لاہور کے پہلوان صحافی سے ملاقات
ریاض الرحمان ساغر اور بہت سے نامی گرامی صحافی، صحافت کے ذریعے ہی فلمی دنیا میں داخل ہوئے تھے
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب مجھے لاہور میں آئے ہوئے چند ماہ ہوئے تھے۔ میری لاہور میں کسی سے کوئی جان پہچان نہیں تھی، نگار ویکلی کراچی کا لاہور میں نمایندہ بن کر آیا تھا اور پھر لاہور کے ایک ہفت روزہ ''اخبار فلم'' میں بطور معاون ایڈیٹر کام کرنے لگا تھا۔
اخبار فلم کے ایڈیٹران اصغر چوہدری اور انور چوہدری سے میری کچھ بے تکلفی ہوگئی تھی۔ ایک دن انور چوہدری کے ساتھ لکشمی چوک میں اقبال آرٹس کے دفتر میں گیا تھا، اقبال آرٹس کو سینماؤں کے پوسٹر اور بینر بنانے میں بڑا کمال حاصل تھا اور لاہور کے فلمی حلقوں میں اس کا بڑا نام تھا۔ لکشمی چوک میں ہر طرف فلمسازوں، تقسیم کاروں اور فلمی اخبارات کے بھی دفتر تھے، انھی دفتروں میں ایک دفتر ہفت روزہ ''اسکرین لائٹ'' کا بھی تھا۔ میں نے انور چوہدری سے پوچھا یار! یہ وہی اخبار تو نہیں جس کے ایڈیٹر صحافت کے شعبے میں آنے سے پہلے اکھاڑے میں پہلوانی کیا کرتے تھے۔ انور چوہدری بولا۔ ہاں تم نے ٹھیک پہچانا۔ ان کا نام غفور بٹ ہے یار! اخبار کے ایڈیٹر کے علاوہ یہ بڑا بیبا بندہ ہے، یاروں کا یار، فلم انڈسٹری میں بڑا ٹہکا ہے بٹ صاحب کا اور میرے ساتھ تو بڑی بے تکلفی ہے، آؤ آج تمہاری بھی بٹ صاحب سے ملاقات کراتے ہیں۔
پھر ہم دونوں اخبار کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں غفور بٹ صاحب سے اپنی پہلی دبنگ ملاقات کا تذکرہ کروں، اس بات کی وضاحت کردوں کہ ان دنوں فلم انڈسٹری میں فلمی رسائل اور فلمی اخبارات کی بڑی دھوم تھی۔ فلمساز، ہدایت کار، شاعر شباب کیرانوی، ہدایت کار، فلمساز و مصنف ریاض شاہد، مصنف علی سفیان آفاقی، بشیر نیاز، ریاض الرحمان ساغر اور بہت سے نامی گرامی صحافی، صحافت کے ذریعے ہی فلمی دنیا میں داخل ہوئے تھے اور پھر انھوں نے نہ صرف نام کمایا بلکہ فلم انڈسٹری کو پروان بھی چڑھایا اور فلمی دنیا میں بے شمار آرٹسٹوں کو بھی روشناس کرایا۔ اس زمانے میں فلمی اخبارات اور رسائل کا فلم انڈسٹری پر بڑا گہرا اثر تھا۔ کئی اخبارات نے فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے بڑے شاندار پیمانے پر ایوارڈز کا بھی اجرا کیا تھا۔ ان فلمی رسالوں اور ہفت روزہ اخبارات کی دیکھا دیکھی سیاسی اخبارات نے بھی اپنے ہفت روزہ فلمی ایڈیشن نکالنے شروع کردیے تھے۔ اس زمانے میں فلمی صحافت اور فلم انڈسٹری کا چولی دامن جیسا ساتھ تھا، فلمی اخبارات فلم انڈسٹری کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا کرتے تھے۔
اب میں پھر ہفت روزہ اسکرین لائٹ کے ایڈیٹر غفور بٹ کی طرف آتا ہوں۔ انور چوہدری نے بٹ صاحب سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ کراچی کے فلمی صحافی اور شاعر یونس ہمدم ہیں، یہ اب لاہور آگئے ہیں، کراچی میں کئی فلموں کے لیے نغمات بھی لکھ چکے ہیں۔ اب لاہور کی فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی کریں گے۔ انھیں دوسرے فلمی صحافیوں کے ساتھ ساتھ آپ کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ بٹ صاحب نے بے ساختہ کہا اوئے جم جم لاہور میں رہو، محنت کروگے تو آج نہیں تو کل تمہاری بھی یہاں جے جے کار ہونے لگے گی۔
پھر انھوں نے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور اس طرح ملایا کہ میں چند لمحوں کے لیے تلملا کر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ یہ پہلوان قسم کا شخص فلمی صحافت میں کیسے آگیا، اس شخص کو تو اکھاڑے ہی میں ہونا چاہیے تھا؟ مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ غفور بٹ اکھاڑے کو خیرباد کہہ کر صحافت کے میدان میں اتر گئے تھے اور اب ان کے گرد پہلوانوں کے بجائے ادیبوں، شاعروں اور فوٹو گرافر حضرات کی قطار لگی رہتی تھی۔ بٹ صاحب نے مجھے خاموش دیکھ کر کہا اوئے یونس ہمدم! ہمارے دفتر میں کسی بھی آدمی کی خاموشی ناقابل برداشت ہوتی ہے، کچھ تم بھی بولو۔ میں نے کہا آپ بڑے ہیں، میں بڑوں کے سامنے بولنے کی کیا جسارت کروں۔
بٹ صاحب پھر بولے او یار! اب ہم اتنے بھی بڑے نہیں کہ تم ہمیں بزرگ سمجھنے لگو، البتہ تم ہم سے چھوٹے ضرور ہو مگر اتنے بھی چھوٹے نہیں کہ تمہیں ہم اوئے چھوٹے کہہ کر مخاطب کریں۔ اس جملے پر دفتر میں سب ہی ہنس دیے اور میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ بٹ صاحب نے پھر مجھے اپنے قریب والی کرسی پر بٹھاتے ہوئے بڑی شفقت سے کہا۔ تم کراچی سے آئے ہو، لاہور کے بعد ہمیں کراچی سب سے زیادہ پسند ہے، تم شاعر بھی ہو اور صحافی بھی، اس دفتر کے دروازے اب تمہارے لیے بھی ہر وقت کھلے رہیں گے۔ بس تسی کچھ سناؤ۔ تمہیں ایسے دبنگ سننے والے کہیں اور نہیں ملیں گے۔ یہ دفتر صحافت کا اکھاڑا ہے۔ یہاں بڑے بڑے پہلوان ادیب اور شاعر آتے رہتے ہیں۔ قتیل شفائی سے لے کر خواجہ پرویز تک اس دفتر میں شاعروں کی سجاوٹ بنی رہتی ہے۔ چلو اب کچھ سناؤ! میں نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا بٹ صاحب! میرے لیے تو یہ ایک بڑے اعزاز کی بات ہے، پر میں یہاں کچھ سنانے کے موڈ میں تو نہیں تھا مگر آپ کی محبت کے اس بہتے دریا کو روک نہیں سکتا، فی الحال ایک قطعہ آپ کی نذر ہے۔ میں نے ایک قطعہ سنایا:
خار ناخن تیز کرتے ہیں
جب کوئی پھول مسکراتا ہے
پھول کا ظرف ہے کہ خاروں کو
اپنے دل کا لہو پلاتا ہے
پھر ان کے اصرار پر ایک غزل بھی سنائی تو بٹ صاحب بولے۔ یونس ہمدم! یہ تو نہیں تیرے اندر کا جنون بول رہا ہے اور جس کے پاس جنون کی دولت ہوتی ہے اس کی ایک دن جیت ضرور ہوتی ہے۔ میں نے کہا یہ ذرہ نوازی ہے۔ وہ بولے یونس ہمدم! اب چھوڑ دو یہ لکھنوی انداز، اب تم لاہور آگئے ہو، لاہور دی ریساں اپناؤ اور اپنی جان بناؤ، تم بڑے کمزور بدن کے ہو، تمہیں کھابے شابے کی بڑی ضرورت ہے اور پیڑے والی لسی بھی پیا کرو، شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی جان بھی بناؤ ، جان ہے تو جہان ہے۔
یہ تھی میری غفور بٹ صاحب سے پہلی جاندار اور دلچسپ ملاقات۔ اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا بعد میں پتہ چلا کہ غفور بٹ تو اپنی کمسنی کے زمانے ہی سے اکھاڑے کے شہزادے تھے ان کا خاندان مشہور پہلوانوں کا خاندان ہے اور ان کے خاندان کا سلسلہ رستم زماں گاما خاندان سے جاکر ملتا ہے اور امرتسری پہلوانوں کی کھیپ میں غفور بٹ پہلوان کو بھی شہرت حاصل تھی اور یہی غفور بٹ کی ابتدائی پہچان تھی۔ اکھاڑے کی مٹی اور کسرتی بدن اپنی شناخت آپ ہی ہوتا ہے، مگر ہوا یوں کہ غفور بٹ کو کشتیوں کے ساتھ ساتھ فلم بینی کا بھی شوق ہوگیا اور ہر نئی فلم کے پہلے شوز کے ٹکٹ ان کی دبنگ شخصیت کی وجہ سے خود چل کر ان کے پاس آجاتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اکھاڑے کی کُشتیاں پس منظر میں چلی گئیں اور فلمی دنیا کی چمک دمک ان کے دل میں بستی چلی گئی۔
اس فلمی چمک نے ایسا رجھایا کہ یہ فلمی صحافت میں بڑے ٹہکے کے ساتھ داخل ہوئے اور ہفت روزہ اسکرین لائٹ کا شاندار پیمانے پر اجرا کیا لکشمی چوک میں، پھر سیکریٹ لائٹ ویکلی کا دفتر بھی چمکنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ فلمی اخبار فلمی دنیا کا ہر دلعزیز اخبار بنتا چلا گیا۔ اب غفور بٹ کے دفتر میں ادیبوں، شاعروں اور فوٹو گرافروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور شاید ہی کوئی ہیروئن یا ہیرو ہوگا جس نے اسکرین لائٹ کے دفتر کی سیڑھیاں نہ چڑھی ہوں۔ اسی دوران غفور بٹ نے لاہور میں اسکرین لائٹ فلم ایوارڈز کا آغاز بھی کیا، نگار ایوارڈ کے بعد لاہور میں اسکرین لائٹ فلم ایوارڈ کسی فلمی صحافی کی طرف سے دوسرا بڑا ایوارڈ تھا۔ ایک وہ دور بھی تھا جب لاہور میں فلم ایوارڈز کی بھی بڑی بہار ہوا کرتی تھی۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نیشنل فلم ایوارڈ تو کبھی کبھار ہی ہوا کرتے تھے، مگر نگار ایوارڈ، اسکرین لائٹ ایوارڈ، نورجہاں ایوارڈ، مصور ایوارڈ جو فلمی صحافت سے تعلق رکھتے تھے وہ ہر سال پابندی سے دیے جاتے تھے اور ان ایوارڈ کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔
یہ فلم ایوارڈز اس زمانے میں فلم انڈسٹری کی بیک بون سمجھے جاتے تھے، یہ ایوارڈز فلم انڈسٹری کی پروموشن کے علاوہ فلم کے فنکاروں اور تکنیک کاروں کو بھی بڑا حوصلہ دیا کرتے تھے۔ وہ زمانہ بڑا ہی سنہرا زمانہ تھا۔ آج بھی جب میں فلم انڈسٹری کے ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو میری آنکھوں میں چمک سی آجاتی ہے اور مجھے یک گونہ خوشی ہوتی ہے کہ میں بھی کبھی اس سنہرے دور کا حصہ رہا تھا۔ ان دنوں کی یاد آتے ہوئے مجھے غفور بٹ کی شخصیت بھی یاد آتی ہے وہ بڑے دل نواز، دوست نواز اور بہت ہی پیارے انسان تھے اللہ ان کے درجات بلند کرے۔
اخبار فلم کے ایڈیٹران اصغر چوہدری اور انور چوہدری سے میری کچھ بے تکلفی ہوگئی تھی۔ ایک دن انور چوہدری کے ساتھ لکشمی چوک میں اقبال آرٹس کے دفتر میں گیا تھا، اقبال آرٹس کو سینماؤں کے پوسٹر اور بینر بنانے میں بڑا کمال حاصل تھا اور لاہور کے فلمی حلقوں میں اس کا بڑا نام تھا۔ لکشمی چوک میں ہر طرف فلمسازوں، تقسیم کاروں اور فلمی اخبارات کے بھی دفتر تھے، انھی دفتروں میں ایک دفتر ہفت روزہ ''اسکرین لائٹ'' کا بھی تھا۔ میں نے انور چوہدری سے پوچھا یار! یہ وہی اخبار تو نہیں جس کے ایڈیٹر صحافت کے شعبے میں آنے سے پہلے اکھاڑے میں پہلوانی کیا کرتے تھے۔ انور چوہدری بولا۔ ہاں تم نے ٹھیک پہچانا۔ ان کا نام غفور بٹ ہے یار! اخبار کے ایڈیٹر کے علاوہ یہ بڑا بیبا بندہ ہے، یاروں کا یار، فلم انڈسٹری میں بڑا ٹہکا ہے بٹ صاحب کا اور میرے ساتھ تو بڑی بے تکلفی ہے، آؤ آج تمہاری بھی بٹ صاحب سے ملاقات کراتے ہیں۔
پھر ہم دونوں اخبار کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں غفور بٹ صاحب سے اپنی پہلی دبنگ ملاقات کا تذکرہ کروں، اس بات کی وضاحت کردوں کہ ان دنوں فلم انڈسٹری میں فلمی رسائل اور فلمی اخبارات کی بڑی دھوم تھی۔ فلمساز، ہدایت کار، شاعر شباب کیرانوی، ہدایت کار، فلمساز و مصنف ریاض شاہد، مصنف علی سفیان آفاقی، بشیر نیاز، ریاض الرحمان ساغر اور بہت سے نامی گرامی صحافی، صحافت کے ذریعے ہی فلمی دنیا میں داخل ہوئے تھے اور پھر انھوں نے نہ صرف نام کمایا بلکہ فلم انڈسٹری کو پروان بھی چڑھایا اور فلمی دنیا میں بے شمار آرٹسٹوں کو بھی روشناس کرایا۔ اس زمانے میں فلمی اخبارات اور رسائل کا فلم انڈسٹری پر بڑا گہرا اثر تھا۔ کئی اخبارات نے فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے بڑے شاندار پیمانے پر ایوارڈز کا بھی اجرا کیا تھا۔ ان فلمی رسالوں اور ہفت روزہ اخبارات کی دیکھا دیکھی سیاسی اخبارات نے بھی اپنے ہفت روزہ فلمی ایڈیشن نکالنے شروع کردیے تھے۔ اس زمانے میں فلمی صحافت اور فلم انڈسٹری کا چولی دامن جیسا ساتھ تھا، فلمی اخبارات فلم انڈسٹری کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا کرتے تھے۔
اب میں پھر ہفت روزہ اسکرین لائٹ کے ایڈیٹر غفور بٹ کی طرف آتا ہوں۔ انور چوہدری نے بٹ صاحب سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ کراچی کے فلمی صحافی اور شاعر یونس ہمدم ہیں، یہ اب لاہور آگئے ہیں، کراچی میں کئی فلموں کے لیے نغمات بھی لکھ چکے ہیں۔ اب لاہور کی فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی کریں گے۔ انھیں دوسرے فلمی صحافیوں کے ساتھ ساتھ آپ کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ بٹ صاحب نے بے ساختہ کہا اوئے جم جم لاہور میں رہو، محنت کروگے تو آج نہیں تو کل تمہاری بھی یہاں جے جے کار ہونے لگے گی۔
پھر انھوں نے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور اس طرح ملایا کہ میں چند لمحوں کے لیے تلملا کر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ یہ پہلوان قسم کا شخص فلمی صحافت میں کیسے آگیا، اس شخص کو تو اکھاڑے ہی میں ہونا چاہیے تھا؟ مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ غفور بٹ اکھاڑے کو خیرباد کہہ کر صحافت کے میدان میں اتر گئے تھے اور اب ان کے گرد پہلوانوں کے بجائے ادیبوں، شاعروں اور فوٹو گرافر حضرات کی قطار لگی رہتی تھی۔ بٹ صاحب نے مجھے خاموش دیکھ کر کہا اوئے یونس ہمدم! ہمارے دفتر میں کسی بھی آدمی کی خاموشی ناقابل برداشت ہوتی ہے، کچھ تم بھی بولو۔ میں نے کہا آپ بڑے ہیں، میں بڑوں کے سامنے بولنے کی کیا جسارت کروں۔
بٹ صاحب پھر بولے او یار! اب ہم اتنے بھی بڑے نہیں کہ تم ہمیں بزرگ سمجھنے لگو، البتہ تم ہم سے چھوٹے ضرور ہو مگر اتنے بھی چھوٹے نہیں کہ تمہیں ہم اوئے چھوٹے کہہ کر مخاطب کریں۔ اس جملے پر دفتر میں سب ہی ہنس دیے اور میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ بٹ صاحب نے پھر مجھے اپنے قریب والی کرسی پر بٹھاتے ہوئے بڑی شفقت سے کہا۔ تم کراچی سے آئے ہو، لاہور کے بعد ہمیں کراچی سب سے زیادہ پسند ہے، تم شاعر بھی ہو اور صحافی بھی، اس دفتر کے دروازے اب تمہارے لیے بھی ہر وقت کھلے رہیں گے۔ بس تسی کچھ سناؤ۔ تمہیں ایسے دبنگ سننے والے کہیں اور نہیں ملیں گے۔ یہ دفتر صحافت کا اکھاڑا ہے۔ یہاں بڑے بڑے پہلوان ادیب اور شاعر آتے رہتے ہیں۔ قتیل شفائی سے لے کر خواجہ پرویز تک اس دفتر میں شاعروں کی سجاوٹ بنی رہتی ہے۔ چلو اب کچھ سناؤ! میں نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا بٹ صاحب! میرے لیے تو یہ ایک بڑے اعزاز کی بات ہے، پر میں یہاں کچھ سنانے کے موڈ میں تو نہیں تھا مگر آپ کی محبت کے اس بہتے دریا کو روک نہیں سکتا، فی الحال ایک قطعہ آپ کی نذر ہے۔ میں نے ایک قطعہ سنایا:
خار ناخن تیز کرتے ہیں
جب کوئی پھول مسکراتا ہے
پھول کا ظرف ہے کہ خاروں کو
اپنے دل کا لہو پلاتا ہے
پھر ان کے اصرار پر ایک غزل بھی سنائی تو بٹ صاحب بولے۔ یونس ہمدم! یہ تو نہیں تیرے اندر کا جنون بول رہا ہے اور جس کے پاس جنون کی دولت ہوتی ہے اس کی ایک دن جیت ضرور ہوتی ہے۔ میں نے کہا یہ ذرہ نوازی ہے۔ وہ بولے یونس ہمدم! اب چھوڑ دو یہ لکھنوی انداز، اب تم لاہور آگئے ہو، لاہور دی ریساں اپناؤ اور اپنی جان بناؤ، تم بڑے کمزور بدن کے ہو، تمہیں کھابے شابے کی بڑی ضرورت ہے اور پیڑے والی لسی بھی پیا کرو، شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی جان بھی بناؤ ، جان ہے تو جہان ہے۔
یہ تھی میری غفور بٹ صاحب سے پہلی جاندار اور دلچسپ ملاقات۔ اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا بعد میں پتہ چلا کہ غفور بٹ تو اپنی کمسنی کے زمانے ہی سے اکھاڑے کے شہزادے تھے ان کا خاندان مشہور پہلوانوں کا خاندان ہے اور ان کے خاندان کا سلسلہ رستم زماں گاما خاندان سے جاکر ملتا ہے اور امرتسری پہلوانوں کی کھیپ میں غفور بٹ پہلوان کو بھی شہرت حاصل تھی اور یہی غفور بٹ کی ابتدائی پہچان تھی۔ اکھاڑے کی مٹی اور کسرتی بدن اپنی شناخت آپ ہی ہوتا ہے، مگر ہوا یوں کہ غفور بٹ کو کشتیوں کے ساتھ ساتھ فلم بینی کا بھی شوق ہوگیا اور ہر نئی فلم کے پہلے شوز کے ٹکٹ ان کی دبنگ شخصیت کی وجہ سے خود چل کر ان کے پاس آجاتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اکھاڑے کی کُشتیاں پس منظر میں چلی گئیں اور فلمی دنیا کی چمک دمک ان کے دل میں بستی چلی گئی۔
اس فلمی چمک نے ایسا رجھایا کہ یہ فلمی صحافت میں بڑے ٹہکے کے ساتھ داخل ہوئے اور ہفت روزہ اسکرین لائٹ کا شاندار پیمانے پر اجرا کیا لکشمی چوک میں، پھر سیکریٹ لائٹ ویکلی کا دفتر بھی چمکنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ فلمی اخبار فلمی دنیا کا ہر دلعزیز اخبار بنتا چلا گیا۔ اب غفور بٹ کے دفتر میں ادیبوں، شاعروں اور فوٹو گرافروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور شاید ہی کوئی ہیروئن یا ہیرو ہوگا جس نے اسکرین لائٹ کے دفتر کی سیڑھیاں نہ چڑھی ہوں۔ اسی دوران غفور بٹ نے لاہور میں اسکرین لائٹ فلم ایوارڈز کا آغاز بھی کیا، نگار ایوارڈ کے بعد لاہور میں اسکرین لائٹ فلم ایوارڈ کسی فلمی صحافی کی طرف سے دوسرا بڑا ایوارڈ تھا۔ ایک وہ دور بھی تھا جب لاہور میں فلم ایوارڈز کی بھی بڑی بہار ہوا کرتی تھی۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نیشنل فلم ایوارڈ تو کبھی کبھار ہی ہوا کرتے تھے، مگر نگار ایوارڈ، اسکرین لائٹ ایوارڈ، نورجہاں ایوارڈ، مصور ایوارڈ جو فلمی صحافت سے تعلق رکھتے تھے وہ ہر سال پابندی سے دیے جاتے تھے اور ان ایوارڈ کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔
یہ فلم ایوارڈز اس زمانے میں فلم انڈسٹری کی بیک بون سمجھے جاتے تھے، یہ ایوارڈز فلم انڈسٹری کی پروموشن کے علاوہ فلم کے فنکاروں اور تکنیک کاروں کو بھی بڑا حوصلہ دیا کرتے تھے۔ وہ زمانہ بڑا ہی سنہرا زمانہ تھا۔ آج بھی جب میں فلم انڈسٹری کے ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو میری آنکھوں میں چمک سی آجاتی ہے اور مجھے یک گونہ خوشی ہوتی ہے کہ میں بھی کبھی اس سنہرے دور کا حصہ رہا تھا۔ ان دنوں کی یاد آتے ہوئے مجھے غفور بٹ کی شخصیت بھی یاد آتی ہے وہ بڑے دل نواز، دوست نواز اور بہت ہی پیارے انسان تھے اللہ ان کے درجات بلند کرے۔