دفتر جانا ختم ہوا ریٹائرمنٹ کے بعد انسان پر کیا گزرتی ہے
ریٹائرڈ افراد کے جذبات ،احساسات اور مسائل کا احاطہ کرتا خصوصی فیچر۔
فرصت کے لمحے کسے عزیر نہیں ہوتے، خاص طور پر آج کی بھاگتی دوڑتی تیز رفتارزندگی میں تو ایسے لمحات نعمت سے کم نہیں۔ وقت کی اسی کمیابی اور مصروفیت کے باعث شاعر یہ کہنے پر مجبورہوا۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
خیر شاعر کی تو اپنی مجبوری ہے کہ اسے ہر حال میں اپنا محبوب ہی عزیز ہے، فرصت کے لمحات میں بھی وہ اپنے محبو ب کو یا د کر رہا ہے۔ شعراء سے ہٹ کر دیکھا جائے تو فرصت کے لمحات کے استعمال کا تعلق زیادہ تر عمر ، سوچ اور طبقاتی تقسیم کے زیراثر ہوتا ہے۔ بچے فرصت کے لمحات کھیل کود میں گزارنا پسند کرتے ہیں جبکہ نوجوان بھی کسی نہ کسی حوالے سے سرگرم رہتے ہیں ، کچھ سیر و تفریح کے لئے نکل جاتے ہیںتو کچھ کھیلوں کے میدانوں کا رخ کرتے ہیں،غرض ہر کسی کا اپنا انداز ہوتا ہے، مگر اس کی ایک حد ہے،زندگی بھر کی فراغت نہیں ہوتی، اس کے بعد سب معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ دفتر جانے والے دفتروں کی راہ لیتے ہیں اور کاروباری حضرات اپنے بزنس پر، جبکہ لڑکے بالے اسکول، کالج جانے لگتے ہیں۔
اگر زندگی میں ایسا وقت آجائے کہ ایک فرد جس نے ساری زندگی کسی ادارے کی خدمت کرتے گزار دی ہو، اس کے کرتا دھرتا اسے جذبات سے عاری مشین کی طرح فراغت کا نوٹس جاری کر دیں کہ قانونی طور پر اب آپ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اس لئے آپ کو ادارے کی طرف سے باقاعدہ سبکدوش کیا جاتا ہے ، یہ گویا اس شخص کے لئے ڈھکے چھپے الفاظ میں ایک پیغام ہوتا ہے کہ تم اب ہمارے کام کے نہیں رہے۔ جب ریٹائر ہونے والے فر دکو اس بات کا احساس ہوگا تو ہمیشہ کے لئے فرصت کے لمحات میسر آنے پر اس کے جذبات مسرت بھرے نہیں ہوں گے۔ بظاہر وہ اپنی ریٹائرمنٹ پر ایک معقول رقم ملنے اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف سے نیک جذبات کااظہار کئے جانے پر بہت خوش نظر آتا ہے مگر اس کے دل و دماغ پر ایک بہت بڑا سوال دستک دے رہا ہوتا ہے کہ اب وہ کیا کرے گا؟اپنی آئندہ کی زندگی کیسے گزارے گا؟
کیونکہ اب اس کے پاس فرصت ہی فرصت ہوتی ہے، یہی فرصت بعض ریٹائر ہونے والوں کے لئے سوہانِ روح ہوتی ہے جبکہ بعض کے لئے اطمینان کا باعث ،جس کی وجہ وہ معاشی پہلو ہے جو ساری زندگی ہر انسان کے ساتھ ساتھ اس کے سائے کی طرح چلتا ہے ، جنھیں ریٹائر منٹ کے بعد معاشی تنگی کاسامنا ہوتا ہے وہ پریشان اور جو اتنی دولت پس اندازکر چکے ہوتے ہیں کہ آئندہ زندگی آسانی سے گزار سکیں وہ پرسکون ہوتے ہیں ۔ کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ریٹائر ہونے سے قبل ہی آئندہ کے شب و روز کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں، یوں انھیں ریٹائرمنٹ پر بھی کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی اور وہ ایک پیشہ چھوڑ کر دوسرے پیشے سے منسلک ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح کچھ افراد کی قابلیت اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ادارے انھیں کنٹریکٹ پر نوکری دے دیتے ہیں۔بعض افراد ریٹامنٹ کے بعد فلاحی کاموں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور کوئی ایسا ادارہ بناتے ہیںجس کے ثمرات سے پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے ۔ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کام نہیں کرتے یا انھیں کام نہیں ملتا ایسے میں وہ اپنی زندگی کی گاڑی پنشن کے سہارے چلاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، وہ معاشرتی طور پر کٹ کر رہ جاتے ہیں اور ذہنی و جسمانی طور پر مختلف عارضوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیںاور اگر انھیں کوئی سنبھالنے والانہ ہو تواولڈ ہوم ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔
اعجاز احمد قریشی سابق اے آئی جی لیگل ریٹائر منٹ کے بعد اپنے شب روز کی داستان سناتے ہیں ۔''میں کچھ نہیں تو 80کو پہنچ رہا ہوں ، 90ء میں ریٹائر ہوا تھا، میں نے ریٹائرمنٹ سے قبل ہی خود کو مصروف رکھنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی ، میرا تعلق چونکہ وکالت کے شعبے سے ہے اس لئے میں نے ریٹائر منٹ سے تین ماہ قبل ہی دفتر بنا لیا تھا یوں میں ریٹائر تو ہوا ہی نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ سرکاری نوکری سے فارغ ہو کر گھر گیا اور دروازے سے داخل ہوا تو ایک خوشگوار حیرت میری منتظر تھی۔ میرے خاندان والوں نے میرے علم میں لائے بغیر میرے لئے چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں دوستوں اور عزیزوں کو مدعو کیا گیا تھا،تب بھی مجھے ریٹائر ہونے کا احساس نہیں تھا بلکہ اس تقریب سے مجھے خوشی ملی۔ سرکاری دفتر والے مجھ پر مکمل بھروسہ کرتے تھے اس لئے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آئی جی منظور صاحب نے تین مہینے تک مجھے کام پر لگائے رکھا۔
فوجداری مقدمات کا ماہر ہونے کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کو میری سخت ضرورت تھی جب تک کہ میرے متبادل کے طور پر کوئی دوسرے صاحب آ نہ جاتے۔2000ء میں مجھے نیب میں بطورکنسلٹنٹ لے لیا گیا،دو سال تک وہاں پر کام کیا ، اس کے بعد پھر وکالت شروع کر دی۔ تاہم یہ ہے کہ جب مجھے کالا موتیا ہوا اور بینائی متاثر ہوئی تو میں نے صرف اہم کیسز ہی لئے۔ البتہ کورٹ جانا نہ چھوڑا ،وہاں وکلاء کے حلقے میں وقت اچھا گزر جاتا ہے، اس کے علاوہ بچوں کے ساتھ بیڈمنٹن اورکرکٹ کھیل لیتا ہوں،لارنس باغ میں سیر کے لئے بھی چلا جاتا ہوں۔ میں خود کو ریٹائر سمجھتا ہی نہیں ہوں۔ حکومت کو چاہئے کہ بزرگ افراد کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کرے جو قابل افراد ہیں ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائے۔''
جاوید اقبال وائس ایڈمرل (ر)کہتے ہیں: ''میں 1997ء میںبطور وائس ایڈمرل ریٹائر ہوا ،تب مجھے بطور سفیر تیونس میں بھیج دیا گیا ، میں وہاں99ء تک رہا جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالاتو مجھے واپس بلا لیا گیا ،واپس آ کر میں نے اپنی جائیداد اور دیگر معاملات پر توجہ دی ، کیونکہ مجھے سابق حکومت نے سفیر تعینات کیا تھا تو مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر میں نے ان کا ہمت و حوصلے سے سامنا کیا۔ اس کے بعد میں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا جس کا مقصد ملک و قوم کی خدمت کے سوا کچھ نہیں۔ اور اس دوران میں نے سماجی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا، خاص طور پر 2005ء کے زلزلے اور سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کافی کام کیا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ میں ریٹائر ہوا ہی نہیں تقریباً ہر وقت مصروف رہتا ہوں،اللہ کے فضل سے صحت کے حوالے سے بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں، اب تو سیاست ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ''
معروف سینئر صحافی عظیم قریشی اپنی ریٹائرڈ زندگی کی داستان کچھ یوں سناتے ہیں۔''میں 1991ء میں امروز اخبار سے ریٹائر ہوا تھا۔میں نے تقریباً 29سا ل تک وہاں نوکری کی، عمر کے لحاظ سے اب 75ویں سال کو ہاتھ لگا رہا ہوں۔ جب میں ریٹائر ہوا تواحساسات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھے ،کیوں کہ پاکستان میں نوکری سے فارغ ہونے والوں کو کوئی خاص مراعات نہیں ملتیں ، جیسے دوسرے ممالک میں حکومت پنشن کے علاوہ دیگر مراعات بھی دیتی ہے اور پھر ہمارے ساتھ تو ویسے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا تھا یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی نہیں ملی تھی جس کے لئے ہمیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا ، تب جا کر ہمیں پنشن کا حق دار ٹھہرایا گیا اور وہ بھی 91ء کے شیڈول کے مطابق جو کہ بہت کم ہے، حالانکہ امروز خالصتاً سرکاری ادارہ تھا اور دیگر سرکاری اداروں کی طرح پنشن ہماراحق بنتا تھا۔
اس کا خدانخواستہ یہ مطلب نہیں کہ میں ریٹائرمنٹ کے خلاف ہوں،ریٹائرمنٹ ضرورملنی چاہئے ،ایک عمر ایسی آتی ہے جب انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ آرام کرے،مگر جب پتہ ہوکہ ریٹائر منٹ کے بعد کچھ زیادہ حوصلہ افزا صورت حال نہیں ہوگی توانسان خوشگواریت کی بجائے دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جرنلسٹ کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتاتو ہم نے اس سرکاری ریٹائرمنٹ کے بعد پھر اخبار میں کام شروع کر دیا ، مگر اب گزشتہ چار پانچ سال سے مکمل طور پرریٹائر ہو چکا ہوں ، سوشل سرگرمی کے طور پر پریس کلب چلا آتا ہوں، اس سے ذہنی و جسمانی طور پر مصروف رہتا ہوں ۔ میرے بچے اللہ کے فضل سے اچھے مقام پر فائز ہیں اس لئے اب معاشی پریشانی نہیں ہے۔
مگر سینئر صحافیوں سے کام لیا جا سکتا ہے انھیں میڈیا کی بہتری کے لئے بنائی گئی ایڈوائزری کمیٹیوں میں کھپایا جا سکتا ہے، جیسے انڈیا میں ٹریبون اخبار ریٹائرڈ افراد کو ایڈوائزر کے طور پر رکھ لیتا ہے۔ ترکی میں سینئر صحافیوں کو حکومت کی طرف سے کارڈ جاری کیا جاتا ہے جس سے انھیں ہوائی اور زمینی سفر میں کافی سہولت میسر آجاتی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ بڑے شوق سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیںاور سیر و تفریح کے منصوبے بناتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ایسی صورتحال نہیں ہے،حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور ملک وقوم کی خدمت میں زندگی گزار دینے والے افراد کی قدر کرنی چاہئے۔
درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ افراد کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے واپڈا سے بطور اسسٹنٹ لائن مین ریٹائر ہونے والے مقبول حسین اس بارے میں کہتے ہیں۔
میں نے واپڈا میں 28سال سروس کی اس کے بعد خود ہی ریٹائرمنٹ لی،اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے بچے بڑے ہو چکے تھے اور گھریلو اخراجات بہت بڑھ چکے تھے، خاص طور پر بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا میرے لئے بہت بڑا مسئلہ تھا، میں نے سوچا کہ ریٹائرمنٹ سے جو رقم ملے گی اس میں سے کچھ سے کوئی کاروبار کر لوں گا اور باقی بچوں کی پڑھائی پر لگا دوں گااورپھر میں ایسا ہی کیا۔اللہ کے فضل سے میرے بچے پڑھ لکھ کر برسر روزگار ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی سی دکان بھی آپ کے سامنے ہے۔ میں نے تھوڑے سے سرمائے سے کام شروع کیا تھا،شروع شروع میں مشکلات پیش آئیں ،اب گزارہ ہو رہا ہے۔
میںنے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی خود کو بے کار نہیں رہنے دیا اور نہ ہی کبھی سوچا ہے کہ میں ریٹائر ہو گیا ہوں، بس یہ ہے کہ زندگی کی ڈگر بدل گئی ہے پہلے ملازم تھا اب دکاندار ہوں۔ حکومت کی طرف سے پنشن بھی ملتی ہے، ویسے حکومت کو ریٹائرافراد کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی کرنی چاہئے اور یہ ضروری نہیں کہ صرف سرکاری ریٹائر افراد کو ہی سہولتیں فراہم کی جائیں بلکہ ہر اس فرد کو جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ چکا ہو اسے خصوصی مراعات دی جانی چاہئیں''۔
ہمارے معاشرے کے نچلے طبقے کو ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،گو وہ کئی مسائل کا شکار تو پہلے ہی ہوتے ہیں مگر عمر کے اس حصے میں ان مسائل کا سامنا کرنا ان کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے محکمہ زراعت سے بطور بیلدار ریٹائر ہونے والے محمد متھیلا کہتے ہیں ۔ ''میری عمر اس وقت 73سال ہے اور مجھے محکمہ زراعت سے بطور بیلدار ریٹائر ہوئے تیرہ سال ہو چکے ہیں۔ ابھی میں ریٹائر ہی ہوا تھا کہ مجھے معاش کی فکر لاحق ہو چکی تھی کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کام کروں گا۔
جب مجھے نوکری سے فراغت کا سندیسہ مل گیا تو مجھے جو رقم ملی تھی وہ میں نے بچوں کے لئے کمرے بنانے پر لگا دی ،کیونکہ میرے بچوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میرے ہی بنائے ہوئے کچے مکان کے کمروں کو پختہ کر سکے، اس لئے میری ساری رقم چار پختہ کمرے بنانے پر خرچ ہو گئی اور میں پھر سے خالی ہاتھ تھا،سوچا بچوں پر بوجھ بننے کی بجائے خود سے کچھ کام کروں ، یہی سوچ کر مزدوری شروع کر دی، میرے بچوں میں سے بھی کسی نے نہیں کہا کہ ابا آپ بوڑھے ہو گئے ہو کام کرنے کی بجائے اب تم آرام کرو،کیا کرتا مجبوری تھی اس لئے مزدوری کرتا رہا۔ اس کے بعد میں نے گدھا گاڑی بنا لی وہ بھی کافی عرصہ تک چلائی۔
پھر گدھا گاڑی سے گرنے کی وجہ سے کافی چوٹیں آئیں، یوں مجھے یہ کام بھی چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد میں نے چوکیدارہ شروع کر دیا مگر نظر کمزور ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں سے بھی فارغ کر دیا گیا،اب بڑھاپے کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں ملتا، اس لئے تین چار سال سے فارغ ہوں اور پنشن پر گزارہ کرتا ہوں، اللہ کا شکر ہے کہ صحت ٹھیک ہے ، اپنے کام کاج خود کر لیتا ہوں، البتہ میری بیوی شوگر کی مریض ہے مجھے اس کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر اب بھی مجھے کوئی کام کرنا پڑے اور اللہ مجھے اس کی ہمت دے تو میں ضرور کروں گا،ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کرنا یہ تو امیر لوگوں کا کام ہے، ہم غریب لوگ تو ریٹائر ہونے کے بعد چاہیں بھی تو ریٹائر نہیں ہو سکتے''۔
زندگی ایک طوفانی ندی کی طرح ہے جو اونچی نیچی گھاٹیوں میں سے تیزی سے بہتی چلی جا رہی ہے اور اس عالم فانی میں آنے والے ہر انسان کو اس طوفانی ندی میں ہی اپنی کشتی کو پار لگانا ہے ، چاہے کوئی بوڑھا ہو یا جوان ،عورت ہو یا مرد، ہر کسی کو اس منزل سے گزرنا ہی ہے ۔ تاہم زندگی کی اس طوفانی ندی سے گزرنے والے بہت سے افراد ہمت و حوصلہ چھوڑ جاتے ہیں، خاص طور پر ایسے افراد جن کے قویٰ جسمانی کام کر تے کرتے شل ہو چکے ہوں انھیں سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، ریٹائرڈلوگوں کا شمار بھی انھی میں ہوتا ہے، انھیں اس عمر میں سہارا چاہئے ہوتا ہے۔
بیرون ممالک میں ریٹائر ہونے والے ملازمین کو اتنی مراعات دی جاتی ہیں کہ ان کی باقی ماندہ زندگی آسانی سے گزرتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں سوائے پنشن کے ،وہ بھی سرکاری ملازمین کے لئے، اورکوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ ریٹائر ہونے والے اکثر افراد کو زندگی کی کشتی کو پار لگانے کے لئے پھر سے چپو سنبھالنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت میں گزار چکے ہوتے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ ایسے افراد کو معاشرے کے لئے مفید بنانے کے لئے اقدامات کر ے اور اس میں ان کی عمر کا بھی خیال رکھے،اس سے انھیں اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے میں آسانی ہو گی۔
ریٹائرڈ افراد کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانے کے ادارے
ریٹائرڈ افراد نے اپنے ماہ و سال مختلف شعبہ ہائے زندگی کی خدمت کرتے ہوئے گزارے ہوتے ہیں،یوں ان کے پاس تجربے کی وہ ڈگری ہوتی ہے جسے نہ تو جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ کوئی ان سے چھین سکتا ہے اور تجربہ ایسی چیز ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مگر اس کے باوجود ریٹائرڈ افراد کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانے کے لئے دنیا بھر میں سرکاری یا نجی سطح پر کوئی ادارہ موجود نہیں ہے،تا ہم ایسے ادارے نجی طور پر کام کر رہے ہیں جو ریٹائرڈ لوگوں کو اچھی زندگی گزارنے سے متعلق مشورے دیتے ہیں، اس کے لئے بہت سی ویب سائٹس موجود ہیںجو ریٹائر منٹ کے بعد کاروبار میں حصہ داری،منافع بخش سرمایہ کاری اور سیر و تفریح کے لئے منصوبہ بندی کے طریقوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہیں۔
تاہم یہ سب ایسے افراد کے لئے ہے جن کے پاس ریٹائرمنٹ کے وقت کافی سرمایہ موجود ہو، اگر ریٹائر ہونے والے کو پتہ ہو کہ اسے جورقم ملے گی وہ بچوں کی شادیوں یا گھر بنانے میں صرف ہو جائے گی تو اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری کی تلاش کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے،اگر نوکری نہ ملے تو پھرکوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ضروریا ت زندگی تو ہر حال میں پورا کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان میں ریٹائر ہونے والے افراد کی اکثریت کو کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔تاہم ایسا ضرور ہے کہ بعض ریٹائرڈ افراد کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لئے نوکری کے لئے بلالیتے ہیںیا بعض افراد کو حکومتی شخصیات نوازنا چاہتی ہیں تو انھیں کسی نہ کسی ادارے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جس میں قابلیت کا دخل کم اور ذاتی تعلق کا زیادہ ہوتا ہے ۔
ریٹائرڈ افراد کے لئے اداروں کا نہ ہوناتو اپنی جگہ مگر بعض ریٹائرافراد آپس میں رابطہ کر کے ایسوسی ایشنز بنا لیتے ہیں تاکہ خو د کو معاشر ے میں فعال رکھ سکیں، جیسے پاکستان میں ایکس سروس مینز وغیرہ۔ تاہم دنیا بھر میں اولڈ ایج ہومز موجود ہیں جہاںایسے بے سہارا بوڑھے افراد کو رکھا جاتا ہے جن کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا یا ان کے بچے ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو وہ ایسے میں انھیں اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے جہاں پر قابل اور تجربہ کار ریٹائرڈ افراد کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہو۔
مختلف ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر
دنیا کے مختلف ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر ایک جیسی نہیں ، تاہم ایک بات سب میں مشترک ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 60سے68سال کے درمیان ہے یعنی 70 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے پہلے گھر جانے کی تیاری کرنا ہی پڑتی ہے۔ سب سے زیادہ مدت انگلینڈ میں ہے، ہو سکتا ہے اس کی وجہ وہاں کی آب وہوا،ماحول یا پھرمعاشی حالات ہوں۔ مگر یہ طے ہے کہ ریٹائر تو سب کو ہونا پڑتا ہے۔
ماہرین صحت کی رائے
صاحبزادہ ڈاکٹر علی محمد (ماہر نفسیات) ریٹائرڈ افراد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ''جب کوئی انسان ریٹائر ہوتاہے تو اس کی زندگی میں بنیادی طور پر دو قسم کی تبدیلیاں آتی ہیں،ماحول کی تبدیلی اور مصروفیت میں تبدیلی۔ یہ دونوں تبدیلیاں جہاں اس کے جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں وہیں اس کے ساتھ اس کی سائیکی بھی متاثر ہوتی ہے۔ سرگرمیاں کم ہونے کی وجہ سے قویٰ جسمانی قوت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور نفسیاتی طور پر اکیلے پن کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
بعض دفعہ یہ اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ بندہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ جسمانی کمزوریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان ورزش یا سیر وغیرہ شروع کر سکتا ہے اس کے مقابلے میں ذہنی کارکردگی یا ذہن کو فعال رکھنے کے لئے ہمارے مسلم معاشرے میں آسان اور سہل طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے مسجد جانا شروع کرے، وہاں اس کے دوست بنناشروع ہو جائیں گے تو ایک نئے سوشل گروپ کا ممبر بن جائے گا۔ اسی طرح کسی سوشل سوسائٹی جو فلاح و بہبود کے کاموں میں مشغول ہو اس میں اپنے آپ کو شامل کر کے اپنی روح کی بالیدگی کا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے۔
دراصل عمر رسیدہ افراد سب سے بڑا مسئلہ وینٹی لیشن یعنی اپنا دکھ بانٹنا ہے۔ جب نئے سوشل گروپوں میں نئے دوستوں کے ساتھ وہ اپنے دل کی بات کرے گا تو اس کو ڈپریشن یا اینگزائٹی یا تو ہو گی نہیں یا پھر اس میں کمی واقع ہوتی رہے گی اس طرح باقی ماندہ زندگی کے دن سہل اور آسان طریقے سے گزار سکے گا۔ دنیا کے کاموں سے اسے فرصت ہوتی ہے باقی اپنے دین کے کاموں میں اگر وہ لگ جائے تو اس سے بھی سکون قلب جیسی نعمت سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔ چہ جائیکہ مزید کسی دنیاوی الجھن میں پھنس کر جسمانی و ذہنی دبائو میں آ کر مزید پریشانی میں مبتلا ہوجس کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ اس کے پاس وہ جوانی جیسا صحت مند جسم ہے اور نہ ہی ذہنی صلاحیتیں ہیں۔
معاشرے کا وہ طبقہ جس کی معاشی حالت ابتر ہے وہ اپنے قریبی تعلق دار کے ساتھ کسی روزمرہ سرگرمی میں شامل ہو جس سے گزر بسر کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ذریعہ آمدن ہو سکے۔ بحرحال زندگی کے آخری لمحات تک ضروریات زندگی تو ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ ''
پروفیسر ڈاکٹر رضوان مسعود بٹ کہتے ہیں''جب انسان ریٹائر ہو تا ہے تو وہ اپنے معمو ل سے ہٹ جاتا ہے جس سے اس کے لئے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر وہ بے کار رہے گا یعنی اس کی کوئی خاص سرگرمی نہیں ہوگی تو اس کے عضلات او ر ہڈیاں کمزور ہو نا شروع ہو جائیں گی، دماغی صلاحیت بھی متاثر ہو گی، ٹینشن کی وجہ سے سر میں درد رہنے لگے گا اور انسان مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ حرکت کم کرنے کی وجہ سے خون میں کولیسٹرول مقررہ مقدار سے تجاوز کر جاتا ہے جس سے دل کے امراض جنم لیتے ہیں۔ اس لئے نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی خود کو ایکٹو رکھنا ضروری ہے اگر ہو سکے تو کوئی نہ کوئی کام کیا جائے جو انسان کی عمر کے تقاضوں کے مطابق ہو،تنہائی سے بچنا چاہئے اس کے لئے کوئی بھی سوشل سرگرمی اپنائی جا سکتی ہے، بچوں کو پڑھایا جا سکتا ہے، سوشل تنظیموں میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ چہل قدمی یا ہلکی پھلکی ورزش بہت ضروری ہے ، اس سے تمام مسلز کو خون پہنچتا ہے ،اگر ایسا نہ کیا جائے تو کیلشیم کی کمی کی وجہ سے مسلز سکڑنے لگتے ہیں اور انسان کمزور ہوتا چلا جا تا ہے۔ ایسے افراد جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے انھیں خاص طور پر احتیاط کرنا چاہئے کیونکہ انھیں بہت زیادہ دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اگر وہ ریٹائرمنٹ سے قبل ہی آئندہ کی منصوبہ بندی کر لیں تو اس سے ان پر دبائو کم ہو جاتا ہے اور زندگی میں آسانیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ''
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
خیر شاعر کی تو اپنی مجبوری ہے کہ اسے ہر حال میں اپنا محبوب ہی عزیز ہے، فرصت کے لمحات میں بھی وہ اپنے محبو ب کو یا د کر رہا ہے۔ شعراء سے ہٹ کر دیکھا جائے تو فرصت کے لمحات کے استعمال کا تعلق زیادہ تر عمر ، سوچ اور طبقاتی تقسیم کے زیراثر ہوتا ہے۔ بچے فرصت کے لمحات کھیل کود میں گزارنا پسند کرتے ہیں جبکہ نوجوان بھی کسی نہ کسی حوالے سے سرگرم رہتے ہیں ، کچھ سیر و تفریح کے لئے نکل جاتے ہیںتو کچھ کھیلوں کے میدانوں کا رخ کرتے ہیں،غرض ہر کسی کا اپنا انداز ہوتا ہے، مگر اس کی ایک حد ہے،زندگی بھر کی فراغت نہیں ہوتی، اس کے بعد سب معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ دفتر جانے والے دفتروں کی راہ لیتے ہیں اور کاروباری حضرات اپنے بزنس پر، جبکہ لڑکے بالے اسکول، کالج جانے لگتے ہیں۔
اگر زندگی میں ایسا وقت آجائے کہ ایک فرد جس نے ساری زندگی کسی ادارے کی خدمت کرتے گزار دی ہو، اس کے کرتا دھرتا اسے جذبات سے عاری مشین کی طرح فراغت کا نوٹس جاری کر دیں کہ قانونی طور پر اب آپ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اس لئے آپ کو ادارے کی طرف سے باقاعدہ سبکدوش کیا جاتا ہے ، یہ گویا اس شخص کے لئے ڈھکے چھپے الفاظ میں ایک پیغام ہوتا ہے کہ تم اب ہمارے کام کے نہیں رہے۔ جب ریٹائر ہونے والے فر دکو اس بات کا احساس ہوگا تو ہمیشہ کے لئے فرصت کے لمحات میسر آنے پر اس کے جذبات مسرت بھرے نہیں ہوں گے۔ بظاہر وہ اپنی ریٹائرمنٹ پر ایک معقول رقم ملنے اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف سے نیک جذبات کااظہار کئے جانے پر بہت خوش نظر آتا ہے مگر اس کے دل و دماغ پر ایک بہت بڑا سوال دستک دے رہا ہوتا ہے کہ اب وہ کیا کرے گا؟اپنی آئندہ کی زندگی کیسے گزارے گا؟
کیونکہ اب اس کے پاس فرصت ہی فرصت ہوتی ہے، یہی فرصت بعض ریٹائر ہونے والوں کے لئے سوہانِ روح ہوتی ہے جبکہ بعض کے لئے اطمینان کا باعث ،جس کی وجہ وہ معاشی پہلو ہے جو ساری زندگی ہر انسان کے ساتھ ساتھ اس کے سائے کی طرح چلتا ہے ، جنھیں ریٹائر منٹ کے بعد معاشی تنگی کاسامنا ہوتا ہے وہ پریشان اور جو اتنی دولت پس اندازکر چکے ہوتے ہیں کہ آئندہ زندگی آسانی سے گزار سکیں وہ پرسکون ہوتے ہیں ۔ کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ریٹائر ہونے سے قبل ہی آئندہ کے شب و روز کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں، یوں انھیں ریٹائرمنٹ پر بھی کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی اور وہ ایک پیشہ چھوڑ کر دوسرے پیشے سے منسلک ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح کچھ افراد کی قابلیت اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ادارے انھیں کنٹریکٹ پر نوکری دے دیتے ہیں۔بعض افراد ریٹامنٹ کے بعد فلاحی کاموں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور کوئی ایسا ادارہ بناتے ہیںجس کے ثمرات سے پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے ۔ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کام نہیں کرتے یا انھیں کام نہیں ملتا ایسے میں وہ اپنی زندگی کی گاڑی پنشن کے سہارے چلاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، وہ معاشرتی طور پر کٹ کر رہ جاتے ہیں اور ذہنی و جسمانی طور پر مختلف عارضوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیںاور اگر انھیں کوئی سنبھالنے والانہ ہو تواولڈ ہوم ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔
اعجاز احمد قریشی سابق اے آئی جی لیگل ریٹائر منٹ کے بعد اپنے شب روز کی داستان سناتے ہیں ۔''میں کچھ نہیں تو 80کو پہنچ رہا ہوں ، 90ء میں ریٹائر ہوا تھا، میں نے ریٹائرمنٹ سے قبل ہی خود کو مصروف رکھنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی ، میرا تعلق چونکہ وکالت کے شعبے سے ہے اس لئے میں نے ریٹائر منٹ سے تین ماہ قبل ہی دفتر بنا لیا تھا یوں میں ریٹائر تو ہوا ہی نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ سرکاری نوکری سے فارغ ہو کر گھر گیا اور دروازے سے داخل ہوا تو ایک خوشگوار حیرت میری منتظر تھی۔ میرے خاندان والوں نے میرے علم میں لائے بغیر میرے لئے چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں دوستوں اور عزیزوں کو مدعو کیا گیا تھا،تب بھی مجھے ریٹائر ہونے کا احساس نہیں تھا بلکہ اس تقریب سے مجھے خوشی ملی۔ سرکاری دفتر والے مجھ پر مکمل بھروسہ کرتے تھے اس لئے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آئی جی منظور صاحب نے تین مہینے تک مجھے کام پر لگائے رکھا۔
فوجداری مقدمات کا ماہر ہونے کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کو میری سخت ضرورت تھی جب تک کہ میرے متبادل کے طور پر کوئی دوسرے صاحب آ نہ جاتے۔2000ء میں مجھے نیب میں بطورکنسلٹنٹ لے لیا گیا،دو سال تک وہاں پر کام کیا ، اس کے بعد پھر وکالت شروع کر دی۔ تاہم یہ ہے کہ جب مجھے کالا موتیا ہوا اور بینائی متاثر ہوئی تو میں نے صرف اہم کیسز ہی لئے۔ البتہ کورٹ جانا نہ چھوڑا ،وہاں وکلاء کے حلقے میں وقت اچھا گزر جاتا ہے، اس کے علاوہ بچوں کے ساتھ بیڈمنٹن اورکرکٹ کھیل لیتا ہوں،لارنس باغ میں سیر کے لئے بھی چلا جاتا ہوں۔ میں خود کو ریٹائر سمجھتا ہی نہیں ہوں۔ حکومت کو چاہئے کہ بزرگ افراد کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کرے جو قابل افراد ہیں ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائے۔''
