ڈونلڈ ٹرمپ۔۔۔ فضائی ماحول کے لیے بھی خطرہ

مراکش کانفرنس اور امریکا کے غیر ماحول دوست صدر کے اعلانات

اس رویے کے عالمی اثرات توقع سے زیادہ جلد دکھائی دینا شروع ہوچکے ہیں۔ فوٹو : فائل

نومبر کے پہلے ہفتے میں مراکش میں 196ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15ہزار مذاکرات کار اور ماحول دوست تنظیموں سے وابستہ افراد جمع تھے، جہاںCOP22 کا انعقاد ہورہا تھا۔ اقوام متحدہ کے زیرنگرانی منعقدہ اس کانفرنس میں سب کی نگاہیں امریکا پر لگی تھیں، کیوںکہ نومنتخب ری پبلیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماحولیاتی معاہدے کے نہ صرف خلاف ہیں بل کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو انسانی سرگرمیاں قرار دینے سے ہی انکاری ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ انسان کا پیدا کردہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔

گذشتہ برس دسمبر میں پیرس میں منعقدہCOP21 کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس مراکش کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات اٹھانا تھا۔ یہ کانفرنس دراصل پیرس معاہدے COP21 کو آگے بڑھانے کے لیے بلائی گئی تھی۔ کانفرنس میں پیش کی گئی عالمی موسمیاتی تنظیم(WMO) کی رپورٹ کے مطابق ''گذشتہ پانچ برسوں کے دوران موسم گرم ترین رہا۔ قطبین خاص طور سے قطب جنوبی کے عظیم الشان گلیشیئرز کی برف کے خوف ناک سرعت سے پگھلنے کے نتیجے میں سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔

اس سے پہلے قطب شمالی کے سمندر میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پڑنے والی برف، گذشتہ29 برسوں میں پڑنے والی اوسط برف سے 28 فی صد کم رہی، چناںچہ صرف سطح سمندر ہی بلند نہیں ہورہی بل کہ قطبین پر کم برف باری ہونے کی وجہ سے ٹھنڈک میں کمی واقع ہورہی ہے۔ چناںچہ گلوبل وارمنگ کے خوف ناک اثرات بڑھ رہے ہیں۔'' ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق مزید یہ کہ درجۂ حرارت COP21 میں متعین کردہ لیول کے خطرناک حد تک قریب ہوتا جارہا ہے۔ اس کانفرنس میں اس کے علاوہ دیگر سنگین رپورٹس اور پیش گوئیوں کی بازگشت بھی سنائی دی۔

امریکی صدارتی انتخابات سے قبل سابق امریکی صدر بارک اوباما کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ انہوں نے کہا تھا،''ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جتنی پیش رفت کی ہے، اس میں کئی دہائیوں تک بات چیت کے ذریعے پیرس معاہدے پر اتفاق شامل ہے، لیکن اب ان سب کا دارومدار صدارتی انتخابات پر ہوگا۔'' یاد رہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں پیرس میں طے پانے والے عالمی معاہدے کے تحت اقوام عالم کو پابند بنایا گیا کہ وہ کوئلے، گیس اور تیل جلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ضرررساں گیسوں میں کمی لائیں، تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکا جاسکے۔ پیرس معاہدے کے حوالے سے پیرو کے سابق وزیر ماحولیات اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سربراہ مانو یل پلگر ویڈل کے مطابق، ''ماحولیاتی تبدیلیوں کے روک تھام کے لیے یہ ایک اہم روڈ میپ ہے۔''

اس خیال پر سبھی ماحول دوست متفق تھے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت کر اس معاہدے کو ختم نہ بھی کریں تب بھی وہ پیش رفت پر بدترین اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

اور اب یہ اندیشے ایک حقیقت بن کر سامنے آگئے ہیں کیوںکہ ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب جیت لیا ہے۔ تاریخ کے سب سے متنازعہ اور ہر قسم کے اسکینڈل کے باوجود وہ مسند صدارت پر فائز ہوچکے ہیں اور ماحول اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام کرنے والے اس خدشے سے بے حال ہیں کہ اب تک کی گئی پیش رفت پر کس طرح آگے بڑھا جاسکے گا۔

قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہر امیدوار نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو جھٹلایا تھا اور کہا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہونے دو، سوائے کچھ سمجھ دار افراد کے مثلاً جیب بش، جن کا کہنا تھا کہ ''سب کچھ غیریقینی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی ایک اہم وجہ کافی مقدار میں قدرتی گیس کی پیداوار ہے۔

یہ گیس فریکنگ ٹیکنالوجی (زیرزمین ہائی پریشر سے پانی انجیکٹ کرکے تیل یا گیس نکالنا) سے حاصل کی جارہی ہے'' یا پھر جان کیشک جنہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ گلوبل وارمنگ ایک حقیقت ہے، لیکن پھر کہا کہ ہم اوہائیو میں کوئلہ جلانا بند نہیں کریں گے، کوئلہ جلائیں گے اور ہمیں اس پر کسی سے معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ جو اب صدر بن چکے ہیں نے فوسل فیول بہ شمول کوئلے کا استعمال بڑھانے کے خلاف کیے گئے عالمی معاہدوں کو پھاڑ پھینکنے اور ترقی پزیر ممالک جو توانائی کے دیرپا ذرائع تلاش کر رہے ہیں، ان کی مدد سے انکار کی بات کی۔

ٹرمپ کے اہم اعلانات جو ماحول کے خلاف جاتے ہیں ان میں سرفہرست EPA سے متعلق ہے۔ انہوں نے پہلے ہی امریکا کے تحفظ ماحول کی ایجنسی ''ای پی اے'' کو تحلیل کرنے کے اقدامات کا اعلان کررکھا ہے۔ وہ اس ایجنسی کی سربراہی میرون ایبل کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کو سرے سے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

ٹرمپ کے اہم ترین مشیر برائے توانائی اور تیل کے ارب پتی تاجر ہورالڈہیم ہیں، جنہوں نے دنیا کی توقع کے مطابق اپنی ترجیحات کا اعلان کردیا ہے، جن میں ریگولیشن کی منسوخی، صنعتوں کے لیے ٹیکس کی چھوٹ، فوسل فیول کی زیادہ پیداوار اور ''ڈکوٹا ایکس پائپ لائن'' پر صدر اوباما کی جانب سے عائد کردہ عارضی پابندی کو اٹھانا شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر مارکیٹ میں فوری ردعمل آیا۔

امریکی اخبارات کے متعلق انرجی کارپوریشنز کے حصص میں تیزی آئی۔ مارکیٹ میں آنے والی تیزی کا دنیا کی سب سے بڑی کوئلے کی کان کنی کرنے والی فرمPeabody Energy کو بے حد فائدہ ہوا۔ یہ فرم دیوالیہ ہوچکی تھی مگر ٹرمپ کی فتح کے بعد اس نے اپنا پچاس فی صد نقصان پورا کرلیا۔ چناںچہ ری پبلیکن کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے انکار قابل فہم ہے اور اس کے واضح اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔

پیرس معاہدےCOP21 سے امید بندھی تھی کہ دنیا ایک قابل اعتماد معاہدے کے ذریعے ماحولیات کو تحفظ دینے کی طرف پیش رفت کرنے جارہی ہے، لیکن ری پبلیکن تو ضروری معاہدوں کی پابند ہونے سے بھی انکار کررہی ہے۔ اس سےCOP21 جیسے رضاکارانہ معاہدوں کی پابندی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس رویے کے عالمی اثرات توقع سے زیادہ جلد دکھائی دینا شروع ہوچکے ہیں۔

گلوبل وارمنگ کے حوالے سے نشیبی ممالک پہلے ہی سطح سمندر بلند ہونے سے ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہیں جن میں مالدیپ سرفہرست ہے۔ بنگلادیش بھی اسی خطرے سے دوچار ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک اگر تحفظ ماحول کے اقدامات میں شامل نہیں ہوں گے تو غریب ممالک میں اس سے ان کے خلاف منفی سوچ بڑھے گی۔ دنیا میں امیر اور غریب کی تفریق بڑھے گی۔ غریب غریب سے غریب تر ہوں گے۔


امریکا اگر تحفظ ماحول اور بدلتے موسموں کے معاہدوں سے خود کو الگ کرلیتا ہے تو یاد رکھے یہ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی مہاجرین کے ایک نئے خطرے سے دوچار ہوں گے۔ یہاں ہم بنگلادیش کے ایک سائنس داں کا بیان لکھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بنگلادیش میں آنے والے چند ایک برسوں میں لاکھوں افراد سمندر کے قریب نشیبی علاقوں سے نقل مکانی شروع کردیں گے، کیوںکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہونا شروع ہوجائے گی اور ان کی بستیاں زیرآب آنا شروع ہوجائیں گی۔ اس سے شروع ہونے والا ہجرت کا بحران اتنا سنگین ہوگا کہ حالیہ ہجرت کے بحران معمولی سا واقعہ دکھائی دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاجر ہونے والے ان افراد کے پاس یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ گرین ہاؤس گیسز کے ذمے دار ممالک کا رخ کریں۔ ان میں دوچار کو نہیں بل کہ لاکھوں افراد کو امریکا میں داخلے کی اجازت ملنا چاہیے۔



اس بات میں وزن ہے کہ امیر ممالک امیر ہوتے جارہے ہیں اور انہوں نے دولت کمانے کی دھن میں دنیا کو سنگین خطرے سے دوچار کردیا ہے، جب کہ غریب ممالک جن کا اس نام نہاد ترقی میں کوئی کردار نہیں ہیں، بدلتے موسم ان پر زیست تنگ کررہے ہیں۔

پاکستان بھی ایسے ہی ممالک میں شامل ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کی پیداوار میں اس کا نمبر بہت نیچے ہے لیکن موسمی تغیرات کے اثرات بھگتنے میں یہ اولین دس ممالک میں شامل ہے۔ شدید سیلاب، خشک سالی گلیشیئرز کا پگھلنا، زمینی کٹاؤ اور بہت سے ماحولیاتی مسائل اس کی معیشت کی کمر توڑے دے رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں درجۂ حرارت جو پہلے ہی غریب افراد کے لیے ناقابل برداشت ہوچکا ہے، مزید بڑھ جانے سے ہمالیہ اور قراقرم کے گلیشیئر پگھل کر کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔

امریکا جیسے ترقی یافتہ اور بڑی معیشت کے حامل ہونے کی حیثیت سے تحفظ ماحول کے لیے نہ صرف معاہدات کی پاس داری بل کہ عملی اقدامات میں بھی راہ نمائی کرنی تھی۔ اس کے صدرڈونلڈ ٹرمپ کا سات نومبر2012 کا ایک ٹوئیٹ سامنے آیا تھا کہ ''گلوبل وارمنگ کا بنیادی خیال دراصل چین کی جانب سے آیا ہے، جس کا مقصد امریکا کی صنعتوں کو نقصان پہنچانا ہے۔''

ایک اور ٹوئیٹ دو جنوری2012 کا ہے کہ ''اب امریکی حکومت کو منہگے ترین گلوبل وارمنگ کے تصور کو اٹھاکر پھینک دینا چاہیے، کیوںکہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ہماری زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور درجۂ حرارت کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی بات کرنے والے سائنس داں بہت جلد برف میں دھنس جائیں گے۔''

ٹرمپ نے عہد کیا ہے کہ وہ امریکا کو پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ سے نکال لیں گے۔ اس کے بہت سے راستے اور طریقے ہیں، لیکن سب سے آسان راستہ خود کو1992کے اقوام متحدہ(UN) کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج سے الگ کرنا ہے، جو صرف ایک سال کے نوٹس پر ممکن ہے۔ چین نے ٹرمپ کے اس بیان پر شدید تنقید کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کرۂ ارض کے گلوبل وارمنگ میں اضافے میں امریکا کی معیشت اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس طرح کے غیرذمے دارانہ رویوں سے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کو منفی پیغام جائے گا اور ترقی پذیر ممالک میں منفی اثرات رونما ہوں گے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکا کے سیکریٹری خارجہ جان کیری نے اسی مراکش کانفرنس میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ ان کا یقین ہے کہ امریکا اپنے وعدوں سے پھر نہیں سکتا۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ پالیسی کے بجائے مارکیٹ کی قوتیں کم کاربن والی دنیا کی جانب منتقلی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ جان کیری نے چین کے ساتھ معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور قائل کیا تھا کہ کیسے دو بڑی معیشتیں کاربن کا اخراج کم کرسکتی ہیں۔ انہیں گذشتہ سال پیرس میں ہونے والے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کا معمار سمجھا جاتا ہے۔

بطور سیکریٹری خارجہ کسی موسمیاتی کانفرنس میں آخری بار خطاب کرتے ہوئے جان کیری نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآرما ہونے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کے دفاع میں جذباتی تقریر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکیوں نے اس سیارے کے گرم ہونے کی حقیقت پر یقین کیا تھا اور وہ پیرس معاہدے میں ملک کے کاربن کو کم کرنے کے وعدوں کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی اس بات پر شک نہیں کرنا چاہیے کہ امریکیوں کی بھاری اکثریت پیرس میں کیے گئے وعدوں کو نبھانے کے لیے پرعزم ہے۔

اپنی بات کے حق میں جان کیری نے ایک تحقیق کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق 2015 میں توانائی کے متبادل ذرائع پر 350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی جو 2014 کے مقابلے میں چھے گنا زیادہ تھی۔ امریکا میں ہوا سے پیدا کی گئی بجلی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جب کہ شمسی توانائی میں 30 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔ اگرچہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام نہیں لیا تھا اور نہ ہی نو منتخب صدر کے پیرس معاہدے کے بیان کے حوالے سے کوئی تذکرہ کیا، لیکن انہوں نے کہا کہ کوئلے پر سرمایہ کاری کا قدم اس سیارے کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اب دنیا امریکی صدر کو قائل کرنے میں کام یاب ہوجاتی ہے یا دنیا تباہی کہ ایک نئے راستے پر چل پڑے گی۔
Load Next Story