میوزک کی تعلیم کیلئے نوجوان فنکاروں نے الحمراء کا رخ کر لیا
والدین کی طرف سے اس پروفیشن کی مخالفت کے باعث ہم سے بہت سے لڑکے اورلڑکیاں چوری چھپے گٹار اوردیگرسازسیکھ رہے ہیں۔
الحمراء آرٹ کونسل کی پرفارمنگ آرٹس کے لیے کی جانیوالی کاوشوں میں سے ایک اہم کاوش الحمراء میں واقع ' کلاس روم ' بھی ہے۔
جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گائیکی کے ساتھ مختلف سازوں کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔کوئی طبلہ، بانسری، ڈھولک، ستارکی تربیت حاصل کرتا ہے توکوئی گٹار، کی بورڈ اورڈرم بجانا سیکھ رہا ہے۔اس سلسلہ میں الحمراء آرٹ کونسل نے طلباء کی تربیت کے لیے جہاں معروف اساتذہ سے معاہدہ کررکھا ہے وہیں طلباء کی فیسوں میں خصوصی رعایت بھی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کیے گئے ''ایکسپریس سروے'' میں پاکستان کے معروف گٹارسٹ سجاد طافو اوران کے شاگردوں زین، حمزہ طارق، معین، آصف علی، قیصر، ارسلان، فدا، احسن اوروکی نے اپنے خیالات کااظہار کیا۔ طلباء نے کہا کہ الحمراء کی طرف سے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں خصوصاً میوزک کے فروغ کے لیے کاوش سب کے سامنے ہے۔ یہاں قائم کلاس روم میں گائیکی اورمختلف سازوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
کالج اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداداپنی پسند کے سازوں کی تربیت کے لیے یہاں آتے ہیں اوربہت سے لڑکے اورلڑکیاں اسے اپنا پروفیشن بھی بنانا چاہتے ہیں لیکن والدین کی طرف سے اس پروفیشن کی مخالفت کے باعث ہم سے بہت سے لڑکے اورلڑکیاں چوری چھپے گٹار اوردیگرسازسیکھ رہے ہیں۔ اس مد میں الحمراء آرٹس کونسل کی طرف سے ماہانہ فیس بہت کم وصول کی جاتی ہے اورجولوگ فیس ادا نہیں کرسکتے ان کی فیس معاف بھی کررکھی ہے۔ ہم لوگ اس پروفیشن کو اپنانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے والدین کا یہ کہناہے کہ اچھی تعلیم حاصل کرو اورپھر کاروبار کرو یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت،میوزک کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔
والدین کی طرف سے ہمیں ا کثر تنقید کانشانہ بنایا جاتا ہے جسکی وجہ سے بہت سے ہمارے ساتھ کلاس ادھوری چھوڑ کرچلے بھی گئے ہیں۔ جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہاں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ عملی طور پرکام شروع کردیا ہے اورانھیں زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ طبلہ، ڈھولک اوربانسری کے مقابلے میں زیادہ ترنوجوانوںکا رجحان گٹار سیکھنے پرہے۔ یہاں پر ہم پاکستان کے معروف گٹارسٹ سجاد طافوسے گٹارکی تربیت حاصل کرتے ہیں جوہمیں گٹارجیسے مشکل سازکوبجانا سیکھا رہے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ نوٹیشن بھی سمجھاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کلاس روم میں ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں صرف گٹارہی نہیں بلکہ گائیکی اوردیگرسازوں کے بارے میں بھی خاصی معلومات فراہم کرتے ہیں ۔
ان کے ذریعے ہمیں گٹار کے 14سکیل کے بارے میںجاننے کا موقع ملا، گٹارکے سات سکیل شارپ اورسات سکیل فلیٹ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی باریکیاں ہمیں یہاں سے ہی پتہ چلی ہیں جو ہمیں گٹار کوسیکھنے میںمدد گارثابت ہورہی ہیں۔ اس موقع پرمعروف گٹارسٹ سجادطافو کا کہنا تھا کہ گٹارایک مشکل ساز ہے اورنوجوانوں کی بڑی تعداد اس کوبے حدپسند کرتی ہے۔ مغربی ممالک میں تو گٹارکوبڑی اہمیت حاصل ہے لیکن پاکستانی موسیقی میںبھی اس ساز سے استفادہ کیا جاتاہے۔ میں چالیس برس سے بطورپروفیشنل گٹارسٹ کام کررہا ہوں اورگزشتہ تین برس سے الحمراء کے کلاس روم میں گٹارکی تربیت دے رہا ہوں۔ ویسے توایک پروفیشنل گٹارسٹ بننے کے لیے پانچ سال لگ جاتے ہیں لیکن ہم یہاں بچوںکو کم وقت میں اس قابل بنارہے ہیں کہ وہ جلد ہی گٹاربجانے لگتے ہیں۔
گٹارکی تاروں سے سُر کی تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے مگرہونہارطلباء بہت تیزی کے ساتھ گٹاربجانا سیکھ رہے ہیں۔ میرے علم میںبھی یہ بات بھی آئی ہے کہ ڈیفنس سمیت دیگرپوش علاقوںمیں گٹارسیکھانے کے پرائیویٹ ادارے ایک بچے کی فیس کی مد میں ماہانہ پندرہ ہزاروصول کررہے ہیں جب کہ الحمراء میں ماہانہ فیس انتہائی کم رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے بہت سے بچے اب کالج اوریونیورسٹی کے پروگراموں میں گائیکی کے ساتھ ساتھ ساز بھی بجارہے ہیں۔ یہ بہت خوش آیندبات ہے لیکن اکثرطلباء اورطالبات اپنے والدین کی اجازت کے بغیریہاں سے گٹاراوردیگرساز سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اگروالدین کی طرف سے بچوںکو اس پروفیشن کی طرف آنے کی اجازت دیدی جائے تومجھے یقین ہے کہ یہ بچے مستقبل میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ میں بطوراستاد اس کام کو بطور مشن کررہاہوںاورجوعلم میرے پاس ہے وہ میں نوجوان نسل کو منتقل کررہا ہوں مجھے امید ہے کہ آنیوالے چند برسوں میںلوگوںکی سوچ بدلے گی اوریہاں پرفنون لطیفہ سے پیارکرنے والوں میںاضافہ ہوگا۔
جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گائیکی کے ساتھ مختلف سازوں کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔کوئی طبلہ، بانسری، ڈھولک، ستارکی تربیت حاصل کرتا ہے توکوئی گٹار، کی بورڈ اورڈرم بجانا سیکھ رہا ہے۔اس سلسلہ میں الحمراء آرٹ کونسل نے طلباء کی تربیت کے لیے جہاں معروف اساتذہ سے معاہدہ کررکھا ہے وہیں طلباء کی فیسوں میں خصوصی رعایت بھی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کیے گئے ''ایکسپریس سروے'' میں پاکستان کے معروف گٹارسٹ سجاد طافو اوران کے شاگردوں زین، حمزہ طارق، معین، آصف علی، قیصر، ارسلان، فدا، احسن اوروکی نے اپنے خیالات کااظہار کیا۔ طلباء نے کہا کہ الحمراء کی طرف سے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں خصوصاً میوزک کے فروغ کے لیے کاوش سب کے سامنے ہے۔ یہاں قائم کلاس روم میں گائیکی اورمختلف سازوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
کالج اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداداپنی پسند کے سازوں کی تربیت کے لیے یہاں آتے ہیں اوربہت سے لڑکے اورلڑکیاں اسے اپنا پروفیشن بھی بنانا چاہتے ہیں لیکن والدین کی طرف سے اس پروفیشن کی مخالفت کے باعث ہم سے بہت سے لڑکے اورلڑکیاں چوری چھپے گٹار اوردیگرسازسیکھ رہے ہیں۔ اس مد میں الحمراء آرٹس کونسل کی طرف سے ماہانہ فیس بہت کم وصول کی جاتی ہے اورجولوگ فیس ادا نہیں کرسکتے ان کی فیس معاف بھی کررکھی ہے۔ ہم لوگ اس پروفیشن کو اپنانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے والدین کا یہ کہناہے کہ اچھی تعلیم حاصل کرو اورپھر کاروبار کرو یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت،میوزک کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔
والدین کی طرف سے ہمیں ا کثر تنقید کانشانہ بنایا جاتا ہے جسکی وجہ سے بہت سے ہمارے ساتھ کلاس ادھوری چھوڑ کرچلے بھی گئے ہیں۔ جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہاں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ عملی طور پرکام شروع کردیا ہے اورانھیں زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ طبلہ، ڈھولک اوربانسری کے مقابلے میں زیادہ ترنوجوانوںکا رجحان گٹار سیکھنے پرہے۔ یہاں پر ہم پاکستان کے معروف گٹارسٹ سجاد طافوسے گٹارکی تربیت حاصل کرتے ہیں جوہمیں گٹارجیسے مشکل سازکوبجانا سیکھا رہے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ نوٹیشن بھی سمجھاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کلاس روم میں ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں صرف گٹارہی نہیں بلکہ گائیکی اوردیگرسازوں کے بارے میں بھی خاصی معلومات فراہم کرتے ہیں ۔
ان کے ذریعے ہمیں گٹار کے 14سکیل کے بارے میںجاننے کا موقع ملا، گٹارکے سات سکیل شارپ اورسات سکیل فلیٹ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی باریکیاں ہمیں یہاں سے ہی پتہ چلی ہیں جو ہمیں گٹار کوسیکھنے میںمدد گارثابت ہورہی ہیں۔ اس موقع پرمعروف گٹارسٹ سجادطافو کا کہنا تھا کہ گٹارایک مشکل ساز ہے اورنوجوانوں کی بڑی تعداد اس کوبے حدپسند کرتی ہے۔ مغربی ممالک میں تو گٹارکوبڑی اہمیت حاصل ہے لیکن پاکستانی موسیقی میںبھی اس ساز سے استفادہ کیا جاتاہے۔ میں چالیس برس سے بطورپروفیشنل گٹارسٹ کام کررہا ہوں اورگزشتہ تین برس سے الحمراء کے کلاس روم میں گٹارکی تربیت دے رہا ہوں۔ ویسے توایک پروفیشنل گٹارسٹ بننے کے لیے پانچ سال لگ جاتے ہیں لیکن ہم یہاں بچوںکو کم وقت میں اس قابل بنارہے ہیں کہ وہ جلد ہی گٹاربجانے لگتے ہیں۔
گٹارکی تاروں سے سُر کی تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے مگرہونہارطلباء بہت تیزی کے ساتھ گٹاربجانا سیکھ رہے ہیں۔ میرے علم میںبھی یہ بات بھی آئی ہے کہ ڈیفنس سمیت دیگرپوش علاقوںمیں گٹارسیکھانے کے پرائیویٹ ادارے ایک بچے کی فیس کی مد میں ماہانہ پندرہ ہزاروصول کررہے ہیں جب کہ الحمراء میں ماہانہ فیس انتہائی کم رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے بہت سے بچے اب کالج اوریونیورسٹی کے پروگراموں میں گائیکی کے ساتھ ساتھ ساز بھی بجارہے ہیں۔ یہ بہت خوش آیندبات ہے لیکن اکثرطلباء اورطالبات اپنے والدین کی اجازت کے بغیریہاں سے گٹاراوردیگرساز سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اگروالدین کی طرف سے بچوںکو اس پروفیشن کی طرف آنے کی اجازت دیدی جائے تومجھے یقین ہے کہ یہ بچے مستقبل میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ میں بطوراستاد اس کام کو بطور مشن کررہاہوںاورجوعلم میرے پاس ہے وہ میں نوجوان نسل کو منتقل کررہا ہوں مجھے امید ہے کہ آنیوالے چند برسوں میںلوگوںکی سوچ بدلے گی اوریہاں پرفنون لطیفہ سے پیارکرنے والوں میںاضافہ ہوگا۔