جاوید اقبال وائس ایڈمرل (ر)کہتے ہیں: ''میں 1997ء میںبطور وائس ایڈمرل ریٹائر ہوا ،تب مجھے بطور سفیر تیونس میں بھیج دیا گیا ، میں وہاں99ء تک رہا جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالاتو مجھے واپس بلا لیا گیا ،واپس آ کر میں نے اپنی جائیداد اور دیگر معاملات پر توجہ دی ، کیونکہ مجھے سابق حکومت نے سفیر تعینات کیا تھا تو مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر میں نے ان کا ہمت و حوصلے سے سامنا کیا۔ اس کے بعد میں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا جس کا مقصد ملک و قوم کی خدمت کے سوا کچھ نہیں۔ اور اس دوران میں نے سماجی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا، خاص طور پر 2005ء کے زلزلے اور سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کافی کام کیا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ میں ریٹائر ہوا ہی نہیں تقریباً ہر وقت مصروف رہتا ہوں،اللہ کے فضل سے صحت کے حوالے سے بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں، اب تو سیاست ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ''
معروف سینئر صحافی عظیم قریشی اپنی ریٹائرڈ زندگی کی داستان کچھ یوں سناتے ہیں۔''میں 1991ء میں امروز اخبار سے ریٹائر ہوا تھا۔میں نے تقریباً 29سا ل تک وہاں نوکری کی، عمر کے لحاظ سے اب 75ویں سال کو ہاتھ لگا رہا ہوں۔ جب میں ریٹائر ہوا تواحساسات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھے ،کیوں کہ پاکستان میں نوکری سے فارغ ہونے والوں کو کوئی خاص مراعات نہیں ملتیں ، جیسے دوسرے ممالک میں حکومت پنشن کے علاوہ دیگر مراعات بھی دیتی ہے اور پھر ہمارے ساتھ تو ویسے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا تھا یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی نہیں ملی تھی جس کے لئے ہمیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا ، تب جا کر ہمیں پنشن کا حق دار ٹھہرایا گیا اور وہ بھی 91ء کے شیڈول کے مطابق جو کہ بہت کم ہے، حالانکہ امروز خالصتاً سرکاری ادارہ تھا اور دیگر سرکاری اداروں کی طرح پنشن ہماراحق بنتا تھا۔
اس کا خدانخواستہ یہ مطلب نہیں کہ میں ریٹائرمنٹ کے خلاف ہوں،ریٹائرمنٹ ضرورملنی چاہئے ،ایک عمر ایسی آتی ہے جب انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ آرام کرے،مگر جب پتہ ہوکہ ریٹائر منٹ کے بعد کچھ زیادہ حوصلہ افزا صورت حال نہیں ہوگی توانسان خوشگواریت کی بجائے دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جرنلسٹ کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتاتو ہم نے اس سرکاری ریٹائرمنٹ کے بعد پھر اخبار میں کام شروع کر دیا ، مگر اب گزشتہ چار پانچ سال سے مکمل طور پرریٹائر ہو چکا ہوں ، سوشل سرگرمی کے طور پر پریس کلب چلا آتا ہوں، اس سے ذہنی و جسمانی طور پر مصروف رہتا ہوں ۔ میرے بچے اللہ کے فضل سے اچھے مقام پر فائز ہیں اس لئے اب معاشی پریشانی نہیں ہے۔
مگر سینئر صحافیوں سے کام لیا جا سکتا ہے انھیں میڈیا کی بہتری کے لئے بنائی گئی ایڈوائزری کمیٹیوں میں کھپایا جا سکتا ہے، جیسے انڈیا میں ٹریبون اخبار ریٹائرڈ افراد کو ایڈوائزر کے طور پر رکھ لیتا ہے۔ ترکی میں سینئر صحافیوں کو حکومت کی طرف سے کارڈ جاری کیا جاتا ہے جس سے انھیں ہوائی اور زمینی سفر میں کافی سہولت میسر آجاتی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ بڑے شوق سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیںاور سیر و تفریح کے منصوبے بناتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ایسی صورتحال نہیں ہے،حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور ملک وقوم کی خدمت میں زندگی گزار دینے والے افراد کی قدر کرنی چاہئے۔
درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ افراد کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے واپڈا سے بطور اسسٹنٹ لائن مین ریٹائر ہونے والے مقبول حسین اس بارے میں کہتے ہیں۔
میں نے واپڈا میں 28سال سروس کی اس کے بعد خود ہی ریٹائرمنٹ لی،اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے بچے بڑے ہو چکے تھے اور گھریلو اخراجات بہت بڑھ چکے تھے، خاص طور پر بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا میرے لئے بہت بڑا مسئلہ تھا، میں نے سوچا کہ ریٹائرمنٹ سے جو رقم ملے گی اس میں سے کچھ سے کوئی کاروبار کر لوں گا اور باقی بچوں کی پڑھائی پر لگا دوں گااورپھر میں ایسا ہی کیا۔اللہ کے فضل سے میرے بچے پڑھ لکھ کر برسر روزگار ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی سی دکان بھی آپ کے سامنے ہے۔ میں نے تھوڑے سے سرمائے سے کام شروع کیا تھا،شروع شروع میں مشکلات پیش آئیں ،اب گزارہ ہو رہا ہے۔
میںنے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی خود کو بے کار نہیں رہنے دیا اور نہ ہی کبھی سوچا ہے کہ میں ریٹائر ہو گیا ہوں، بس یہ ہے کہ زندگی کی ڈگر بدل گئی ہے پہلے ملازم تھا اب دکاندار ہوں۔ حکومت کی طرف سے پنشن بھی ملتی ہے، ویسے حکومت کو ریٹائرافراد کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی کرنی چاہئے اور یہ ضروری نہیں کہ صرف سرکاری ریٹائر افراد کو ہی سہولتیں فراہم کی جائیں بلکہ ہر اس فرد کو جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ چکا ہو اسے خصوصی مراعات دی جانی چاہئیں''۔
ہمارے معاشرے کے نچلے طبقے کو ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،گو وہ کئی مسائل کا شکار تو پہلے ہی ہوتے ہیں مگر عمر کے اس حصے میں ان مسائل کا سامنا کرنا ان کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے محکمہ زراعت سے بطور بیلدار ریٹائر ہونے والے محمد متھیلا کہتے ہیں ۔ ''میری عمر اس وقت 73سال ہے اور مجھے محکمہ زراعت سے بطور بیلدار ریٹائر ہوئے تیرہ سال ہو چکے ہیں۔ ابھی میں ریٹائر ہی ہوا تھا کہ مجھے معاش کی فکر لاحق ہو چکی تھی کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کام کروں گا۔
جب مجھے نوکری سے فراغت کا سندیسہ مل گیا تو مجھے جو رقم ملی تھی وہ میں نے بچوں کے لئے کمرے بنانے پر لگا دی ،کیونکہ میرے بچوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میرے ہی بنائے ہوئے کچے مکان کے کمروں کو پختہ کر سکے، اس لئے میری ساری رقم چار پختہ کمرے بنانے پر خرچ ہو گئی اور میں پھر سے خالی ہاتھ تھا،سوچا بچوں پر بوجھ بننے کی بجائے خود سے کچھ کام کروں ، یہی سوچ کر مزدوری شروع کر دی، میرے بچوں میں سے بھی کسی نے نہیں کہا کہ ابا آپ بوڑھے ہو گئے ہو کام کرنے کی بجائے اب تم آرام کرو،کیا کرتا مجبوری تھی اس لئے مزدوری کرتا رہا۔ اس کے بعد میں نے گدھا گاڑی بنا لی وہ بھی کافی عرصہ تک چلائی۔
پھر گدھا گاڑی سے گرنے کی وجہ سے کافی چوٹیں آئیں، یوں مجھے یہ کام بھی چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد میں نے چوکیدارہ شروع کر دیا مگر نظر کمزور ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں سے بھی فارغ کر دیا گیا،اب بڑھاپے کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں ملتا، اس لئے تین چار سال سے فارغ ہوں اور پنشن پر گزارہ کرتا ہوں، اللہ کا شکر ہے کہ صحت ٹھیک ہے ، اپنے کام کاج خود کر لیتا ہوں، البتہ میری بیوی شوگر کی مریض ہے مجھے اس کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر اب بھی مجھے کوئی کام کرنا پڑے اور اللہ مجھے اس کی ہمت دے تو میں ضرور کروں گا،ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کرنا یہ تو امیر لوگوں کا کام ہے، ہم غریب لوگ تو ریٹائر ہونے کے بعد چاہیں بھی تو ریٹائر نہیں ہو سکتے''۔
زندگی ایک طوفانی ندی کی طرح ہے جو اونچی نیچی گھاٹیوں میں سے تیزی سے بہتی چلی جا رہی ہے اور اس عالم فانی میں آنے والے ہر انسان کو اس طوفانی ندی میں ہی اپنی کشتی کو پار لگانا ہے ، چاہے کوئی بوڑھا ہو یا جوان ،عورت ہو یا مرد، ہر کسی کو اس منزل سے گزرنا ہی ہے ۔ تاہم زندگی کی اس طوفانی ندی سے گزرنے والے بہت سے افراد ہمت و حوصلہ چھوڑ جاتے ہیں، خاص طور پر ایسے افراد جن کے قویٰ جسمانی کام کر تے کرتے شل ہو چکے ہوں انھیں سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، ریٹائرڈلوگوں کا شمار بھی انھی میں ہوتا ہے، انھیں اس عمر میں سہارا چاہئے ہوتا ہے۔
بیرون ممالک میں ریٹائر ہونے والے ملازمین کو اتنی مراعات دی جاتی ہیں کہ ان کی باقی ماندہ زندگی آسانی سے گزرتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں سوائے پنشن کے ،وہ بھی سرکاری ملازمین کے لئے، اورکوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ ریٹائر ہونے والے اکثر افراد کو زندگی کی کشتی کو پار لگانے کے لئے پھر سے چپو سنبھالنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت میں گزار چکے ہوتے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ ایسے افراد کو معاشرے کے لئے مفید بنانے کے لئے اقدامات کر ے اور اس میں ان کی عمر کا بھی خیال رکھے،اس سے انھیں اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے میں آسانی ہو گی۔
ریٹائرڈ افراد کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانے کے ادارے
ریٹائرڈ افراد نے اپنے ماہ و سال مختلف شعبہ ہائے زندگی کی خدمت کرتے ہوئے گزارے ہوتے ہیں،یوں ان کے پاس تجربے کی وہ ڈگری ہوتی ہے جسے نہ تو جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ کوئی ان سے چھین سکتا ہے اور تجربہ ایسی چیز ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مگر اس کے باوجود ریٹائرڈ افراد کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانے کے لئے دنیا بھر میں سرکاری یا نجی سطح پر کوئی ادارہ موجود نہیں ہے،تا ہم ایسے ادارے نجی طور پر کام کر رہے ہیں جو ریٹائرڈ لوگوں کو اچھی زندگی گزارنے سے متعلق مشورے دیتے ہیں، اس کے لئے بہت سی ویب سائٹس موجود ہیںجو ریٹائر منٹ کے بعد کاروبار میں حصہ داری،منافع بخش سرمایہ کاری اور سیر و تفریح کے لئے منصوبہ بندی کے طریقوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہیں۔
تاہم یہ سب ایسے افراد کے لئے ہے جن کے پاس ریٹائرمنٹ کے وقت کافی سرمایہ موجود ہو، اگر ریٹائر ہونے والے کو پتہ ہو کہ اسے جورقم ملے گی وہ بچوں کی شادیوں یا گھر بنانے میں صرف ہو جائے گی تو اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری کی تلاش کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے،اگر نوکری نہ ملے تو پھرکوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ضروریا ت زندگی تو ہر حال میں پورا کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان میں ریٹائر ہونے والے افراد کی اکثریت کو کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔تاہم ایسا ضرور ہے کہ بعض ریٹائرڈ افراد کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لئے نوکری کے لئے بلالیتے ہیںیا بعض افراد کو حکومتی شخصیات نوازنا چاہتی ہیں تو انھیں کسی نہ کسی ادارے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جس میں قابلیت کا دخل کم اور ذاتی تعلق کا زیادہ ہوتا ہے ۔
ریٹائرڈ افراد کے لئے اداروں کا نہ ہوناتو اپنی جگہ مگر بعض ریٹائرافراد آپس میں رابطہ کر کے ایسوسی ایشنز بنا لیتے ہیں تاکہ خو د کو معاشر ے میں فعال رکھ سکیں، جیسے پاکستان میں ایکس سروس مینز وغیرہ۔ تاہم دنیا بھر میں اولڈ ایج ہومز موجود ہیں جہاںایسے بے سہارا بوڑھے افراد کو رکھا جاتا ہے جن کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا یا ان کے بچے ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو وہ ایسے میں انھیں اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے جہاں پر قابل اور تجربہ کار ریٹائرڈ افراد کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہو۔
مختلف ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر
دنیا کے مختلف ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر ایک جیسی نہیں ، تاہم ایک بات سب میں مشترک ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 60سے68سال کے درمیان ہے یعنی 70 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے پہلے گھر جانے کی تیاری کرنا ہی پڑتی ہے۔ سب سے زیادہ مدت انگلینڈ میں ہے، ہو سکتا ہے اس کی وجہ وہاں کی آب وہوا،ماحول یا پھرمعاشی حالات ہوں۔ مگر یہ طے ہے کہ ریٹائر تو سب کو ہونا پڑتا ہے۔
ماہرین صحت کی رائے
صاحبزادہ ڈاکٹر علی محمد (ماہر نفسیات) ریٹائرڈ افراد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ''جب کوئی انسان ریٹائر ہوتاہے تو اس کی زندگی میں بنیادی طور پر دو قسم کی تبدیلیاں آتی ہیں،ماحول کی تبدیلی اور مصروفیت میں تبدیلی۔ یہ دونوں تبدیلیاں جہاں اس کے جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں وہیں اس کے ساتھ اس کی سائیکی بھی متاثر ہوتی ہے۔ سرگرمیاں کم ہونے کی وجہ سے قویٰ جسمانی قوت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور نفسیاتی طور پر اکیلے پن کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
بعض دفعہ یہ اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ بندہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ جسمانی کمزوریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان ورزش یا سیر وغیرہ شروع کر سکتا ہے اس کے مقابلے میں ذہنی کارکردگی یا ذہن کو فعال رکھنے کے لئے ہمارے مسلم معاشرے میں آسان اور سہل طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے مسجد جانا شروع کرے، وہاں اس کے دوست بنناشروع ہو جائیں گے تو ایک نئے سوشل گروپ کا ممبر بن جائے گا۔ اسی طرح کسی سوشل سوسائٹی جو فلاح و بہبود کے کاموں میں مشغول ہو اس میں اپنے آپ کو شامل کر کے اپنی روح کی بالیدگی کا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے۔
دراصل عمر رسیدہ افراد سب سے بڑا مسئلہ وینٹی لیشن یعنی اپنا دکھ بانٹنا ہے۔ جب نئے سوشل گروپوں میں نئے دوستوں کے ساتھ وہ اپنے دل کی بات کرے گا تو اس کو ڈپریشن یا اینگزائٹی یا تو ہو گی نہیں یا پھر اس میں کمی واقع ہوتی رہے گی اس طرح باقی ماندہ زندگی کے دن سہل اور آسان طریقے سے گزار سکے گا۔ دنیا کے کاموں سے اسے فرصت ہوتی ہے باقی اپنے دین کے کاموں میں اگر وہ لگ جائے تو اس سے بھی سکون قلب جیسی نعمت سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔ چہ جائیکہ مزید کسی دنیاوی الجھن میں پھنس کر جسمانی و ذہنی دبائو میں آ کر مزید پریشانی میں مبتلا ہوجس کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ اس کے پاس وہ جوانی جیسا صحت مند جسم ہے اور نہ ہی ذہنی صلاحیتیں ہیں۔
معاشرے کا وہ طبقہ جس کی معاشی حالت ابتر ہے وہ اپنے قریبی تعلق دار کے ساتھ کسی روزمرہ سرگرمی میں شامل ہو جس سے گزر بسر کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ذریعہ آمدن ہو سکے۔ بحرحال زندگی کے آخری لمحات تک ضروریات زندگی تو ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ ''
پروفیسر ڈاکٹر رضوان مسعود بٹ کہتے ہیں''جب انسان ریٹائر ہو تا ہے تو وہ اپنے معمو ل سے ہٹ جاتا ہے جس سے اس کے لئے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر وہ بے کار رہے گا یعنی اس کی کوئی خاص سرگرمی نہیں ہوگی تو اس کے عضلات او ر ہڈیاں کمزور ہو نا شروع ہو جائیں گی، دماغی صلاحیت بھی متاثر ہو گی، ٹینشن کی وجہ سے سر میں درد رہنے لگے گا اور انسان مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ حرکت کم کرنے کی وجہ سے خون میں کولیسٹرول مقررہ مقدار سے تجاوز کر جاتا ہے جس سے دل کے امراض جنم لیتے ہیں۔ اس لئے نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی خود کو ایکٹو رکھنا ضروری ہے اگر ہو سکے تو کوئی نہ کوئی کام کیا جائے جو انسان کی عمر کے تقاضوں کے مطابق ہو،تنہائی سے بچنا چاہئے اس کے لئے کوئی بھی سوشل سرگرمی اپنائی جا سکتی ہے، بچوں کو پڑھایا جا سکتا ہے، سوشل تنظیموں میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ چہل قدمی یا ہلکی پھلکی ورزش بہت ضروری ہے ، اس سے تمام مسلز کو خون پہنچتا ہے ،اگر ایسا نہ کیا جائے تو کیلشیم کی کمی کی وجہ سے مسلز سکڑنے لگتے ہیں اور انسان کمزور ہوتا چلا جا تا ہے۔ ایسے افراد جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے انھیں خاص طور پر احتیاط کرنا چاہئے کیونکہ انھیں بہت زیادہ دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اگر وہ ریٹائرمنٹ سے قبل ہی آئندہ کی منصوبہ بندی کر لیں تو اس سے ان پر دبائو کم ہو جاتا ہے اور زندگی میں آسانیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ''