انصاف کی دہلیز پر

2013ء کے ریفارمز ایکٹ کے تحت طے ہوا کہ ہر کیس 60 دن کے اندر نمٹا دیا جائے

h.sethi@hotmail.com

NOWSHERA/PESHAWAR:
چند ماہ قبل میرا وفاقی محتسب کے لاہور آفس باسط خاں (ممبر) کے پاس ایک پریشاں حال سائل کی سفارش کے لیے جانا ہوا تو باسط صاحب نے سفارش سنے بغیر مجھے کہا کہ ان کی کارکردگی آزمانے کے لیے ان کو موقع دوں اور نتیجہ کے انتظار کے بعد اپنے سائل سے رابطہ کروں چنانچہ میں نے سفارش کیے بغیر وہاں چائے پی اور واپس آ گیا۔ دو ہفتے بعد وہ سائل آیا اور شکریہ ادا کیا کہ اسے انصاف مل گیا ہے اور داد رسی ہو گئی ہے۔

میں نے اس فیصلے کی کاپی لی اور دوسری بار باسط خاں کے پاس اس کام کے بخیر ہو جانے پر شکریہ ادا کرنے چلا گیا جس کی میں نے ان سے سفارش ہی نہیں کی تھی۔ ہمارے ملک میں اس وقت سفارش اور رشوت سکۂ رائج الوقت ہیں اس آلودہ فضا میں اگر کہیں سے حق و انصاف کی تازہ و معطر ہوا کا جھونکا آ جائے تو امید کی بجھتی ہوئی شمع روشن ہو جاتی ہے۔ وفاقی محتسب کے دفتر جانے پر مجھے اپنا ایک سال تک صوبائی محتسب آفس میں کام کرنا یاد آ گیا۔

اس ایک سال میں صوبائی محکموں کے خلاف متاثرین کی لاتعداد شکایات وصول کر کے متعلقہ محکموں سے کمنٹ منگوا کر لوگوں کی داد رسی کرنے کا موقع ملا۔ صوبائی محتسب کا محکمہ بھی وفاقی محتسب کے Pattern پر کام کرتا ہے۔ چاروں صوبوں میں وفاقی محتسب کے دفاتر ہیں جہاں سائل چاہیں تو وکیل مقرر کریں لیکن عموماً متاثرہ شخص خود ہی پیش ہو کر درخواست دے کر اپنی شکایت اور ثبوت ممبر، ایڈوائز، کنسلٹنٹ یا ڈائریکٹر جنرل کے نوٹس میں لاتا اور داد رسی کے لیے محتسب کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔

وفاقی محتسب کا ادارہ 1983ء میں ایک Presidential Order کے ذریعے قائم ہوا جس کے پہلے Federial Ombudsman جسٹس سردار محمد اقبال تھے جب کہ اس وقت سلمان فاروقی اس عہدے پر متمکن ہیں۔ صدارتی آرڈر کے ذریعے قائم ہونے والے اس ادارے کو جب تنظیمی مشکلات پیش آئیں تو سن 2013ء میں ایک قانون Institutional Reform Act پارلیمنٹ نے پاس کیا جس کے نتیجے میں کسی بھی سائل کی پٹیشن داخل ہونے پر محتسب آفس متعلقہ محکمے کے افسر کو طلب کر کے اس کا جوابی بیان قلمبند کرنے کے علاوہ ضروری دستاویزات حاصل کر سکتا ہے اس کے خلاف ضرورت ہو تو توہین عدالت کی کارروائی کر سکتا ہے۔ محکمانہ غفلت یا زیادتی پر سائل کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ متعلقہ محکمے کو ڈائریکشنز دے سکتا ہے۔ یوں اس قانون کے ذریعے محتسب کو سائل کا مسئلہ حل کرنے اور اس کی داد رسی کے اختیارات تفویض ہو گئے۔

ہمارے ملک میں جس کے پاس سفارش طاقت یا دولت نہ ہو وہ محکموں کے درباروں میں رُل جاتا ہے۔ محتسب کے دفتر تک سائل کی رسائی ہو جائے اور کام جائز ہو تو بغیر سفارش اور خرچے کے بلاتوقف اس کو انصاف اور حق مل سکتا ہے۔ جب وفاقی محتسب کے ادارے نے 1983ء میں کام شروع کیا تو ابتدائی مشکلات کے سبب سن 2013ء تک اوسطاً 16 ہزار کیسز سالانہ فیصلے کیے جاتے تھے۔ لیکن اس کے بعد فیصلہ ہونے والوں کی سالانہ تعداد دو لاکھ ستائیس ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔


سن 2013ء کے ریفارمز ایکٹ کے تحت طے ہوا کہ ہر کیس 60 دن کے اندر نمٹا دیا جائے۔ اس طرح 2015ء تک تمام زیر سماعت کیسز نمٹا دینے کا ریکارڈ قائم ہوا اور پھر60 دن کے اندر شکایات کی داد رسی کی مدت کم کر کے 45 دن کر دی گئی۔ جہاں عام عدالتوں میں زیر کار مقدمات سالوں تک چلتے ہیں وفاقی محتسب کے پائلٹ پروگرام کے ذریعے شکایات کے فیصلے پندرہ دن میں بھی ہو رہے ہیں۔

وفاقی محتسب نے ہدایات جاری کی ہوئی ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے تمام پاکستانی سفارت خانوں کے سربراہ ہفتے کا ایک دن مقرر کریں اور اس سلسلہ میں اپنا فوکل پرسن نامزد کریں۔ ہدایات یہ بھی ہیں کہ پاکستان کے آٹھ ہوائی اڈوں پر ون ونڈو ڈیسک صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو درپیش مشکلات سن کر ان کی رہنمائی کرنے کے لیے قائم کی جائیں۔

محتسب اعلیٰ کے ادارے پوری دنیا میں قائم ہیں۔ پاکستان میں اس کا وجود کافی تاخیر سے آیا لیکن اس وقت اس کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔ دراصل یہ غریبوں کی عدالت ہے۔ جہاں نہ صرف محکمانہ زیادتیوں کا ازالہ بلاتاخیر ہوتا ہے بلکہ نہ کوئی خرچہ ہوتا نہ وکیل کرنا پڑتا ہے۔ اسے غریبوں کی عدالت کہنا بجا ہو گا۔ یہاں سائلوں کو حکومت کے اداروں، نیم سرکاری اداروں، منسٹریوں کے خلاف غفلت، بدانتظامی، کرپشن اور نااہلی کی بنیاد پر عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑے بڑے جری سرکاری افسر ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشین ہو جاتے ہیں اس کی ایک وجہ تو وہ خود ہیں کہ جن سلاموں کے وہ عادی ہو چکے ہوتے ہیں اب ان میں کمی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر خود کو نئی زندگی میں ایڈجسٹ نہیں کر پاتے۔

دوسری وجہ لوگ ہیں جو پنشنر کو بیکار آدمی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک معقول تعداد کا واقعی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور پنشن کے معاملات گڑبڑ ہو جائیں تو ان کی مالی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ محتسب آفس نے نہ صرف ان کے پنشن معاملات میں متعلقہ محکموں کو سخت ہدایات جاری کی ہیں۔ ان کی پنشن وصولی کی قطاریں ختم کر کے آن لائن سسٹم سے کئی مشکلات حل کر دی ہیں۔

محتسب کے ادارے میں حاضر سروس افسروں کے علاوہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ، سفارت کار، ججز بطور سینئر ایڈوائزر، ایڈوائزر، کنسلٹنٹ اور ڈائریکٹر جنرل فرائض انجام دیتے ہیں جو اپنے تجربے کی بنیاد پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہونے کی وجہ سے گویا انصاف سائل کے مکان کی دہلیز پر پہنچاتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں محتسب کے ادارے کا اجرا دیر سے ہوا لیکن کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ایشیائی ممالک کے Ombudsmen کی کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان کے محتسب اعلیٰ کو Asian Ombudsman Association کا صدر منتخب کیا گیا۔
Load Next Story