Window Shopping

مرد ہوتا کوئی تو اس پر دوسری نظر نہ ڈالتا مگر اس میں کچھ تو تھا ایسا کہ میری نظر باربار اس پر پڑ رہی تھی

Shireenhaider65@hotmail.com

مرد ہوتا کوئی تو اس پر دوسری نظر نہ ڈالتا مگر اس میں کچھ تو تھا ایسا کہ میری نظر باربار اس پر پڑ رہی تھی، کچھ تو اس سپر اسٹور میں ہر isle میں میرا اس سے سامنا ہو رہا تھا، اس کے ساتھ چار بچے تھے جن میں تین لڑکے اور ایک لڑکی تھی، ان کی عمریں چھ سات برس سے لے کر گیارہ بارہ برس کے درمیان تھیں، ایک بڑی ٹرالی وہ خاتون خود گھسیٹ رہی تھی، ویسی ہی ایک ٹرالی اس کے بیٹے کے پاس تھی اور اس کی بیٹی کے پاس چھوٹی ٹرالی تھی جس پر وہ صرف اپنا سامان رکھ رہی تھی۔

مجھے کچھ ٹھیک نہ لگ رہا تھا اور میں کسی بد نظر مرد کی طرح اپنی خریداری پر کم اور اس پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی اور ساتھ ہی ساتھ دل میں اس پر comment بھی کر رہی تھی جیسے مرد عموما اپنی بیویوں کے سامنے کچھ نہ کچھ کہہ دیتے ہیں اور تنہا ہوں تو موقع پا کر آخر الذکر کے گوش گزار بھی کر دیتے ہیں۔

اگر وہ مہینے میں ایک بار دھوتی تھی تو اس کا وہ براؤن برقع کم از کم ایک سو بیس بار دھل چکا ہو گا، اس کے بالوں میں سفیدی کے تار اتنے تھے کہ نمایاں تھے اور چمک رہے تھے، برقعے کے نیچے نظر آنے والی اس کی شلوار کا رنگ گرے تھا یا براؤن؟ کثرت استعمال سے اپنی شناخت کھو چکا تھا، برقعہ دو پیس والا تھا، پرانے انداز کا سلا ہوا اور اس نے اوپری حصے کی نقاب پوری الٹ رکھی تھی اس لیے اس کے سر کے بال بھی نظر آ رہے تھے۔ اس کی ناک، کان، کلائیاں اور انگلیاں ہر قسم کے بوجھ سے آزاد تھیں، چہرے کی جلد سے بھی اندازہ ہوتا تھا کہ شاید اس نے کبھی اس پر توجہ نہ دی تھی۔

اس کے ساتھ جو بچے تھے ان کے لباس بھی عام، سستے اور بد رنگ سے تھے، چھوٹے بیٹے کی آنکھوں میں سرمے کی دو دو سلائیاں بھر بھر کر ڈالی گئی تھیں۔ بچی لگ بھگ دس سال کی تھی اور اس نے پھیکے سے لال رنگ کی فراک کے ساتھ سفید ملگجی سی شلوار پہن رکھی تھی، لڑکوں کی شرٹیں اور نیکریں بھی یوں لگ رہی تھیں جیسے مانگے کی ہوں ، جو کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا وہ تھا ان کا خریداری کاانداز۔

میں بار بار سوچ رہی تھی کہ اسے اس طرح کے سپر اسٹور میں آنے کی کیا ضرورت تھی! پھر خود کو جواب دیتی کہ کیا صرف میرا ہی حق ہے کہ میں یہاں سے خریداری کر سکتی ہوں، ہر کسی کی مرضی جو جہاں سے چاہے خریداری کرے۔ پھر سوچتی کہ اگر وہ یہاں سے خریداری کرنے کی سکت رکھتی ہے تو پہلے اپنے اور اپنے بچوں کے ڈھنگ کے کپڑے کیوں نہیں بنا لیتی؟ ممکن ہے کہ ان کے پاس اچھے کپڑے ہوں، خود ہی خود کو جواب دیتی۔ تو کیا اچھے کپڑے اس لیے ہوتے ہیں کہ انھیں سنبھال سنبھال کر رکھا جائے اور باہر نکلتے وقت ایسے مسخروں جیسے حلیے میں نکلا جائے... پھر سوچتی اور جواب دیتی کہ اگر اسے ایسے اچھا لگتا ہے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔

میں نے نوٹ کیا کہ اسے کوئی بھی زیادہ توجہ سے نہ دیکھ رہا تھا، ممکن ہے کہ اس نے یہ حلیہ اسی لیے بنا رکھا ہو کہ اسے کوئی مڑ مڑ کر اور گھور گھور کر نہ دیکھے، مگر میں پھر بھی اسے گھورے جا رہی تھی بلکہ ان کی سامان والی ٹرالیوں کو گھورے جا رہی تھی، بسکٹ اورسیریل کے ڈبے، چاکلیٹ، شیمپو، صابن، ٹشو پیپرز، کھلونے، چپس کے پیکٹ، ٹافیاں، جوسز، دودھ کے ڈبے،مکھن، پنیر، دہی، پیکٹوںمیں بند گوشت، تازہ اور خوبصورت پیکنگ میں پھل، ٹن کے فروٹ وغیرہ ٹرالیوں میں اوپر تک لد چکے تھے۔

بیٹی والی ٹرالی میں بڑے سائز کی دو گڑیا رکھی تھیں، ایک گڑیا اس کے ہاتھ میں ، بلکہ اس کے کندھے سے لگی تھی، ماں بار بار پلٹ کر اسے کہہ رہی تھی کہ کہیں وہ گڑیا وہیں نہ کھول لے... ایک بیٹا اپنی منتخب کی ہوئی گاڑی کو ہاتھ میں پکڑنے کی ضد کر رہا تھا، ماں نے وہ اٹھا کر اسے دے دی، وہ بار بار مختلف isles میں گھوم رہے تھے اور وقت گزار رہے تھے، میرا سامان مکمل ہو چکا تھا مگر میں یونہی ادھر ادھر وقت گزار رہی تھی،اس وقت گزاری میں بھی نہ چاہتے ہوئے میں نے دو ایک اور چیزیں خواہ مخواہ اٹھا کر اپنی ٹرالی میں رکھ لیں، ان کی ٹرالیاں دیکھ کر مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو رہا تھا۔


میں کاؤنٹر پر پہنچ گئی اور مڑ کر دیکھا تو وہ دوبارہ واپس جا کر اب سامنے سے لنچ باکس اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے، بچی نے لال اور لڑکوں نے سبز اور نیلے رنگوں کے لنچ باکس لے کر ٹرالیوں میں رکھ لیے، لڑکی نے اپنے والا اپنی ٹرالی میں رکھا اور چھوٹے نے اپنا اپنے ہاتھ میں پکڑنے کی ضد کی تو ماں نے اسے وہ پکڑا دیا، اس نے گاڑی اب ٹرالی میں رکھ دی تھی۔ میرے سامان کا بل بننا شروع ہو گیا تھا... میں تو فقط سبزی اور پھل لینے آئی تھی، میرا بل پینتیس سو بنا تھا، میں نے گن کر رقم ادا کی، دو لفافوں پر مشتمل میں نے اپنا سامان دیکھا اور مڑ کر ان کی ٹرالیوں کو دیکھا، 'کم از کم بھی اس کا بل تیس ہزار بنے گا'... میں سوچے بنا نہ رہ سکی ، اپنا سامان لے کر میں کچھ دیر انتظار کرتی رہی کہ وہ آئیں اور میں دیکھوں کہ ان کا بل کتنا بنا، مگر وہ ابھی تک گھوم رہے تھے۔

گاڑی میں سامان رکھا تو یاد آیا کہ اماں کے کمرے میں ٹوتھ پیسٹ ختم ہو گیا ہے، گاڑی کو دوبارہ بند کیا اور واپس اسٹور میں، عام حالات میں تو میں کہیں اور سے راستے میں ایک ٹوتھ پیسٹ پکڑ لیتی مگر اسی بہانے دیکھ لوں گی کہ اس خاتون کا بل کتنا بنا۔ واپسی پر مجھے اس کے بچے اسٹور کے باہر ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے پنجروں میں بند طوطوں کے پاس محظوظ ہوتے ہوئے نظر آئے، ان کی ماں نے غالبا بل کی ادائیگی کے لیے انھیں قطار سے نکال کر باہر بھجوا دیا ہو گا تا کہ انھیں خواہ مخواہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ وہ مجھے ادائیگی کے کاؤنٹر پر نظر آئی تو میں لپک کر ایک ٹوتھ پیسٹ اٹھا کر کاؤنٹر کی طرف واپس بھاگی، ایک isle کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے ایک سامان سے بھری ٹرالی نظر آئی، مجھے شک ہوا کہ وہ اس کے سامان کی ٹرالی تھی، اس پر تین گاڑیاں اور سب سے اوپر تین لنچ باکس دیکھ کر مجھے کوئی شک مزید نہ رہا، مگر وہ ٹرالی وہاں کیا کر رہی تھی؟؟

