ایدھی کے بعد ایدھی مشن کو بھی یاد رکھیے
ہم اب اِس حد تک شخصیت پرست ہوچکے ہیں کہ ایدھی صاحب کے انتقال کے بعد ہم نے اُن کو فنڈ دینا بھی بند کردیے ہیں۔
KARACHI:
پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے کے بانی عبدالستار ایدھی مرحوم کے صاحبزادے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر فیصل ایدھی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں لوگوں سے مالی مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے فنڈز میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے، جس کے باعث ادارے کو فلاحی کام جاری رکھنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
یقینًا خیراتی و فلاحی اداروں کی آمدنی کا ایک بڑا حصّہ لوگوں کی طرف سے دی جانے والی ڈونیشن یا عطیات ہوتے ہیں اور ان عطیات کے بغیر ان اداروں کا کام جاری رکھنا تقریباََ ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ایسے سینکڑوں ادارے مناسب فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں۔ میں خدانخواستہ یہ تو نہیں کہتا کہ یہ ادارہ بھی بند ہونے جا رہا ہے مگر فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی صاحب کی وفات سے لے کر اب تک چھ ماہ کے عرصے میں فاؤنڈیشن کو ملنے والے چندے میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہے جو کہ بہرحال ایک پریشان کُن صورتحال ہے اور مستقبل میں گھمبیر رُخ بھی اختیار کرسکتی ہے۔
مختلف لوگوں کی نظر میں اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں مگر میری نظر میں اس صورتحال کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ہماری ہٹ دھرمی کی حد تک شخصیت پرستی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایدھی صاحب ایک عظیم شخصیت تھے اور اُن کی وفات سے پیدا ہوجانے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوسکتا، لوگ ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں ان پر اندھا اعتماد تھا۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایدھی مرحوم کی کرشماتی شخصیت کے سحر میں ایسے کھوئے کہ بھول ہی گئے کہ ایدھی صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام تھا، وہ سوچ جو وہ ہم سب میں منتقل کرنا چاہتے تھے، وہ سوچ جسے ان کے بیوی بچوں نے اپنا مقصدِ حیات بنالیا، وہ سوچ جسے اپناتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن کا ہر کارکن ایدھی مرحوم ہی کی طرح پوری مستعدی سے انسانیت کی خدمت میں مگن ہے۔
پوری دنیا نے 8 جولائی 2016ء کو وہ وقت بھی دیکھا، جب ایدھی صاحب کی وفات پر بھی ایدھی فاؤنڈیشن میں کام ایک لمحے کے لئے بھی نہ رکا اور انسانیت کی خدمت بالکل اسی طرح سے جاری رہی جیسے ان کی زندگی میں رہتی تھی۔ بس ایدھی مرحوم کی سوچ سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔
اگر ایدھی فاؤنڈیشن صرف ایک شخصیت کا نام ہوتی تو یہ ادارہ بھی ان کی وفات کے ساتھ ہی دم توڑ جاتا اور ان کی میت کے ساتھ ہی دفن ہوجاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ شدید مالی مشکلات کے باوجود آج بھی ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکن اُسی لگن سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسے کہ وہ ان کی زندگی میں جاری رکھے ہوئے تھے۔ آج بھی کسی ناگہانی آفت کی صورت میں ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار حکومتی اداروں سے پہلے متاثرہ جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج بھی تعفن زدہ لاشیں اُسی جذبے سے سرشار ہوکر اُٹھائی جاتی ہیں، جو کبھی ایدھی مرحوم کی پہچان تھا۔ آج بھی ہر لاوارث لاش آپ کو ایدھی سینٹر سے ہی ملے گی، آج بھی بے سہارا اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے سر ڈھانپنے کے لئے ایدھی شیلٹرز کا ہی رخ کرتے ہیں۔ آج بھی سینکڑوں لاوارث بچوں کا واحد سہارا یہی ادارہ ہے جو ہر وقت اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح یہ ننھے فرشتے اپنے وارثوں تک پہنچ جائیں۔ کل گناہ کے نام پر دھتکار دیئے جانے والے جن نومولود بچوں کو ایدھی مرحوم شفقت سے اپنی آغوش میں لیتے تھے آج ان معصوموں کو ان کا بیٹا سینے سے لگارہا ہے۔
غرضیکہ ایدھی فاؤنڈیشن فیصل ایدھی کی رہنمائی میں بھی بالکل ویسے ہی دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے جیسے اُن کے والد عبدالستار ایدھی کی زندگی میں تھی اور یقینًا یہ سب کام سر انجام دینے کے لئے بالکل ویسے ہی فنڈز درکار ہیں، جیسے اُن کے والد کی زندگی میں ہوا کرتے تھے۔ کل ایدھی فاؤنڈیشن کے لئے عبدالستار ایدھی جھولی پھیلائے کھڑے ہوتے تھے اور آج ان کا بیٹا اپنے باپ کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے جھولی پھیلانے کو تیارکھڑا ہے۔ اگر ہم اب بھی مدد کو آگے نہ بڑھے تو گزرے کل ہم عبدالستار ایدھی کو روئے تھے اور آنے والے کل میں ہم ایدھی فاؤنڈیشن کو روئیں گے۔
آخر میں ایک گزارش فیصل ایدھی سے بھی ہے، فیصل ایدھی صاحب! ہمیں آپ کی نیک نیتی اور صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں، آپ یقیناً ایدھی فاؤنڈیشن کے انتظامی اُمور سنبھالنے کی قابلیت رکھتے ہیں جو ایدھی صاحب نے اپنی زندگی میں ہی آپ کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا، مگر کیا ہی اچھا ہو کہ آپ کی قیادت میں ایدھی فاؤنڈیشن ایک ایسے ادارے میں ڈھل جائے کہ کسی کے چلے جانے سے اس ادارے کی مثالی کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑے، کسی کے چھوڑ جانے سے اس ادارے کی ساکھ متاثر نہ ہو، کوئی اس کی نیک نیتی پر انگلی نہ اٹھاسکے، اور انسانیت کی خدمت کا یہ عظیم کام جسے آپ کے والد نے کراچی کے ایک چھوٹے سےعلاقے سے شروع کرکے دنیا کے کئی ممالک تک پھیلادیا تھا، رہتی دنیا تک اسی رفتار سے جاری رہے جیسے وہ اسے جاری رکھنا چاہتے تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے کے بانی عبدالستار ایدھی مرحوم کے صاحبزادے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر فیصل ایدھی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں لوگوں سے مالی مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے فنڈز میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے، جس کے باعث ادارے کو فلاحی کام جاری رکھنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
یقینًا خیراتی و فلاحی اداروں کی آمدنی کا ایک بڑا حصّہ لوگوں کی طرف سے دی جانے والی ڈونیشن یا عطیات ہوتے ہیں اور ان عطیات کے بغیر ان اداروں کا کام جاری رکھنا تقریباََ ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ایسے سینکڑوں ادارے مناسب فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں۔ میں خدانخواستہ یہ تو نہیں کہتا کہ یہ ادارہ بھی بند ہونے جا رہا ہے مگر فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی صاحب کی وفات سے لے کر اب تک چھ ماہ کے عرصے میں فاؤنڈیشن کو ملنے والے چندے میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہے جو کہ بہرحال ایک پریشان کُن صورتحال ہے اور مستقبل میں گھمبیر رُخ بھی اختیار کرسکتی ہے۔
مختلف لوگوں کی نظر میں اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں مگر میری نظر میں اس صورتحال کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ہماری ہٹ دھرمی کی حد تک شخصیت پرستی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایدھی صاحب ایک عظیم شخصیت تھے اور اُن کی وفات سے پیدا ہوجانے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوسکتا، لوگ ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں ان پر اندھا اعتماد تھا۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایدھی مرحوم کی کرشماتی شخصیت کے سحر میں ایسے کھوئے کہ بھول ہی گئے کہ ایدھی صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام تھا، وہ سوچ جو وہ ہم سب میں منتقل کرنا چاہتے تھے، وہ سوچ جسے ان کے بیوی بچوں نے اپنا مقصدِ حیات بنالیا، وہ سوچ جسے اپناتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن کا ہر کارکن ایدھی مرحوم ہی کی طرح پوری مستعدی سے انسانیت کی خدمت میں مگن ہے۔
پوری دنیا نے 8 جولائی 2016ء کو وہ وقت بھی دیکھا، جب ایدھی صاحب کی وفات پر بھی ایدھی فاؤنڈیشن میں کام ایک لمحے کے لئے بھی نہ رکا اور انسانیت کی خدمت بالکل اسی طرح سے جاری رہی جیسے ان کی زندگی میں رہتی تھی۔ بس ایدھی مرحوم کی سوچ سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔
اگر ایدھی فاؤنڈیشن صرف ایک شخصیت کا نام ہوتی تو یہ ادارہ بھی ان کی وفات کے ساتھ ہی دم توڑ جاتا اور ان کی میت کے ساتھ ہی دفن ہوجاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ شدید مالی مشکلات کے باوجود آج بھی ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکن اُسی لگن سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسے کہ وہ ان کی زندگی میں جاری رکھے ہوئے تھے۔ آج بھی کسی ناگہانی آفت کی صورت میں ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار حکومتی اداروں سے پہلے متاثرہ جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج بھی تعفن زدہ لاشیں اُسی جذبے سے سرشار ہوکر اُٹھائی جاتی ہیں، جو کبھی ایدھی مرحوم کی پہچان تھا۔ آج بھی ہر لاوارث لاش آپ کو ایدھی سینٹر سے ہی ملے گی، آج بھی بے سہارا اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے سر ڈھانپنے کے لئے ایدھی شیلٹرز کا ہی رخ کرتے ہیں۔ آج بھی سینکڑوں لاوارث بچوں کا واحد سہارا یہی ادارہ ہے جو ہر وقت اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح یہ ننھے فرشتے اپنے وارثوں تک پہنچ جائیں۔ کل گناہ کے نام پر دھتکار دیئے جانے والے جن نومولود بچوں کو ایدھی مرحوم شفقت سے اپنی آغوش میں لیتے تھے آج ان معصوموں کو ان کا بیٹا سینے سے لگارہا ہے۔
غرضیکہ ایدھی فاؤنڈیشن فیصل ایدھی کی رہنمائی میں بھی بالکل ویسے ہی دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے جیسے اُن کے والد عبدالستار ایدھی کی زندگی میں تھی اور یقینًا یہ سب کام سر انجام دینے کے لئے بالکل ویسے ہی فنڈز درکار ہیں، جیسے اُن کے والد کی زندگی میں ہوا کرتے تھے۔ کل ایدھی فاؤنڈیشن کے لئے عبدالستار ایدھی جھولی پھیلائے کھڑے ہوتے تھے اور آج ان کا بیٹا اپنے باپ کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے جھولی پھیلانے کو تیارکھڑا ہے۔ اگر ہم اب بھی مدد کو آگے نہ بڑھے تو گزرے کل ہم عبدالستار ایدھی کو روئے تھے اور آنے والے کل میں ہم ایدھی فاؤنڈیشن کو روئیں گے۔
آخر میں ایک گزارش فیصل ایدھی سے بھی ہے، فیصل ایدھی صاحب! ہمیں آپ کی نیک نیتی اور صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں، آپ یقیناً ایدھی فاؤنڈیشن کے انتظامی اُمور سنبھالنے کی قابلیت رکھتے ہیں جو ایدھی صاحب نے اپنی زندگی میں ہی آپ کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا، مگر کیا ہی اچھا ہو کہ آپ کی قیادت میں ایدھی فاؤنڈیشن ایک ایسے ادارے میں ڈھل جائے کہ کسی کے چلے جانے سے اس ادارے کی مثالی کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑے، کسی کے چھوڑ جانے سے اس ادارے کی ساکھ متاثر نہ ہو، کوئی اس کی نیک نیتی پر انگلی نہ اٹھاسکے، اور انسانیت کی خدمت کا یہ عظیم کام جسے آپ کے والد نے کراچی کے ایک چھوٹے سےعلاقے سے شروع کرکے دنیا کے کئی ممالک تک پھیلادیا تھا، رہتی دنیا تک اسی رفتار سے جاری رہے جیسے وہ اسے جاری رکھنا چاہتے تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