بے نظیر اوربلاول نے پارٹی کو سر کے بل کھڑا کردیا
شخصیات نظریات سے برتر ہوگئیں‘ نوازشریف‘ عمران اوردینی جماعتیں سب کا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام ہے
سابق وزیر خزانہ اور پیپلز پارٹی کے بانی رکن مبشر حسن کی زندگی کے چند گوشے ۔ فوٹو : فائل
BERLIN:
سیاستدان اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن ان شخصیات میں شامل ہیں جو آج سے تقریباً نصف صدی قبل پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ قومی اُفق پر نمودار ہوئیں۔ اس وقت سے وہ پاکستان کی قومی زندگی میں سرگرم ہیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں 1974ء تک وفاقی وزیر خزانہ رہے۔ صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا کام ان کی وزارت کے دور میں شروع ہوا۔ پھر وہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔
انیس سو اسی کی دہائی میں آپ نے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر پاکستان میں ایسے سیاسی نظام حکومت کا تصورپیش کیا جس میں اقتدار اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں۔ آپ گزشتہ تقریباً پچیس برس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کے لیے پس پردہ غیر رسمی سفارت کاری میں مصروف رہے۔ اس سفارت کاری کے نتیجہ میں ہی2003 ء میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ وجود میں آیا۔ وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ ان کی کئی کتب بھی شائع ہوچکی ہیں جن میں 'شاہراہ انقلاب' اور 'پاکستان کے جعلی حکمران طبقے' نمایاں ہیں۔
غالب اور میر کی شاعری سے بہت شغف ہے۔ دونوں شاعروں پر کتب بھی لکھی ہیں۔ سیاسی اور معاشی امور پر ڈاکٹر مبشر حسن کے خیالات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ تاہم ان کی نجی زندگی کے بارے میں معلومات کبھی سامنے نہیں آئیں۔ پچانوے سالہ ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی نجی اور سیاسی زندگی کے بارے میں ایک طویل انٹرویودیا ہے جسے ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ ذیل میں اس انٹرویو کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب آپ اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: میری پیدائش جنوری 1922ء میں پانی پت میں ہوئی۔ میرے والد کا نام منور حسن تھا اور والدہ کا بدرالحسن۔ ہم پانچ بہن بھائی تھے۔ دو بھائی اور تین بہنیں۔ تینوں بہنیں بڑی تھیں اور بھائی چھوٹے تھے۔ ہمارا خاندان خواجگان پانی پت کہلاتا تھا۔ والد اور والدہ دونوں کا تعلق اسی خاندان سے تھا۔ پانچویں پشت پر میرے اور مولانا الطاف حسین حالی کے جد امجد ایک ہیں۔ ہمارے اور الطاف حسین حالی کے خاندانوں میں شادیاں بھی ہوئیں۔ غلام السیدین کے خاندان سے بھی ہمارا رشتہ ہے اور ان کے خاندان سے تعلق بھی زیادہ تھا۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں۔
میرے والد حیدرآباد دکن میں پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرار تھے۔ ان کا 1937ء میں انتقال ہوا۔ چونکہ میرے والد تو حیدرآباد میں رہتے تھے اس لیے میری قربت میری ماں سے زیادہ تھی۔ میرے ایک چچا لطیف حسن انجینئر تھے اور انڈین سروس آف انجینئرز (آئی ایس ای) سے 1922ء میں ریٹائرمنٹ لے کر پانی پت آگئے تھے۔ ان کے اپنے بچے نہیں تھے۔ مشترکہ خاندان کے سب بچے انہیں اچھے بابا کہتے تھے۔
وہ کنبہ کے تمام بچوں کے لیے باپ کا رتبہ رکھتے تھے۔ پانی پت میں ہمارا خاندان زمیندار تھا۔ پانی پت میں زراعت بہت ترقی یافتہ تھی۔ اس زمانے میں بھی مصنوعی کھادوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ پاکستان آکر بھی ہمیں زرعی زمینیں ملیں۔ اسی لیے میری شخصیت کسی حد تک فیوڈل ہے گو میں نے ترقی پسند نظریات اختیار کیے۔ پانی پت میں ہمارے گھر بے شک دوسروں سے بڑے تھے لیکن سب لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ تیلی' قصائی اور جولاہے بھی اسی جگہ رہتے تھے۔ سب کے گھر ساتھ ساتھ تھے۔ پاکستان آکر ہم اوروں کے مقابلہ میں ایلیٹ بن گئے۔ محلے الگ الگ ہوگئے۔
سوال: آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ڈاکٹر مبشر حسن:میں نے 1937ء میںمسلم ہائی اسکول پانی پت سے میٹرک کیا۔ مجھ سے پہلے ہمارے خاندان کے بچے پانی پت کے جین ہائی اسکول جایا کرتے تھے۔ میرے سکول کے ایک کلاس فیلو تصور علی حیدر تھے جو بہت ذہین طالب علم تھے۔ وہ بات چیت کرنے میں بہت ماہر تھے لیکن انہوں نے زیادہ ترقی نہیں کی۔ وہ انفارمیشن سروس میں چلے گئے اور بعد میں حکومت پاکستان کے انفارمیشن آفیسر رہے۔ میں نے 1939ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔
اس زمانے میں لاہور میں پنجاب انجینئرنگ کالج ہوتا تھا جو بعد میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) بن گیا۔ میں نے 1940ء میں وہاں داخلہ لیا اور سول انجینئرنگ کا تین سالہ بی ایس سی پروگرام 1942ء میں پاس کیا۔ اس کالج کے ہمسائے میں سکھ نیشنل کالج اور اس کے تین ہاسٹلز تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سکھ کالج اور اس کے ہاسٹلز کی سب عمارتیں بھی انجینئرنگ کالج کا حصہ بن گئیں۔ 1943ء میں مجھے محکمہ اریگیشن (انہار) میں ایس ڈی او کے طور پر ملازمت مل گئی۔ میری تعیناتی امرتسر سب ڈویژن میں ہوئی جہاں میں 1945ء تک کام کرتا رہا۔
سوال: لگتا ہے آپ کے والد اور چچا اس وقت بھی اعلی تعلیم یافتہ تھے جب مسلمانوں میں جدید تعلیم کا رواج عام نہیں تھا۔ یہ کیسے ہوا؟
ڈاکٹر مبشر حسن: اس بات کا سہرا میرے دادا حیدر حسن کے سر ہے۔ وہ ایک بصیرت والے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے شریف حسن کو میڈیکل پڑھنے بھیج دیا۔ دوسرے اور تیسرے کو انجینئرنگ میں بھیجا۔ چوتھے میرے والد پڑھ لکھ کر حیدرآباد دکن میں ملازمت کرنے لگے اور پانچویں اختر حسن تحصیلدار تھے جن کے بیٹے مہدی حسن ( استاد اور دانشور) ہیں۔
سوال: آپ کے خاندان کا ماحول کیسا تھا؟ ان کے خیالات کیا تھے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: ہمارے خاندان کا شیعہ اثنا عشری (اخباری) مسلک تھا۔ تاہم بزرگوں میں کئی معاملات پر بحث مباحثہ رہتا تھا۔ ان کی کئی موضوعات پر اپنی آزادانہ الگ الگ رائے ہوا کرتی تھی۔
میرے نانا اور ماموں محمد ابرہیم بڑے مذہبی عالم تھے۔ انہوں نے لکھنؤ اور مکہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ میرے اندر مذہب بزرگوں کی باتوں سے خاص طور سے اپنی والدہ سے داخل ہوا بہ نسبت اس کے کہ فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے اور فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے۔ میری ماں جانورووں کے بڑے حق میں تھیں۔ کہتی تھیں کہ یہ بے زبان ہیں۔ اُن کے دل میں جانوروں کے لیے بڑا رحم تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سب جانور اپنی اپنی بولی میں خدا کی حمد کرتے ہیں۔ وہ کہتی تھیں کہ چیل کہتی ہے کہ 'صبحم قدوسم' اور تیترخدا کی تعریف میں یہ کلمہ پڑھتا ہے کہ' سبحان تیری قدرت'۔ نیل کنٹھ کے بارے مہں کہا جاتا تھا 'نیل کنٹھ نیلا رہیو۔ میری بات خدا سے کہیو۔' چچا لطیف حسن بھی جانوروں سے بہت محبت کرتے تھے۔ والدہ اور چچا کی صحبت میں مجھے بھی جانوروں سے لگاؤ ہو گیا۔
سوال: جب آپ سکول اور کالج میں تھے تو ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کے لیے اور پاکستان کے قیام کے تحریک چل رہی تھی۔ کیا ماحول تھا؟ آپ کے گھر میں کیا رائے تھی؟
ڈاکٹر مبشر حسن: ہمارے گھر میں میرے بڑے بھائی ڈاکٹر شبر حسن کے سوا سب پاکستان کے حق میں تھے۔ ڈاکٹر شبر کا لیڈر جواہر لال نہرو تھا۔ ڈاکٹر شبر حسن نے جین ہائی سکول سے میٹرک کیا تھا اور پھر علی گڑھ کالج سے بی ایس سی کیا۔ وہاں ان کے دوستوں میں انصار ہاروانی شامل تھے جو بعد میں کانگریس کے بڑے رہنما بن گئے۔ سوشلسٹ دانشور سبط حسن بھی ان کے دوستوں میں تھے۔ 1935ء کا سال ہمارے گھر میں بہت اہم تھا۔ اس سال میں ہمارے خاندان کے لوگوں کے خیالات میں تبدیلی آگئی۔ ہم ہندئووں سے دُور ہوگئے۔ ڈاکٹر شبر حسن کانگریسی رہے لیکن میں مسلم لیگ کی طرف آگیا۔ یہ سال ہمارے گھر میں تبدیلی کا سال تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ تبدیلی کیوں آئی تھی۔
اصل میں اس سال جناح کے کانگریس کے لیڈروں سے سب مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔ گاندھی سے بھی اور سبھاش چندر بوس سے بھی۔ اسی سال ہمارے گھر میں یہ فیصلہ ہوا کہ ہمارے خاندان کے بچے جین اسکول کے بجائے مسلم ہائی اسکول جائیں گے۔ اسی سال سردی کے دنوں میں پانی پت میں مولانا حالی کی صدی منائی گئی۔ اس میں شرکت کے لیے نواب آف بھوپال بھی آئے۔ حیدرآباد کے وزیرراعظم سر اکبر حیدری، راس مسعود اور شاعر حفیظ جالندھری آئے۔ علامہ اقبال بھی اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے اور ہمارے گھر پر ٹھہرے۔
اس زمانے میں یہ نعرہ چلا کہ پھانسی دے دو گاندھی کو کھٹے سیب کے پیڑ پر۔ گاندھی کی مسلمانوں سے ساری گفتگو ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے شیڈول کاسٹ سے کہا کہ وہ بھی ہندو ہیں حالانکہ وہ کبھی ہندووں میں شامل نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ سال انگریز اور ہندووں کی دوستی کے تھے۔ مسلمانوں کی چھٹی ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں کانگریس کے بڑے بڑے جلوس نکلا کرتے تھے۔ انگریز نے گاندھی سے اروون پیکٹ بھی کیا تھا۔
سوال: آپ اپنے بھائی ڈاکٹر شبر کی طرح پڑھنے کے لیے علی گڑھ کیوں نہیں گئے' لاہور کیوں آئے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: ڈاکٹر شبر حسن لاہور میں کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ لے چکے تھے۔ گھر والوں نے سوچا کہ دونوں بھائی ایک شہر میں رہیں۔ اس لیے میرا داخلہ بھی گورنمنٹ کالج لاہور مین فرسٹ ائیرمیں کرادیا گیا۔ شروع میں ہم دونوں کچھ عرصہ نیلا گنبد پر واقع ماہ نورہوٹل میں رہے۔ اس کا کرایہ ڈیڑھ روپے روزانہ تھا۔ بعد میں شبر حسن کنگ ایڈورڈ کے میکلوڈ روڈ پر نئے بننے والے گروم ہوسٹل میں چلے گئے۔
کچھ عرصہ میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ رہا۔ بعد میں گورنمنٹ کالج کے کواڈرینگل ہوسٹل منتقل ہوگیا جسے اقبال ہوسٹل بھی کہتے ہیں کیونکہ علامہ اقبال وہاں رہتے تھے۔ جمعہ کے روز ہوسٹل میں پلاؤ اور شامی کباب بنتے تھے۔ میں وہ شوق سے کھاتا تھا۔ مجھے سولہ برس کی عمر سے سانس کی تکلیف شروع ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں پف اور نیبولائزر تو دُور کے بات ہے اس مرض کی دوا بھی نہیں تھی۔ پلاؤ اور شامی کباب کھانے سے مجھے سانس کے تکلیف شروع ہوجایا کرتی تھی لیکن میں یہ کھاتا ضرور تھا۔
سوال: گورنمنٹ کالج میں آپ کی تعلیم کے علاوہ کیا سرگرمیاں تھیں؟ کون دوست تھے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: جب میں گورنمنٹ کالج میں ابھی داخل ہی ہوا تھا کہ ادبی سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک مباحثہ ہوا۔ میں نے اس میں اپنے کزن غلام السیدین کے اسٹائل میں تقریر کردی۔ ایک ایک لفظ الگ الگ۔ مجھے پہلا انعام مل گیا۔ وہ تقریر لکھی تو کسی اور نے تھی۔ میں نے تو یاد کرکے اچھی طرح پڑھ دی تھی۔ پھر ایسا موقع آیا کہ ایک موضوع پر فی البدیہہ بولنا تھا تو مجھے بھی حصہ لینے کے لیے بلایا گیا۔ اس میں مضمون ملا کہ پیش از مرگ واویلا تو میں کچہ نہ کہہ سکا۔ بالکل فیل ہوگیا۔ اس زمانے میں مظہر علی خان (معروف صحافی) گورنمنٹ کالج کے اسٹار تھے۔ وہ ایم اے میں تھے اور کالج کی ڈبیٹنگ ٹیم میں تھے۔ وہ سارے ہندوستان سے میڈل جیت کر لایا کرتے تھے۔
شبر حسن کی حمید نظامی اور سی آر اسلم سے دوستی تھی۔ حمید نظامی اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے۔ ان تینوں نے مل کر اخبار بھی نکالا' نوائے وقت۔ انیس سو پینتالیس میں شبر حسن اس اخبار سے الگ ہوگئے لیکن حمید نظامی سے دوستی برقرار رہی۔ حمید نظامی کے کلاس فیلوز میں بعد میں چیف جسٹس بننے والے انوارالحق اور مشاہد حسین کے والد شامل تھے۔ سی آر اسلم اس وقت بھی کمیونسٹ تھے۔
حمید نظامی بہت ادبی ذوق کے آدمی تھے۔ ادبی جریدوں میں ان کے افسانے چھپتے تھے۔ اس زمانے میں حمید نظامی کے ساتھ میں نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں شرکت کی لیکن میں اس تنظیم کا رکن نہیں تھا۔ نہ میں نے اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ میرا لاہور میں طالب علمی کا زمانہ دوسری جنگ عظیم کا دور تھا۔ میں نے ریڈیو اور اخباروں کے ذریعے ساری جنگ فالو کی۔ لاہور میں سول ملٹری گزٹ اور اسٹیٹس مین دو بڑے انگریزی اخبار تھے۔ ان میں جنگ کی سب بڑی خبریں چھپا کرتی تھیں۔ اس وقت میں کسی سیاسی سرگرمی یا تحریک میں شامل نہیں ہوا۔ اپنی پڑھائی میں لگا رہا۔
سوال: آپ کی پہلی ملازمت امرتسر میں تھی۔ یہ شہر کیسا لگا؟
ڈاکٹر مبشر حسن: امرتسر کے مسلمان مضبوط تھے۔ اس وقت مسلمانوں کا تناؤ ہندوؤں سے تھا۔ سکھوں سے تناؤ اُس وقت ہوا جب 1947ء قریب آیا اور ان کا ایک بے وقوف لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کانگریس کے ساتھ مل گیا۔ جب میں امرتسر گیا تو مجھے شہر کے اچھے حصہ میں رہنے کے لیے مکان نہیں ملا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم مسلمان کو مکان نہیں دیتے۔ مکان ڈھونڈا اور کرایہ طے ہوگیا۔
جب انہیں پتہ چلا کہ میں مسلمان ہوں تو انہوں نے انکار کردیا۔ میں پہلے کچھ دن امرتسر کے ایک ہوٹل میں رہا اور بعد میں ریسٹ ہاؤس میں۔ بھارت کے فیلڈ مارشل بننے والے مانک شا کے باپ ڈاکٹر مانک شا بھی ان دنوں اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں بیمار ہوگیا تو انہوں نے میری دیکھ بھال کی۔ مانک شا پارسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب میں انڈیا گیا تو میری مانک شا کی بیٹی سے دلی میں ان کے گھر پرملاقات ہوئی۔
سوال: کیا محکمہ انہار میں اس وقت بھی آج کی طرح کرپشن تھی؟
ڈاکٹر مبشر حسن: اس وقت محکمہ اری گیشن میں نچلی سطح پر کرپشن تھی۔ جو رینکرز یا اوورسئیر کے عہدے سے ترقی پا کر افسر بنتے تھے ان میں کرپشن زیادہ تھی لیکن براہ راست ایس ڈی او بننے والوں میں کرپشن کم تھی۔ ایکسئین کے دفتر والے بل پاس کرنے کی رشوت لیتے تھے لیکن ایکسئین اور ایس ای رشوت نہیں لیتے تھے۔ البتہ اگر کوئی بڑا کام ہو جیسے کسی بڑی نہر پر پل بن رہا ہو تو اس میں رشوت ہوتی تھی۔ رشوت کا ریٹ کم تھا۔ کل رقم کا دو تین فیصد۔
سوال: آپ نے ڈاکٹریٹ کہاں سے کی؟
ڈاکٹر مبشر حسن: میں اعلی تعلیم کے لیے نومبر 1945ء میں امریکہ چلا گیا تھا۔ میں نے کولمبیا یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں ایم ایس سی کی۔ اس ڈگری کے لیے میں نے اتنی ریسرچ کی جو بعد میں میری پی ایچ ڈی میں بھی کام آئی۔ کولمبیا یونیورسٹی میں میرے پروفیسر ایک روسی تھے جو لینن کے انقلاب سے پہلے امریکہ میں روس کے سفیر تھے۔ وہ اپنے زمانے میں دنیا بھر میں مشہور ہائیڈرولک انجینئر تھے۔ انقلاب کے بعد انہیں نئی حکومت نے فارغ کردیا تو وہ کولمبیا میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔
کولمبیا میں تعلیم کے حصول کے دوران میں مجھے پٹس برگ کی فارن سوسائٹی نے ایک تقریری مباحثہ کے لیے بلایا جو ریڈیو پر نشر ہوا۔ وہاں میں نے ہندوستان کی تقسیم کے حق میں دلائل دیے۔ میں دوسری بار پچاس کی دہائی میں پی ایچ ڈی کرنے امریکہ (آئیووا)گیا۔ میں نے سول انجینئیرنگ اور ہائیڈرولک کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کی۔ اس شعبہ میں یہ تعلیم حاصل کرنے والا میں پہلا پاکستانی تھا۔ اس دورہ میں میری ملاقات ڈاکٹر زینت حسین سے ہوئی جو آیئووا کے ایک ہسپتال میں کام کرتی تھیں۔1954ء میں میری ان سے امریکہ میں ہی شادی ہوگئی اور وہ میرے ساتھ پاکستان آگئیں۔
سوال: آپ کا خاندان پاکستان کب آیا؟
ڈاکٹر مبشر حسن: جب میں امریکہ گیا تو محکمہ اریگیشن کا ملازم تھا۔ مارچ 1948ء میں امریکہ سے واپس لاہور آیا تو میرا سارا خاندان' والدہ اور بہنیں پہلے ہی لاہور آچکے تھے۔ چچا لطیف حسن کا تو انتقال ہوچکا تھا۔ میرے بھائی شبر حسن اعلی تعلیم کے لیے اس وقت لندن گئے ہوئے تھے۔ حمید نظامی ہمارے خاندان کو پانی پت سے بحفاظت لاہور لائے۔ ان کی اور میرے بہنوئی حبیب علی کی کوششوں سے ہمیں ۱۱۔ ٹمپل روڈ کا مکان الاٹ ہوا۔
سوال: پاکستان پہنچ کر بھی آپ اریگیشن میں ملازمت کرتے رہے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: نہیں۔ 1948ء میں کوشش کرکے میں محکمہ انہار سے ڈپیوٹیشن پر پنجاب انجینئرنگ کالج میں ٹیچر بن کر چلا گیا۔ حمید نظامی اور شوکت حیات نے اس ٹرانسفر کے لیے میری مدد کی کیونکہ اریگیشن والے مجھے چھوڑنے پر رضا مند نہیں تھے۔ میں اریگیشن سے کالج میں جانا چاہتا تھا کیونکہ میرا لاہور میں اپنی والدہ اور بہنوں کے پاس رہنا ضروری تھا۔ صرف 325 روپے تنخواہ تھی۔ اگر میں لاہور سے باہر جاتا تو گزارا کیسے ہوتا۔ کچھ دنوں بعد سینئر لوگوں کی تخواہ پانچ سو روپے ہوگئی تو میری تنخواہ بڑھ گئی اور ہمارا گزارا ہونے لگا۔
جنرل ایوب خان کا دور آیا۔ میں ان کے خلاف تھا اور طالبعلموں میں مقبول تھا۔ حکومت مجھ سے ناخوش تھی کہ میں ان کی ہر بات نہیں مانتا۔ حالات دیکھتے ہوئے میں نے ملازمت سے استعفی دے دیا۔ نواب آف کالا باغ نے کوشش کی کہ میں استعفی واپس لُوں۔ میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ کمشنر لاہور حماد رضا کا مجھے یونیورسٹی سے نکلوانے میں خاصا حصہ تھا۔ حکومت نے استعفٰی منظور کرنے کے بجائے مجھے مارشل لا آرڈر کے تحت 1961ء میں ملازمت سے برخواست کر دیا۔ تاہم بعد میں پنشن وغیرہ دے دی گئی۔ میرے ساتھ دو اور اساتذہ بھی نکالے گئے تھے۔ ایک کو بعد میں واپس لے لیا گیا۔ ہمارے نکالے جانے پر کالج میں طالبعلموں کی ہڑتال ہوئی اور حکومت کو وائس چانسلر انعام اللہ خان کو نکالنا پڑا۔ اسے پبلک سروس کمیشن کا ممبر بنا دیا گیا۔
سوال: یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد آپ کیا کرنے لگے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: میں نے اریگیشن پراجیکٹس میں اپنی نجی کنسلٹنسی شروع کردی۔ اس کام میں بہت کامیابی ہوئی۔ میں ہائیڈرولک انجینئرنگ میں ماہر تھا۔ مجھے پانی کے منصوبوں، نہروں اور واٹر ورکس کے کام ملتے تھے۔ میری لاکھوں روپے فیس تھی۔ مغربی پاکستان کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی کام ملنے لگا۔ میںاس سلسلہ میں ڈھاکہ جایا کرتا تھا اور انٹر کانٹیننٹل ہوٹل میں ٹھہرتا تھا۔ اس زمانے میں اس کا کرایہ ساٹھ روپے فی یوم تھا۔
میں جب 1967ء میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوا تو حکومت نے انٹیلی جنس والوں کے کہنے پر میرے سرگودھا میں کیے گئے ایک کام کے عوض طے شدہ آٹھ لاکھ روپے کی ادائیگیاں روک لیں۔ بعد میں یحیٰ خان اقتدار میں آگیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے اس کے ساتھ تمام تعلقات کے باوجود میری رقم پھنسی رہی۔ بھٹو صاحب صدر بن گئے اور میں وزیر تو مسئلہ پیدا ہوا کہ بھٹو صاحب اپنے وزیر کو ادائیگی کیسے کریں۔ بھٹو صاحب نے یہ معاملہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کے حوالے کردیا۔ اس جج کے فیصلہ کے مطابق مجھے پانچ لاکھ روپے کمشنر سرگودھا سے وصول ہوگئے۔
سوال: آپ کی دانشورانہ زندگی کیسے شروع ہوئی؟ سوشلزم کی طرف کیسے آئے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: جب میں کولمبیا یونیورسٹی میں تھا تو میں نے کمیونسٹ مینی فیسٹو پڑھا تھا۔ یہ بہت زوردار دستاویز ہے۔ اس دستاویز سے آپ تاریخ کا عمل پوری طرح سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن طبقوں کے درمیان جو جدوجہد ہے اس کا اس سے پتہ چل جاتا ہے۔ میں نے زیادہ سوشلسٹ لٹریچر نہیں پڑھا۔ مزید سوشلسٹ خیالات سے میری آگاہی رضا کاظم (معروف وکیل اور دانشور) کے ذریعے ہوئی۔ میری بھائی یعنی شبر حسن اُن کے خالو تھے۔ میری آج تک ان سے بہت دوستی ہے۔ جب ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو میں نے فوٹو گرافی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
رضا کاظم فوٹو گرافی میں بہت آگے تھے۔ یہ امریکہ گئے تو میرے لیے کیمرہ خرید لائے۔ پاکستان میں رضا کاظم سے بڑا کیمرہ کا ماہر کوئی نہیں۔ میرے ایک اور دوست زاہد چودھری تھے۔ وہ کئی سال لندن پاکستان ٹائمز کے چیف رپورٹر رہے۔ پھر چین میں رہے اور ماؤ زے تنگ کے انقلاب میں حصہ لیا۔ نوائے وقت کے چیف رپورٹر بھی رہے۔ بہت عالم فاضل آدمی تھے۔ ان کی بیوی سے علیحدگی تھی۔ وہ تقریبا ایک سال میرے ساتھ میرے گھر میں مقیم رہے۔ ان کے ساتھ رہنے سے بھی مجھے سوشلسٹ خیالات سے آگاہی ہوئی۔
میرے سوشلسٹ خیالات غریب پر ظلم کی مخالفت اور اس کی مدد کی حد تک محدود تھے۔ انہوں نے سیاسی اور منظم شکل کبھی اختیار نہیں کی۔ مجھے غریب سے ہمدردی ہمیشہ سے تھی۔ سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ البتہ کمیونسٹ مینی فیسٹو پڑھا تو اس نے وضاحت کی کہ غریب غریب کیوں ہے؟ ایک زمین کا مالک ہے تو ایک کسان ہے۔ ایک فیکٹری کا مالک ہے' ایک مزدور ہے۔ ایک طرف سرمایہ دار ہے جو بہت ظالم اور جابر مالک ہے اور دوسری طرف مزدور، جو فورأ پیپلز پارٹی کے رُکن بن گئے۔
سوال: لوگ آپ کو سوشلسٹ سمجھتے ہیں۔ کیا آپ خود کو سوشلسٹ یا مارکسسٹ کہلانا پسند کرتے ہیں؟
ڈاکٹر مبشر حسن: مجھے خود کو مارکسسٹ یا سوشلسٹ کہلانا پسند نہیں۔ جو مجھے سوشلسٹ سمجھتے ہیں یہ اُن کی مرضی ہے۔ سوشلسٹ سوچ میں نیوٹونین سوچ بہت ہے۔ ایکش۔ ری ایکشن۔ ڈائنامک پاور۔ مارکسسٹ سوچ کا ہیگل کے فلسفہ پر بھی بہت انحصار ہے۔ تھیسز۔ اینٹی تھیسز۔ سینتھیسز۔ گزشتہ آئیڈیاز سے تو آدمی آگے نکل جاتا ہے۔ ایک حد تک ماسٹرز کی جگہ ہے لیکن دنیا رُک نہیں جاتی۔ خیالات بھی نہیں رُک جاتے۔ البتہ کسی حد تک اُن کا اثر رہتا ہے۔ جہاں تک غریبوں کی ہمدردی کا تعلق ہے تو بہت سے مذہبی لوگ بھی غریبوں اور مظلوموں کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ سوشلزم تو ملکیت کا نظام چیلنج کرتا ہے۔
سوال: آپ کی سیاسی سرگرمیاں کب اور کیسے شروع ہوئیں؟
ڈاکٹر مبشر حسن: 1965ء سے پہلے میں کسی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں تھا۔ میری سیاست کی جڑیں پینسٹھ کی جنگ میں ہیں۔ میں جنگ کی رپورٹنگ کے لیے نوائے وقت کا رپورٹر بن گیا اور دو مختلف محاذوں پر گیا۔ ان میںسیالکوٹ کا محاذ بھی تھا۔ میں جو رپورٹ بھیجتا تھا وہ نوائے وقت چھاپتا تھا۔ کیونکہ میری جیسی رپورٹس اور کوئی نہیں بھیجتا تھا۔ ایک جگہ ٹکا خان نے صحافیوں کو نقشہ کی مدد سے جنگ کے بارے میں سمجھایا کہ دونوں فوجوں کے محاذ کہاں کہاں تھے۔ بھارت کے ٹینک کہاں تھے اور پاکستان کے کہاں تھے۔ میرے ہاتھ میں بھی اس علاقہ کا نقشہ تھا۔ میں نے اپنے نقسہ پر محاذ بنا کر نوائے وقت کو بھیج دیا۔ انہوں نے منظوری کے لیے فوج کو بھیجا تو انہیں تعجب ہوا کہ اتنا ٹھیک ٹھیک نقشہ اخبار کو کہاں سے مل گیا۔
1966ء میں لاہور میں مجھ سمیت چند لوگوں نے 'اتحاد عوام' کے نام سے ایک گروپ بنایا اور کام شروع کردیا۔ حامد سرفراز، حنیف رامے، لطیف مرزا، کنیز یوسف' غالب احمد اور ان کی بیوی اس گروپ میں شامل تھے۔ ایک سال میں اس گروپ کا سیاسی منشور تیار ہو چکا تھا۔ یہ گروپ غریب عوام کے حق میں بنایا گیا تھا۔ اس کے چار پانچ بنیادی فقرے تھے جو قرانی آیات کے ترجمے پر مبنی تھے۔ اس منشور کی تحریر کا اسٹائل بھی قرآنی آیات کے لہجے میں تھا۔ یہ منشور میں نے اور حنیف رامے نے مل کر بنایا تھا۔
سوال: اتحاد عوام سے پیپلز پارٹی میں کیسے چلے گئے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: میں تو شروع میں ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں نہیں تھا کیونکہ وہ ایوب خان کے وزیر رہے تھے لیکن اتحاد عوام کے باقی سب لوگ بھٹو کی شہرت دیکھ کر ان کے حق میں ہوگئے تھے۔ یوں یہ گروپ پیپلز پارٹی کا حصہ بن گیا۔ اس کا منشور پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں شامل کرلیا گیا۔
میں بھٹو صاحب سے پہلی بار کراچی میں ملا تھا۔ میں مجید نظامی کا خط لے کر اُن کے گھر گیا تھا جس میں انہیں دعوت دی گئی تھی کہ وہ حمید نظامی ڈے پر لاہور آکر تقریر کریں۔ شروع میں نوائے وقت اور شورش کاشمیری نے بھٹو صاحب کی حمایت کی تھی۔ پیپلز پارٹی کا سارا لٹریچر شورش کاشمیری کے چٹان پریس میں چھپتا تھا۔
سوال: آپ کا اور ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق کیسے شروع ہوا؟
ڈاکٹر مبشر حسن:میری ذوالفقار علی بھٹو سے بہت ملاقاتیں ہوتی تھیں لیکن ان کی نوعیت انتظامی ہوتی تھی۔ سیاسی نہیں تھی۔ بھٹو صاحب کو پتہ نہیں تھا کہ پنجاب میں کون کیا ہے۔ میری اس بارے میں واقفیت زیادہ تھی۔ اس لیے ان کے لیے میری افادیت تھی۔ ان کے اور قریبی لوگوں میں مصطفٰے کھر' شیخ رشید (بابائے سوشلزم) اور ایک ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر شیخ صفدر شامل تھے۔
شیخ صفدر ان کا بہت پرائیویٹ قسم کا مددگار تھا۔ مجھے زیادہ تر ایسے انتظامی کام کرنا ہوتے تھے جو صرف میں ہی کرسکتا تھا۔ مثلاًبھٹو صاحب وائی ایم سی اے ہال میں خطاب کے لیے آئے تو کار سے اترتے ہی لاہور کے نوجوانوں کے بڑے ہجوم نے اُنہیں گھیر لیا۔ جب وہ سیڑھیوں سے ہال میں گئے تو بھی نوجوانوں کے بڑے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے۔ ان کی ٹائی اور کوٹ کا برا حال ہوگیا تھا۔ ان کا وہاں سے نکلنا مشکل تھا۔ ہال کے پیچھے کمرہ تھا جس کی مرمت ہو رہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے سیڑھی لگا دی اور نیچے کوثر علی شاہ کو کھڑا کردیا اور سیڑھی کے ساتھ اپنی فوکسی کار لگا دی۔
اس طرح ہم ہجوم سے بچ کر انہیں سیڑھی کے ذریعے نکال کر لے گئے۔ اسی طرح وہ راولپنڈی سے آئے تو ریلوے پلیٹ فارم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اگر وہ ٹرین سے اُترتے تو بری طرح ہجوم میں پھنس جاتے۔ میں اپنی فوکسی کار پلیٹ فارم پر لے گیا اور اسے ٹرین کے ساتھ بھٹو صاحب کے ڈبے کے دروازے پر لگا دیا۔ وہ ٹرین سے اتر کر کار میں بیٹھ گئے۔ کچھ لوگ گاڑی کی چھت پر چڑھ گئے۔ آگے جا کر اُنہیں بڑے مشکل سے اتارا۔ وہ بھی اس طرح کہ انہوں نے کہا کہ بھٹو ہم سے ہاتھ ملا لیں۔ بھٹو صاحب کو ان مشکلات سے نکالنے میں میرے سوا کوئی نہیں تھا۔ پھر 1967ء میں پیپلز پارٹی بن گئی تو ہمارا ساتھ اور مضبوط ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پیپلز پارٹی کا تاسیسی کنوینشن کرنے کے لیے لاہور میں جگہ نہیں مل رہی تھی۔
گلبرگ میں ہمارے مکان کے پیچھے بہت خالی جگہ پڑی تھی۔ میں نے کہا کنوینشن یہاں کرلو۔ میرے دوست میاں عبدالخالق نے انتظامات کرنے میں میری مدد کی حالانکہ وہ مسلم لیگی تھے اور پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ حامد سرفراز اسٹیج منیجر تھے۔ لاہور ڈسٹرکٹ بار کا صدر اسلم حیات استقبالیہ کمیٹی اور اجلاس آرگنائزکرنے کی کمیٹی کا چئیرمین تھا۔ میں نے کوئی تقریر نہیں کی۔ حامد سرفراز نے اسٹیج سے کہا کہ ہمیں یہ جگہ ڈاکٹر مبشر حسن کی مہربانی سے ملی ہے اور دیکھو وہ سب سے پیچھے بیٹھے ہیں۔ میں لوگوں کو پارٹی کا رُکن بنا رہا تھا۔
وہ سب دستخط میرے پاس محفوظ ہیں۔ خاصے عرصہ تک میرے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں تھا حالانکہ سارے کام میں کرتا تھا۔ کسی کو سینٹرل پارٹی کا ممبر بنانا ہو' پرنسپل کمیٹی کا ممبر بنانا ہو، میں ہی بھٹو صاحب سے دستخط کراتا تھا۔ ایک دن بھٹو صاحب کو خیال آیا کہ یہ آدمی ممبر اور عہدیداربنا رہا ہے اور خود کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم بھی سینٹرل کمیٹی کے ممبر بنو ۔ ان دنوں پارٹی میں چئیرمین ہوا کرتے تھے، صدر کا عہدہ نہیں ہوتا تھا۔ شیخ رشید پارٹی کے پنجاب کے چئیرمین تھے' مصطفٰے کھر پنجاب کے سیکرٹری۔
سوال: ان دنوں آپ کا گھر پیپلز پارٹی کا مرکز بن گیا تھا؟
ڈاکٹر مبشر حسن: نومبر 1968ء میں بھٹو صاحب میرے گھر پر ٹھہرے۔ جنرل ایوب خان کا دور تھا۔ تیرہ نومبر کی بات ہے کہ وہ بھی گرفتار کرلیے گئے اور میں بھی۔ اس وقت تک میں نے کوئی تقریر بھی نہیں کی تھی۔ کوئی سیاسی مضمون نہیں لکھا تھا۔ مجھے گجرات جیل میں رکھا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو میانوالی جیل میں۔ جسٹس مشتاق کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ انہوں نے گرفتاری کی وجہ پوچھی تو پولیس کے پاس بتانے کی لیے کوئی وجہ نہیں تھی۔ پولیس نے کہا کہ یہ لیفٹسٹس سے ملتا ہے۔
جج نے پوچھا کہ کون لیفٹسٹ؟ پولیس نے کہا کہ معراج خالد وغیرہ ۔ مولوی مشتاق ہنس پڑے۔ وہ معراج خالد کو اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ اسے رہا کرو۔ ممتاز بھٹو بھی ان دنوں گرفتار تھے اور ساہیوال جیل میں تھے۔ انہیں بھی جج کے آرڈر پر چھوڑ دیا گیا۔ رہائی کے بعد میں سیاست میں سرگرم ہوگیا۔ تقریریں کرنے لگا۔ میں صرف لاہور میں تنظیمی کام کرتا تھا۔1968ء کے بعد لاہور ہی بھٹو صاحب کی سیاست کا مرکز بن گیا۔ وہ ہماری تیرہ نومبر کی گرفتاری کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ ان دنوں چین میں ماؤزے تنگ اور چوین لائی کی پارٹی میں تواریخ (ڈیٹس) بہت اہم سمجھی جاتی تھیں۔ بھٹو صاحب بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ میں 80 ۔کلفٹن کا نام اپنی گرفتاری کی تاریخ مناسبت سے تیرہ نومبر رکھ دیتا ہوں۔
تاہم ایسا ہُوا نہیں۔ میں پیپلز پارٹی لاہور کا پہلا چئیرمین تھا۔ میں نے شہر میں پارٹی کے ساڑھے چار سو یونٹس قائم کیے اور اتنے ہی دفاتر کھولے۔ وہاں پارٹی کے بورڈ لگے۔ لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے لیے بہت پُرجوش تھے۔ لوگ خود ہی آتے تھے۔ افتتاح کے لیے ہمیں بلاتے تھے۔ ہر دفتر مرکز کو پانچ روپے ماہانہ چندہ دیتا تھا۔ پارٹی تنظیم کا کوئی ماڈل ہمارے سامنے نہیں تھا۔ ہم نے خود ہی بنا لیا تھا۔ سوشلسٹ پارٹی کے سی آر اسلم نے اپنی جماعت کے پکے کمیونسٹوںکو پیپلز پارٹی میں گُھسنے کی ہدایت کردی تھی جیسے محمود بٹ' ضیاء الدین بٹ وغیرہ۔ یہ لوگ نعرہ لگاتے تھے، ایشیا سرخ ہے' ایشیا سرخ ہے' یہ شروع میں ہی پارٹی میں آگئے تھے۔ یہ ایجی ٹیشن میں پیش پیش رہتے تھے۔ ان کا مقصد تھا کہ بھٹو صاحب کے موقف کو اپنے نظریہ کی طرف مائل کریں لیکن بھٹو صاحب نے انہیں اتنی ہوشیاری سے استعمال کیا کہ یہ بھٹو صاحب کا موقف آگے بڑھانے میں استعمال ہوگئے۔
سوال: موجودہ پیپلزپارٹی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: پیپلز پارٹی ایک سوشلسٹ اور سامراج مخالف پارٹی تھی۔ اب یہ نہ سوشلسٹ ہے نہ سامراج مخالف۔ بلکہ اور سیاسی جماعتوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی حامی بن گئی ہے۔ بے نظیر بھٹو نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وقت کے ساتھ نظریہ بدل جاتا ہے۔ یہ درست بات نہیں۔ قدامت پسند پارٹی کبھی ترقی پسند جماعت نہیں بن سکتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پرانی پارٹی نہیں ہے بلکہ کوئی اور شے ہے۔ بے نظیر اور بلاول نے تو پیپلز پارٹی کے نظریہ کو سر کے بل کھڑا کردیا ہے۔ پہلے نظریہ پر دھیان ہوا کرتا تھا جو اب کم ہوگیا ہے۔ نظریہ کے بجائے شخصیات ابھر آئی ہیں۔ نواز شریف۔ عمران خان۔ ان سب کا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہی اسلامی جماعتوں کا بھی نظریہ ہے۔
سوال: پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟
ڈاکٹر مبشر حسن: پاکستان میں ایسی فضا پیدا ہوگئی ہے کہ سارے لیڈر مادر پدر آزاد ہوگئے ہیں۔ جس کا جو چاہے اعلان کردیتا ہے۔ عمران خان کی پارٹی سب سے زیادہ اعلانات کرتی تھی۔ اب بلاول بھٹو بھی ان کی ہمسری کرتے نظر آتے ہیں۔ اعلانات کے پیچھے تحریک نہ ہو تو ان اعلانات کی حیثیت کم رہ جاتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی سوشلسٹ پروگرام اختیار کرے تو دوبارہ مقبول جماعت بن سکتی ہے کیونکہ سوشلسٹ نظریہ میں ایسی جان اور طاقت ہے جو پسماندہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بناسکتا ہے۔ اس وقت دولت کے مالکوں کے ہاتھ میں سارا نظام ہے۔
عام شہری کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی پنجابیوں کے دل کی بات نہیں کر رہی۔ ان کی زبان نہیں بول رہی۔ پنجاب کے لوگوں کا بنیادی تضاد انڈیا سے ہے جس لیڈرشپ کے بارے میں پنجاب کے عوام سمجھیں کہ انڈیا کے معاملہ میں اس کا روّیہ وہ نہیں جو وہ چاہتے ہیں تو اُس کی پذیرائی نہیں ہوتی۔آج یہ رویہ نہ پیپلزپارٹی کا ہے اور نہ نواز شریف کی مسلم لیگ کا۔ اس وجہ سے پنجاب کی سیاست میں جان نہیں۔کسی پارٹی کا زوردار موقف نہیں ہے۔ خاص طور سے پیپلز پارٹی کا جس کا قیام ہی انڈیا کے بارے میں سخت موقف کی بنیاد پر ہوا تھا۔
بھٹو اور بے نظیر کی نقل ممکن نہیں'بلاول کو عوامی زبان نہیں آتی
بلاول کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انہیں عوام کی زبان نہیں آتی۔ نہ اردو۔ نہ پنجابی۔ نہ سندھی۔ ان میں تقریر کرنے کا اپنا اسٹائل بنانے کی اہلیت نظر نہیں آتی۔ بھٹو صاحب یا بے نظیر کا اسٹائل نقل کرنا ناممکن ہے کیونکہ اسٹائل کا تعلق شخصیت سے ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب اور بے نظیر کی لمبی سیاسی جدوجہد تھی۔ انہیں لوگوں کے پسندیدہ الفاظ سمجھنے اور استعمال کرنے آگئے تھے۔ بھٹو صاحب تو ہوٹل میں اپنی تقریر کی پریکٹس کیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ موچی دروازہ میں تقریر کرنے کے بعد جب بھٹو صاحب انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پہنچے تو مجھ سے کہنے لگے کہ تم نے دیکھا کہ میں نے کس طرح فلاں فلاں الفاظ کہے اور پھر اسٹیج پر گھوم گیا۔ بھٹو صاحب پنجاب کا دورہ ملتان سے شروع کرتے تھے اور آخری جلسہ لاہور میں رکھتے تھے۔ وہ مختلف شہروں میں عوام کا ردعمل دیکھ کر لاہورمیں اپنی تقریر کے خاص پہلو منتخب کرتے تھے۔
بھٹو صاحب اور کچھ حد تک بے نظیر بھٹو کی حرکات کے پیچھے ایک سوچ بھی ہوتی تھی۔ اگر بلاول کو تقریر کرنی آجائے اور وہ لوگوں کے دل کی بات پیش کرسکیں تو ان کے لیڈر بننے کی گنجائش ہے۔ یہ بھی ہے کہ اگر کسی شخص کا نام میڈیا میں خاصے عرصے تک آتا رہے تو اس کی جگہ بن جاتی ہے۔