جس کاؤنٹر پر وہ تھی میں اسی کی طرف چلی، دو لوگ اس کے اور میرے بیچ حائل تھے، میں نے اچک کردیکھا، اسی کے سامان کا بل بن رہا تھا، میں دیکھے جا رہی تھی، وہ سارا سامان تو نظر ہی نہ آ رہا تھا!!!''چارسو پچپن روپے میڈم !'' اس مستعد اور اسمارٹ سی لڑکی نے اپنی باریک آواز میں کہا، شاید کسی اور کا بل ہو گا، مگر نہیں... وہی عورت اپنے بوسیدہ سے رومال میں سے نکال کر نوٹ گن رہی تھی، ''چارسو پچاس روپے ہیں!'' اس نے نوٹ گن کر اسے تھمائے۔ '' ٹھیک ہے میڈم! '' اس لڑکی نے پانچ روپے کم قبول کر لیے، میں نے ایک طرف سے آگے ہو کر دیکھا، مونگ کی دال کا پیکٹ، پیاز کا ایک کلو کا پیکٹ، نمک اور لال مرچ... اس نے سارا سامان ایک لفافے میں ڈالا اور چل دی، میں نے بھی ادئیگی کی اور اس کے پیچھے بھاگتی ہوئی گئی وہ اپنے بچوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھی تھی، سامان کا لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا، میں بھی وہاں یوں کھڑی ہو گئی جیسے اس وقت وہ طوطے دیکھنا میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہو۔

'' امی جی، کتنے پیسے بچے ہیں؟ '' بیٹی نے سوال کیا، '' کیا ہم بیس بیس روپے والی آئس کریم کھا سکیں گے؟ '' ...'' سو روپے ہیں بس... '' ماں نے ہولے سے کہا، '' آٹا بھی لینا ہے!!''

'' تو آپ یہاں سے خریداری نہ کرتیں نا،کسی سستی جگہ سے دال لے لیتیں ! '' بیٹے نے کہا، '' شاید آئس کریم کھا سکتے ہم...''

'' کچھ نہ کچھ تو لینا پڑتا ہے نا بیٹا، اتنی دیر اسٹور میں گھومتے رہو تو کسی نہ کسی کی نظر تو پڑتی ہے اور کوئی اگر نوٹ کر لے کہ ہم اتنا وقت اس اسٹور میں صرف تم لوگوں کی حسرتوں کو چھونے اور ہاتھ میں پکڑ کر دیکھنے کے لیے لگاتے ہیں تو کوئی ہمیں اندر بھی نہ گھسنے دے گا آئندہ! تم لوگوں کے اسی شوق کی خاطر تو میں یہاں لے کر آتی ہوں تم لوگوں کو!''

'' سچ امی... کتنا مزہ آتا ہے نا ایسی پیاری پیاری چیزوں کو چھو چھو کر دیکھنے کا جنھیں ہم خرید نہیں سکتے '' بیٹی نے آنکھیں موند کر اس لطف کو محسوس کیا، '' وہ سنہری بالوں والی گڑیا... کتنے نرم بال تھے اس کے!!'' بچی نے بے دھیانی میں اپنے بالوں کو چھوا تھا...

میں نے اپنی گاڑی تک کا سفر کس قدر مشکل سے کیا وہ میں ہی جانتی ہوں، چلا ہی نہ جا رہا تھا ... گاڑی اسٹارٹ کی، 'دھند کتنی زیادہ ہے' میں نے سوچا اور آنکھیں میچیں کہ غبار نکل جائے، اوپر پوری شدت سے حدت بھرا سورج چمک رہا تھا تو پھر ہر طرف اتنی دھند کیوں تھی؟
Load Next Story