تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ
غیر ملکی دوروں کے اخراجات بھی خاصے ہوتے ہیں
ہمیں ان حاسد لوگوں کے رویے پر حیرت بھی ہو رہی ہے اور افسوس بھی جو پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہوں میں تقریباً ڈیڑھ سو فیصد اضافے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں اور اس اقدام کو غیر ضروری اور کسی بھی قسم کے اضافے سے برسوں سے محروم سرکاری ملازموں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنخواہوں کے اس اضافے سے عوام کے بڑے طبقے میں سنسنی سی پھیل گئی۔
عوام میں عام تاثر بھی اب غلط ثابت ہوگیا ہے جو یہ کہ پارلیمنٹ میں جتنے ارکان بیٹھے ہیں وہ صاحب ثروت ہیں، جدی پشتی امیر ہیں، ان کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے بڑے محل نما گھروں میں رہتے ہیں لمبی لمبی گاڑیوں بلکہ ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں، بلکہ جب تک وہ کم ازکم کروڑ پتی نہ ہوں وہ الیکشن ہی نہیں لڑ سکتے۔ لیکن جس طرح قبر کا حال مردہ جانتا ہے اسی طرح صرف اراکین پارلیمنٹ خاص طور پر ان کی بیگمات اور گھر والوں کو معلوم ہے کہ وہ کس مشکل سے گزارا کر رہے ہیں۔ زیادہ تر اراکین کا انحصار ماہانہ تنخواہوں پر ہے، جو اگر ایک دن بھی لیٹ ہوجائے تو کم ازکم ایک دو دن کے لیے فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔
اسی لیے حکومت نے ان کی مالی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں صرف ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کیا ہے جسے ناکافی ہونے کے باوجود ان محب وطن اراکین نے مرتا کیا نہ کرتا قبول کرلیا ہے۔ اب اس سے یہ بھی ہوگا کہ انھیں قرض خواہوں کی آمد و رفت سے بھی نجات مل جائے گی، کیونکہ یہ اضافہ انھیں پچھلی تاریخوں سے ملا ہے، اس لیے جو واجبات ملیں گے ان سے وہ اپنے اگلے پچھلے قرضے بھی ادا کرسکیں گے۔
ایک بیگم صاحبہ نے اس اضافے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تنخواہ اتنی ہوگئی ہے کہ گزارا آسانی سے ہوسکے گا کیونکہ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ گھر کے سربراہ کے پارلیمنٹ کا رکن بن جانے سے گھر کے اخراجات کتنے بڑھ جاتے ہیں، ایک مخصوص اسٹینڈرڈ Maintain کرنا پڑتا ہے۔ بڑے گھروں میں رہنا پڑتا ہے، بڑی گاڑیوں میں سفر کرنا پڑتا ہے، مہمانداری بڑھ جاتی ہے، بچوں کو مہنگے اور اعلیٰ معیار کے پرائیویٹ اسکولوں میں ٹرانسفر کرانا پڑتا ہے، اس طرح تعلیم کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، ذرا سا بیمار پڑنے پر مہنگے پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے اور وہاں بھی پرائیویٹ روم میں رہنا پڑتا ہے، کیونکہ اکثر وزیراعلیٰ، گورنر، اور وزرا عیادت کے لیے آجاتے ہیں، غرض یہ کہ پارلیمنٹیرین بنتے ہی گھر بار کے اخراجات آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔
غیر ملکی دوروں کے اخراجات بھی خاصے ہوتے ہیں، حکومت کی طرف سے تو صرف ٹکٹ دے کر جہاز میں بٹھا دیا جاتا ہے، باقی اخراجات باہر جانے والے وفود کے ارکان کو خود کرنے پڑتے ہیں۔ ویسے غیر ملکی دوروں کے اخراجات تو خود بخود ہی ختم ہونے والے ہیں کیونکہ حکومت سنجیدگی سے اس بات پر غور کر رہی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس ملک سے باہر منعقد کیے جائیں، کیونکہ ارکان کی اکثریت اکثر ملک سے باہر ہوتی ہے اور غیر ممالک میں یہ اجلاس اٹینڈ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوگی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد کے صرف منفی پہلوؤں اور نقصانات کو دیکھا گیا ہے اور اس کے دیرپا فوائد کو نظرانداز کردیا گیا ہے، مثلاً یہ فائدہ کہ گھر کی فکروں سے آزاد اراکین پارلیمنٹ اب یکسوئی سے ملک و قوم کے مفاد میں زیادہ صحیح اور موثر فیصلے کرسکیں گے۔ ہوسکتا ہے تنخواہیں بڑھنے کے بعد ان کا ضمیر جاگ اٹھے اور ان میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ عوام کے دیگر طبقوں کو بھی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت ہے اور وہ اور کچھ نہیں تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اگر ڈیڑھ سو فیصد نہیں تو کم ازکم پچیس فیصد اضافہ کردیں۔
ایک اور فائدہ جس کا کسی کو بھی احساس نہیں ہو رہا ہے یہ ہے کہ اب پارلیمنٹ کی اٹینڈنس بڑھ جائے گی اور حاضری لینے کے امکانات کم ہوجائیں گے، کیونکہ تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے بددل ہوکر بہت سے اراکین بہت کم ایوان میں آتے تھے اور اکثر کورم پورا نہیں ہوتا تھا۔ بہت سے اراکین کو یہ تک کہتے سنا گیا تھا کہ اتنی کم تنخواہ پر پارلیمنٹ میں آنے کا جی نہیں کرتا۔ دروغ برگردن راوی بہت سے اراکین اس لیے اجلاس میں نہیں آتے تھے کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پارٹ ٹائم جاب کیا کرتے تھے اور ایک ملازمت کرکے اتنے تھک جاتے کہ ان میں ایوان میں آنے کی ہمت اور سکت نہیں رہتی تھی۔ اب تنخواہیں بڑھنے سے ان کے زیادہ سے زیادہ اجلاس میں شرکت کرنے کی ہمت افزائی ہوگی۔
پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بڑھی ہوئی تنخواہیں ان اراکین کو ملیں گی جو اجلاس میں آئیں گے، دوسری صورت میں غیر حاضری پر تنخواہیں کاٹ لی جائیں گی، اس افواہ کے پھیلنے سے بھی اچھا اثر ہوگا اور ایوان میں حاضری بڑھ جائے گی۔ پھر لوگوں کو اس بات کا بالکل احساس نہیں ہے کہ اب بھی ہمارے یہاں کے لوگوں کی تنخواہیں دوسرے ملکوں کے پارلیمنٹ ممبرز سے بہت کم ہیں اور ہمارے اراکین کو غیر ملکی وفود سے تنخواہوں کے اسکیلز پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے خاصی شرمندگی ہوا کرتی تھی۔ ہاں اب ڈیڑھ سو فیصد اضافے کے بعد ہمارے اراکین سینہ تان کر غیر ملکی اراکین کا سامنا کرسکیں گے اور ان میں اپنی تنخواہ کو ڈالر میں منتقل کرکے بتانے کی ہمت بھی پیدا ہوگی۔
اس بات کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ ڈیڑھ سو فیصد اضافے کے بعد اب بہت سے ایسے باصلاحیت اور ایماندار افراد بھی پارلیمنٹ کا رکن بننے میں دلچسپی لیں گے جو پہلے تنخواہیں معمولی ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ کا رخ نہیں کرتے تھے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ہم تو باہر ہی اچھا خاصا کما رہے ہیں ہمیں اندر جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح اب مجموعی طور پر بہتر Stuff پارلیمنٹ میں آئے گا، لوگ اب جس طرح اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بناتے ہیں پھر انھیں اولاد کو پارلیمنٹیرین بنانے کی ترغیب بھی ملے گی۔
آخر میں پارلیمنٹ کے معزز اراکین اور ان کے ایسے پرستاروں سے بھی معذرت جو ایمانداری سمجھتے ہیں کہ تنخواہوں میں حکومت کی طرف سے یہ اضافہ بالکل درست کیا گیا ہے، یہ لوگ واقعی ضرورت مند بھی تھے اور مستحق بھی، جس طرح قدرت کی جانب سے کیے جانے والے دوسرے کاموں میں کچھ نہ کچھ مصلحت ہوتی ہے اسی طرح تنخواہوں میں اس اضافے کی بھی کچھ نہ کچھ غرض و غایت رہی ہوگی۔
کم ازکم اس اقدام سے استفادہ کرنے والے ارکان اگر جی کڑا کرلیں اور اپنی جگہ ڈٹ جائیں تو اس اقدام کو جو بظاہر انھیں بدنام کرنے کے لیے کیا گیا ہے بارآور اور بامقصد بناسکتے ہیں، مثلاً کسی دن جب حسن اتفاق سے کورم پورا ہو وہ تہیہ کرکے آئیں کہ آج تاریخ کا رخ موڑنے کے لیے عوام کے فائدے کا کوئی ایسا کام کر گزریں گے کہ آنے والی کئی نسلیں اش اش کر اٹھیں گی۔ کوئی ایسا کام تلاش کرنا جو واقعی عوام کے فائدے کا ہو یا جس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جب سے ہمارا یہ ملک وجود میں آیا ہے پچھلی کئی دہائیوں میں برسر اقتدار آنے والی کئی سیاسی جماعتیں اور حکومتیں بظاہر آسان نظر آنے والا یہ مشکل کام نہیں کرسکی ہیں تاہم ہمارے ذہن میں جو اقدامات آرہے ہیں وہ یہ ہیں۔
1۔ تمام نجی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم ازکم دگنی کردی جائیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے حکومت خود مالی وسائل فراہم کرے جب کہ نجی اداروں کو اس مقصد سے حکومت کی طرف سے سبسڈی فراہم کی جائے۔
2۔ تمام پنشنرز کی پنشن بھی جن میں ای او بی آئی پنشنرز بھی شامل ہیں کم ازکم دگنی کردی جائے۔
3۔ عوام کی بنیادی ضرورت کی تمام اشیا کی قیمتیں اپنی موجودہ سطح پر فریز کردی جائیں، یقیناً ان اقدامات سے سرکاری خزانے پر اضافی بوجھ پڑے گا لیکن ہمارے خیال میں فی الحال قومی خزانے کا اس سے بہتر مصرف نہیں ہوسکتا۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا کے موجودہ ارکان نے مل کر (چاہے وہ برسر اقتدار جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا اپوزیشن سے) اگر یہ انقلابی اقدامات کر ڈالے تو ان کی اپنی تنخواہوں میں بے تحاشا اس اضافے کو بھی کوئی مائنڈ نہیں کرے گا اور خود ان کے اپنے ضمیر بھی مطمئن ہو جائیں گے۔
تو پھر پلیز ہمت پکڑیے اور یہ کام کر ڈالیے!