کوئی کھڑکیکوئی دروازہ
ایک طویل سپنس کے بعد آخرکار آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ طے پایا،
GILGIT:
ایک طویل سپنس کے بعد آخرکار آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ طے پایا، نئے آرمی چیف قمر باجوہ کو پاک فوج کی کمان مبارک ! راحیل شریف باوقار انداز میں رخصت ہوئے۔ بہادر اور جری آرمی چیف ہونے کے ناتے انھیں برسوں یاد رکھا جائے گا ۔
کہتے ہیں کسی کو زندگی میں ایک ٹھوکر لگتی ہے تو وہ سنھبل جاتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ایک عام چلن ہے کہ ٹھوکر پر ٹھوکریں کھانے کے باوجود ، ہم بحیثیت فرد یا قوم کچھ سیکھنا یا سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنی اسی ناسمجھی پر قائم رہتے ہیں۔آخرایسا کیوں ہے؟کبھی غورکیا آپ نے ؟ اس کا آسان سا جواب ہے ، چونکہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی بہت کم ہے، تعلیم وشعور کی کمی کے باعث سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں بھی بہت کم ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ ہم جہل کے رستے پر چلتے رہے، تقسیم در تقسیم ہوتے رہے، اب تک قوم، ایک قوم نہ بن سکی،ایک بھیڑ، ایک مجمع بن کر رہ گئی ہے، بس اسی کو بدنصیبی کہتے ہیں کہ عدم اتفاق،انفرادی مفادات کے نذر سب کچھ ہوجائے۔
ہمارے ملک میں شعبہ تعلیم کو جان بوجھ کر نظر اندازکیا گیا، تاکہ عوام تک عمل وآگہی کی روشنی نہ پہنچ سکے ۔ سیاست کے نام پر سیاستدانوں نے افراتفری اور انتشار پھیلایا، آنکھیں ہوتے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہم کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ فضا کچھ ایسی بنا دی گئی ہے کہ شاید ہم سب جنگل کے باسی ہیں جن کا نہ کوئی ماضی ہے اور نہ حال۔
ملکی راز حکمرانوں کے لیے امانت ہوتے ہیں جو ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہونے چاہئیں، مگر یہاں امین اورصادق بننے کے لیے کوئی تیار نہیں، سب حکمران بننا چاہتے ہیں۔ ایک سریا لگی گردن کے ساتھ بڑی کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ سب اپنے ہونٹوں پر انگلیاں رکھ لیں جیسے لائبریری میں Silent رہنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ سرل رپورٹ میں بھی ایک ایسا ٹریلر چلایا گیا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک ماڈریٹ اسٹیٹ بنانے کے لیے دنیا کے ساتھ چلنا ضروری ہے اور دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے جہادی تنظیموں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے جن کو ہم محفوظ اثاثے سمجھتے ہیں۔ سرل رپورٹ سے عالمی قوتوں کو کیا پیغام دیا گیا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، اپنے گھر کوکمزور کرکے کیا ہم محفوظ رہ سکتے ہیں؟ قانون جیسی ایجاد، ساتویں صدی میں ہی فقہ اسلامی کے نام سے ہوچکی تھی جب کہ قانون کی کتابوں میں درج ہے کہ یہ یورپ کی ایجاد ہے۔ اسی لیے شاید قانون یورپ میں زیادہ مضبوط ہے اور ہم جو مسلمان اس کے بانی ہے، مالک ہیں وہ بے یارومددگار اور بے بس ہیں اس دنیا میں۔ ایک چینی مفکرکہتا ہے کہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ بھکاری بنے یا بادشاہ۔
جرم کو چھپانے کے لیے ریکارڈ جلانا، گواہ قتل کرنا، رشوت سے منہ بند کرنا، خوفزدہ کرنا سب کچھ ایک معمول کا حصہ بن گیا ہے۔ جہاں قانون مذاق بن جائے گا تو پھر کہاں کی انسانیت۔ نومبر، دسمبر ہمارے ملک میں بدلاؤ کے مہینے ہیں، سال کے شروع میں جو چڑھتے ہیں وہ آخری مہینوں میں زوال پزیر ہوجاتے ہیں اور عوام پھر سے نئی امیدوں میں گھر جاتے ہیں۔ پچھلے 70 سال سے یہ امیدوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا۔
امریکانے ماہ نومبر میں ایک سرپرائز پوری دنیا کو دیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں۔ تمام تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے، 270 الیکٹرول ووٹ لے کر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن جاتے ہیں جن سے پوری دنیا کو تحفظات ہیں۔ خود امریکی اس فیصلے کو قبول نہیں کر پا رہے، ریسلنگ کے رنگ میں مضحکہ خیز حرکتیں کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے ہیں، بھارت کی بات کرتے ہیں، جب کہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک پاکستان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا رہے گا بھارت کی چوہدراہٹ کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح پاکستان ،امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناتا ہے یا امریکا پاکستان کو کتنا کمفرٹ دیتا ہے یہ ہم جلد ہی دیکھیں گے۔
امریکی معاشرہ خواتین نوازسمجھا جاتا ہے اور تہذیب یافتہ بھی، امریکا نے روتی، منہ بسورتی خواتین کو رونے دیا اور ایک ایسے شخص کو منتخب کرلیا جو عجیب وغریب حرکات و سکنات کا مالک ہے، آج کی مادیت زدہ دنیا ناقابل بیان تضادات کی دنیا ہے۔ حقوق انسانی کا واویلا کیا جاتا ہے مگر انسانوں کو صرف وہی نام نہاد حقوق کے دھوکے ملتے ہیں جب کہ اللہ پاک مکمل حقوق انسان کو پیدا ہوتے ہی عطا فرماتا ہے۔
انسانوں کے بنیادی حقوق پر سرمایہ داروں کو ڈاکا ڈالنا، غریبوں کو ان کے حقوق نہ دینا بلکہ ٹیکس کے نام پر ان کی کھال کھینچ لینا، کیا یہ حقوق کی پامالی نہیں، سرمایہ کے بل بوتے پر مزید سرمایہ بٹورنا اور پسماندہ طبقے کو اس بٹورے گئے سرمایے میں سے حصہ نہ دینا کیا انسانیت کی توہین نہیں؟ اور انسانوں کی سب سے بڑی توہین ایسے شخص کو سردار چن لیا جائے جو عذاب کی صورت بن جائے۔
دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے پاکستان کو ایک ماڈریٹ ریاست بننے کے لیے ضروری نہیں کہ جگہ جگہ Wine Shop ہو، ضروری نہیں عورت مرد کا فرق بالکل ختم کردیا جائے، بالکل ضروری نہیں کہ انسانیت چھوڑکر ہم جانور بن جائیں، جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ پھر شکار بھی ہو رہے ہیں، دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے ایک مضبوط فارن پالیسی ، مضبوط قانون اور ان کا حصول تمام تر شہریوں کی پہنچ میں نہایت آسان، کرپشن کسی بھی صورت میں ہو اس کو کرپشن ہی سمجھا جائے نا کہ مصلحت بنادیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے۔ سردار بن کر غلام بنانے کا شوق یا پھر جانور بن کر شکار کرنے کا شوق آخر کب تک۔ اندر کی تنہائی سے لے کر قبر کی تنہائی تک ہر ذی روح اکیلا ہے۔ اکیلا ہی آیا اور اکیلا ہی جائے گا نہ کوئی سامان، نہ عیش و آرام۔ دکھاوے کی دنیا آنکھ بند ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ خالی فرش پر نہلایا جائے گا، سفید کپڑے کا کفن پہنایا جائے گا اور 7 فٹ کے گڑھے میں دفن کردیا جائے گا جہاں اندھیرا ہی اندھیرا، ہاں روشنی اور راحت صرف ان کے لیے جو سبق سیکھ کر جائیں گے وہ ایک بند کمرہ، نہ کھڑکی نہ دروازہ۔
ایک طویل سپنس کے بعد آخرکار آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ طے پایا، نئے آرمی چیف قمر باجوہ کو پاک فوج کی کمان مبارک ! راحیل شریف باوقار انداز میں رخصت ہوئے۔ بہادر اور جری آرمی چیف ہونے کے ناتے انھیں برسوں یاد رکھا جائے گا ۔
کہتے ہیں کسی کو زندگی میں ایک ٹھوکر لگتی ہے تو وہ سنھبل جاتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ایک عام چلن ہے کہ ٹھوکر پر ٹھوکریں کھانے کے باوجود ، ہم بحیثیت فرد یا قوم کچھ سیکھنا یا سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنی اسی ناسمجھی پر قائم رہتے ہیں۔آخرایسا کیوں ہے؟کبھی غورکیا آپ نے ؟ اس کا آسان سا جواب ہے ، چونکہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی بہت کم ہے، تعلیم وشعور کی کمی کے باعث سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں بھی بہت کم ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ ہم جہل کے رستے پر چلتے رہے، تقسیم در تقسیم ہوتے رہے، اب تک قوم، ایک قوم نہ بن سکی،ایک بھیڑ، ایک مجمع بن کر رہ گئی ہے، بس اسی کو بدنصیبی کہتے ہیں کہ عدم اتفاق،انفرادی مفادات کے نذر سب کچھ ہوجائے۔
ہمارے ملک میں شعبہ تعلیم کو جان بوجھ کر نظر اندازکیا گیا، تاکہ عوام تک عمل وآگہی کی روشنی نہ پہنچ سکے ۔ سیاست کے نام پر سیاستدانوں نے افراتفری اور انتشار پھیلایا، آنکھیں ہوتے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہم کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ فضا کچھ ایسی بنا دی گئی ہے کہ شاید ہم سب جنگل کے باسی ہیں جن کا نہ کوئی ماضی ہے اور نہ حال۔
ملکی راز حکمرانوں کے لیے امانت ہوتے ہیں جو ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہونے چاہئیں، مگر یہاں امین اورصادق بننے کے لیے کوئی تیار نہیں، سب حکمران بننا چاہتے ہیں۔ ایک سریا لگی گردن کے ساتھ بڑی کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ سب اپنے ہونٹوں پر انگلیاں رکھ لیں جیسے لائبریری میں Silent رہنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ سرل رپورٹ میں بھی ایک ایسا ٹریلر چلایا گیا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک ماڈریٹ اسٹیٹ بنانے کے لیے دنیا کے ساتھ چلنا ضروری ہے اور دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے جہادی تنظیموں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے جن کو ہم محفوظ اثاثے سمجھتے ہیں۔ سرل رپورٹ سے عالمی قوتوں کو کیا پیغام دیا گیا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، اپنے گھر کوکمزور کرکے کیا ہم محفوظ رہ سکتے ہیں؟ قانون جیسی ایجاد، ساتویں صدی میں ہی فقہ اسلامی کے نام سے ہوچکی تھی جب کہ قانون کی کتابوں میں درج ہے کہ یہ یورپ کی ایجاد ہے۔ اسی لیے شاید قانون یورپ میں زیادہ مضبوط ہے اور ہم جو مسلمان اس کے بانی ہے، مالک ہیں وہ بے یارومددگار اور بے بس ہیں اس دنیا میں۔ ایک چینی مفکرکہتا ہے کہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ بھکاری بنے یا بادشاہ۔
جرم کو چھپانے کے لیے ریکارڈ جلانا، گواہ قتل کرنا، رشوت سے منہ بند کرنا، خوفزدہ کرنا سب کچھ ایک معمول کا حصہ بن گیا ہے۔ جہاں قانون مذاق بن جائے گا تو پھر کہاں کی انسانیت۔ نومبر، دسمبر ہمارے ملک میں بدلاؤ کے مہینے ہیں، سال کے شروع میں جو چڑھتے ہیں وہ آخری مہینوں میں زوال پزیر ہوجاتے ہیں اور عوام پھر سے نئی امیدوں میں گھر جاتے ہیں۔ پچھلے 70 سال سے یہ امیدوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا۔
امریکانے ماہ نومبر میں ایک سرپرائز پوری دنیا کو دیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں۔ تمام تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے، 270 الیکٹرول ووٹ لے کر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن جاتے ہیں جن سے پوری دنیا کو تحفظات ہیں۔ خود امریکی اس فیصلے کو قبول نہیں کر پا رہے، ریسلنگ کے رنگ میں مضحکہ خیز حرکتیں کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے ہیں، بھارت کی بات کرتے ہیں، جب کہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک پاکستان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا رہے گا بھارت کی چوہدراہٹ کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح پاکستان ،امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناتا ہے یا امریکا پاکستان کو کتنا کمفرٹ دیتا ہے یہ ہم جلد ہی دیکھیں گے۔
امریکی معاشرہ خواتین نوازسمجھا جاتا ہے اور تہذیب یافتہ بھی، امریکا نے روتی، منہ بسورتی خواتین کو رونے دیا اور ایک ایسے شخص کو منتخب کرلیا جو عجیب وغریب حرکات و سکنات کا مالک ہے، آج کی مادیت زدہ دنیا ناقابل بیان تضادات کی دنیا ہے۔ حقوق انسانی کا واویلا کیا جاتا ہے مگر انسانوں کو صرف وہی نام نہاد حقوق کے دھوکے ملتے ہیں جب کہ اللہ پاک مکمل حقوق انسان کو پیدا ہوتے ہی عطا فرماتا ہے۔
انسانوں کے بنیادی حقوق پر سرمایہ داروں کو ڈاکا ڈالنا، غریبوں کو ان کے حقوق نہ دینا بلکہ ٹیکس کے نام پر ان کی کھال کھینچ لینا، کیا یہ حقوق کی پامالی نہیں، سرمایہ کے بل بوتے پر مزید سرمایہ بٹورنا اور پسماندہ طبقے کو اس بٹورے گئے سرمایے میں سے حصہ نہ دینا کیا انسانیت کی توہین نہیں؟ اور انسانوں کی سب سے بڑی توہین ایسے شخص کو سردار چن لیا جائے جو عذاب کی صورت بن جائے۔
دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے پاکستان کو ایک ماڈریٹ ریاست بننے کے لیے ضروری نہیں کہ جگہ جگہ Wine Shop ہو، ضروری نہیں عورت مرد کا فرق بالکل ختم کردیا جائے، بالکل ضروری نہیں کہ انسانیت چھوڑکر ہم جانور بن جائیں، جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ پھر شکار بھی ہو رہے ہیں، دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے ایک مضبوط فارن پالیسی ، مضبوط قانون اور ان کا حصول تمام تر شہریوں کی پہنچ میں نہایت آسان، کرپشن کسی بھی صورت میں ہو اس کو کرپشن ہی سمجھا جائے نا کہ مصلحت بنادیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے۔ سردار بن کر غلام بنانے کا شوق یا پھر جانور بن کر شکار کرنے کا شوق آخر کب تک۔ اندر کی تنہائی سے لے کر قبر کی تنہائی تک ہر ذی روح اکیلا ہے۔ اکیلا ہی آیا اور اکیلا ہی جائے گا نہ کوئی سامان، نہ عیش و آرام۔ دکھاوے کی دنیا آنکھ بند ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ خالی فرش پر نہلایا جائے گا، سفید کپڑے کا کفن پہنایا جائے گا اور 7 فٹ کے گڑھے میں دفن کردیا جائے گا جہاں اندھیرا ہی اندھیرا، ہاں روشنی اور راحت صرف ان کے لیے جو سبق سیکھ کر جائیں گے وہ ایک بند کمرہ، نہ کھڑکی نہ دروازہ۔