فیس بک کا نیا ٹول جو حکومتوں کے لیے کارآمد

ٹول کے ذریعے حکومتیں نیوزفیڈ پر نظر رکھ سکیں گی

فیس بک کے اس نئے ٹول کے ذریعے اب سوشل میڈیا کے صارفین کو وہ آزادی میسر نہیں رہے گی جس سے وہ فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD:
سوشل میڈیا کی دنیا کی مقبول ترین سائٹ فیس بک نے ایک ایسا خصوصی ٹول بنایا ہے جس کی مدد سے مختلف ممالک کی حکومتیں ان اسٹوریز پر نظر رکھ سکیں گی جن میں ان پر تنقید کی گئی ہو۔

فیس بک عرصے سے خفیہ طور پر ایک ایسے فیچر پر کام کر رہی تھی جس کی مدد سے وہ مخصوص خطوں یا کسی ملک میں اپنی سائٹ پر کی جانے والی خاص پوسٹس کو سینسر کرسکے۔ یہ ٹول خاص طور پر چین کے لیے بنایا گیا ہے۔

فیس بک یہ ٹول ایک ایسے وقت میں سامنے لائی ہے جب اس پر امریکا کے صدارتی انتخابات کے تناظر میں جھوٹی خبریں پھیلنے کے حوالے سے شدید تنقید ہورہی تھی اور کہا جارہا ہے کہ فیس بک پر آنے والی جھوٹی خبروں نے ڈونلڈٹرمپ کے امریکا کا صدر منتخب ہونے میں بہت مدد کی۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فیس بک سے تعلق رکھنے والے تین افراد جن میں موجودہ اور سابق ملازمین شامل ہیں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ نئے ٹول کے ذریعے فیس بک مخصوص ممالک میں لوگوں کی نیوز فیڈ کو فلٹر کرنے کے قابل ہوجائے گی۔ یہ ٹول خاص طور پر چین کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں فیس بک کئی سال سے پابندی کی شکار ہے۔

اس حوالے سے فیس بک کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم چین میں دل چسپی رکھتے ہیں اور چین کے بارے میں مزید جاننے اور سمجھنے کے لیے وقت صرف کر رہے ہیں۔


دوسری طرف نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے چیف ایگزیکٹیو مارک زکربرگ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایسا کسی ٹول کے بنائے جانے کی حمایت کرتے ہیں جس کی مدد سے پوسٹس کو سینسر کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ مارک زکربرگ کئی سال تک چینی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور وہ چین کا دورہ کرکے چینی حکم رانوں سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔

فیس بک پر چین میں 2009 سے پابندی عاید ہے۔ چناں چہ چین کی ایک ارب سے زیادہ وسیع مارکیٹ تک رسائی کے لیے فیس بک کی انتظامیہ بے تاب ہے اور یہ ٹول چینی حکومت کو فیس بک پر پابندی ہٹانے کے لیے راضی کرنے کی خاطر خاص طور پر بنایا گیا ہے، تاہم اس ٹول کے ذریعے دیگر ایسے ممالک میں بھی فیس بک کے حوالے سے حکومتوں کے تحفظات دور ہوجائیں گے جہاں کی حکومتیں فیس بک پر اپنے خلاف آنے والے مواد سے شاکی ہیں۔ فیس بک انتظامیہ اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے اقدامات کرتی رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال فیس بک نے مختلف ممالک کے شہریوں کی جانب سے آنے والے مواد پابندی لگادی تھی۔

فیس بک سمیت امریکا کی مختلف انٹرنیٹ کمپنیاں مختلف ممالک کی حکومتوں کی جانب سے انفارمیشن بلاک کرنے کی ہدایات یا ریکویسٹس کی شکایت کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر فیس بک نے کہا تھا کہ روس میں فیس بک پر آنے والے مواد پر یہ کہہ کر پابندی لگادی گئی کہ یہ مواد رشین فیڈریشن کی سالمیت اور مقامی قانون کے خلاف ہے۔

فرانس میں فیس بک نے ایسے مواد پر پابندی لگادی جس میں ہولوکاسٹ کا انکار کیا گیا تھا یا جو مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرتا تھا۔ اسی طرح پیرس میں گذشتہ سال نومبر میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات کے حوالے سے ایک تصویر پر مبنی پوسٹ کو اس بنیاد پر ہٹادیا گیا کہ یہ تصویر فرانس کے انسانی عظمت کے قانون کے خلاف ہے۔

اب تک تو فیس بک پوسٹس کو ہٹانے کا کام خود کرتی رہی ہے، لیکن اب فیس بک کے اس نئے ٹول کے ذریعے یہ معاملہ تیسرے فریق کے ہاتھ میں ہوگا، جو یہ فیصلہ کرے گا کہ اس کے ملک میں فیس بک کے پیجز پر موجود نیوزفیڈ میں کیا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔

سوشل میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک کے اس نئے ٹول کے ذریعے اب سوشل میڈیا کے صارفین کو وہ آزادی میسر نہیں رہے گی جس سے وہ فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔
Load Next Story