بُک شیلف

دلچسپ کتابوں پر ایک نظر۔


Rizwan Tahir Mubeen December 04, 2016
فوٹو : فائل

KARACHI: دل میں چبھے کانٹے
مصنف: شمیم اختر
صفحات: 276،
قیمت: 500 روپے
ناشر: راحیل پبلی کیشنز



اپنی کم شکل وصورت کی بنا پر باپ کے نظرانداز کرنے کا تذکرہ ہوتا ہے، تو وقت گزرنے کے ساتھ پدرانہ شفقت کے احساس کا بھی۔ کم سنی سے ہی کتابوں سے جو ناتا جُڑا، تو پھر کبھی نہ ٹوٹا، بہنیں گڑیا سے کھیلتیں، مگر انہیں کتابیں ہی راس آتیں۔ آنہ لائبریری سے ناول لے کر پڑھتیں، اسکول کی چھٹیوں میں گملے میں لگے ہوئے پودوں کی دیکھ بھال کی فکر ہوتی اور وہ ان پودوں کو اپنے گھر لے آتیں۔

یہ تذکرہ ہے 'اخبار خواتین' کی سابق مدیرہ اور انعام یافتہ کہانیوں کی تخلیق کارہ شمیم اختر کی یادداشتوں کا۔ بقول نام وَر صدا کار رضا علی عابدی یہ ان کے دور کی سوانح ہے۔ اِبلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر توصیف احمد نے اسے مصنفہ کی روایتی جرأت کا مظہر قرار دیا ہے۔ کتاب کی ورق گردانی کیجیے، تو پرانے زمانے کی روایتوں کا بیان ہے۔ اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے اور نشست وبرخاست کے آداب۔۔۔ یہاں تک کہ ملازموں کو بھی نوکر کے بہ جائے 'مددگار' کہنا سکھلایا گیا۔

کہتی ہیں کہ 'ماؤں کو بچوں کی پرورش کو اولین ترجیح بنانا چاہیے، اگر میرے بچے ہوتے، تو میں ان کی پرورش کرتی، یہ کام نہ کرتی، دنیا کا سب سے مشکل کام بچوں کی پرورش ہے۔'' کتاب کے تقریباً 90 صفحات کے بعد 'اخبار خواتین' کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ مشرق اخبار سے اخبارخواتین کے اجرا اور اردو صحافت میں اس کا کردار اور طباعت واشاعت کے حوالے سے قابل قدر مواد موجود ہے۔ کتاب کے یہ مندرجات اردو اخبار کے محققین کے لیے یقیناً ایک اہم حوالے کے طور پر کام آئیں گے اور عام قارئین کے لیے بھی دل چسپی کا باعث ہیں۔

صرف ایک پُل
مصنف: عابدہ رحمان
صفحات: 136،
قیمت: 300 روپے
ناشر: مہر در پبلی کیشن، کوئٹہ


عنوان میں 'پُل' محبت ہے۔ ناول کی خواندگی کے اوائل میں عشق کی ایک عام سی داستان کی پرتیں اس کے آخری حصے میں کھلتی ہیں۔ نہایت عام فہم اور سادہ زبان میں لکھے گئے، اس ناول کو پچاس سے زائد چھوٹے چھوٹے عنوانات تلے استوار کیا گیا ہے۔ ناول زیادہ تر اپنے مرکزی کردار کے گرد گھومتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیش تر حصہ انہی کی گفتگو، فون کال، موبائل پیغامات اور خود کلامی پر محیط ہے۔ نسلی بنیاد پر 'محبت' کی کہانی کے دل دوز انجام کے ساتھ ہجر کا کرب جب دکھ انسانی کے سمندر میں گھل جاتا ہے، تو ایک نئے احساس کا جنم ہوتا ہے۔

درمیان میں عقیدت میں رنگی ایک روحانی جھلک بھی موجود ہے۔ ہجر کے بعد رفتہ رفتہ محبت کا دکھ خلق خدا کی غربت وافلاس، بھوک اور بے گھری کے اَلم کے آگے پَس پا ہو جاتا ہے۔ نفسیات میں اس ردعمل کو ایک خاص مقام حاصل ہے کہ جب انسان کوئی گھاؤ کھاتا ہے، تو کس طرح پھر اس کا متبادل یا مماثل کردار کا چناؤ کرتا ہے۔ زندگی میں محبت کس دل میں نہیں ہوتی، لیکن دنیا میں بہت کچھ آڑھے آکر اسے پرے کر دیتا ہے، بہت سے دل ہجر کے اَلم میں تہہ وبالا ہو جاتے ہیں، جب کہ کچھ دل اس محبت کے وسیلے سے کچھ 'سنور' جاتے ہیں۔ اس ناول کا ڈھب بھی کچھ ایسی ہی تبدیلی کی کتھا ہے۔

نامعلوم افراد کی معلوم کہانی
مصنف: ابن عاصی
صفحات: 64،
قیمت: 100 روپے
اہتمام: مثال پبلشرز، امین پور بازار، فیصل آباد


اردو میں مختصر کہانیوں یا افسانچوں کا سلسلہ سعادت حسن منٹو سے جاری ہے۔ موجودہ زمانے میں اسے بھرپور قوت سے مہمیز دینے میں مبشر علی زیدی کا نام نمایاں ہے، مختصر نویسی میں انہوں نے 100 لفظوں کی بندش کو اپنا طرۂ امتیاز بنایا، جسے اب سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر باقاعدہ کئی لکھاریوں نے اختیار کرلیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب اگرچہ ایسی ہی مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے، لیکن لفظوں کی گنتی سے ماورا ہے۔ سماج میں پھیلے ہوئے عنوانات کے ساتھ اس میں عصری موضوعات بھی بہ خوبی استوار ہیں۔

ورق اُلٹیے، تو اس مختصر کہانیوں کے نپے تلے مجموعے کے لیے نوجوان افسانہ نگار اقبال خورشید کے ایک لفظی خراج ''متاثرکن!'' سے متفق ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ خود کو منٹو کی طرح روسی کہانیوں سے متاثر قرار دینے والے مصنف کا یہ کہنا بجا ہے کہ 'لطائف، حکایت اور اقوال کو الٹ، پلٹ، توڑ مروڑ اور گھما پھرا کے، افسانچے سے بنا کر پیش کر کے، اس خوب صورت صنف سے زیادتی کی جا رہی ہے۔' 31 کہانیوں کے اس گُل دستے میں شامل کہانیاں ایک معاصر روزنامے کے ادبی صفحے کے علاوہ کچھ ویب سائٹس کی زینت بھی بنتی رہی ہیں۔

تحقیقات اور تہذیبیں
مصنف: اللہ رکھیو ساگر سومرو
صفحات: 144،
قیمت: 400 روپے
ناشر: فکشن ہاؤس


نہایت پُرکشش اور بھرپور سرورق سے آراستہ اس کتاب میں شامل مضامین 'ایکسپریس' کے صفحات کی زینت بنتے رہے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ابّا نے فرمائش کی تھی کہ ''صحافی بنو گے، تو پھر کتاب بھی لکھنا ہوگی۔'' سو 25 برس بعد وہ اسے پورا کر پائے اور کتاب کو انہی سے منسوب کیا۔ کوچۂ صحافت سے تو 1991ء میں وابستہ ہو گئے تھے، لیکن باقاعدہ لکھنے لکھانے کو راہ 'ایکسپریس' میں بلدیاتی مسائل کو ضبط تحریر میں لانے سے ملی۔

مزید لکھنے کی تحریک ہوئی اور یہ سلسلہ ادارتی صفحے تک جا پہنچا۔ مصنف کے بقول ''ان مضامین میں مختلف شعبہ ہائے زندگی، مذاہب، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، منطق، جمہوریت، سوشل ازم اور کمیونزم سمیت انتظامات معاشرت ونظام ہائے تمدن، قانون بین الاقوام، عالمی ادارے کے اجزائے ترکیبی اور ترجیحات و ترغیبات پر بحث وتجزیہ اور ان کے نتائج بیان کرنے پر زور دیا گیا ہے۔''

اقبال کے مکالمات اور اقوال زریں
مولف: تحسین ادیب
صفحات: 167،
قیمت: 250 روپے
ناشر: توکل اکیڈمی، اردو بازار، کراچی


اس کتاب میں کلام اقبال سے 50 سے زائد مختلف موضوعات کو الگ، الگ عنوان تلے ترتیب دیا گیا ہے، جس سے قاری کے لیے کسی بھی امر پر اقبال کی فکر تک رسائی انتہائی سہل ہو جاتی ہے۔

'معروضات' میں مصنف بتاتے ہیں کہ زیرنظر تالیف 43 برس قبل مکمل کر لی گئی تھی، لیکن بوجوہ منصۂ شہود پر نہ آسکی۔'' اس کتاب میں مختلف احساسات کا بیان ہے، تو عبادات سے لے کر کردار کی بلندی تک بھی کتنے ہی موضوعات دراز نظر آتے ہیں۔ نیکی وبدی کے رویے ہیں، تو مظاہر قدرت کا بیان بھی خوب ہے۔ معاشرت کے مسائل ہیں، تو سیاسی امور کا تذکرہ بھی۔۔۔ کتاب پر سجاد سخن رقم طراز ہیں کہ مصنف نے پہلی مرتبہ مجھے اقبالیات کی عظیم مقصدیت کی اثرانگیزی اور اہمیت کا شعور دیا ہے۔''

اقبال اور معارف اسلام
مصنف: گوہر ملسیانی
صفحات: 416،
قیمت: 600 روپے
ناشر: توکل اکیڈمی، اردو بازار، کراچی


اس کتاب میں شعائر اسلام، تشخص، تصور تقدیر اور اتحاد عالم اسلام سے لے کر قرآن مجید اور انبیائے کرام کے حوالے سے الگ، الگ ابواب باندھے گئے ہیں۔ ہر باب کے آخر میں حوالہ جات اور کتاب کے اختتام پر کتابیات بھی دی گئی ہے۔ کلام اقبال پر قرآنی آیات سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔ عقیدہ توحید اور تصور رسالت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف رقم طرا زہیں کہ ''ابھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ کتنی اور تصانیف ذہن وشعور کو زرخیز کریں گی، کیوں کہ تخلیقات اقبال کے ابھی کتنے گوشے ہیں، جو تشنۂ تشریح ہیں۔'' ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں ''گوہر ملسیانی نے فکر اقبال کے روحانی گوشوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عرق ریزی سے مطالعہ کیا ہے۔''

شہید صحافت، ارشاد مستوئی
ترتیب وتراجم: عابد میر
صفحات: 100،
قیمت: درج نہیں
اہتمام: مہردر پبلی کیشنز، کوئٹہ



2009ء میں گوادر میں ایک ہوٹل میں قیام کے دوران ارشاد مستوئی نے سگریٹ کھڑکی سے باہر پھینکنا چاہا، تو ان کا ہاتھ گیارہ ہزار وولٹ کی ٹرانسمیشن لائن سے ٹکرا گیا۔۔۔ نتیجتاً دایاں ہاتھ ناکارہ ہوگیا اور چہرہ جھلس گیا۔ ارشاد مستوئی نے ہمت جمع کی اور بائیں ہاتھ سے لکھنا اور کمپیوٹر پر کام کرنا شروع کردیا، 2010ء میں کوئٹہ میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں بھی شدید گھائل ہوئے اور پھر 28 اگست 2014ء کی شام انہیں دفتر میں پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران دو ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ وہ جیون کی نقدی کے فقط 37 برس پا سکے! ان کا شمار 2014ء میں جان سے گزرنے والے 14 صحافیوں میں درج ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں ارشاد مستوئی کے قتل کے بعد لکھے جانے والے 19 مضامین اور تین اداریوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ہر مضمون کے آخر میں حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ایک انگریزی روزنامے نے اُس وقت بھی ارشاد مستوئی پر اداریہ رقم کیا تھا، جب کراچی آرٹس کونسل میں انہوں نے محض نو سال کی عمر میں اپنے اندازخطابت سے محفل لوٹ لی تھی۔۔۔ بلوچستان کے نام وَر ادیب آغا گُل کہتے ہیں،''جس نے سچ لکھا وہ مارا گیا، چاہے کسی بھی لسانی گروہ یا نظریاتی طبقے کا انسان رہا ہو۔ ان کے جنازوں کو کندھا دیتے دیتے میں تو کبڑا ہو گیا ہوں، مگر کبھی کسی کا قاتل نہ پکڑا گیا'' آگے لکھتے ہیں کہ ''اور پھر یوں ہوا کہ میں نے دیکھا کہ سچ کی آواز کو ایدھی ٹرسٹ والے تابوت میں سلا رہے ہیں۔ کیا لکڑی کا تابوت سچ کی آواز روک لے گا؟''

ریڈیو پاکستان میں تیس سال
مصنف: انور سعید صدیقی
صفحات: 548، قیمت: 795 روپے
ناشر: راحیل پبلی کیشنز، کراچی


'دارالحکومت اسلام آباد گیا، تو بنگالی ہم وطنوں کو اس 'دوری' کا بہت زیادہ احساس ہوا۔۔۔' 'مولانا کوثر نیازی اپنی تقاریر اور بیانات کے ابتدائیے بھی ریڈیو اور ٹی وی والوں کو فون کر کے لکھوایا کرتے۔۔۔' 'لالو کھیت پر ایک بار تھکن دور کرنے کے واسطے مالشیے کی خدمات لیں، اس نے ایسی مالش کی کہ وہ سوگئے، اور صبح کی خبر لائے، آنکھ کھلتے ہی جیب ٹٹولی کہ تنخواہ بھی اسی روز ملی تھی، تنخواہ محفوظ تھی، لیکن سامنے کی جیب میں پانچ کے نوٹ کے بہ جائے تین روپے تھے، یعنی مالیشیے نے ایمان داری سے صرف اپنا محنتانہ وصول کیا، انہیں جگانا مناسب نہ سمجھا۔' یہ سب احوال زیرتبصرہ کتاب سے ماخوذ ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ کتاب فقط پیشہ ورانہ بپتا پر محیط نہیں، بلکہ اس میں مصنف نے دیگر دل چسپ اور قابل حوالہ امور کو بھی بہ خوبی قلم بند کیا ہے۔ کتاب کے مزید اوراق دیکھیے، تو جاوید جبار کی زمانہ طالب علمی کی انگریزی فلم کا تذکرہ بھی ملتا ہے، جو نارتھ ناظم آباد کی اُن پہاڑیوں پر عکس بند ہوئی جنہیں گذشتہ کچھ برسوں سے 'کٹی پہاڑی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مزید اوراق ٹٹولیے، تو صحافیوں کو کوڑے مارے جانے کی بازگشت بھی ملتی ہے، اُس زمانے میں غلطی کو بھی بدنیتی سمجھا جاتا تھا۔ یہ کتاب ریڈیو سے وابستگی کے اُس دور کی کتھا ہے، جب عملی صحافت میں باقاعدہ اس شعبے کے سند یافتہ افراد کی آمد شروع ہوئی، کیوں کہ جامعات میں اس سے پہلے اس شعبے کی طرف خاطرخواہ توجہ نہ تھی۔ کرنل (ر) اشفاق حسین کے بقول کتاب کے عنوان میں 'ریڈیو' کا لفظ اضافی ہے، یہ تو پورے پاکستان کی کہانی ہے۔ مصنف کے بقول ''یہ نہ آپ بیتی ہے، نہ مکمل جگ بیتی اور اس عرصے کی تاریخ، یہ صرف میرے مشاہدات، تاثرات، تجربات اور ان واقعات پر مبنی ہے، جس کا کوئی نہ کوئی سرا ذرایع اِبلاغ خصوصاً ریڈیو سے ملتا ہے۔''

اردو خاکہ نگاری (فن، تاریخ، تجزیہ)
مرتب: شاہد حانئی
صفحات: 575،
قیمت: 1000 روپے
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی


اس کتاب میں اردو خاکہ نگاری سے متعلق اہم مضامین کا انتخاب شامل ہے، جن میں سے کچھ مضامین مرتب کے زور قلم کا نتیجہ بھی ہیں۔ کتاب میں خاکہ نگاری کے فنی لوازمات، اوصاف، اقسام، ارتقا اور اس کے کچھ تاریخی اور ادبی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ خاکہ نگاری ایک ایسی تحریر ہے، جس میں خاکہ نگار کسی شخصیت کی لفظی تصویر بنانے کے واسطے اس کا ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ قاری کے پردۂ تصور پر اس کی ایک واضح شبیہ سی بن جاتی ہے۔ یہی نہیں اس واسطے سے خاکہ نگار جو اشارات، تشبیہات، تلمیحات اور استعارے برتتا ہے، وہ باذوق قارئین کو بے حد لطف دیتے ہیں۔

یہی وہ خصوصیت ہے، جو اسے ادب کی دنیا میں اپنا ایک جدا مقام عطا کرتی ہے۔ کتاب کے آخری 200 سے زائد صفحات، مصنف کے ذخیرے میں موجود خاکہ نگاری کی کتب کے اشاریے پر مشتمل ہیں، جس سے یہ کتاب خاکہ نگاری سے شوق رکھنے والے قارئین، طالب علم اور محققین کے لیے ایک اہم حوالے کی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔

سماجی ہم آہنگی، رواداری اور تعلیم
مرتیبن: سجاد اظہر، احمد اعجاز
صفحات: 198، قیمت: 100 روپے
ناشر: پاک انسٹی ٹیوٹ فو رپیس اسٹڈیز


معاشرہ مختلف الخیال لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں نسلی اور لسانی تنوع بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ایک دوسرے سے تعاون اور استفادے میں کچھ دقتیں پیش آتی ہیں۔ کچھ جھجھک آڑے آتی ہے، شاید غلط فہمیوں کے بیج بو جاتے ہیں، یا شاید مکالمہ نہ ہونے کی بنا پر صورت حال شدید ہو کر دست وگریباں ہونے اور کشت وخون تک پہنچ جاتی ہے۔

اپنے سماج پر نگاہ دوڑائیں تو یہ سب باتیں کسی نہ کسی طور دکھائی دے جاتی ہیں، چوں کہ سب ایک سماج کے باسی ہیں، تو اب ہم آہنگی پیدا ہو تو کیوں کر؟ اسی فکر کو لے کر مختلف جامعات کے اساتذہ، مفکرین اور دانش وَروں کے درمیان باقاعدہ بیٹھک کرائی گئی۔ زیرتبصرہ کتاب ایسی ہی تین نشستوں کی روداد پر پھیلی ہوئی ہے، جس میں تین پروگرام بالترتیب ''بلوچستان اور سندھ'' ، ''سرحد، فاٹا اور گلگت بلتستان'' اور ''پنجاب اور آزاد کشمیر'' کے اہل شعور کے مکالمے کا احاطہ کیا گیا ہے۔

جنت ارضی، استنبول
مصنف: اقبال مانڈویا
صفحات: 160،
قیمت: 300 روپے
ناشر: شیری پرنٹنگ


عقیدت اور محبت میں گندھے ہوئے احوال میں 'وٹس اِیپ' پر گھر والوں سے رابطہ اور 'یو ایس بی' کے ذریعے طے ہونے والے کتاب کی اشاعت کے مراحل بھی شامل ہیں، جس سے مصنف کی بے ساختگی جھلکتی ہے۔ تہذیب اسلامی کے مرکز ہونے کا اعتراف ہر لمحہ حاوی رہتا ہے، مگر اپنے دیس سے دوری کا ادراک بھی نہیں چُھپتا کہ جب لوٹتے ہیں، تو اپنے 25 دن کے 'روزے' کا تذکرہ کرتے ہیں، جسے بہادرآباد کے پان سے 'افطار' کرکے تمام کرتے ہیں۔ سفری احوال کے ساتھ تاریخی مقامات کا پس منظر بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مسعود پاریکھ کے بقول 'یہ سفرنامہ یک نشستی سفرنامہ کہلانے کا مستحق ہے۔' کتاب مجلد اور سفید کاغذ پر شایع کی گئی ہے۔

سہ ماہی اردو ادب
(اپریل تا جون 2016ء)
مدیر اعلیٰ: صدیق الرحمن قدوائی
صفحات: 208،
قیمت: 75 روپے
اہتمام: انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی


زبان کی ترقی کے لیے میدان ادب میں بڑھوتری بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اسی بنا پر محدود دائرے کے باوجود ادبی جرائد کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ بالخصوص ہندوستان میں اردو کو ہندی (دیوناگری رسم الخط) کی سخت مسابقت کا سامنا ہے، کہ سرکار کا جھکاؤ دوسری طرف زیادہ نظر آتا ہے۔ ایسے میں وہاں کے اردو اخبارات اور کتب ہی نہیں، بلکہ ادبی جرائد کو کسی سوغات کی طرح محسوس کیا جاتا ہے۔

اداریہ حقیقت حال پر یوں اظہار غم کرتا ہے کہ ''بہت سے رسالوں کے سرورق بدل کر ایک ساتھ رکھ دیجیے، تو پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ الگ الگ رسالے ہیں۔'' مدیر کا یہ رنج فقط سرحد کے اُس طرف تک محدود نہیں، سرحد پار اِس طرف بھی صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس پرچے میں شمس الرحمن فاروقی، معین الدین عقیل، اطہر فاروقی، مہرافشاں فاروقی، ناصر عباس نیّر، جاوید احمد خورشید، اورنگ زیب نیازی، خالد امین، شاہ عالم، آصف نورانی کے رشحات قلم کے علاوہ ارجمند آرا اور ڈاکٹر نریش کے ترجمے بھی شامل ہیں۔ یہ ساٹھویں جلد کا 238 واں شمارہ ہے، جسکے آخر میں تمام اہل قلم کے نام، مع پتے اور برقی مراسلت درج کیے گئے ہیں، جو کہ ہمیں ایک قابل ذکر روایت معلوم ہوئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں