بھارت میں کرنسی بحران۔۔۔عوام پریشان

بڑے نوٹوں کی بندش کے اعلان نے ملک بھر میں ہلچل مچادی


آصف زیدی December 04, 2016
بھارتی کرنسی کا بحران عالمی سطح پر بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ فوٹو : فائل

SAN FRANSISCO: بھارت میں جب سے نریندر مودی نے حکومت سنبھالی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پریشانیوں، مشکلات، محاذ آرائیوں اور مسائل نے پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مودی نے جب وزارت عظمیٰ کے لیے قدم بڑھائے تو ہندو انتہاپسندوں کی نظر میں صرف ایک چیز ایسی تھی جو مودی کے حق میں جاتی تھی اور وہ گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام تھا۔

مسلمان دشمنی اور بے حسی کی اسی بنیاد پر ہندو انتہاپسندوں نے مودی کو جتوایا تھا لیکن مودی کے پاس کوئی وژن تھا نہ ہی عوام کی خدمت کا جذبہ۔ مودی سرکار نے اپنی مسلسل ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایسے ایسے اقدامات کیے، ایسی پالیسیاں بنائیں جو آج خود اس کے اپنے گلے کا پھندا بن گئی ہیں، یہ حقیقت ہے کہ مودی کے آنے کے بعد سے بھارتی عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے بھارتی عوام کو دیا گیا تازہ ترین مسئلہ کرنسی نوٹوں کا ہے جس نے پورے بھارت میں تہلکہ مچادیا ہے۔

بھارت ے کروڑوں عوام نے جب نریندر مودی کو 8 نومبر کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے دیکھا تو سب اُسے معمول کی روایتی تقریر ہی سمجھے تھے۔ لیکن مودی کے اس اعلان نے پورے بھارت میں بھونچال برپا کردیا کہ ''چند گھنٹوں بعد بھارت بھر میں موجود 500 اور1000 والے نوٹ ختم ہوجائیں گے۔'' یہ ایک ایسا اعلان تھا جسے پہلے بھارتی عوام نے سمجھا کہ شاید ہم نے غلط سنا ہے یا مودی غلطی سے یہ بات کہہ گئے ہیں لیکن جب میڈیا پر بار بار خبر ''بریکنگ نیوز'' بن کر آنے لگی تو بھارتی عوام سکتے میں آگئے۔ غریبوں کی بات تو چھوڑیں، اچھے پڑھے لکھے لوگ، تاجر برادری، ماہرین معاشیات، اساتذہ، طلبہ و طالبات غرض یہ کہ ہر کسی کے سر پر مودی کا یہ فیصلہ کسی بم کی طرح پھٹا تھا۔ صورت حال یہ ہے کہ بھارتی عوام مودی حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں جس نے انھیں اتنی بڑی مصیبت میں پھنسادیا ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق500 اور1000 والے نوٹ بھارت میں اربوں کی تعداد میں ہیں جو بھارتی کرنسی کا تقریباً 80 فی صد بنتا ہے۔ مودی کے ایک ''شاہی '' فیصلے نے اتنی بڑی مالیت کے نوٹوں کو محض ردی کے ٹکڑے میں بدل کر رکھ دیا، لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ اس دھماکے کے تھوڑی دیر بعد ہی بھارتی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ حکومت نئے ڈیزائن کے 500 کے نوٹ اور 2000 کے نوٹ جاری کرے گی، اس کے علاوہ عوام 30 دسمبر تک ہی اپنے پرانے نوٹوں سے لین دین کرسکتے ہیں، لہٰذا جتنی جلد ممکن ہو وہ اپنے نوٹوں کو نئے نوٹوں سے تبدیل کرالیں۔

اس کے بعد جو ہوا وہ آج تک جاری ہے۔ لوگ اپنا کام کاج چھوڑ کر اپنی کرنسی لے کر بینکوں کی جانب دوڑ پڑے تاکہ جلد ازجلد ان بے کار نوٹوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے لیکن ہر بینک کے باہر سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی موجودگی نے صورت حال کو قابو سے باہر کردیا۔ ہر کوئی سب سے پہلے نوٹ تبدیل کرانے کی کوشش میں تھا جس کی وجہ سے ہر بینک کے باہر دھکم پیل، لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ لوگوں کے پاس بچوں کی فیس جمع کرانے، اپنے پیاروں کے علاج معالجے کے لیے اسپتال کے اخراجات اٹھانے اور دیگر ضروریات کے لیے کچھ نہیں بچا، کہنے کو سب کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوئی تھیں لیکن اُن نوٹوں کو لینے والا کوئی نہ تھا۔

بہت سے مجبورولاچار افراد تو کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کی آس میں اس دنیا سے چلے گئے۔ بہت سے مریض اسپتال میں یا اسپتال جانے کی حسرت لیے دم توڑگئے، کیوںکہ ان کے گھر والے انھیں اسپتال لے جانے کے لیے پیسوں کا بندوبست کرنے بینکوں کے باہر لگی طویل قطاروں میں کھڑے اپنی باری آنے کا انتظار کررہے تھے۔ ایک بچی اپنی فیس جمع نہ ہونے کے غم میں اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ اس نے خودکشی کرلی۔ اس کا باپ کئی دن سے بینکوں کے چکر لگارہا تھا کہ نوٹ تبدیل کراکے اپنی بیٹی کی اسکول فیس ادا کرسکے لیکن اسے موقع ہی نہیں ملا۔ ہر طرف ایک افراتفری مچی ہوئی ہے، لیکن مودی حکومت ایسے ہی پُرسکون ہے جیسے وہ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کے بعد مطمئن تھی کیوںکہ مودی کا مقصد عوام کی خدمت تھا نہ ہوگا۔ وہ صرف اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان دشمنی کے نعرے مارتا ہے اور ہندو انتہاپسندوں کو خوش کرنے کے لیے پالیسیاں بناتا ہے، جب مودی سرکار دیکھتی ہے کہ کسی جگہ اُس کی ناکامی منظر عام پر آرہی ہے تو وہ کوئی نیا شوشا چھوڑ کر لوگوں کو اصل مسئلے سے دور کردیتی ہے۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق کرنسی نوٹوں کے اس بحران نے اب تک 70 سے زاید افراد کی جان لے لی ہے جب کہ درجنوں لوگ جھگڑوں میں زخمی ہوئے ہیں۔

بھارتی کرنسی کا بحران عالمی سطح پر بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور سب مودی حکومت کی اس احمقانہ حکمت عملی کو اپنے اپنے انداز میں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق اس اقدام کا مقصد کالے دھن کا راستہ روکنا ہے، لیکن ایسا لگتا نہیں ہے، کیوںکہ اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگوں میں اکثریت عام لوگوں کی ہے۔ اپوزیشن نے بھی اس فیصلے پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اسے ایک غریب دشمن فیصلہ قرار دیا ہے۔ کانگریس کے راہ نما راہول گاندھی کہتے ہیں کہ ''مودی نے بغیر کسی تیاری کے ، بغیر سوچے سمجھے اتنا بڑا فیصلہ کرکے دنیا کا سب سے بڑا مالی بحران پیدا کردیا ہے۔ یہ غلط ہے کہ اس فیصلے کا مقصد کالے دھن کا راستہ روکنا ہے، کیوںکہ ہم نے کسی بینک کے باہر قطاروں میں نہ مودی کے کسی رکن پارلیمنٹ کو دیکھا نہ ہی امراء کو، وہاں تو صرف غریب اور متوسط طبقے کے افراد ہی اپنی کرنسی بدلوانے کے لیے قسمت آزمارہے ہیں۔'' بھارتی ایوانوں میں اپوزیشن اتنی چراغ پا تھی کہ کئی روز وہاں ہنگامہ آرائی کی صورت حال رہی۔ شورشرابہ، تنقید، نعرے بازی اور احتجاج نے دنیا بھر کو بتادیا کہ مودی حکومت کسی کام کی نہیں۔



بھارتی ایوانوں میں بھی اس فیصلے نے ماحول کو گرمادیا ہے اور حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اپوزیشن تو پہلے ہی بہت سے معاملات پر حکومت سے سخت ناراض ہے، کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے حالیہ فیصلے نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے ارکان نے مودی سرکار کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس قسم کے فیصلے واپس لیے جائیں اور مودی ایوان میں آکر وضاحت کریں انھوں نے ایسا فیصلہ کیوں کیا اور کس کے اشارے پر کیا؟ ارکان پارلیمنٹ نے مودی کے خلاف نعرے بازی کی، احتجاج کیا، اس فیصلے کیخلاف دھرنا اور مودی کا پتلا جلاکر اپنے دلوں کی بھڑاس نکالی۔ بہت سے ارکان پارلیمنٹ کی رائے ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی بہت بڑا اسکینڈل ہے، جسے چھپانے کے لیے مودی حکومت نے لوگوں کو کرنسی نوٹوں کے بحران میں پھنسادیا ہے۔ بہت سے لوگ مودی کے اس فیصلے کی تائید بھی کررہے ہیں لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

بھارت کے ماہرین معیشت اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مودی سرکار کے اس فیصلے سے بھارتی معیشت کو فائدہ نہیں نقصان پہنچے گا۔ فائدہ اگر ہوا تو صرف ان امیروں کو ہوگا، جو پہلے سے ہی غریبوں کی کھال اتارنے اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے میں مصروف ہیں۔ بھارتی حکام کی یہ تسلیاں بھی غریب عوام کو مطمئن نہیں کرسکیں کہ کچھ دن کی تکلیف برداشت کرلی جائے، یہ فیصلہ آگے چل کر قومی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔ بھارتی عوام سمجھتے ہیں کہ حکومت انھیں صرف سبز باغ دکھارہی ہے، انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا بل کہ اس فیصلے نے تو عوام کو مزید پریشان کردیا ہے۔ لوگ اپنے کام کاج کو چھوڑکر بینکوں اور اے ٹی ایمز کے باہر دھکے کھارہے ہیں، پولیس کا تشدد سہہ رہے ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔
مودی حکومت سیاسی چال بازیوں میں مصروف ہے۔ وہ اپنے فائدے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ جب سے کشمیر میں صورت حال اس کے قابو سے باہر ہوئی ہے، تحریک آزادی میں شدت آئی ہے تو عالمی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر چھیڑچھاڑ اور جارحیت شروع کردی ہے، تاکہ لوگوں کی توجہ اس معاملے سے ہٹائی جاسکے۔ اسی طرح حکومتی ایوانوں میں ہونے والی کرپشن، نااہلیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے اب کرنسی بحران کی صورت میں پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ماہرین معیشت کی رائے ہے کہ اس فیصلے نے حکومت کے لیے شدید خطرات پیدا کردیے ہیں۔ کرنسی نوٹوں کی اتنی بڑی تعداد کو ملک بھر میں چند دنوں میں تبدیل کرنا آسان بات نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک موثر اور جامع طریقۂ کار کی ضرورت ہے۔ اگر صورت حال کو جلدازجلد نہ سنبھالا گیا تو حالات مودی سرکار کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔

دیکھتے ہیں کہ مودی حسب معمول اپنی حکومت کی غلط پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں یا اپنے عوام کی خاطر کوئی عوام دوست فیصلہ کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کو کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے لیے لگی لمبی لمبی قطاروں سے نجات مل جائے۔ اس کا جواب آئندہ دنوں میں سامنے آجائے گا۔



٭سوشل میڈیا پر بھی تنقید کا طوفان
سوشل میڈیا پر بھی بھارتیوں نے دل کی بھڑاس خوب نکالی اور مودی اور اس کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کہیں کچھ دل جلوں نے مودی سرکار کو گالیاں دیں تو کچھ لوگوں نے اپنی پریشانی اور مسئلے کی سنگینی کا اظہار دل چسپ پیرائے میں کیا۔ ٹوئٹر پر ''چُھٹا دے۔۔۔دے۔۔۔دے مودی'' کا ٹرینڈ بھی کافی مقبول رہا۔ آئیے کچھ لوگوں کے دل چسپ تاثرات، کمنٹس دیکھتے ہیں:
٭کسی کا بچہ بیمار ہے ، کوئی قرض نہیں دے رہا۔ مودی بچے کو بچالے۔۔۔چُھٹا دے دے۔
٭ مودی جی ! غلطی ہوگئی، اب 15لاکھ نہیں مانگیں گے، بس چُھٹا دے دے۔
(واضح رہے کہ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ملک سے کالا دھن ختم کریں گے جس کے نتیجے میں ہر آدمی کو کم ازکم 15لاکھ کا حصہ ملے گا)
٭عوام اب جان گئے ہیں کہ نوٹنکی اور حب الوطنی سے پیٹ نہیں بھرتا۔
٭چائے پینی ہے مودی۔۔۔۔چُھٹا دے دے۔
٭مودی سرکار کی خاصیت یہی ہے کہ اُس نے ہر سوال کا منہ قوم پرستی اور مذہب کی جانب کردیا ہے۔
٭ لوگوں نے نوٹنکی بند کرنے کو کہا تھا۔۔۔۔ہائے ہائے مودی نے تو ''نوٹ بندی'' کردی۔



٭کچھ لوگوں کے لیے کرنسی بحران کمائی کا ذریعہ بن گیا
بھارت میں جاری کرنسی بحران سے جہاں کروڑوں لوگ شدید اذیت کا شکار ہیں اور ہنگامہ آرائی جاری ہے وہیں یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ تو بینک حکام کے ساتھ مل کر ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ اپنی ''فیس '' لے کر پریشان حال لوگوں کو جلدازجلد رقم تبدیل کرانے کی پیش کشیں کررہے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے ہم وطنوں کو پیش کش کررہے ہیں کہ وہ معاوضہ لے کر ان کی جگہ دن بھر طویل قطار میں کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ایک ایسے ہی مزدور کا کہنا تھا کہ دن بھر پتھر توڑنے سے یہ بہتر کام ہے، پیسے تو اتنے ہی ملنے ہیں شاید زیادہ مل جائیں۔ اس طرح میں اپنے بھائیوں کی خدمت بھی کرسکوں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں