حالات کے ہاتھوں پڑھ نہ سکا مگرکتابیں آج بھی ساتھ رکھتا ہوں

سہانے خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقی زندگی کی تلخیوں میں کھو جانے والے حقہ ساز محمد بلال کی کہانی۔


Rana Naseem December 23, 2012
’’ بہنوں کی شادی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے‘‘۔ فوٹو: فائل

حقہ تمباکو نوشی کے لئے استعمال کیا جانے والا ایک قدیم آلہ ہے جس کا آبائی وطن ہندوستان کو قرار دیا جاتا ہے۔

اردو میں موجودہ مستعمل لفظ فی الحقیقت عربی ہی سے آیا ہے اور وہاں اس کو حقہ سے ماخوذ کیا جاتا ہے، یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ حقہ کی اصل الکلمہ (etymology) حق ہے۔ اردو میں حق عام طور پر سچائی پر ہونے کے معنوں میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ حق کے ان دونوں مفاہیم میں فرق کی وجہ اعراب کے استعمال سے ان کا تلفظ الگ کرنے کی ہے۔ سچائی کے لئے جو عربی کا حق استعمال ہوتا ہے اس میں ''ح'' پر زبر آتی ہے جبکہ حقہ کے لئے جو حق آتا ہے اس میں ''ح'' پر پیش کو لایا جاتا ہے جس کے معنی ظرف ، چلم ، حوض اور جوف وغیرہ کے آجاتے ہیں اور اسی ظرف کے تصور سے جو کہ حقے کی چلم سے مترادف ہے، حقے کا لفظ اخذ کیا گیا ہے۔

علاقے اور دستیابی کے بناء پر بہت سے عرب، بھارتی، ایرانی اور ترک علاقوں میں حقے کے کئی نام ہیں۔ حقے کے لئے انگریزی میں ''ہبل ببل'' (hubble-bubble) اور ''ہبلی ببلی'' (hubbly-bubbly) کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، جس کی وجہ اس کو پیتے وقت گڑ گڑ کی وہ آواز ہے جو کہ بلبلوں کے پیدا ہونے سے بننے والی آواز سے مشابہت رکھتی ہے۔ دور جدید کے مقابلہ میں حقہ کا قدیم معاشرت میں کافی چلن رہا ہے۔ یہ محفلوں کی جان تھے، امراء اور روساء حقوں کی سج دھج پر خطیر رقم خرچ کیا کرتے تھے۔ قدیم بادشاہوں، وزراء اور روسائوں کی محفلوں اور مجالس کی تصاویر میں بھی ہمیں حقے دکھائے دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے،گرمیوں میں امراء مٹی کے حقوں کا استعمال کرکے اس کے سوندھے پن سے اپنی روح کی تسکین کا کام لیا کرتے تھے۔

حقہ کی مقبولیت اور دلچسپی میں سب سے اہم کردار ان ہاتھوں کا ہے، جو اس کو تیار کرتے ہیں۔ حقہ سازی کا کام پشتوں سے چلا آرہا ہے۔ حقہ پینے والے روساء، لیکن ان کو بنانے والے ہاتھ ہمیشہ ہی غریب رہے۔ اس نشست میں ہم آج ایسے ہی حقہ ساز سے گفتگو کریں گے، جس نے گھریلو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر محض 12سال کی عمر میں حقہ سازی کا کام شروع کردیا۔ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ کے رہائشی 19سالہ محمد بلال کے خاندان میں حقہ سازی کا کام تیسری نسل تک منتقل ہو چکا ہے۔41 سال قبل بلال کے دادا صوفی تاج نے جہانیاں منڈی سے حقہ سازی کا کام سیکھا اور کمالیہ میں آکر ایک چھوٹی سی دکان بنا لی، جسے بنے ہوئے آج 40 سال بیت چکے ہیں۔ صوفی تاج کے بعد ان کے بیٹے ذوالفقار علی اور اب یہ کام بلال نے سنبھال رکھا ہے۔

بلال اپنی دکان پر بیٹھا حقے کی نالی (نڑی، جو بانس کی ایک چھڑی ہوتی ہے) پر تانبے کی تار لپیٹنے میں مصروف تھا، میری ہمدردانہ گفتگو پر اس نے بتایا کہ ہم2بھائی اور 6بہنیں ہیں، جن میں سب سے بڑی بہن ( قرآن کی حافظہ) کی شادی ہوچکی ہے۔ دوسری بہن پرائیویٹ اسکول ٹیچرجبکہ تیسری سلائی کا کام سیکھ رہی ہے۔ باقی ایک بھائی اور 3بہنیں پڑھ رہے ہیں۔ میں نے پانچویں جماعت پاس کی تھی کہ میرے والد صاحب انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے ساتھ ہی دوست احباب نے بھی منہ موڑ لیا۔

ذریعہ آمدن کوئی نہیں تھا، پھر 6،6بہنوں کا بوجھ بھی اٹھانا تھا، تو مجبوراً میں نے اسکول جانا چھوڑ دیا اور اچانک گھر کا سربراہ بن گیا۔ پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور آج بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں آج بھی آٹھویں کی کتب ہر وقت گھر اور دکان میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ میں انھیں پڑھ تو نہیں پایا لیکن انھیں اپنے پاس رکھ کر عجیب سا اطمینان محسوس کرتا ہوں۔ اس دوران میں نے ایک بار پرائیویٹ طور پر پڑھنے کی کوشش کی۔ ایک استاد کے پاس ٹیوشن رکھی لیکن چند روز بعد ہی اس نے یہ کہہ کر بھگا دیا کہ تو صرف حقے ہی بنا سکتا ہے، پڑھائی لکھائی تیرے بس کی بات نہیں۔

01

بلال نے بتایا کہ حقہ سازی کا کام میں نے تھوڑا بہت پہلے اپنے والد سے سیکھا ہوا تھا، ان کی وفات کے بعد میں نے ان ہی کے ایک دوست محمد سلیم کی شاگردی اختیار کرلی جنہوں نے مجھے حیران کن طور پر صرف 20 روز میں حقہ سازی کا مکمل کام سکھا دیا۔ آج میں حلال رزق سے اپنے گھروالوں کا پیٹ پال رہا ہوں تو یہ ان ہی کی مرہون منت ہے۔ ہمارے ہاں حقہ کا ریٹ 9سو روپے سے 35سو روپے تک ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بڑے شہروں میں بڑے بڑے لوگوں کیلئے 20،20 ہزار روپے کے حقے بھی ملتے ہیں۔ حقہ تیار کرنے کیلئے نیچے والا ڈھانچہ (نیچا) اور نالیاں (نڑی) فیصل آباد، ساہیوال یا جھنگ سے لائی جاتی ہے۔ چلم گوجرہ سے لے کر آتے ہیں جہاں یہ عام گھروں میں بنائی جاتی ہے۔ حقہ کی نالیوں پر پہلے پرانا کپڑا لپیٹا جاتا ہے، پھر اس پر تانبے کی تار چڑھائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ہم خود بھی تیار کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے زیادہ پیسہ چاہیں، جو ہمارے پاس نہیں۔

نئے حقوں کی فروخت کیساتھ ہمارا زیادہ کام پرانے حقوں کی مرمت کا ہے۔ حقے کے 4 لازمی اجزاء ہوتے ہیں، جو ہماری زبان میں چلم، قلفی، مکو اور نڑی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ حقے کے نیچے والے حصہ میں اکثر سوراخ ہو جاتا ہے، جس کی اچھی مرمت میں ہمیں نوشادر کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جوڑ لگانے کے بعد اس کی مضبوطی کے لئے جب نوشادر کو اس پر گرایا جاتا ہے تو اس میں سے تیز بدبودار دھواں نکلتا ہے۔

یہ دھواں سانس کے ذریعے ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچ کر انھیں متاثر کرتا ہے۔ میرے دادا کو اسی دھویں کی وجہ سے سانس کی تکلیف ہوئی جو بالآخر ان کی موت کا باعث بن گئی۔ اس کام میں جان کو خطرہ ضرور ہے لیکن کیا کریں حقہ سازی کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا، پھر کام بدلنے کے لئے زیادہ پیسوں کی بھی ضرورت ہے۔ یہ مجبوریاں ہی ہیں جو انسان کے اپنے ہاتھوں سے ہی اس کی قبر کھدوا دیتی ہیں۔ ایک روز میں 4سے 5سو روپے کما لیتا ہوں جس سے جیسے تیسے میرے گھر کا نظام چل رہا ہے۔ 6،7سو روپے میں سے ایک سو روپے منافع مل ہی جاتا ہے۔ میری چھوٹی سی دکان ہے لیکن اس کا کرایہ بھی 3ہزار تک پہنچ چکا ہے۔

مہنگائی کا رونا روتے ہوئے بلال کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے تو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی، قلیل آمدن میں جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا روز بہ روز مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صرف اس دور حکومت میں حقہ سازی کیلئے استعمال ہونے والے سامان کی قیمت میں تقریباً ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ پہلے حقہ کی ایک نالی (نڑی) 60 روپے میں مل جاتی تھی، لیکن آج اس کی قیمت 150 روپے سے بھی بڑھ چکی ہے۔

جب سامان مہنگا ہو گا تو پھر حقہ کی قیمت بھی بڑھے گی، اس وجہ سے آج کل حقہ سازی کا کام بھی مندے کا شکار ہے۔ گاہگ آتا ہے اور قیمت سن کر بھاگ جاتا ہے، اور کچھ لوگ تو قیمت سن کر گالیاں بھی دینے لگتے ہیں، لیکن کیا کریں ہمارا یہ کام ہے، اس لئے سب کچھ سن کر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پہلے ہم حقہ سازی کے لئے 10ہزار روپے تک کا سامان ضرور خرید کر لاتے تھے لیکن اب یہ کم ہوتا ہوا صرف 3ہزار تک پہنچ چکا ہے، اس میں بھی کبھی کبھار ادھار مانگنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ سامان ہوگا تو فروخت کے لئے حقے تیار ہوں گے۔ پھر ان حقوں کی فروخت سے ملنے والے منافع سے گھر کا چولہا بھی جلے گا اور ادھار بھی اتر جائے گا۔

دکان پر روز رنگ برنگے لوگ آتے ہیں، جن میں اکثریت معمر افراد کی ہوتی ہے، کچھ لوگ بہت اچھا اور کچھ کا رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ پھر اتنے چھوٹے سے کاروبار میں بھی ادھار کی لعنت نے اپنی جگہ بنا رکھی ہے۔ اپنے فائدہ کے لئے ادھار بھی کرنا پڑتا ہے، لیکن کبھی کبھار یہ فائدہ نقصان میں بھی بدل جاتا ہے۔ کبھی مالی نقصان تو کبھی رشتوں کا نقصان۔ ایک بار ایک شخص آیا جس سے حقہ کے اڑھائی سو روپے بقایا لینے تھے، میں نے اسے حقہ میں پانی ڈالنے کے لئے دیا تو وہ پانی ڈالنے کے بہانے میرا دوسرا حقہ بھی لے کر فرار ہوگیا، اور پھر آج تک کبھی دوبار نہیں ملا۔ حقہ ساز نے بتایا کہ جس طرح ہر جنس اور کام کا ایک سیزن ہوتا ہے اسی طرح ''واڈیو'' (گندم کی کٹائی) سے پہلے ہمارا بھی سیزن چلتا ہے۔ لوگوں نے گندم کی کٹائی کے لئے کھیتوں میں جانا ہوتا ہے جہاں وہ سارا سارا دن کام کرتے ہیں۔ کھیتوں میں ان کی تفریح کا صرف ایک ہی سہارا ہوتا ہے اور وہ ہے حقہ۔ اسی لئے لوگ گندم کی کٹائی سے قبل نئے حقے خریدتے ہیں یا پھر پہلے سے موجود حقوں کی مرمت کرواتے ہیں۔

ہر انسان کی طرح بلال نے بھی زندگی میں کچھ خواب دیکھے، جو اس کے بقول کبھی پورے ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔ اسی لئے بلال سہانے خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقی زندگی کی تلخیوں میں کھو گیا ہے۔ بلال کا کہنا تھا کہ اب اس کی زندگی کی سب سے بڑی، اکلوتی اور آخری خواہش یہ ہے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنی تمام بہنوں کے ہاتھ پیلے کر دے۔ میں تو نہیں پڑھ سکا لیکن میں اپنے چھوٹے بھائی اور بہنوں کو پڑھانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ سب پڑھ گئے تو مجھے اپنے ان پڑھ ہونے کا دکھ نہیں رہے گا۔ بس آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ضرور کیجئے گا کہ میں اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقہ سے نبھا سکوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