ظلمتوں کی قید میں اک ننھی کرن

اگراللہ کی راہ میں خرچ کرتےوقت مستحقین کو تلاش کیا جائے توپروفیشنل گداگروں کو جانیوالا بڑا حصہ حق داروں تک پہنچ سکتاہے

یہ درست ہے کہ دولت کی مساویانہ تقسیم قانون فطرت کے خلاف ہے مگر بنیادی ضروریات کا پورا ہونا تو ہر انسان کا حق ہے، جیسے روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم۔

4 دسمبر 2016ء کی شام بچوں کیلئے یونیفارم خریدنے کریم بلاک مارکیٹ، لاہور جانا ہوا۔ شاپ پر خریداری جاری تھی کہ ایک معصوم سی بچی ہاتھ میں نمکو کے پیکٹ لئے آن کھڑی ہوئی۔ میری نظر اس پر پڑی تو وہ بالکل خاموش کھڑی تھی۔ اس نے زبان سے ایک لفظ نہ کہا، بس آنکھیں نمکو خریدنے کی استدعا کر رہی تھیں۔ میں نے سر تاپا اسکا جائزہ لیا، بغیر جرابوں کے ٹھٹھرتے پاؤں، پنڈلیوں تک چڑھا ہوا پاجامہ، پتلا سا لباس اور داغدار اپر جو خنکی کے سامنے بے بس نظر آرہا تھا۔

اس کے چہرے اور آنکھوں پر چھایا ہوا تاثرعام بچوں سے مختلف تھا جو مجھے اپنی طرف متوجہ کرچکا تھا۔ یہ مشاہدہ چند لمحوں بعد ہی درست ثابت ہوگیا جب میں نے اسے 100 روپے کا نوٹ دیا۔ اس نے مجھے کہا 'میرے کول کھلا نئیں' یعنی میرے پاس سو روپے کی ریزگاری نہیں۔ میں نے اسے کہا بیٹا یہ پیسے میں نمکو خریدنے کیلئے نہیں دے رہا۔ یہ تم ویسے ہی رکھ لو۔ جواباً اس نے مجھے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ 'میں ایس طرح پیسے نئیں لیندی' یعنی میں اس طرح پیسے نہیں لیتی۔

6 سال کی معصوم بچی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہم جیسوں کی طرح خودداری کا ڈھونگ رچا کر کوئی مفاد حاصل کرنے کے فن میں یکتا ہوں۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ عین اس لمحے جب یہ مکالمہ چل رہا تھا، ایک ہٹی کٹی جوان عورت دکان میں داخل ہوئی اور انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ''اللہ کے نام'' پر مدد مانگی، میں اس بچی کی شخصیت کے سحر میں جکڑا ہوا تھا اور اسی کیفیت میں اس عورت سے کہا کہ اس بچی سے کچھ سبق سیکھو جو مانگنے کے بجائے نمکو بیچ رہی ہے اور تم جوان اور صحتمند ہونے کے باوجود کیا کر رہی ہو۔ وہ ناک منہ چڑھا کر آگے چل دی۔

اس بچی کو میں نے زبردستی پیسے تھمائے اور پیار سے سمجھایا کہ بیٹا اس 100 روپے سے ایک اور نمکو کا پیکٹ لینا اور بیچ کر زیادہ پیسے کمانا۔ نجانے اسے یہ منطق سمجھ آئی یا نہیں مگر وہ خاموش ہوگئی اور پیسے لے کر دکان سے نکل گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے ایک خیال آیا اور میں اسکے پیچھے بھاگا۔ وہ تین دکانیں پار کرچکی تھی۔ میں نے اسے روکا اور کہا کہ تمہاری ایک تصویر بنانا چاہتا ہوں۔ وہ مان گئی، میں نے اسے روشنی میں کھڑا کیا اور تصویر بنالی۔

دوران گفتگو اس نے بتایا کہ اسکا نام کرن ہے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اس مارکیٹ میں نمکو بیچتی ہے، ماں گھروں میں کام کرتی ہے، باپ بیمار ہے، گھر ذرا فاصلے پر ہے، پہلے اسکول جاتی تھی مگر اب ماں نے اسکول سے ہٹالیا ہے۔ دن میں ایک جگہ ٹیوشن پڑھنے جاتی ہے اور شام سے رات گئے تک نمکو بیچتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ روزانہ کتنے پیسے بن جاتے ہیں؟ تو اس نے اپر کی دائیں جیب میں ہاتھ ڈال کر ساری نقدی دکھا دی جو دس دس روپے کے چند مڑے تڑے نوٹوں پر مشتمل تھی۔

انتہائی بوجھل دل کے ساتھ واپس دکان کی طرف مڑا، جہاں میری بیوی بیٹی انوشہ کیلئے چھ سات ہزار کی شرٹس، سویٹر، جرابیں، ہائی نیکس اور کوٹ وغیرہ خرید کر میرا انتظار کر رہی تھی۔ گرم اور قیمتی کپڑوں میں ملبوس انوشہ اور رطاب کھلونوں کیلئے ضد کر رہی تھیں جس کیلئے میں تین چار سو روپے بخوشی خرچ کرنے کیلئے تیار تھا۔ راستے میں پلے لینڈ پڑتا تھا جہاں کم از کم پانچ سو کا نوٹ لگا کر بچوں کا دل اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنا تھیں۔

دکاندار نے میری درخواست پر کرن کا گھر بار معلوم کرنے کی حامی بھرلی اور میں نے اسے اپنا رابطہ نمبر دے دیا۔ دکاندار نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ یہ بچی کافی عرصے سے یہاں آتی ہے اور مانگتی نہیں بلکہ صرف نمکو بیچتی ہے۔


گھر پہنچے تو انوشہ magic clay کیساتھ ہاتھی گھوڑے بنارہی تھی مگر کرن وہیں مارکیٹ میں نمکو بیچ رہی تھی۔ کیا یہ عمر حصول رزق کیلئے جدوجہد کرنے کی ہے؟ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میرا جی چاہا کہ اے کاش یہ بچی میرے گھر میں انہی سہولتوں کے ساتھ رہے جو میری بیٹیوں انوشہ اور رطاب کو حاصل ہیں اور ان جیسی ہی تعلیم حاصل کرے۔ یہ بھی ڈاکٹر، انجینئر، استاد بن سکتی ہے۔ یہ خودداری کی دولت سے بھی مالامال ہے، آنکھوں سے ذہانت بھی ٹپک رہی ہے۔ اگر اسے ایک اچھی زندگی دی جائے تو کئی نسلیں سنور سکتی ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ رب کائنات نمکو کے ایک پیکٹ پر دو روپے منافع کمانے کی خاطر سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں کرن کی محنت کو بھی دیکھ رہا ہے اور حکومتی و اپوزیشن اراکین اسمبلی کو بغیر محنت کے ملنے والی تنخواہ میں 150 فیصد اضافہ کرتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے۔ وہ ان سے حساب ضرور لے گا، جلد یا بدیر۔

یہ درست ہے کہ دولت کی مساویانہ تقسیم قانون فطرت کے خلاف ہے مگر بنیادی ضروریات کا پورا ہونا ہر انسان کا حق ہے، جیسے روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم وغیرہ، اور اس استحقاق کیلئے مسلمان ہونا ضروری نہیں، صرف انسان ہونا ہی کافی ہے۔ اس شدید طبقاتی تفاوت کو مٹانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے، مگر نفس پرست حکمرانوں سے ایسی توقعات عبث ہیں البتہ انفرادی کوششوں سے کچھ نہ کچھ بہتری لائی جاسکتی ہے جس کیلئے پاکستان میں بے شمار چیریٹی آرگنائزیشنز کام کر رہی ہیں، لیکن ابھی بہت کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت ذمہ داری اور محنت کے ساتھ مستحقین کو تلاش کیا جائے تو پروفیشنل و کاروباری گداگروں کو جانے والا ایک بڑا حصہ حق داروں تک پہنچ سکتا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاسکتے جو آسٹریلیا کی کل آبادی کے تقریباً برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پڑھ عوام کا ایک پورا آسٹریلیا اس مسلمان ملک میں تیار ہورہا ہے، جن کے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا متفق علیہ فرمان ہے کہ،
''ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے''

اور جنہوں نے غزوہ بدر کے قیدیوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوض رہائی حاصل کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایک مشہور انگریزی مقولہ ہے،
We can not do everything at once but we can do something at once

یعنی ہم فوراً سب کچھ نہیں کرسکتے مگر فوراً کچھ نہ کچھ ضرور کرسکتے ہیں۔

مانا کہ ہم ڈھائی کروڑ بچوں کو اپنے طور پر زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کرسکتے مگر کرن تو ہمارے سامنے ہے۔ کیا ہم اس کیلئے بھی کچھ نہیں کرسکتے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story