتا جس میں جمع ہونے والے تماش بینوں پر ہاتھوں کی زنجیر سے حفاظتی حصار نہ بنانے کی پاداش میں مقدمہ دائر کردیا جاتا، اس خاتون کو بھی دھر لیا جاتا جو اگر چاہتی تو اپنا دوپٹہ تان کر زندگی کی امداد میں اپنا حصہ ڈال سکتی تھی، مگر ہم تہذیب شکن روایتوں کے اسیر ہیں، کسی جائے حادثہ پر تماش بینوں کا جم غفیر دیکھیں، الٹا ریسکیو ٹیموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے ان تماش بینوں سے ڈنڈا ڈولی کرنا پڑتی ہے۔ شاید اب درد نے دل میں چٹکیاں لینا شروع کردی ہیں، شاید دکھ کا احساس دل کی ٹیسوں کو مس کر رہا ہے، اس رگڑ سے وجود ہچکولے لے رہا ہے، بہت حبس محسوس ہورہا ہے، سوکھے ہوئے جسم و جاں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں، چٹاخوں کی گونج سی کچھ سنائی پڑ رہی ہے، اندھیرا بھی تو بہت ہے، ٹامک ٹوئیاں ہی سہی ہاتھ پیر تو چلاؤ... ایک ملگجی سا نقطہ نمودار تو ہورہا ہے، کوئی روزن کھلا ہے شاید۔ چلو چلو حرکت تیز کرو، تیز تر۔ یہ بے حسی کا اندھیارا ہے، چھٹنے کو تو چھٹے گا مگر ایک ہی اصول ہے اس کا ''اپنی مدد آپ'' آنکھیں روشنی سے مانوس ہورہی ہیں اور تنفس مصفّا سانسوں کے مراقبے میں ہے۔ سوئے ظن کا سیاہ لبادہ خاک ہوا تو قوت عمل کی توانائی امیدوں کو مہمیز دے رہی ہے۔ زندگی، زندگی کو خوش آمدید کہہ رہی ہے اور سُجھاؤ دے رہی ہے، ادھر تلاش ادھر مراد... جن فضاؤں میں زندگی کی قدر اور عزت نہیں رہتی وہاں یکایک نازل ہونے والی موت کی سیاہی ڈیرے ڈال لیتی ہے... جب قوم سے اچھائی کی ستائش اور تائید اٹھ جائے تو معاشرے سے نیکی بھی اٹھ جاتی ہے، جب قوم مثبت افزودگی کو بنجر کردیتی ہے تو بے اثر واویلے اور بلبلاہٹ ان کا مقدر ہوجاتی ہے، مگر احتجاج سے آزمائشیں سر نہیں ہوتیں، انقلاب سے ملک کے نظام نہیں چلتے اور چیخ و پکار سے آسیب کے عذاب نہیں ٹلتے، یعنی قانون یہ بنا کہ بے حسی کے آسیب کا چھومنتر ٹھہرا'' درد دل اور ذوق اجتماعیت''۔