قاتل کون تھے
لیاقت علی خان کا قتل وہ پہلا سیاسی قتل تھا جس سے میرے کان آشنا ہوئے
KARACHI:
لیاقت علی خان کا قتل وہ پہلا سیاسی قتل تھا جس سے میرے کان آشنا ہوئے۔ اس قتل کی گتھی آج تک نہ سلجھ سکی۔ عوام چند نام لیتے تھے لیکن عوام بھلا بیچتے کیا ہیں۔ ان کے قتل کی تحقیق کرنے والے اور کسی نتیجے پر پہنچنے والے کا طیارہ بھی کریش کرگیا۔
اس کے بعد ہمارے یہاں کیسے کیسے الم ناک سیاسی قتل نہ ہوئے۔ میر مرتضیٰ بھٹو دن دیہاڑے اپنے گھر کی دہلیز پر سفاکانہ انداز میں مارے گئے۔ وزیراعظم کے بھائی تھے لیکن قاتل کا سراغ نہ مل سکا۔ بے نظیر بھٹو قتل کی گئیں تو یوں کہ قاتل کا ہاتھ بھی نظر آرہا تھا اور کئی شواہد تھے لیکن ان شواہد کو مٹانے کے لیے بہت اہتمام کیا گیا اور جائے حادثہ کو پانی سے دھو دیا گیا۔ کیا کہیں ایسا بھی ہوتا ہے؟ کہیں ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، ہمارے یہاں تو یہی ہوتا ہے۔ لیکن شاید صرف ہمارے یہاں نہیں امریکا اور یورپ میں بھی یہی ہوتا ہے۔
جان ایف کینیڈی اور اولف پالمے اس کی سامنے کی مثال ہیں۔ ایسے میں ہم اقوام متحدہ کے بیدار مغز سیکریٹری جنرل داگ ہیمرہولڈ کو کیوں بھول جائیں۔ یہاں اس بات کا اعتراف کرلوں کہ عرصے تک میں بھی انھیں داگ ہیمر شولڈ کہتی رہی۔ لیکن یوٹیوب زندہ باد جس نے یہ مشکل آسان کی۔ وہ کسی بندوق کی گولی یا توپ کے گولے سے نہیں مارے گئے۔
وہ 18 دسمبر 1961ء کو اقوام متحدہ کے غیر فوجی دستے اور شومبے کٹنگا کے لڑاکوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے اپنے 15 ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہوئے تھے لیکن ان کا طیارہ اس زمانے کے شمالی روڈیشیا اور آج کے زمبیا کی حدود میں گر کر ختم ہوا۔ اس وقت سے آج تک مختلف ذرایع یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ ان کے طیارے کو نیچے سے مار گرایا گیا تھا۔ داگ ہیمر ہولڈ کی ہلاکت متحارب گروہوں میں جنگ بندی رکوانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ہی ان کان مالکان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی جن کے بارے میں ہیمر ہولڈ تحقیقات کروا رہے تھے۔
وہ بنیادی طور پر ایک ایسے دانشور تھے جو اقوام عالم اور بہ طور خاص تیسری دنیا کے پیچیدہ مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے طے کرنے پر مصر رہتے تھے۔ عرب اسرائیل تنازعہ کو انھوں نے حد بندیوں پر اقوام متحدہ کی چوکیاں بناکر امن قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ امن عارضی ہوگا اور اقوام متحدہ کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی وہ اس مسئلے سے نبرد آزما ہو رہے تھے کہ برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں ناصر نے نہر سوئز میں بحری جہاز ڈبو دیے۔
یوں وہ راستہ جس نے بحری تجارت اور سفر کو سہل بنا دیا تھا اور وقت کی طنابیں کھینچ لی تھیں، اس کا بند ہوجانا دنیا کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ آج اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ سوئز بحران کتنا سنگین تھا۔ یہ ایک ایسی آگ تھی جس کے پھیلنے پر قابو پانا داگ ہیمر ہولڈ کے لیے زندگی یا موت کا مسئلہ تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا، جس میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کا رویہ معاندانہ تھا۔ اس موقع پر ہیمر ہولڈ نے اپنی تقریر میں یہ بات دوٹوک کہی کہ اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے اگر اس کے منشور کی تمام شقوں پر عمل درآمد نہیں کیا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
ان کی یہ دھمکی کار گر ہوئی اور اقوام متحدہ کے فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا جو اس بات کے مجاز تھے کہ وہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے ہونے والی سرحدی خلاف ورزیوں کی روک تھام کریں گے۔ فروری 1961ء میں کانگو اور کٹنگا کی فوجیں ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔ ہیمر ہولڈ نے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا تو انھیں اندازہ تھا کہ وہ کانٹوں بھرے راستے پر قدم رکھ رہے ہیں لیکن شاید اس کا گمان بھی نہ ہو کہ اس راستے پر چلتے ہوئے وہ اپنی جان سے گزر جائیں گے۔
وہ ان لوگوں میں سے تھے جو تیسری دنیا اور اس کے بھی بہت کمزور ملکوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے تھے کہ اقوام متحدہ کو ان کی دادرسی کرنی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان ملکوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی بہت ضرورت ہے۔ 1948ء میں اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کا جو عالمی منشور جاری کیا تھا، وہ ان کے نزدیک مقدس حیثیت رکھتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ان کی رکنیت رکھنے والے طاقتور ملکوں کو اس منشور کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔
ایک ایسی ہی صورتحال تھی جب ایک طاقتور ملک نے ہیمر ہولڈ سے استعفیٰ طلب کرلیا تھا کیونکہ وہ ایک کمزور ملک کو کچلنا چاہتا تھا۔ ایسے میں ہیمر ہولڈ نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے سے انکار کردیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے استعفیٰ دینے کے بعد کوئی ایسا شخص سیکریٹری جنرل بنایا جائے گا جو ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہوگا اور وہ اس کمزور ملک کے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔ مکالمے پر ان کا ایمان تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مکالمہ بڑے سے بڑے جھگڑے اور تنازعہ کو طے کرسکتا ہے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ دنیا میں بہت سے ایسے پُل وجود رکھتے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن ان پر کھڑے ہوکر انسان اپنے نسلی اور قومی تشخص سے بلند ہو کر گفتگو کرسکتا ہے۔
ہیمر ہولڈ کو پس از مرگ نوبیل انعام دیا گیا تو یہ ناروے میں سوئیڈن کے سفیر رالف ایڈ برگ نے لیا۔ اس موقع پر انھوں نے ان کے آخری سفر کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا تھا: ''افریقی ستمبر کی اس رات کے دھندلکے اور بظاہر بے معنویت میں ہم شاید کچھ اہم چیزیں دیکھنے کی ہمت کرسکیں۔ تباہ شدہ جہاز کے بکھرے ہوئے ملبے میں کچھ کتابیں بھی تھیں۔ ان میں ''من و تو'' اور سوئیڈش زبان میں ترجمہ کیے ہوئے اس کے کچھ صفحات بھی تھے۔ جہاز کی شبینہ اُڑان سے قبل ہی انھوں نے اپنے دوست تھامس کیمپس کے پاس Imitation of Christ چھوڑی تھی۔ اس کے صفحات کے درمیان وہ حلف نامہ تھا جو انھوں نے سیکریٹری جنرل کا عہدہ اٹھاتے وقت پڑھا تھا۔
''میں داگ ہیمر ہولڈ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنی تمام تر وفاداری، تمیز اور شعور سے وہ تمام فرائض انجام دوں گا جو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے کی مناسبت سے انجام دینے کے لیے مجھے تفویض کیے گئے ہیں اور میں تمام امور کی انجام دہی میں اقوام متحدہ کے مفاد کو پیش نظر رکھوں گا''۔
ایک شخص جس کی ہلاکت کو 55 برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا، اس پر پھر سے گفتگو کا سبب کیا ہے؟ تو اس کا سبب کچھ یوں ہے کہ گزشتہ مہینے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون اپنے عہدے سے سبکدوش ہورہے تھے، انھوں نے داگ ہیمر ہولڈ کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات کو پھر سے کھولنے پر اصرار کیا۔ یہ کام وہ ایک برس پہلے بھی کرچکے تھے اور اب جاتے جاتے اس تفتیش کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔
اس بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن جس کی سربراہی سٹیفن سڈلی کررہا تھا، اس کا ایک مضمون انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ ایک امریکی خفیہ ایجنسی اس بارے میں بنیادی شواہد کو سامنے لانے سے گریز کررہی ہے۔ امریکا کا اصرار ہے کہ ہیمر ہولڈ کی ہلاکت کے وقت امریکی ایئر فورس کا کوئی طیارہ جائے وقوعہ کے قریب موجود نہیں تھا۔ اس کے برعکس سٹیفن سڈلی کے کمیشن کی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ اس وقت قریبی ایئرپورٹ پر امریکی ایئر فورس کے دو طیارے موجود تھے اور اس بارے میں پریٹوریا میں امریکی ایراتاشی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ پینٹاگان نے اسے ہیمر ہولڈ سے ملنے کی ہدایت کی تھی۔
دوسری طرف امریکی نیول پائلٹ چارلس ساؤتھ آل کا بیان موجود ہے جو کہتا ہے کہ اسے یاد ہے کہ اس نے ایک امریکی فائٹر پائلٹ کی کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو سنی تھی جو ایک طیارے پر فائرنگ کرنے کی بات کر رہا تھا۔ سٹیفن سڈلے نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کمیشن کی راہ میں کس طرح روڑے اٹکائے گئے اور ہیمر ہولڈ کے طیارے میں کاک پٹ کی ریکارڈنگ کو کس طرح ''انتہائی خفیہ'' قرار دے کر اسے کمیشن کے سپرد کرنے سے صاف انکار کردیا گیا۔
ہمارے یہاں بہ طور خاص میر مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے قدموں کے نشان جس طرح مٹائے گئے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہمارے یہاں جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کی طیارے میں ہلاکت کے حوالے سے کئی فائلیں ایسی ہیں جن پر سرخ روشنائی سے 'انتہائی خفیہ' تحریر ہے۔ یہ فائلیں کبھی سورج کی روشنی دیکھ بھی سکیں گی یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضرور ہے کہ ان فائلوں میں جو سربستہ راز ہیں، وہ اس لیے آشکار ہوں کہ ان سے انصاف اور جمہوری استحکام کا رشتہ بنتا ہے۔
لیاقت علی خان کا قتل وہ پہلا سیاسی قتل تھا جس سے میرے کان آشنا ہوئے۔ اس قتل کی گتھی آج تک نہ سلجھ سکی۔ عوام چند نام لیتے تھے لیکن عوام بھلا بیچتے کیا ہیں۔ ان کے قتل کی تحقیق کرنے والے اور کسی نتیجے پر پہنچنے والے کا طیارہ بھی کریش کرگیا۔
اس کے بعد ہمارے یہاں کیسے کیسے الم ناک سیاسی قتل نہ ہوئے۔ میر مرتضیٰ بھٹو دن دیہاڑے اپنے گھر کی دہلیز پر سفاکانہ انداز میں مارے گئے۔ وزیراعظم کے بھائی تھے لیکن قاتل کا سراغ نہ مل سکا۔ بے نظیر بھٹو قتل کی گئیں تو یوں کہ قاتل کا ہاتھ بھی نظر آرہا تھا اور کئی شواہد تھے لیکن ان شواہد کو مٹانے کے لیے بہت اہتمام کیا گیا اور جائے حادثہ کو پانی سے دھو دیا گیا۔ کیا کہیں ایسا بھی ہوتا ہے؟ کہیں ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، ہمارے یہاں تو یہی ہوتا ہے۔ لیکن شاید صرف ہمارے یہاں نہیں امریکا اور یورپ میں بھی یہی ہوتا ہے۔
جان ایف کینیڈی اور اولف پالمے اس کی سامنے کی مثال ہیں۔ ایسے میں ہم اقوام متحدہ کے بیدار مغز سیکریٹری جنرل داگ ہیمرہولڈ کو کیوں بھول جائیں۔ یہاں اس بات کا اعتراف کرلوں کہ عرصے تک میں بھی انھیں داگ ہیمر شولڈ کہتی رہی۔ لیکن یوٹیوب زندہ باد جس نے یہ مشکل آسان کی۔ وہ کسی بندوق کی گولی یا توپ کے گولے سے نہیں مارے گئے۔
وہ 18 دسمبر 1961ء کو اقوام متحدہ کے غیر فوجی دستے اور شومبے کٹنگا کے لڑاکوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے اپنے 15 ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہوئے تھے لیکن ان کا طیارہ اس زمانے کے شمالی روڈیشیا اور آج کے زمبیا کی حدود میں گر کر ختم ہوا۔ اس وقت سے آج تک مختلف ذرایع یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ ان کے طیارے کو نیچے سے مار گرایا گیا تھا۔ داگ ہیمر ہولڈ کی ہلاکت متحارب گروہوں میں جنگ بندی رکوانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ہی ان کان مالکان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی جن کے بارے میں ہیمر ہولڈ تحقیقات کروا رہے تھے۔
وہ بنیادی طور پر ایک ایسے دانشور تھے جو اقوام عالم اور بہ طور خاص تیسری دنیا کے پیچیدہ مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے طے کرنے پر مصر رہتے تھے۔ عرب اسرائیل تنازعہ کو انھوں نے حد بندیوں پر اقوام متحدہ کی چوکیاں بناکر امن قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ امن عارضی ہوگا اور اقوام متحدہ کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی وہ اس مسئلے سے نبرد آزما ہو رہے تھے کہ برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں ناصر نے نہر سوئز میں بحری جہاز ڈبو دیے۔
یوں وہ راستہ جس نے بحری تجارت اور سفر کو سہل بنا دیا تھا اور وقت کی طنابیں کھینچ لی تھیں، اس کا بند ہوجانا دنیا کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ آج اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ سوئز بحران کتنا سنگین تھا۔ یہ ایک ایسی آگ تھی جس کے پھیلنے پر قابو پانا داگ ہیمر ہولڈ کے لیے زندگی یا موت کا مسئلہ تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا، جس میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کا رویہ معاندانہ تھا۔ اس موقع پر ہیمر ہولڈ نے اپنی تقریر میں یہ بات دوٹوک کہی کہ اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے اگر اس کے منشور کی تمام شقوں پر عمل درآمد نہیں کیا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
ان کی یہ دھمکی کار گر ہوئی اور اقوام متحدہ کے فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا جو اس بات کے مجاز تھے کہ وہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے ہونے والی سرحدی خلاف ورزیوں کی روک تھام کریں گے۔ فروری 1961ء میں کانگو اور کٹنگا کی فوجیں ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔ ہیمر ہولڈ نے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا تو انھیں اندازہ تھا کہ وہ کانٹوں بھرے راستے پر قدم رکھ رہے ہیں لیکن شاید اس کا گمان بھی نہ ہو کہ اس راستے پر چلتے ہوئے وہ اپنی جان سے گزر جائیں گے۔
وہ ان لوگوں میں سے تھے جو تیسری دنیا اور اس کے بھی بہت کمزور ملکوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے تھے کہ اقوام متحدہ کو ان کی دادرسی کرنی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان ملکوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی بہت ضرورت ہے۔ 1948ء میں اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کا جو عالمی منشور جاری کیا تھا، وہ ان کے نزدیک مقدس حیثیت رکھتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ان کی رکنیت رکھنے والے طاقتور ملکوں کو اس منشور کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔
ایک ایسی ہی صورتحال تھی جب ایک طاقتور ملک نے ہیمر ہولڈ سے استعفیٰ طلب کرلیا تھا کیونکہ وہ ایک کمزور ملک کو کچلنا چاہتا تھا۔ ایسے میں ہیمر ہولڈ نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے سے انکار کردیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے استعفیٰ دینے کے بعد کوئی ایسا شخص سیکریٹری جنرل بنایا جائے گا جو ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہوگا اور وہ اس کمزور ملک کے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔ مکالمے پر ان کا ایمان تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مکالمہ بڑے سے بڑے جھگڑے اور تنازعہ کو طے کرسکتا ہے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ دنیا میں بہت سے ایسے پُل وجود رکھتے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن ان پر کھڑے ہوکر انسان اپنے نسلی اور قومی تشخص سے بلند ہو کر گفتگو کرسکتا ہے۔
ہیمر ہولڈ کو پس از مرگ نوبیل انعام دیا گیا تو یہ ناروے میں سوئیڈن کے سفیر رالف ایڈ برگ نے لیا۔ اس موقع پر انھوں نے ان کے آخری سفر کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا تھا: ''افریقی ستمبر کی اس رات کے دھندلکے اور بظاہر بے معنویت میں ہم شاید کچھ اہم چیزیں دیکھنے کی ہمت کرسکیں۔ تباہ شدہ جہاز کے بکھرے ہوئے ملبے میں کچھ کتابیں بھی تھیں۔ ان میں ''من و تو'' اور سوئیڈش زبان میں ترجمہ کیے ہوئے اس کے کچھ صفحات بھی تھے۔ جہاز کی شبینہ اُڑان سے قبل ہی انھوں نے اپنے دوست تھامس کیمپس کے پاس Imitation of Christ چھوڑی تھی۔ اس کے صفحات کے درمیان وہ حلف نامہ تھا جو انھوں نے سیکریٹری جنرل کا عہدہ اٹھاتے وقت پڑھا تھا۔
''میں داگ ہیمر ہولڈ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنی تمام تر وفاداری، تمیز اور شعور سے وہ تمام فرائض انجام دوں گا جو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے کی مناسبت سے انجام دینے کے لیے مجھے تفویض کیے گئے ہیں اور میں تمام امور کی انجام دہی میں اقوام متحدہ کے مفاد کو پیش نظر رکھوں گا''۔
ایک شخص جس کی ہلاکت کو 55 برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا، اس پر پھر سے گفتگو کا سبب کیا ہے؟ تو اس کا سبب کچھ یوں ہے کہ گزشتہ مہینے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون اپنے عہدے سے سبکدوش ہورہے تھے، انھوں نے داگ ہیمر ہولڈ کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات کو پھر سے کھولنے پر اصرار کیا۔ یہ کام وہ ایک برس پہلے بھی کرچکے تھے اور اب جاتے جاتے اس تفتیش کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔
اس بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن جس کی سربراہی سٹیفن سڈلی کررہا تھا، اس کا ایک مضمون انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ ایک امریکی خفیہ ایجنسی اس بارے میں بنیادی شواہد کو سامنے لانے سے گریز کررہی ہے۔ امریکا کا اصرار ہے کہ ہیمر ہولڈ کی ہلاکت کے وقت امریکی ایئر فورس کا کوئی طیارہ جائے وقوعہ کے قریب موجود نہیں تھا۔ اس کے برعکس سٹیفن سڈلی کے کمیشن کی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ اس وقت قریبی ایئرپورٹ پر امریکی ایئر فورس کے دو طیارے موجود تھے اور اس بارے میں پریٹوریا میں امریکی ایراتاشی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ پینٹاگان نے اسے ہیمر ہولڈ سے ملنے کی ہدایت کی تھی۔
دوسری طرف امریکی نیول پائلٹ چارلس ساؤتھ آل کا بیان موجود ہے جو کہتا ہے کہ اسے یاد ہے کہ اس نے ایک امریکی فائٹر پائلٹ کی کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو سنی تھی جو ایک طیارے پر فائرنگ کرنے کی بات کر رہا تھا۔ سٹیفن سڈلے نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کمیشن کی راہ میں کس طرح روڑے اٹکائے گئے اور ہیمر ہولڈ کے طیارے میں کاک پٹ کی ریکارڈنگ کو کس طرح ''انتہائی خفیہ'' قرار دے کر اسے کمیشن کے سپرد کرنے سے صاف انکار کردیا گیا۔
ہمارے یہاں بہ طور خاص میر مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے قدموں کے نشان جس طرح مٹائے گئے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہمارے یہاں جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کی طیارے میں ہلاکت کے حوالے سے کئی فائلیں ایسی ہیں جن پر سرخ روشنائی سے 'انتہائی خفیہ' تحریر ہے۔ یہ فائلیں کبھی سورج کی روشنی دیکھ بھی سکیں گی یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضرور ہے کہ ان فائلوں میں جو سربستہ راز ہیں، وہ اس لیے آشکار ہوں کہ ان سے انصاف اور جمہوری استحکام کا رشتہ بنتا ہے۔