ایڈالولیس

دنیا کی پہلی کمپیوٹر پروگرامر، جنھوں نے 1842 میں پہلا کمپیوٹر پروگرام ڈیزائن کیا۔


Nadeem Subhan December 23, 2012
فوٹو: فائل

کمپیوٹر نامی جادوئی مشین کے کرشمے آج ہمیں ہر طرف دکھائی دیتے ہیں، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس کے دائرۂ کار سے باہر ہو۔

1962 میں نظریۂ ابلاغ کے کینیڈین فلسفی، مارشل میک لوہن نے '' گلوبل ولیج'' کی اصطلاح وضع کی تھی۔ مارشل نے اس کی بنیاد اس امر کو قرار دیا تھا کہ برقی ٹیکنالوجی نے، جس کی بہ دولت اطلاعات کی برق رفتار ترسیل ممکن ہوئی، دنیا کو عالمی گاؤں میں بدل دیا ہے۔ تاہم، ہماری رائے میں جس ٹیکنالوجی نے '' گلوبل ولیج'' کی اصطلاح کو حقیقی معنی پہنائے ہیں وہ کمپییوٹر ٹیکنالوجی ہے۔

آج ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اسمارٹ موبائل فونز ، گیمنگ کنسولز اور دیگر دستی آلات کی صورت میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے دنیا کو اپنے بس میں کر رکھا ہے۔ ان تمام آلات، بالخصوص کمپیوٹر سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس میں مختلف سوفٹ ویئر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر کمپیوٹر کو ایک جسم تصور کرلیا جائے تو سوفٹ ویئرز اس کے دست و بازو ہیں۔

سوفٹ ویئر یا کمپیوٹر پروگرام جو ماہر ڈیزائن کرتا ہے اسے پروگرامر کہتے ہیں۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ دنیا کا پہلا کمپیوٹر پروگرامرکون تھا تو نام معلوم نہ ہونے کے باوجود آپ کے ذہن میں یہ بات ضرور آئے گی کہ اس کا تعلق یقیناً بیسویں صدی سے ہوگا، کیوں کہ کمپیوٹر گذشتہ صدی ہی کی ایجاد ہے، لیکن آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ دنیا کی پہلی کمپیوٹر پروگرامر ایڈا لولیس کو قرار دیا جاتا ہے، جن کا انتقال 1852 میں ہوگیا تھا جب وہ صرف 36 برس کی تھیں۔

ایڈا نے 10 دسمبر 1815 کو معروف برطانوی شاعر جارج گورڈن بائرن اور این ایزابیل ملبانکے ( اینا بیلا ) کے گھر میں جنم لیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر جارج گورڈن بائرن لارڈ بائرن کے نام سے مشہور ہیں، کیوں کہ وہ ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

لارڈ بائرن کی واحد جائز اولاد ہونے کے باوجود ایڈا کا بچپن اور پھر نوجوانی تک کا عرصہ مشکل حالات میں گزرا۔ لارڈ بائرن اولاد نرینہ کی خواہش رکھتے تھے اس لیے انھیں بیٹی کی پیدائش پر مایوسی ہوئی اور وہ عمر بھر ایڈا سے کھچے کھچے رہے۔ ایڈا کی ماںکے لارڈ بائرن سے تعلقات خراب ہوگئے اور نوبت علیحدگی تک پہنچ گئی۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ تھی کہ ایڈا کو اپنی ماں کی محبت اور توجہ بھی حاصل نہ ہوسکی۔ وہ ایڈا کی طرف سے بے پروائی برتتی تھیں اور انھیں اکثر ان کی نانی کے پاس چھوڑ کر چلی جاتی تھیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایڈا بچپن ہی سے بیمار رہنے لگی تھیں۔ آٹھ برس کی عمر میں ایڈا کے سر میں درد رہنے لگا، جس سے ان کی بینائی متاثر ہوئی۔ چودہ برس کی عمر میں خسرے کے شدید حملے کے بعد وہ بستر سے لگ گئیں۔ ڈیڑھ برس تک شدید بیمار رہنے کے بعد وہ بیساکھیوں کی مدد سے چلنے کے قابل ہوئیں۔

باہمت ایڈا نے شدید بیمار ہونے کے باوجود تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں کیا اور باقاعدگی سے اپنے اساتذہ سے اکتساب علم کرتی رہیں جو انہیں گھر پر آکر پڑھاتے تھے۔ اینا بیلا کو اپنے شوہر اور اس سے وابستہ ہر شے سے شدید نفرت ہوگئی تھی، اسی لیے انہوں نے اپنی بیٹی کو شعر و ادب کے بجائے ریاضی اور سائنس کی تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ایڈا کے اساتذہ میں ولیم فرینڈ، ولیم کنگ اور میری سمرولے جیسے نام ور لوگ شامل تھے۔ انہوں نے مشہور ریاضی داں اور منطق کے ماہر آگسٹس ڈی مورگن سے بھی تعلیم پائی۔ عمر کے سترھویں برس میں ریاضی کے مضمون میں ایڈا کی غیر معمولی صلاحیتیں ظاہر ہونے لگی تھیں، جس کا اظہار اینابیلا کے نام ایک خط میں ڈی مورگن نے بھی کیا تھا۔

انیسویں صدی کی نام ور محقق اور سائنسی موضوعات پر کئی کتابوںکی مصنف، میری سمرولے اور ایڈا کے مابین ایک مضبوط تعلق استوارہوگیا۔ ایڈا کے دل میں ان کے لیے بڑی عزت تھی۔ جون 1833 میں میری ہی کی بہ دولت ایڈا شہرت یافتہ ریاضی داں، فلسفی، موجداور مکینکل انجنیر چارلس بیبج سے متعارف ہوئیں جو مکینیکل کمپیوٹر '' ڈفرینس انجن'' پر کام کر رہے تھے (چارلس کو '' بابائے کمپیوٹر'' سمجھا جاتا ہے )۔ ایڈا '' ڈفرینس انجن'' دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ انھیں اس مشین نے حیران کردیا تھا۔ وہ اس مشین کے سحر میں ایسی گرفتار ہوئیں کہ سمرولے کے ساتھ اپنے قریبی تعلق کو استعمال کرتے ہوئے چارلس کے پاس زیادہ سے زیادہ آنے جانے لگیں۔ آنے والے برسوں میں بیبج کے اطالوی دوست فورچوناٹو پرانڈی ( Fortunato Prandi) سے بھی ان کی شناسائی ہوگئی۔

02

چارلس بیبج ایڈا کی فطانت اور تحریری صلاحیتوں سے بہت متاثر تھے۔ وہ انھیں ''اعداد و شمار کی ساحرہ'' کہا کرتے تھے۔1842 میں بیبج کو اٹلی کی ٹیورن یونی ورسٹی میں اینالیٹیکل انجن پر منعقد کیے جانے والے سیمینار میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی۔ سیمینار کے بعد ایک نوجوان اطالوی انجنیر اور مستقبل کے وزیراعظم Luigi Menabre نے بیبج کا لیکچر فرانسیسی زبان میں تحریر کیا، جو اکتوبر 1842 میں جنیوا یونی ورسٹی کے تعلیمی جریدے میں شایع ہوا۔ بیبج نے ایڈا سے کہا کہ وہ اس مضمون کو انگریزی میں ترجمہ کردیں۔ ایڈا نے مضمون کو انگریزی کے قالب میں ڈھالنے کے علاوہ اس کے ساتھ اپنی رائے اور تجاویز پر مشتمل نوٹس بھی نتھی کردیے جن کی طوالت اصل مضمون سے بھی زیادہ تھی۔ اس پورے عمل میں نو ماہ سے زاید عرصہ صرف ہوا۔ یہ نوٹس The Ladies' Diary اور Taylor's Scientific Memoirs میں شایع ہوئے۔

ایڈا نے اینالیٹکل انجن کی تیاری کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر سائنس داں اس کے تصور کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے اوربرطانوی حکومت کو بھی اس میں کوئی دل چسپی نہیں۔ تاہم، ایڈا نے اپنی تحریر میں یہ واضح کیا کہ ''اینالیٹیکل انجن'' اصل ''ڈفرینس انجن'' سے کس طرح مختلف تھا۔ ایڈا نے اس ضمیمے میں برنولی اعداد کے سلسلے کو شمار کرنے کا طریقہ پوری تفصیل سے بیان کیا جو انجن کے بن جانے کی صورت میں کُلی طور پر قابل عمل ہوتا ( بیبج کا پہلا مکمل انجن لندن میں 2002 میں تیار کیا گیا اور اس میں ایڈا کے وضع کردہ طریقے کی کام یابی سے آزمائش بھی کی گئی)۔ ایڈا کی موت کو ایک صدی گزرجانے کے بعد، 1953ء میں بیبج کے اینالیٹیکل انجن کے بارے میں ان کے تحریر کردہ نوٹس دوبارہ شایع کیے گئے۔

ان نوٹس کی بنیاد پر اب ایڈا کو دنیا کی اولین کمپیوٹر پروگرامراور ان کے وضع کردہ طریقے کو دنیا کا پہلا کمپیوٹر پروگرام قرار دیا جاتا ہے، نیز اینالیٹیکل انجن کمپیوٹر کا ابتدائی ماڈل کہلاتا ہے۔ ایڈا کے کام کو اس زمانے میں بھی بڑی پذیرائی ملی تھی۔ نام ور برطانوی سائنس داں، مائیکل فیراڈے خود کو ان کے کام کا مداح کہا کرتے تھے ۔

ایڈا کو زندگی بھر سائنس میں ہونے والی پیش رفتوں کے علاوہ علم کاسۂ سر ( قحفیات) اور مسمریزم جیسے علوم سے بھی دل چسپی رہی۔ بیبج کو '' اینالیٹیکل انجن'' پر اپنی رائے اور تجاویز دینے کے بعد بھی وہ مختلف منصوبوں پر کام کرتی رہیں۔ 1844 میں انھوں نے اپنے دوست وورونزو گریگ سے دماغ کا حسابی ماڈل تخلیق کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ دماغ میں سوچ یا خیالات کیسے پیدا ہوتے ہیں اور اعصاب احساسات کا ادراک کیسے کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہناسکیں تاہم انھوں نے کوشش ضرور کی۔ وہ الیکٹریکل انجینیر اینڈریو کروسے سے ملیں کہ اس مقصد کے لیے برقی تجربات کیسے کیے جا سکتے ہیں۔ 1851 میں، سرطان میں مبتلا ہونے سے ایک برس پہلے اپنی والدہ کو لکھے گئے ان کے ایک مکتوب سے ظاہر ہوتا تھاکہ وہ ریاضی اور موسیقی کے باہمی تعلق پر کام کر رہی تھیں۔

1834 تک ایڈا مختلف تقاریب میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگی تھیں۔ وہ رقص بھی کرتی تھیں اور حاضرین اس فن میں ان کی مہارت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ 8 جولائی 1835 کو وہ بیرن ولیم کنگ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوکر آٹھویں '' بیرونس کنگ''بن گئیں۔ ولیم کنگ سائنس داں بھی تھے۔ ان کی رہائش سرے کاؤنٹی کی ایک بڑی جاگیر میں تھی۔ یہ جاگیر انھی کی ملکیت تھی۔ ولیم کنگ اور ایڈا کی تین اولادیں ہوئیں جن کے نام بالترتیب بائرن، این ایزابیلا ( اینا بیلا، جو بعدازاں لیڈی این بلنٹ کہلائیں) اور رالف گورڈن تھے۔ 1838 میں جب ان کے شوہر ''ارل آف لولیس'' بنائے گئے تو وہ بھی ''کاؤنٹیس آف لولیس'' کہلانے لگیں۔

اگرچہ ایڈا کو دنیا کی پہلی کمپیوٹر پروگرامر کہا جاتا ہے لیکن اولین کمپیوٹر پروگرام میں ان کے حصے پر سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ 1990 میںکمپیوٹر کی تاریخ کے ماہر ایلن جی بروملے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ایڈا نے اپنے نوٹس میں جن پروگراموں کا تذکرہ کیا تھا، ایک کے سوا وہ سب پروگرام تین سے سات برس پہلے ہی بیبج نے تیار کر رکھے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے یہ پروگرام ایڈا ہی کے لیے تیار کیے تھے، اگرچہ ایڈا نے ان میں ایک خرابی ( بگ) کی نشان دہی کی تھی۔

ایلن کے مطابق نہ صرف اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ایڈا نے ''اینالیٹیکل انجن '' کے لیے کوئی پروگرام تیار کیا ہو بلکہ بیبج سے ان کی خط و کتابت ظاہر کرتی ہے کہ وہ پروگرامنگ کی الف بے سے بھی ناواقف تھیں۔ کیوریٹر اور مصنف ڈورون سویڈ نے اپنی کتاب '' دی ڈفرینس انجن''( 2001 ) میں ایلن جی بروملے کے دعوے کی تائید کی کہ وہ کام ایڈا کے نام سے شائع ضرور ہوا لیکن اس میں شامل تمام پروگرام بیبج نے پہلے ہی تیار کر رکھے تھے۔

ایلن اور سویڈ جیسے لوگوں کے دعووں سے قطع نظر سرکاری اور عوامی سطح پر ایڈا کو دنیا کی پہلی کمپیوٹر پروگرامر تسلیم کرتے ہوئے ان کی خدمات کا عملی طور پر اعتراف کیا گیا ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کے ایما پر تخلیق کی گئی کمپیوٹر لینگویج کو ایڈا لولیس ہی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ 1998 سے برٹش کمپیوٹر سوسائٹی '' ایڈا لولیس میڈل '' دے رہی ہے۔ 2008 میں اس سوسائٹی نے کمپیوٹر سائنس کی طالبات کے لیے سالانہ مقابلے کے انعقاد کا آغاز بھی کیا تھا۔ اکتوبر کے وسط میں '' ایڈا لولیس ڈے'' منایا جاتا ہے جس کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیرنگ اور ریاضی میں خواتین کے کارناموں کو اُجاگر کرنا ہے۔ برطانیہ میں انڈرگریجویٹ خواتین کے لیے ہر سال '' ایڈا لو لیس کانفرنس''منعقد کی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں