فکری جمود
ہر دور میں اس دور کے عقائد و نظریات اس دور کے علم اور معلومات کے مطابق رہے
ISLAMABAD:
دنیا کے انسانوں کی یہ اجتماعی بدقسمتی ہے کہ وہ ہزاروں سال سے ایک ایسے فکری جمود کا شکار ہیں جو ان کی سماجی سیاسی اور عقلی ترقی کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہوگیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اظہار و فکر پر پابندی ہے۔ مغرب کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہاں کے اہل علم اور اہل فکر کی جدوجہد کی وجہ سے وہاں فکر و اظہار کی آزادی حاصل ہے اور آج ہم دنیا میں سائنس ٹیکنالوجی ارضیات اور فلکیات کے شعبوں میں جو ترقی دیکھ رہے ہیں وہ اس فکر و اظہار کی آزادی کا نتیجہ ہے۔ اس پس منظر میں آج کے اہل علم اہل فکر کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام میں فکری اور طبقاتی بیداری پیدا کریں۔
کچھ اہل قلم اس حوالے سے شعوری طور پر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اختیارات کے مالک تعصب اور تنگ نظری کے مارے ہوئے لوگ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں اور ان کی آواز کو عوام تک نہیں پہنچنے دیتے اور آواز کو اس بہیمانہ طریقے سے مسترد کر دیتے ہیںکہ وہ قاری کے کانوں میں ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کے زمین پر گرنے کی آواز بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ جرم کسی فرد یا افراد کے خلاف نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ انسانوں کے روشن مستقبل کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
آج زندگی کے مختلف شعبوں میں ناقابل یقین ترقی کے جو مناظر اور مظاہرے ہم دیکھ رہے ہیں وہ سب فکری ترقی کے مظہر ہیں۔ ہزاروں سال سے جو عقائد و نظریات انسان کی میراث بنے ہوئے ہیں، وہ آج کی تحقیق، تجربات اور جدید علوم سے متصادم ہیں۔ ناخواندہ ہی نہیں تعلیم یافتہ انسان بھی نہ ان تضادات کو سمجھنے کے لیے تیار ہے نہ ماننے کے لیے تیار ہے۔ اس کی بڑی وجہ اگرچہ عقائد و نظریات کی گہرائی ہے جس کی جڑیں ہزاروں سال کی تاریخ میں گڑی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کی دوسری بڑی وجہ فکر و اظہار پر لگائے ہوئے پہرے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں ایک جاہل عامل بابا تو مشہور بھی ہے مقبول بھی ہے لیکن ایک اہل علم اہل قلم اہل دانش گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا بھی ہے اور عوام کی نظروں سے اوجھل بھی ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارا میڈیا ایک عامل کو جتنی پبلسٹی دیتا ہے عوام کی نظروں میں جہل کا وقار اتنا ہی بلند ہو جاتا ہے۔
ہر دور میں اس دور کے عقائد و نظریات اس دور کے علم اور معلومات کے مطابق رہے، ہم ماضی کے نظریات کو پسماندگی کا نام دیتے ہیں لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ نظریات کی تشکیل علم اور معلومات پر محیط ہوتی ہے ہم آج کے علم اور معلومات کو ترقی کی انتہا کہہ رہے ہیں لیکن علم اور معلومات میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اس کے تناظر میں آنے والے دور میں آج کا علم آج کی معلومات آج کا انسان پسماندہ کہلایا جا سکتا ہے۔ ماضی کی ذہنی پسماندگی کی بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ماضی کا انسان کرہ ارض یعنی ہماری دنیا کو ہی کل کائنات سمجھتا رہا اور اسی پس منظر میں عقائد و نظریات کی تشکیل کرتا رہا، اب جدید علوم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہماری دنیا لامحدود کائنات میں ایک ایٹمی ذرے سے بھی چھوٹی ہے۔
عقل و فہم سے ماوریٰ پھیلی ہوئی کائنات میں ہماری زمین جیسے اربوں سیارے اربوں نظام شمسی کروڑوں چاند سورج اپنے اپنے مداروں پر گردش کر رہے ہیں۔مغربی ملکوں میں تحقیق تجربات ایجادات انکشافات حکومتوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں لیکن ہمارے ملک میں ان اہم ترین شعبوں کو لاوارث رکھا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ان شعبوں میں زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں۔ اس غیر ذمے داری کی ذمے داری ہماری حکومتوں اور حکمرانوں پر آتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقات کی ترجیحات بالکل مختلف ہیں۔ موٹرویز بنانا، اوور ہیڈ برج بنانا، انڈرپاس بنانا ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہے لیکن سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر تحقیقی شعبوں میں ہر طرف سناٹا ہے۔ اسی حوالے سے اگر کچھ کام ہو بھی رہا ہے تو اس کا مقصد ان شعبوں کو ترقی یافتہ بنانا نہیں بلکہ فرض مکانا ہے۔
ہمارے حکمران طبقات کا تعلق یا تو فیوڈل کلاس سے ہے یا پھر کرپٹ کلاس سے۔ ان کی ترجیحات میں قومی دولت کی لوٹ مار سرفہرست ہے اور یہ کلچر اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو گیا ہے زندگی کے اہم ترین شعبے گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں۔ ہمارے ملک کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی غربت، بھوک، بیماری کا شکار ہے، سلاطینی دور کے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور رعایا کو نظریاتی فریبوں میں مبتلا کرنے کے لیے اپنے آپ کو زمین پر خدا کا نائب کہا اور بھوک بیماری جیسی سسٹم کی پیدا کردہ لعنتوں کو تقدیر کا لکھا کہہ کر عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔
اگرچہ سلاطینی دور گزر گیا اور دنیا میں جمہوریت کا بول بالا ہے لیکن آج کا غریب انسان، ناخواندہ نہیں پڑھا لکھا انسان بھی، اپنے مسائل کو قسمت کا لکھا سمجھتا ہے، جس کی وجہ مسائل پیدا کرنے والا حکمران طبقہ اور اس کا نظام عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے اب 69 سال ہو رہے ہیں، اس دوران اشرافیہ اور اس کے حواری اربوں روپوں کے مالک بن گئے اور 80 فیصد سے زیادہ آبادی آج بھی نان جویں کو محتاج ہے۔ عوام کے مزاج کا عجیب عالم ہے کہ وہ اسٹریٹ کرائم کے چھوٹے چھوٹے مجرموں کو پکڑ کر انھیں زندہ جلادیتے ہیں لیکن اربوں کھربوں کی عوامی دولت کے لٹیروں کی طرف ان کی نظر ہی نہیں جاتی۔
اس معاشی ناانصافی کی وجہ بھی عوام کی فکری پسماندگی ہی ہے جو اشرافیہ حکمران طبقے کی پیداکردہ ان معاشی مظالم کو قسمت کا لکھا کہہ کر سہہ لیتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں جہاں ہمارے ملک کی آبادی کا 60 فیصد حصہ رہتا ہے وڈیرہ شاہی نے اپنے منظور نظر افراد کے ذریعے قسمت اور تقدیر کا اس شدت سے پروپیگنڈہ کیا ہے کہ اس آبادی کی نظر اصل مجرموں کی طرف جاتی ہی نہیں۔ حکمران طبقہ اور وڈیرے عوام کو علم سے دور رکھتے ہیں کہ اگر عوام علم حاصل کرلیں تو وہ اپنی غربت بیماری بیکاری کے اصل ذمے داروں کو پہچان لیں گے۔ اگر عوام باشعور ہوجائیں تو لٹیروں کا وہی حال کریں گے جو آج وہ خواتین کا پرس چھیننے والوں اور عوام سے ہزار پانچ سو کی رقم چھیننے والے ڈاکوؤں کا کر رہے ہیں۔