نئی شاہراہ ریشم کی دنیا میں دھوم

چینیوں کے عزم واستقلال کی منہ بولتی تصویر ایک رفیع الشان منصوبے کا ولولہ انگیز قصّہ


سید عاصم محمود December 04, 2016
چینیوں کی زبردست معاشی ترقی کا اہم راز یہ ہے کہ انہوںنے سبھی ممالک سے دوستانہ اور امن پسندانہ تعلقات رکھے ہیں۔ فوٹو : فائل

انویتادت معروف بھارتی فلمی کہانی کار اور نغمہ نگار ہے۔ اس نے 2010ء کی فلم، تیس مار خان میں بہ عنوان ''ہیپی اینڈنگ'' ایک گانا لکھا تھا۔ اس کے امید افزا بول ہیں:''سب کا بھلا ہو' سب کا صحیح ہو' اپنا بھی لیکن سب سے صحیح ہو' ہم سے نہ اوپر کوئی کہیں ہو' سب کا بھلا ہو' سب کا صحیح ہو۔''یہ بول چین کے عظیم الشان معاشی منصوبے ''نئی شاہراہ ریشم''(New Silk Road ) کی غرض و غایت بخوبی اجاگر کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ کا یہ نہایت رفیع الشان ' دیو ہیکل اور پُر شکوہ منصوبہ اصطلاح میں ''ون بیلٹ ون روڈ''(One Belt, One Road) کہلاتا ہے' مگر اس سے وابستہ ماہرین اور ہنرمند اسے نئی شاہراہ ریشم کے نام سے پکارنا پسند کرتے ہیں۔ یہ جدید منصوبہ پرانی شاہراہ ریشم کے مانند ہی وسیع و عریض ہے' فرق بس یہ کہ ماضی میں اس شاہراہ پر اونٹوں کے قافلے ریشم' قیمتی پتھر ' کھالیں' مصالحے' خوراک ' ملبوسات وغیرہ لاتے، لے جاتے تھے' اب ٹرکوں' ریل گاڑیوں اور بحری جہازوں کے ذریعے مشینوں' کمپیوٹروں' موبائلوں ' پرزہ جات اور تیل وغیرہ کی تجارت ہو گی۔ ماضی کی شاہراہ ریشم میں چین اہم پڑاؤ کی حیثیت رکھتا تھا جبکہ جدید شاہراہ ریشم میں تو اسے مرکزی مقام حاصل ہو چکا۔ یہ اعلیٰ مقام پانے میں چینیوں کو کڑی محنت کرنا پڑی جس کی داستان سبق آموز ہے۔

بحری سفر سست رفتار،فضائی خاصا مہنگا
بیسویں صدی کی پہلی پانچ دہائیوں میں چین جنگ وجدل کا نشانہ بنا رہا۔ اکتوبر 1949ء میں کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھال لیا۔ تب سرکاری خزانہ تقریباً خالی تھا۔ حکومت کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے۔ ماؤزے تنگ سمیت اکثر کمیونسٹ لیڈر سادگی و قناعت کا مرقع تھے۔ لہٰذا وہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی حکومت کرتے رہے۔ آہستہ آہستہ حالات کچھ بہتر ہوئے اور چین صنعت وتجارت میں ترقی کرنے لگا۔ 1978ء میں نئے چینی لیڈر 'ڈینگ زیاؤ پنگ کی معاشی اصلاحات نے ترقی کا پہیہ تیزی سے چلا دیا۔

آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا۔اس کا جی ڈی پی 19 ٹرلین ڈالر (انیس ہزار ارب ڈالر) سے زیادہ مالیت رکھتا ہے۔ چین کی بدولت ہی دنیا کے اکثر ممالک کی معیشت نشوونما پا رہی ہے۔ وہ ہر سال تقریباً22ہزار ارب ڈالر کا سامان برآمد کرتا ہے جس میں الیکٹریکل مشینری ' کمپیوٹر' موبائل ' ملبوسات وغیرہ شامل ہے۔ جبکہ وہ تقریباً 16ہزار ارب ڈالر کا سامان باہر سے منگواتا ہے۔ غرض چین کے د م قدم سے بھی دنیا کی معیشت رواں دواں ہے۔

چین اپنا بیشتر سامان بحری یا ہوائی جہازوں کے ذریعے منگواتا ہے۔ بحری سفر سست رفتار ہے جبکہ فضائی سفر خاصا مہنگا! لہٰذا چینی حکومت درمیانی راہ کے متعلق سوچنے لگی۔ تبھی یہ خیال سامنے آیا کہ چین کو شاہراہوں ' ریل پٹڑیوں اور مختصر سمندری راستوں کے ذریعے ایشیائی' یورپی اور افریقی ممالک سے جوڑ دیا جائے۔ یہی خیال''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے کا پیش خیمہ بن گیا۔

نئی منڈیوں کی تلاش
تاہم یہ خیال نیا نہیں تھا۔ دراصل سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہوا۔ تب وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں نئی ریاستیں وجود میں آئیں اور نقل و حمل کے نئے راستے کھل گئے۔تبھی 1993ء میں ایشیا اور یورپ کے چودہ ممالک نے ایک بین الاقوامی ٹرانسپورٹ معاہدے،ٹریسیا '' TRACECA''(Transport Corridor Europe Caucasus Asia) پر دستخط کیے۔ معاہدے کا مقصد رکن ممالک کو سڑکوں اور ریل پٹڑیوںکے جال کی صورت باہم منسلک کرنا تھا۔ اس کو ''اکیسویں صدی کی شاہراہ ریشم'' کا نا م دیا گیا۔ معاہدے کے رکن ممالک میں یوکرائن' رومانیہ' مولڈوا ' جارجیا' بلغاریہ' آرمینیا' آذربائیجان' ترکی ' قازقستان' ایران' کرغزستان' ازبکستان' تاجکستان اور ترکمانستان شامل تھے۔

چین کی معیشت میں بڑھوتری ہوئی' تو چینی بھی ''نئی شاہراہ ریشم'' کے نظریے سے متاثر ہوئے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے طریقے سوچنے لگے۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ چین نے 2001ء میں فیصلہ کیا کہ گوادر بندرگاہ بنانے میں پاکستان کی مدد کی جائے۔ ظاہر ہے' تب چینی حکومت کو احساس تھا کہ مستقبل میں گوادر بندرگاہ ان کے کام آ سکتی ہے۔

چین جوں جوں معاشی طاقت بنا' امریکا اس سے خطرہ محسوس کرنے لگا۔ امریکی حکمران طبقے کو دنیا پر حکمرانی کی چاٹ لگ گئی ہے۔ وہ دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنا چاہتاہے۔ اسی لیے جب کوئی اور قوت اسے چیلنج کرنے لگے' تو امریکا درپردہ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتا ہے۔ امریکا نے ایک چال یہ اختیار کی کہ بین الاقامی تنظیموں میں چین کو قدم جمانے نہیں دیئے اور اس کی حیثیت کمتر رکھی۔ حالانکہ معاشی طاقت بن جانے کے بعد چین کو تمام عالمی اداروں میں اہمیت ملنی چاہیے تھی۔

چینیوں کی زبردست معاشی ترقی کا اہم راز یہ ہے کہ انہوںنے سبھی ممالک سے دوستانہ اور امن پسندانہ تعلقات رکھے ہیں۔ یوں کسی بکھیڑے میں الجھے بغیر وہ خاموشی سے معاشی ترقی کرتے رہے۔ لیکن صدر بارک اوباما کی آمد کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ کھل کر مختلف معاملات پر چینیوں سے منہ ماری کرنے لگی ۔ خاص طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ' بحیرہ جنوبی چین دونوں بڑی قوتوں کے مابین وجہِ نزاع بن گیا۔ امریکا کی خفیہ و عیاں دھمکیوں کے بعد ہی چین نے فیصلہ کیا کہ اب عسکری طور پر بھی مضبوط ہوا جائے۔ چناںچہ 2010ء کے بعد سے چینی حکومت نت نئے ہتھیار بنانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کرنے لگی۔ امریکا چین کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ لیکن امریکی حکمران طبقے کی چال بازیوں سے متنفر ہو کر چین نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں نئی منڈیاں تلاش کی جائیں تاکہ چینی معیشت محض امریکا پر انحصار نہ کرے۔ یہ معاملہ بھی چین کے نئی شاہراہ ریشم منصوبے کو عملی شکل دینے کا سبب بن گیا۔

ساٹھ ممالک تک پھیلا منصوبہ
2013کے وسط میںنئے چینی صدر،زی جن پنگ نے ایشیائی و یورپی ممالک کادورہ کیا۔ انہی دوروں کے دوران انہوں نے ''ون بیلٹ' ون روڈ'' پروجیکٹ کا اعلان کیا ۔ چینی حکومت اس زبردست منصوبے کے ذریعے مختلف ممالک میں شاہراہیں، بندرگاہیں، تیل و گیس کی پائپ لائنیں، ریل پٹڑیاں بنا اور فائبر کیبلز بچھاکر چین کو یورپ، ایشیا اور افریقہ سے منسلک و مربوط کرنا چاہتی ہے۔ ایک رپورٹ کی رو سے چین کا یہ منصوبہ ''60 ممالک'' تک پھیلا ہوا ہے۔

ون بیلٹ ون روڈ المعروف بہ نئی شاہراہ ریشم منصوبے کی تکمیل کے لیے اربوں ڈالر درکار تھے۔ چین نے اس ضمن میں عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ سے مالی مدد مانگی مگر ان مالیاتی اداروں پر امریکا کی اجارہ داری ہے اور امریکی حکومت چینی منصوبے کی شدید مخالف ہے۔ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو ایشیا، یورپ اور افریقہ میں چین کا اثرورسوخ دوچند ہوسکتا ہے۔جبکہ امریکا کا دائرہ کار ماند پڑجائے گا۔ اسی خدشے کی بنا پر امریکا نے اپنے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں کو نئی شاہراہ ریشم میں حصہ لینے سے روک دیا۔

امریکی حکمران طبقے کی شاطرانہ چالوں سے عاجز آکر آخر چینی حکومت نے دسمبر 2015ء میں اپنے ایک مالیاتی ادارے، ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی بنیاد رکھ دی۔ یہ ادارہ محض اس لیے قائم کیا گیا تاکہ مختلف ممالک میں جاری نئی شاہراہ ریشم کے منصوبوں کو سرمایہ فراہم کیا جاسکے۔ تادم تحریر پاکستان سمیت دنیا کے 57 ممالک اس بینک کے رکن بن چکے۔ ان میں روس، جرمنی، فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور برازیل جیسے اہم ممالک بھی شامل ہیں۔

پاکستان کا کردار
دلچسپ بات یہ کہ محض پانچ برس قبل یورپ میں چین کے نئی شاہراہ ریشم منصوبے کو دیوانے کی بڑ سمجھا جاتا تھا۔ یورپی حکمرانوں اور ماہرین کا کہنا تھا کہ ایشیا اور یورپ کے مابین زبردست جغرافیائی رکاوٹیں حائل ہیں... وہ کیونکر دور ہوں گی؟چناں چہ انھوں نے منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے ڈالا۔ مگر چینیوں کے عزم و استقلال،ہنرمندی، زبردست محنت اور جرأت مندانہ فیصلوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔ ان کی شاندار کامیابیوں کے پیچھے ایک لحاظ سے پاکستان کا بھی کردار ہے۔

دراصل 1959ء سے لے کر 1979ء تک چینی اور پاکستانی انجینئر و ماہرین قراقرم سلسلہ ہائے کوہ میں ایک شاہراہ بنانے میں مصروف رہے۔ یہ نہایت کٹھن اور جاں جوکھم کا کام تھا۔ یہی وجہ ہے، اس کی تعمیر کے دوران 810 پاکستانی اور 200 چینی ماہرین حادثوں کے باعث اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شاہراہ قراقرم کہلانے والے اسی راستے پر پاکستانی درہ خنجراب واقع ہے جہاں سے چین کی سرحد شروع ہوتی ہے۔یہ دنیا میں پختہ سڑک کی حامل بلند ترین بین الاقوامی بارڈر کراسنگ گزرگاہ ہے۔ پہاڑوں میں شاہراہ قراقرم بنانے سے چینی انجینئروں اور ماہرین کو بیش بہا تجربہ حاصل ہوا۔ چناں چہ وہ اس قابل ہوگئے کہ دیگر بلند سلسلہ ہائے کوہ میں بھی سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر راستے بناسکیں۔ چینیوں کا فن تعمیر 2006ء میں درجہ کمال تک جا پہنچا جب انہوں نے تبت کے صدر مقام، لہاسہ تک ریل پٹڑی بنا ڈالی اور ہرکس وناکس سے داد پائی۔

چناں چہ جب نئی شاہراہ ریشم پروجیکٹ شروع ہوا تو چین اپنے بیشتر پڑوسیوں سے بذریعہ شاہراہ یا ریل پٹڑی کوئی نہ کوئی تعلق قائم کرچکا تھا ۔جبکہ بعض ممالک کے اشتراک سے شاہراہ یا ریل پٹڑیوں کی تعمیر جاری تھی۔ اسی لیے نئے پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے میں زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑی، پہلے سے موجود راستے خود بخود اس کا حصہ بن گئے۔

سال رواں کے آغاز میں آخر یورپی ممالک پر افشا ہوا کہ چین کا نئی شاہراہ ریشم منصوبہ محض چینیوں کو فائدہ نہیں پہنچائے گا بلکہ یہ 60 سے زائد ممالک پر مشتمل ایک وسیع و عریض تجارتی منڈی تشکیل دے رہا ہے۔ اس منڈی سے تو ہر قوم ونسل کا فرد مستفید ہوسکتا ہے۔ اربوں انسانوں پر مشتمل اس دیوہیکل منڈی میں چین ہی نہیں ہر ملک کی بنی اشیا فروخت ہو سکیں گی۔ اس حقیقت نے تمام بڑے یورپی ملکوں کو بھی عظیم الرفعت چینی منصوبے میں شامل ہونے پر مجبور کردیا۔

یورشیا کا نیا عظیم الشان خطہ
اب صورت حال یہ ہے کہ چین سے لے کر پولینڈ تک اور جارجیا سے لے کر سری لنکا تک چہار جانب نئی شاہراہ ریشم پروجیکٹ کے تحت مختلف نوعیت کی تعمیرات جاری ہیں۔ چین ان تعمیرات پر ایک ٹرلین ڈالر (ایک سو کھرب ڈالر) خرچ کرچکا۔ ان تعمیرات کی بدولت نہ صرف نئے شہر وجود میں آرہے ہیں بلکہ ایک نیا وسیع جغرافیائی خطہ بھی ظہور پذیر ہوچکا جسے ''یورشیا'' (Eurasia) کا نام دیا گیا ہے یعنی ایشیا اور یورپ کا مجموعی علاقہ!یورشیا کی اہمیت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اس خطے میں دنیا کی ''70'' فیصد آبادی قیام پذیر ہے۔

نیز یہیں تیل و گیس کے ''75فیصد'' قدرتی وسائل واقع ہیں۔ مزید براں خطے کے ممالک دنیا کا 70 فیصد جی ڈی پی رکھتے ہیں۔ غرض جب بھی نئی شاہراہ ریشم پروجیکٹ مکمل ہوا، دنیا میں ایک عظیم الشان تجارتی منڈی وجود میں آجائے گی جو معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی،سیاسی اور معاشی اثرات کی حامل بھی ہو گی۔ جغرافیائی سیاسیات کے مشہور یورپی ماہر، پروفیسر کارل غیان کا کہنا ہے ''نئی شاہراہ ریشم منصوبے کے باعث اب یورپ میں ''یورشیا'' کی اصطلاح عام استعمال ہونے لگی ہے۔ پانچ سال قبل اس کا وجود تک نہ تھا۔ ایک طرف یورپ تھا اور دوسری سمت ایشیا! درمیان میں وسطی اور جنوبی ایشیا واقع تھے جہاں پس ماندہ لوگ رہتے ہیں۔ مگر اب یورپی ماہرین یورشیا کو ایک براعظم قرار دینے لگے ہیں۔''

صرف ایک قدم...
جیسا کہ شروع میں بتایا گیا، نئی شاہراہ ریشم منصوبے کے سلسلے میں چینی حکمران طبقے کا وژن یہ ہے کہ اپنا تو صحیح ہو ہی، دوسروں کا بھی بھلا ہو۔ منصوبے کے ذریعے وہ پس ماندہ چینی صوبوں کے علاوہ ترقی پذیر ایشیائی اور افریقی ممالک کو بھی پھلنے پھولنے کا سنہرا موقع دے رہے ہیں۔ چونکہ اس منصوبے پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کر رہا ہے، لہٰذا قدرتاً زیادہ فائدہ بھی اسے ہی پہنچے گا۔پاکستان اوردیگر ممالک میں ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ چین منصوبے کے ذریعے دنیا میں اپنی نو آبادیاں تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک کو بھاری قرضے دے کر انھیں اپنے جال میں پھنسا رہا ہے۔

بعض کے نزدیک پاکستان میں جاری پروجیکٹ کا ذیلی منصوبہ، پاک چین اقتصادی راہداری ناکام ہو جائے گا۔گویا جتنے منہ ہیں،اتنی ہی باتیں ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان سمیت تمام ممالک عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں۔ لہٰذا چین سے قرضے لینے میں کیا ہرج ہے؟ نیز چین کبھی نو آبادیاتی طاقت نہیں رہا اور نہ ہی موجودہ چینی حکمران ایسے عزائم رکھتے ہیں۔ جبکہ موجود عالمی مالیاتی ادارے تو مغرب کی سابق نو آبادیاتی طاقتوں کے اوزار ہیں۔ امریکا سمیت اکثر مغربی طاقتیں ان کی مدد سے سابقہ نوآبادیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے مخالفین کو سمجھنا چاہیے کہ ہر بڑا منصوبہ کئی برس کی پیہم جدوجہد کے بعد مکمل ہوتا ہے۔جب درخت تناور ہو جائے،تبھی پھل دیتا ہے۔ہمارے اور چینیوں کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ہم باتیں کرنے میں یدطولی رکھتے ہیں اور وہ عملی قدم اٹھانے میں! مشہور ضرب المثل ہے کہ ہزاروں میل پہ محیط سفر کا آغاز صرف ایک قدم اٹھانے سے شروع ہوتا ہے۔بلومبرگ نیوز(Bloomberg News) امریکا کا مشہور خبررساں اداراہ ہے۔اس کے ایک حالیہ مضمون(China's New Silk Road Hinges on a Small Pakistan Port)میں دعوی کیا گیا ہے کہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ پاکستانی بندرگاہ،گوادر فعال ہو جائے۔یہ حقیقت گوادر کی بڑھتی اہمیت آشکارا کرتی ہے۔

زبردست تعمیراتی سرگرمیاں
قابل ذکر بات یہ کہ ترقی پذیر ممالک میں چینی سرمائے سے سڑکیں،ریل پٹڑیاں، بجلی گھر،پائپ لائنیں، بندرگاہیں وغیرہ بن رہی ہیں۔ ان زبردست تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے ہر ملک کی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا اور وہ ترقی کرے گی۔ جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کے فراہم کردہ قرضے عموماً کرپٹ حکمران طبقہ چٹ کر جاتا ہے۔ ان قرضوں کی معمولی رقم ہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوپاتی ہے۔ جبکہ نئی شاہراہ ریشم سے متعلق منصوبے بین الاقوامی سطح پر ٹرانسپورٹ، توانائی (Energy) اور ٹیلی کمیونیکیشن کے اہم شعبوں میں انقلاب لارہے ہیں۔

ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک میں جاری درج بالا منصوبوں کے ذریعے تیز رفتار ریل گاڑیاں چلانے کی خاطر ''19 ہزار کلو میٹر'' طویل نئی پٹڑیاں بچھائی جارہی ہیں۔ جبکہ ''60 ہزار کلو میٹر'' طویل شاہراہیں زیر تعمیر ہیں۔ مزید براں ''ایک سو'' نئے ہوائی اڈے بھی بن رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کئی نئے شہر تعمیر ہورہے ہیں تاکہ وہاں لاکھوں ٹن وزنی مال کی نقل و حمل کی بھاری بھرکم سرگرمیاں انجام پاسکیں۔

چین بہت سے ایشیائی اور یورپی ممالک مثلاً قازقستان، پاکستان، آذربائیجان، تاجکستان، جارجیا، پولینڈ وغیرہ کی بھر پور مالی و تکنیکی مدد کررہا ہے تاکہ وہ شاہراہیں، ریل پٹڑیاں، بندرگاہیں اور لاجسٹک مراکز تعمیر کرسکیں۔ جب بھی یہ انفراسٹرکچر مکمل ہوا، چین تا یورپ اور افریقہ ایک نیا اور وسیع تجارتی ٹرانسپورٹ نیٹ ورک وجود میں آجائے گا۔ تب طویل فاصلے مسئلہ نہیں رہیں گے اور بھاری سے بھاری سامان بھجوانا یا منگوانا بھی سہل کام بن جائے گا۔

پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت
اب پاک چین اقتصادی راہداری ہی کو دیکھیے جو کچھ حد تک فعال ہوچکی۔ چین کی برآمدات میں سرفہرست تیل ہے جو وہ مشرق وسطیٰ سے خریدتا ہے۔فی الوقت خام تیل سے بھرے بحری جہاز خلیج فارس، بحیرہ عرب، بحرہند، آبنائے ملا کا اور بحیرہ جنوبی چین کا طویل سمندری سفر طے کرکے شنگھائی پہنچتے ہیں جہاں بیشتر چینی آئل ریفائنریاں واقع ہیں۔ خلیج فارس سے شنگھائی تک کا سمندری سفر تقریباً 10 ہزار کلو میٹر پر محیط ہے جو کئی ہفتوں بعد اختتام پذیر ہوتا ہے۔ لیکن خلیج فارس پر واقع تمام بندرگاہیں پاکستانی بندرگاہ، گوادر سے چند سو کلو میٹر ہی دور ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری جب بھی فعال ہوئی، تو مشرق وسطیٰ سے تیل جبکہ افریقہ سے دیگر مال وسامان پہلے گوادر پہنچے گا۔ چینی پھر وہاں سے اپنا مال براستہ کاشغر شنگھائی اور دیگر شہروں میں لے جائیں گے۔ گوادر سے شنگھائی تک کا فاصلہ بذریعہ ریل یا سڑک 7500 ہزار کلو میٹر ہے۔ گویا پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر سے نہ صرف 2500 ہزار فاصلہ گھٹ جائے گیا بلکہ مال بھی جلد اور بہ حفاظت اپنی منزل تک پہنچے گا۔جنوبی بحیرہ چین میں تو امریکی جنگی جہاز منڈلانے لگے ہیں۔

چینی حکومت کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ایک سیاسی وجہ سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل بن چکا۔ جنگجو اور قوم پرست نئے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اور چین کے مابین کشیدگی بڑھنے کا قوی امکان ہے۔ گویا بحیرہ جنوبی چین میں دونوں سپرپاورز کے درمیان بحری جنگ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ لہٰذا چین کی کوشش ہوگی کہ وہ متبادل راستوں سے اپنی بین الاقوامی تجارت بحال رکھے۔ ان راستوں میں پاک چین اقتصادی راہداری بھی شامل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگائیے کہ چین وسطی ایشیا کے تمام ممالک پر ''31 ارب ڈالر'' خرچ کررہا ہے۔ مگر پاکستانی منصوبے کے لیے ''46 ارب ڈالر'' رکھے گئے ہیں۔

سب کا بھلا، سب کی خیر
چین کی سرگرم کوششوں کے باعث نئی شاہراہ ریشم منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تاہم راہ میں کئی مشکلات بھی حائل ہیں۔ ان میں سرفہرست علاقائی تنازعات ہیں۔ مثال کے طور پر آرمینیا اور آذربائیجان کی دشمنی کے باعث کوہ قاف کا علاقہ پُرسکون گزرگاہ نہیں بن سکا۔ اسی طرح روس جارجیا اور یوکرائن سے نبردآزما ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں بھارت پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ دراصل یہ منصوبہ چین اور پاکستان دونوں کو معاشی طور پر مضبوط بناسکتا ہے۔ بھارت ایسی صورتحال کو اپنے لیے بوجوہ خطرہ سمجھتا ہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ قوم پرستی کے رجحانات کو تقویت ملنے کی وجہ سے پوری دنیا میں نئی دیواریں تعمیر ہونے لگی ہیں۔ یورپ کے اکثر ممالک اپنی سرحدیں بند کررہے ہیں تاکہ غیر ملکی پناہ گزینوں یا مہاجرین کو آنے سے روک سکیں۔ مزید براں یورپی انتہا پسند یورپ میں اسلامو فوبیا بھی ابھارنے میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں آزادانہ تجارت کے راستے میں رکاوٹیں درپیش آسکتی ہیں۔

ان تمام مسائل اور مشکلات کے باوجود چین کا نئی شاہراہ ریشم منصوبہ رفتہ رفتہ پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔ امید واثق ہے کہ تکمیل کے بعد یہ چین سے لے کر برطانیہ اور جنوبی افریقہ تک سیکڑوں ممالک کو ترقی و خوشحالی کی نئی راہ پر گامزن کر دے گا۔ معاشی بہتری آنے سے کئی ممالک میں خانہ جنگی، انتہا پسندی اور غربت کا خاتمہ ہوگا اور وہاں امن و امان قائم ہونے میں مدد ملے گی۔ انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ جدید چینی فلسفہ ''سب کا بھلا، سب کی خیر'' عام ہوجائے اور وہ انسانوں کے درمیان آنے والی بہت سی منفی اور نفرت انگیز خود ساختہ رکاوٹیں مٹاڈالے۔
ریلوے کا محیر العقول عالمی نظام
دنیا میں زرمبادلہ کے ذخائر سب سے زیادہ چین کی ملکیت ہے۔ ان کی مالیت تقریباً ساڑھے تین ٹریلین ڈالر ہے۔ اسی بے پناہ رقم کے سہارے چینی حکومت نے نہ صرف دیوہیکل نئی شاہراہ ریشم پروجیکٹ کا آغاز کیا بلکہ دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں مستقبل شناس چینیوں نے کوئی نہ کوئی تعمیری منصوبہ شروع کررکھا ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ اکثر عالمی سرمایہ کار ادارے اور افراد چینی منصوبوں میں وسیع پیمانے پر پیسا لگا رہے ہیں کیونکہ انہیں عمدہ منافع ملنے کی توقع ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال سنگاپور کے سرکاری ڈویلپمنٹ بورڈ نے فیصلہ کیا کہ نئی شاہراہ ریشم کے منصوبوں پر 22 ارب ڈالر کی خطیر رقم صرف کی جائے۔



ریل کی نئی پٹڑیاں بچھانے کے منصوبے چینی حکومت کے عالمی وژن کا اہم حصہ ہیں جن کی مدد سے وہ کئی ممالک کو ایک تجارتی نیٹ ورک کے ذریعے جوڑنا چاہتی ہے ۔ وجہ یہ کہ ریل گاڑی مال و اسباب کی ترسیل کا تیز رفتار اور ہوائی جہاز کی نسبت بہت سستا ذریعہ ہے۔یہی وجہ ہے، چینی حکومت اپنے ملک میں اربوں ڈالر خرچ کرکے نئی ریل پٹڑیاں بنارہی ہے۔ 2020ء تک چین میں ریل پٹڑیوں کی کل لمبائی ''ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر'' تک پہنچ جائے گی۔ یہ تب دنیا میں سب سے زیادہ بڑا ریلوے نیٹ ورک ہوگا۔

چین کی توجہ اب ہائی سپیڈ ریل پٹڑیاں بنانے پر مرکوز ہے۔ ان جدید ترین پٹڑیوں پر ریل ''200 تا 250کلو میٹر فی گھنٹہ'' کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ گویا کراچی تا راولپنڈی ہائی سپیڈ ریل پٹڑی تعمیر ہوجائے، تو مسافر سات آٹھ گھنٹے میں اپنی منزل تک پہنچ جائے گا۔ چین میں فی الوقت ایسی 19 ہزار کلو میٹر طویل پٹڑیاں تعمیر ہوچکیں۔ 2020ء تک ان کی طوالت تیس ہزار کلو میٹر تک پہنچ جائے گی۔

چین' پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ریلوے کا قومی نظام بہتر بنانے میں پاکستان کی بھی معاونت کررہا ہے۔ پروگرام کے مطابق ابتدائی طور پر موجودہ ریل پٹڑیوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا تاکہ گاڑیاں ان پر تیزی سے سفر کرسکیں۔ اس ضمن میں شاہدرہ (لاہور) تا پشاور ڈبل ٹریک بچھایا جائے گا۔ منصوبے کا ایک اہم منصوبہ گوادر تا کاشغر ریل پٹڑی بچھانا ہے۔ یہ نیا ریلوے راستہ ''پاک چین ریلوے'' کہلائے گا۔ اس ضمن میں پہلے گوادر تا کوئٹہ ریل پٹڑی تعمیر ہوگی۔ پھر کوئٹہ سے بذریعہ ژوب ریل پٹڑی دریا خان (ڈیرہ اسماعیل خان) پہنچے گی۔ یوں وہ مرکزی ریلوے نیٹ ورک سے جڑ جائے گی۔

اگلے مرحلے میں حویلیاں تا درہ خنجراب ریل پٹڑی بچھے گی۔ یہ فاصلہ 522 کلو میٹر بنتا ہے۔ یہ ریل پٹڑی ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالا کوٹ، کاغان، چلاس، گلگت، کریم آباد، پاسو اور سوست سے ہوتے درہ خنجراب پہنچے گی۔ اس کے بعد درہ خنجراب سے کاشغر تک پٹڑی بچھانے کا مرحلہ شروع ہوگا۔ پاک چین ریلوے کی فزیبلٹی رپورٹ کا کام جاری ہے۔

چین جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکا، افریقہ اور یورپ میں بھی نئی ریل پٹڑیاں بچھانے میں مختلف ممالک کی مالی و تکنیکی معاونت کررہا ہے۔ چینی صدر نے اعلان کیا ہے کہ چین لاطینی امریکا کی تعمیر و ترقی کے لیے اگلے دس برس میں ''250 ارب ڈالر'' خرچ کرے گا۔ اس سلسلے میں چین برازیل کے بارانی جنگلوں میں ہائی سپیڈ ریل پٹڑی بچھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ریل پٹڑی کئی برازیلی شہروں کو باہم منسلک کردے گی۔

حال ہی میں چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی، شین ہوا نے افشا کیا ہے کہ چینی حکومت کے تعاون سے افریقا میں ''ایک ہزار منصوبے'' مکمل ہوچکے۔ ان منصوبوں کے ذریعے 2233 ہزار کلو میٹر طویل ریل پٹڑیاں بچھائی گئیں جبکہ 3350 ہزار کلو میٹر طویل نئی شاہراہیں تعمیر ہوئیں۔ چین کا منصوبہ یہ ہے کہ پٹڑیوں، شاہراؤں اور پلوں کے ذریعے چون افریقی ممالک کو منسلک کردیا جائے ۔



یورپ چین کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ اس لیے چینی بذریعہ سڑک اور ریل یورپ تک پہنچنے کے لیے خصوصی اقدامات کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بڑا منصوبہ یہ ہے کہ ریل پٹڑیوں، شاہراہوں اور پائپ لائنوں کا ایسا نیٹ ورک تخلیق کیا جائے جو وسطی چین میں واقع شہر، زیان (Xian) سے شروع ہوکر یورپی ملک، بلجیم تک دراز ہو۔ مزید براں وسطی چین ہی میں واقع شہر، یوو (Yiwu) سے ریل پٹڑی بچھانے کا تاریخ ساز کام بھی شروع ہوچکا۔

چین یوو سے اسپین کے دارالحکومت، میڈرڈ تک مال بردار ریل چلانا چاہتا ہے۔ یہ فاصلہ تقریباً دس ہزار کلو میٹر (6111 میل) بنتا ہے۔ تکمیل کے بعد یہ دنیا کا طویل ترین ریلوے راستہ بن جائے گا۔ یہ موجودہ طویل ترین ریلوے، ٹرانس۔ سائبیرین ریلوے سے 741 کلو میٹر زیادہ لمبا ہوگا۔یوو تا میڈرڈ جانے والی مال بردار ریل قازقستان، روس، پولینڈ، جرمنی اور فرانس سے ہوتے ہوئے سپین پہنچے گی۔ یوں چینیوں کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ اس کارگو ریل سے یورپ کے ہر ملک کو اپنا مال بجھوا سکیں۔ ریل 21 دن میں اپنا ایک چکر مکمل کرے گی جبکہ سمندری راستے سے یہ سفر ڈیڑھ ماہ میں ختم ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں