کرپشن کے راستے روکے جائیں
ملک سے کرپشن، رشوت اور اقربا پروری جیسی برائیوں کا جلد سے جلد خاتمہ کرنا ازحد ضروری ہے
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور استحقاق کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک نے پارلیمنٹ کو ایک بار پھر قرضوں سے متعلق تفصیلات دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کے تحت معلومات دینے کے پابند نہیں، مکمل تفصیلات پیش نہیں کی جا سکتیں۔ جب کہ سینیٹ کمیٹی کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون کے تحت تمام ادارے پارلیمنٹ کو معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔
بظاہر دونوں اداروں کا موقف درست محسوس ہوتا ہے، لیکن اس سلسلے میں موثر قانون سازی اور حکمت عملی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ نہ صرف ادارے باہمی ٹکراؤ سے محفوظ رہیں بلکہ قرض معافی اور دیگر معاملات میں کرپشن کے راستے روکے جا سکیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بیورو کریٹس عدالتوں کو قانون کے مطابق دستاویزات اور معلومات فراہم کرنے کی اجازت ہو نہ ہو تمام ریکارڈ پیش کر دیا جاتا ہے مگر پارلیمنٹ میں یہ معلومات دینے سے معذرت کر لی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ ایک معتبر ادارہ ہے جہاں عوامی نمائندگان موجود ہوتے ہیں، ملکی سالمیت اور دیگر معاملات کا عوامی نمائندوں کی موجودگی میں مباحثے کے لیے پیش کیا جانا لازم ہے۔
چیئرمین کمیٹی جہانزیب جمالدینی کا کہنا صائب ہے کہ جب خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے معاملات پر پارلیمنٹ میں ان کیمرہ بریفنگ ہو سکتی ہے تو قرضہ معافی کے معاملے کو چھپانا کون سا قومی مفاد ہے۔ جہاں تک اسٹیٹ بینک کا موقف ہے کہ اس سلسلے میں قانونی طور پر پابند نہیں تو اب سینیٹ کو ایسی موثر قانون سازی کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے جس کے تحت قرضوں کی تمام تر تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش ہو سکیں۔
یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ اربوں کھربوں قرض لینے والی شخصیات خود کو کنگال ظاہر کر کے قرض معافی کی سہولت سے فائدہ اٹھا لیتی ہیں جب کہ حقیقی نادار و ضرورت مند قرض نادہندگان کو قانون کے شکنجے میں جکڑ لیا جاتا ہے، بعد ازاں کھربوں روپے کے قرض معاف کروانے والے دوبارہ نئے پروجیکٹ اور مستحکم حیثیت کے ساتھ نئے قرضوں کی درخواست کے ساتھ آ موجود ہوتے ہیں۔
سینیٹ کو اس سلسلے میں بھی قانون سازی کرنی چاہیے کہ اربوں کھربوں روپے قرض معاف کروانے والوں کو دوبارہ قرضے جاری نہ کیے جائیں نیز دوبارہ مستحکم حیثیت پر پرانے قرضوں کے واپسی کی شرائط بھی لاگو کرنی چاہیے۔ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والوں میں یہ کھربوں کے قرض ہڑپ کرنے والے بھی شامل ہیں، نیز قرضوں کی معافی کی ان داستانوں میں کرپشن کے الگ ابواب سامنے آتے ہیں جہاں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خاندان کے خاندان ان معاملات میں ملوث ہیں، باپ، بیٹا، بھائی اور دیگر رشتوں کی ایک چین ہے جو قرض لینے اور معاف کروانے میں شامل ہے۔
اداروں میں چھپی کالی بھیڑیں رشوت کے عوض سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کے باعث ملکی معیشت مزید کمزور تر ہوتی جا رہی ہے اور قرض معاف کروانے والے اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ راست ہو گا کہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے تمام راستوں کا سدباب کیا جائے۔ ملک سے کرپشن، رشوت اور اقربا پروری جیسی برائیوں کا جلد سے جلد خاتمہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ سیاستدانوں اور اداروں کو 'سب سے پہلے پاکستان' کا نظریہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ملک کی سالمیت کے لیے تمام اداروں کو مل کر خلوص دل سے کام کرنا ہو گا، یہی تقاضائے وقت ہے۔
بظاہر دونوں اداروں کا موقف درست محسوس ہوتا ہے، لیکن اس سلسلے میں موثر قانون سازی اور حکمت عملی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ نہ صرف ادارے باہمی ٹکراؤ سے محفوظ رہیں بلکہ قرض معافی اور دیگر معاملات میں کرپشن کے راستے روکے جا سکیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بیورو کریٹس عدالتوں کو قانون کے مطابق دستاویزات اور معلومات فراہم کرنے کی اجازت ہو نہ ہو تمام ریکارڈ پیش کر دیا جاتا ہے مگر پارلیمنٹ میں یہ معلومات دینے سے معذرت کر لی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ ایک معتبر ادارہ ہے جہاں عوامی نمائندگان موجود ہوتے ہیں، ملکی سالمیت اور دیگر معاملات کا عوامی نمائندوں کی موجودگی میں مباحثے کے لیے پیش کیا جانا لازم ہے۔
چیئرمین کمیٹی جہانزیب جمالدینی کا کہنا صائب ہے کہ جب خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے معاملات پر پارلیمنٹ میں ان کیمرہ بریفنگ ہو سکتی ہے تو قرضہ معافی کے معاملے کو چھپانا کون سا قومی مفاد ہے۔ جہاں تک اسٹیٹ بینک کا موقف ہے کہ اس سلسلے میں قانونی طور پر پابند نہیں تو اب سینیٹ کو ایسی موثر قانون سازی کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے جس کے تحت قرضوں کی تمام تر تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش ہو سکیں۔
یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ اربوں کھربوں قرض لینے والی شخصیات خود کو کنگال ظاہر کر کے قرض معافی کی سہولت سے فائدہ اٹھا لیتی ہیں جب کہ حقیقی نادار و ضرورت مند قرض نادہندگان کو قانون کے شکنجے میں جکڑ لیا جاتا ہے، بعد ازاں کھربوں روپے کے قرض معاف کروانے والے دوبارہ نئے پروجیکٹ اور مستحکم حیثیت کے ساتھ نئے قرضوں کی درخواست کے ساتھ آ موجود ہوتے ہیں۔
سینیٹ کو اس سلسلے میں بھی قانون سازی کرنی چاہیے کہ اربوں کھربوں روپے قرض معاف کروانے والوں کو دوبارہ قرضے جاری نہ کیے جائیں نیز دوبارہ مستحکم حیثیت پر پرانے قرضوں کے واپسی کی شرائط بھی لاگو کرنی چاہیے۔ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والوں میں یہ کھربوں کے قرض ہڑپ کرنے والے بھی شامل ہیں، نیز قرضوں کی معافی کی ان داستانوں میں کرپشن کے الگ ابواب سامنے آتے ہیں جہاں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خاندان کے خاندان ان معاملات میں ملوث ہیں، باپ، بیٹا، بھائی اور دیگر رشتوں کی ایک چین ہے جو قرض لینے اور معاف کروانے میں شامل ہے۔
اداروں میں چھپی کالی بھیڑیں رشوت کے عوض سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کے باعث ملکی معیشت مزید کمزور تر ہوتی جا رہی ہے اور قرض معاف کروانے والے اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ راست ہو گا کہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے تمام راستوں کا سدباب کیا جائے۔ ملک سے کرپشن، رشوت اور اقربا پروری جیسی برائیوں کا جلد سے جلد خاتمہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ سیاستدانوں اور اداروں کو 'سب سے پہلے پاکستان' کا نظریہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ملک کی سالمیت کے لیے تمام اداروں کو مل کر خلوص دل سے کام کرنا ہو گا، یہی تقاضائے وقت ہے۔