انصاف جمہوریت کی شناخت ہے

سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا


Editorial December 03, 2016
فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا، ملزم انار پر تھانہ قادر آباد ضلع منڈی بہاؤالدین میں قتل کا الزام تھا جسے ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی جب کہ ہائیکورٹ نے موت کی سزا عمر قید میں تبدیل کی تھی، ملزم گزشتہ 11 سال سے جیل میں ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بنچ نے گواہوں کے بیانات میں تضادات کی بنیاد پر ملزم کو بری کردیا۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران عدالت عظمیٰ نے بعض چشم کشا فیصلے دیے اور ایسے مجرموں کو بری کرنے کا حکم دیا جن کو ماتحت اور اعلیٰ عدالتوں سے سزائے موت سنائی گئی ، وہ مدتوں جیلوں میں پڑے رہے، بعض قیدی بری ہونے سے پہلے دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، تاہم جب سپریم کورٹ نے دیگر عدالتی فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کی، جرح کے دوران فاضل ججز نے کیس میں مضمر گہرے تضادات کی نشاندہی کی اور غلط بیانات، کمزور تفتیش ، جھوٹی گواہیوں اور پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث سزا ختم کر کے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

مذکورہ کیس میں بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کی مدعی نے جھوٹی کہانی گھڑی ہے، بدقسمتی سے جھوٹے مدعی کو سزا نہیں ہوتی، انھوں نے قرار دیا کہ جھوٹا دعویٰ دائر کرنے پر مدعی کو سزا ملے گی تو جھوٹے مقدمات دائر ہونا بند ہو جائیں گے۔

حقیقت میں عدالت عظمیٰ کے حالیہ یکے بعد دیگرے فیصلوں نے جہاں قانون وانصاف سے متعلقہ محکموں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں ، جیل انتظامیہ، ارباب اختیار اور سول سوسائٹی کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے وہاں ملکی نظام انصاف میں بنیادی اصلاحات کی اشد ضرورت کا احساس بھی دلایا ہے، ایک بیگناہ شخص صرف اس وجہ سے پکڑا جائے اور اسے سزائے موت ملے کہ وہ جھوٹے مقدمہ میں جھوٹے مدعی کے ذریعے پھنسایا گیا، افسوس ناک ہے۔

ایک جمہوری معاشرے میں قانون کی حکمرانی کا تصور ہر شخص کے لیے دلفریب ہے مگر عملی طور پر صورتحال اس کے قطعی برعکس ہے، ماہرین قانون بھی اس دلیل کے حامی ہیں کہ قانون کی شفاف حکمرانی ہو، عدلیہ سے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کا تسلسل جاری ہو تو دہشتگردی، کرپشن اور معاشرے میں پھیلی ہوئی بے چینی اور بدامنی مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوسکتی پھر بھی اس میں کمی آسکتی ہے، کسی شخص کو بیگناہی کی سزا ملنی نہیں چاہیے، یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ملکی کرمنل جسٹس سسٹم کی تطہیر و تنظیم ہو، ایک معتبر پولیس کلچر کو یقینی بنایا جائے، چالان، مشیر نامہ اور تحقیقات و تفتیش میں کوئی سقم اور جعلسازی کا شائبہ تک نہ ہو، جرائم کی تفتیش جدید ترین معیار پر ہونی شرط اول ہے۔

یاد رہے کہ صرف پاکستان میں غلط پولیس رپورٹ اور چالان سے بیگناہ افراد سزا نہیں پاتے رہے ہیں، مغرب میں پراسیکیوشن کے تمام تقاضے بہ حسن و خوبی مکمل کیے جاتے ہیں، امریکا میں سینٹر آف رانگ فل کنوکشنز اورفارنزک سائنس ٹیکنالوجی کے ذریعے فنگر پرنٹس پر سزا پانے والے بری کیے جاچکے ہیں، ایک فارنزک سائنسی ادارے کی طرف سے بیگناہ 25 افراد کی فہرست اور سزا کی تفصیل دی گئی ہے جو غلطی سے ملزم اور پھر مجرم ٹھہرائے گئے، ان میں پہلا امریکی ملزم کرک بلڈزورتھ تھا جس پر ایک نو سالہ بچی سے زیاتی اور اسے قتل کرنے کا الزام تھا، وہ 14 سال سے جیل کاٹ رہا تھا، اس کے ڈی این اے فنگر پرنٹنگ ایویڈنس سے پتا چلا کہ وہ اصل ملزم نہیں بلکہ اسی ڈی این اے شواہد سے اصل قاتل ایڈی لی اسمتھ کا پتا چل گیا۔

چنانچہ ملکی عدالتوں سے جن بیگناہوں کو برسوں سزا پانے کے بعد بری کیا گیا تو اب بھی ایک سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر بری ہونے والے بے گناہ تھے تو اصل قاتل کہاں ہیں؟ یہ پروفیشنل تفتیشی نظام ان ادا روں کا کام ہے جو شفاف عدالتی نظام کی نگہبانی پر مامور ہیں اور جن کی وجہ سے عدالتی نظام قائم ہے۔ علاوہ پر اراکین پارلیمنٹ کو بھی ضروری قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ پولیس ، جیل انتظامیہ اور عدلیہ کے پورے پراسیس میں کسی ناانصافی کا گزر نہ ہو ، کیونکہ فوری اور سستا انصاف نہ ملے تو پھر عوام انصاف کیے لیے کہاں جائیں؟ ملکی عدالتوں پر لاکھوں کیسز کا بوجھ ہے، ججز کی تقرریوں کا سوال بھی ہے، عدلیہ کے انتظامی شعبوں میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے، سینٹ نے حال ہی میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کی ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے، پارلیمنٹ اسے بلا تاخیر نظام انصاف کا حصہ بناتے ہوئے اہم قانون سازی کی طرف پیش رفت کرے۔

سول اور کرمنل کیسز کے پروسیجر اور عملی میکنزم کو سستے اور سہل انصاف کی فراہمی سے منسلک ہونا چاہیے، پراسیکیوشن کی اصلاح ہونی چاہیے، ایک بیگناہ پولیس کی پہلی تفتیش پر ملزم سے مجرم بنتا ہے، معاشرے میں انتقام ، بدلہ اور بہتان طرازی کا مرض عام ہے، مافیاؤں کی بہتات ہے، جرائم کا زورتوڑنے اور انصاف کی فراہمی میں قانون نافذ کرنے والوں کی معاونت اور فرض شناسی عدلیہ کا بوجھ کم کرسکتی ہے۔ لازم ہے کہ انصاف کے عمل کو جمہوریت کی شناخت کا درجہ ملے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں