داستان پڑھنے کی پہلی بار پیشکش ہوئی تو کہا یہ میرے بس کا روگ نہیں

معروف بھارتی داستان گو اور اداکار دانش حسین سے مکالمہ۔

فوٹو: فائل

وہ بینک میں اچھی بھلی نوکری کررہے تھے ، مگر دل کو قرار نہ تھا، اور اس کی بے کلی دور نہ ہوتی، کچھ ایسا کرنا چاہتے، جس سے دل مضطر سنبھل جائے ، لیکن کوئی راہ سجھائی نہ دیتی۔

خود پر بیتی کا احوال اجمالاً یوں سناتے ہیں ''عجب سی بوریت زندگی سے ہونے لگی، کہ صاحب صبح دفترجائو، شام کو واپس آجائو۔پیسا کمائو۔کہنے کو آپ منیجر ہیں، گاڑی ہے، مرتبہ ہے ، مگر صاحب زندگی میں لطف نہیں۔وہ جو منٹو صاحب نے کہا ہے کہ دل کی بے کلی کسی طرح دور نہیں ہوتی تو اپنے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ معاملہ چل رہا تھا۔جو بھی کرتے ، جی کی بے کلی دور نہیں ہوتی تھی۔''اس کیفیت سے نکلنے کے لیے ، اب انھوں نے ایسا مشغلہ ڈھونڈنا شروع کیا، جو طبیعت سے لگا کھاتا ہو۔اسکول اور کالج کے زمانے میں اداکاری میں تھوڑے بہت جوہر دکھائے تھے، جس کا لطف ذہن میں جما رہا، اس تاثر کے زیراثر تھیٹر میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیا لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ اس میدان میں کسی سے شناسائی نہ تھی کیونکہ تھیٹر کو کبھی فالو نہیں کیاتھا۔

ہاں البتہ تھیٹر ڈائریکٹربیری جون کا نام سن رکھاتھا، ایک روز جی کڑاکرکے انھیں فون لگایااور اداکار بننے کے ضمن میں اپنی تمنا سے آگاہ کیا۔ان نے پوچھا ''اداکاری کا تجربہ ہے''جواب نفی میں پاکر اس برطانوی تھیٹر ڈائریکٹر، جس نے 1969ء میں ہندوستان کو اپنا مسکن بنالیاتھا، نے دانش حسین سے کہا کہ وہ ان کے اسکول سے تین ماہ کااداکاری کورس کریں۔اس کہے پرانھوں نے صاد کیا۔اب سر شام نوکری سے فارغ ہوکروہ رموزِاداکاری سیکھنے پہنچ جاتے۔کورس تمام ہونے پربیری جون نے انھیں اب باہر جا کر کہیں آڈیشن دینے پر اکسایا ، اس پریہ آمادہ نہ ہوئے، اوران سے عرض کی کہ وہ انہی کے تھیٹرگروپ سے نتھی ہونا چاہیں گے۔بیری مان گئے اور تین ماہ بعد اپنے ایک ڈرامے کے لیے آڈیشن لینے کے بعداس نوآموزکو اداکاری کا موقع دے دیا۔

یہ ڈراما''خاموش!عدالت جاری ہے''تھا، جس کو ممتاز ڈراما نگاروجے ٹنڈولکرنے لکھاتھا۔دانش حسین نے اس ڈرامے میں پونکشے کا کردار نبھایااور داد سمیٹی۔مئی 1999ء میں انھوں نے اپنی پہلی پبلک پرفارمنس دی۔وجے ٹنڈولکرکا یہ ڈراما ممتاز ادیب انتظار حسین کو اس قدر پسند آیا کہ اٹھارہ انیس برس ادھر انھوں نے اس کا ترجمہ کیا، جس کوممتاز ادبی جریدے ''آج''نے چھاپا اور لاہورمیں ایک تھیٹر گروپ نے اسٹیج کیا ۔بیری جون کی ہدایت کاری میں ان کا دوسرا ڈراما ''منٹو''تھا، جس کوکشور اہلو والیا(اب کشور ڈیسائی) نے تحریر کیا۔دانش حسین نے بتایا کہ، اس ڈرامے کے ایک ٹریک میںسعادت حسن منٹو کا زندگی نامہ چلتارہا، دوسرے ٹریک میںمنٹو کی کہانیاں۔اس ڈرامے میںدانش حسین نے چارمختلف کردار ادا کئے۔''اوپر ، نیچے اور درمیان '' میںوہ ڈاکٹر اور نواب بنے۔

''ٹوبہ ٹیک سنگھ ''کا مرکزی کردار بھی نبھایا۔تین برس بینک اور اداکاری کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا، اس لیے فی سال دو سے زیادہ ڈراموں میں کام نہ کر سکے۔ 2002ء میں آخر کار انھوں نے ساڑھے پانچ سال سے جاری بینک کی نوکری سے پنڈ چھڑالیا۔اس فیصلے تک وہ کیونکر پہنچے، اس بابت بتاتے ہیں ''اب مجھے تھیٹر میں مزا آنے لگا تو میں نے سوچ لیا کہ مجھے یہی کرنا ہے۔جس کام میں آدمی کا جی لگتا ہو اسے وہی کرنا چاہیے۔اس فیصلے پر کبھی کسی قسم کا پچھتاوا نہیں ہوا۔''پکی نوکری چھوڑنے پرگھر والوں نے مخالفت کی؟''ہاں !والد تھوڑے خفا رہے۔وہ ماہر معاشیات تھے۔اکیڈمک آدمی تھے، اس لیے وہ کہنے لگے، لو اب میاں!بینک کی اچھی ملازمت چھوڑ کراداکاری کریں گے، یہ بھی کوئی کام ہوا۔''

دہلی اسکول آف اکنامکس سے ایم اے اور دہلی یونیورسٹی کی فیکلٹی آف مینجمنٹ اسٹڈیزسے ایم بی اے کی ڈگری لینے والے دانش حسین کے تھیٹر سے جڑنے کا قصہ آپ نے جان لیا، اب ذرا موصوف کے داستان گوبننے کا کہانی بھی سنیے۔تھیٹر کا رخ کرنے کی ہڑک تو انھیں خود ہی ہوئی،لیکن داستان گوئی کے خیمے میں انھیںمیر باقر علی کی 1928ء میں وفات کے بعد سے مردہ، فن داستان گوئی کے احیاء کا بیڑا اٹھانے والے محمود فاروقی کھینچ کر لے گئے،جن کی نگاہ دور رس نے انھیں ایک ڈرامے میں کام کرتے دیکھ کر تاڑ لیا کہ وہ داستان سنانے میں ان کے ساتھی بن سکتے ہیں۔

محمود فاروقی سے اپنے تعلق کی بنا پڑنے کی بابت وہ بتاتے ہیں۔''2005ء میں محمود نے مجھے ناٹک میں دیکھا۔میں نے اسی فیسٹیول میں انھیں داستان گوئی کرتے دیکھا۔باقاعدہ طور پر ہمیں حبیب تنویرصاحب نے ملوایا۔ہمارے بہت سے مشترکہ جاننے والے تھے، ان کے ہاں بھی ملنا جلنا رہا۔''تہلکہ ''میں چھپا ان کا انٹرویو پسند آیا تو فون پراس کی تعریف کردی۔اس موقع پرانھوں نے مجھے کہا کہ آپ میرے ساتھ داستان کریں گے؟میں نے جواب دیاکہ بھئی!آپ بڑی اچھی پیشکش کررہے ہیں لیکن میں اس قابل نہیں ہوں۔وہ کہنے لگے، آپ مجھے ملیں ۔ بعدازاں کافی ہائوس میں ہماری ملاقات ہوئی۔



میں نے ان سے کہا کہ داستان بڑا عمدہ آرٹ فارم ہے، مگر اتنے صفحے ثقیل اردو میں منہ زبانی سنانا میرے بس کا روگ نہیں۔اس پر محمود بولے کہ نہیں ،تم کر لو گے۔ میں نے جب دیکھا کہ انھیں مجھ پر زیادہ بھروسا ہے تو میں نے ہاں کردی۔اس ملاقات کے 13دن بعد پرفارمنس تھی۔میں نے بڑی محنت کی۔آٹھ آٹھ گھنٹے ریہرسل کی۔دہلی میںجب ہم دونوں نے پہلی بار پرفارم کیا تو اسے بے حد سراہا گیا۔یوں ہم دونوں کے مل کر داستان سنانے کا سلسلہ شروع ہوا، جو جاری ہے اور ہم دنیا بھر میں چار سو سے زیادہ بار پرفارم کرچکے ہیں۔''

اب جب کہ انھیں محمود فاروقی کے ساتھ داستان سناتے سناتے آٹھ برس ہونے کو ہیں، وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو وہ اس اعتبار سے اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ اب انھیں شروع زمانے کی طرح ہر ایک کو داستان اور اپنے بارے میں کھول کر بتانا نہیں پڑھتا۔''ان کے بقول '' داستان کا فن اتنا دب اور مرچکا تھاکہ کوئی اس کے بارے میں جانتانہیں تھا۔شروع کے برسوں میںبڑی دقت رہی، پہلے سب کو بتانا پڑتاکہ ہم کیا کررہے ہیں۔ہم کون ہیں۔داستان کی روایت کیا ہے۔ہرپرفارمنس سے قبل بیس منٹ تعارف میں لگتے۔اب سات سال بعد ممبئی اور دہلی میں داستان نہ اپنے بارے میں بتانا پڑتاہے۔ایک آڈنس بن گئی ہے۔بیس پچیس شو دیکھنے والے کئی لوگ ہوگئے ہیں، اس لیے داستان سے حظ اٹھانا ان کے لیے زیادہ سہل ہوگیا ہے۔''

آپ جس انداز میں داستان سناتے ہیں، دیکھ کر لگتا ہے جیسے اس فن سے آپ کو فطری مناسبت ہوتوکوئی ایسی خاص چیز جو داستان گوئی کے سلسلے میں خاص طور پرآپ کے لیے معاون رہی ہو؟''ہم مرثیہ گویوں کو دیکھ دیکھ کر پلے بڑھے۔استادان مرثیہ ، میر انیس اور دبیرکو جس انداز میں پڑھتے،اسے سن کر متاثر ہوتے کہ صاحب کیا کاملان فن ہیں۔ان کے انداز بیان میں بڑی لطافت اور چاشنی ہوتی، لیکن مذہبی فارم بننے سے مرثیہ کا دائرہ سکڑ گیااور یہ کوئی سیکولر چیز نہیں رہی، اب جو شیعہ ہے، اسے مرثیہ سن کر لطف مل رہا ہے لیکن جو اس سے کٹا ہے، اسے دل چسپی نہیں۔داستان میں ایسا معاملہ نہیں۔محمود کو داستان کرتے سنا تو لگاکہ یہ بالکل سیکولر چیز ہے۔مرثیہ کو آپ عوامی سطح پر سیکولر انداز میں نہیں کرسکتے۔ داستان سیکولر بھی ہے اور مرثیہ کی طرح سے جہاں مرضی کرسکتے ہیں، سڑک پر ہوسکتی ہے اور آڈیٹوریم میں بھی اور مرثیہ کی طرح سے ہائی آرٹ اور ہائی لٹریچراور ہائی پرفارمنس بھی ہے۔اس لیے بھی داستان پڑھنے میں کشش محسوس ہوئی۔''

طلسم ہوش ربا جو داستان امیر حمزہ کا ایک دفتر ہے، اس سے داستان کے سفرنوکا آغاز کیا، اب بیچ بیچ میںدوسری چیزیںبھی آپ پیش کررہے ہیں، مثلاً لاہور میں اس دفعہ آپ نے وجے دیان دی تھاکی داستان سنائی اور منٹو کا زندگی نامہ بہ انداز داستان، ''منٹویات'' کے نام سے پیش کیا۔اس سے کہیںآپ داستان کے مرکز سے کٹ تو نہیں رہے؟''ایسا نہیں ہے۔ہر چیزایک دوسرے کو فیڈ کررہی ہے۔مثلاًکسی آدمی کو منٹووالی داستان پسند آئی تو اسے طلسم ہوش ربادیکھنے کا تجسس ہوا، پھراس نے سوچاچلو فیض صاحب والی داستان سنتے ہیں۔کہنے کا مطلب ہے ہر چیز دوسرے کو فیڈ کرررہی ہے۔ہماری زبانی طلسم ہوش رباسن کر لوگوں کو پتا چلاکہ یہ کہانیاں انگریزی میں چل رہی ہیں تو وہ شہنازاعجاز الدین اور مشرف فاروقی نے جو طلسم ہوش ربا کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جو پہلے ان تراجم کو پڑھ چکے ہیں، انھیں جب پتا چلتاہے کہ یہ کہانیاں کوئی سنا بھی رہا ہے تو وہ داستان سننے آتے ہیں،اس لیے یہ تمام چیزیں مل کر داستان کو عام کررہی ہیں۔''

وہ افراد جوداستان گوئی کے بارے تنقیدی جائزہ لے سکیں ان کے نہ ہونے کو وہ بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں طلسم ہوش ربا کی ادبی قدر وقیمت سے جو آگاہ ہیں وہ پرفارمنس نہیں کرتے، جبکہ ہمارے فن کو وہی صحیح معنوں میں پرکھ سکتا ہے، جوطلسم ہوش رباکی ادبی اہمیت اورداستان گوئی کی باریکیوں کو سمجھتا ہو، اس لیے ابھی ہمارے کام کا ٹھیک ٹھیک تنقیدی جائزہ نہیں لیا جاسکا۔

لاہور میں محمود فاروقی اور دانش حسین جب بھی داستان سنائیں میلہ لوٹ لیتے ہیں۔لوگ بڑے ذوق وشوق سے داستان سننے آتے ہیں، اور ہمہ تن گوش ہوکران سے داستان سنتے ہیں۔لیکن زیادہ ترافراد ان محفلوں میں کھاتے پیتے گھرانوں کے دکھائی دیتے ہیں،جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ شاید داستان ابھی صرف طبقہ اشرافیہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔دانش حسین اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ان کا کہناہے، ہر طبقہ میں داستان گوئی یکساں طور پر مقبول ہے، اور ہندوستان میں سڑک پربھی انھوں نے داستان سنائی ہے۔ان کے خیال میں داستان گوئی کی پذیرائی ان کی توقعات سے بڑھ کر ہوئی ہے۔داستان گوئی کے قافلے میں مزید لوگ شامل ہوئے ہیں اور مستقبل میں اور بھی لوگ اس طرف آئیں گے۔اس بار محمود فاروقی اور دانش حسین کے ساتھ لاہور میں ان کے دو نوجوان ساتھیوں منو سکندر اور ندیم شاہ نے بھی داستان سنائی۔

ہندوستان کے علاوہ وہ پاکستان، امریکا، دبئی اور سری لنکا میں بھی اپنے فن کا جادو جگاچکے ہیں۔کہتے ہیں ، داستان سنانے کا زیادہ لطف تو ادھر ہی آتا ہے، جہاں زبان سمجھنے والے ہوں۔مستقبل میں ان کا ارادہ اپنی تہذیب سے متعلق بڑے لوگوں کا زندگی نامہ بصورت داستان سنانے کا ہے، ایسے نامیوں میںکبیر کانام سرفہرست ہے۔داستان سناتے سناتے گاہے کہیں بھول جانا ان کے خیال میں زیادہ بڑا مسئلہ نہیں۔ ''ایسا شاذو نادر ہوتا ہے ، اور ہم اس کو سنبھال لیتے ہیں۔'' داستان گوئی کی جو تاریخ رہی ہے،اس میں اکیلا آدمی ہی داستان سناتا، مگراس کا احیاء اس طرح سے ہوا کہ دو آدمی داستان سنارہے ہیں،اس بابت وہ بتاتے ہیں کہ یہ اختراع محمود فاروقی کے ذہن رسا کی ہے، جنھوں نے شمس الرحمان فاروقی کی تحریک پر داستان گوئی کا آغاز کیا۔




انھوں نے ایسا کیوں کیا، اس کا جواب محمود فاروقی کی زبانی ہی سنئے۔ ''موجودہ دور کے سامعین کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچا کہ دو آدمی مل جائیں تو ان کے لیے تھوڑا آسان ہوجائے گا۔اس سے ہمارا کام تھوڑا انٹرایکٹو ہوجائے گا، تھوڑا تھیٹر ہوجائے گا۔دوسرے پڑھنے والے کی سکت کا بھی خیال تھامثلاً ہماری سکت میر باقر علی کی طرح سے نہیں ہے کہ گھنٹوں بولتے رہیں اور سانس نہ ٹوٹے۔اس لیے پڑھنے والے اور سامعین دونوں کے حق میں یہ بہتر تھا کہ دو آدمی مل کر داستان سنائیں۔''

داستان گوئی پر حبیب تنویر، نصیر الدین شاہ اور شمس الرحمان فاروقی جیسے بڑے لوگوں سے ، جنھیں وہ اپنا استاد سمجھتے ہیں، داد ملناانھیں سرشار کرگیا۔سامعین کی طرف سے تعریفی کلمات بھی خوش کن لگتے لیکن وہ اسے اپنے اوپر سوار نہیں کرتے۔

دانش حسین نے داستان گوئی شروع کرنے کے بعد اپنی آواز بہتر بنانے کے سلسلے میں بہت کام کیا۔اداکارہونے سے بھی انھیں داستان سنانے میں مدد ملی۔گھر میں علمی ماحول کی وجہ سے تلفظ کے معاملے میں انھیں پریشانی نہیں رہی۔شمس الرحمان فاروقی کے سامنے داستان پڑھتے ، انھیں اب بھی پسینے آجاتے ہیں، جو اگر یہ کچھ غلط پڑھ دیں تو ان کے منہ سے فوراً ہوں ہوں کی آواز نکلتی ہے ، جس کے بعد وہ کہتے ہیں بھئی!ایسے نہیں ہے۔نصیر الدین شاہ کے ساتھ انھوں نے مل کر داستان گوئی بھی کی اور فلم ''پیپلی لائیو'' میں کام بھی کیا۔کہتے ہیں کہ نصیر صاحب کے ساتھ رہ کر ہمیشہ سیکھنے کا موقع ملتاہے۔ داستان کی باعث وہ پانچ چھے برس تھیٹر سے دور رہے مگراب وہ دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔رواں برس انھوں نے ہوش ربا ریپرٹری کے نام سے تھیٹرکمپنی قائم کی، اور دہلی میں شاہ پور جاٹ کے علاقے میں اسٹوڈیو بنایا ہے۔

اپنی تھیٹر کمپنی کے پلیٹ فارم سے سموئیل بیکٹ کا ڈراما Krapp's Last Tape' اورایرالیوس کے ڈرامے Chinese Coffeeکو اسٹیج کر چکے ہے۔ دونوں ڈراموں میں ہدایت کاری کے ساتھ اداکار کی حیثیت سے بھی انھوں نے کام کیا۔ان دنوں وہ بین الاقوامی اور ہندوستانی ڈراما نگاروں کو خوب لگ کر پڑھ رہے ہیں، تاکہ اور بھی ڈرامے اپنی تھیٹر کمپنی کے ذریعے سامنے لا سکیں۔ وہ دوفلموں ''دھوبی گھاٹ''اور ''پیپلی لائیو'' میں اداکاری بھی کرچکے ہیں۔تھیٹر اور فلم کے میڈیم میں اداکاری کا تجربہ کس طرح سے مختلف ہے، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ''تھیٹر میں آپ کو آیڈنس تک پہنچنا ہوتاہے،اورخود کوlarger than lifeبن کرپراجیکٹ کرنا ہوتا ہے، فلم میں اس کی ضرورت نہیں کیونکہ کیمرہ آپ تک پہنچ رہا ہے۔

فلم میں اداکاری ایسے ہے، جیسے میں آپ سے قریب بیٹھے بات کررہا ہوں، اسٹیج میں اداکاری اس طرح سے ہے، جیسے دور بیٹھے کسی شخص سے بات کررہا ہوں ، یعنی مجھے ان تک پہنچنا ہے، جو مجھ سے دور ہیں۔فلم میں مجھے بہت سی چیزیں نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ کیمرہ اپنے آپ نمایاں کردیتا ہے۔ہم اداکار ہیں، اس لیے تمام میڈیم پسند ہیں لیکن فلم میں صرف اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے مقبولیت ملے۔کیوں کہ اگرسو لوگ مجھے سڑک پر نہیں پہچان رہے مگر شمس الرحمان فاروقی، نصیر الدین شاہ اور امجد اسلام امجد مجھے پہچان رہے ہیں تو میرے لیے زیادہ معنے رکھنے والی بات ہے۔'' اب بیچ میں کچھ تذکرہ ان کی ذاتی زندگی کا۔ دانش حسین نے1971ء میں یوپی کے ضلع غازی پور میں آنکھ کھولی۔تعلیمی مدارج دہلی میں رہ کر طے کئے۔ان کے والد سید وسیع الحسن ماہر معاشیات تھے۔

والدہ پروفیسر بلقیس فاطمہ حسینی دہلی یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کی سربراہ ہیں۔ دانش حسین کے بقول ''شخصیت آس پاس کے لوگوں اور ماحول سے تشکیل پاتی ہے۔ایکسپوژر سے بنتی ہے۔آنکھ کھولی تو اردگرد بڑے لوگ گھوم رہے تھے، اس لیے ایسا نہیں ہوا کہ ہم کسی کے رعب میں آکر دب جائیں۔اس سے پروفیشنل زندگی میں ہمیں بہت فائدہ ہوا، ہم اپنے کام پرجیتے ہیں۔کام ہمارا پکا ہوتا ہے۔ٹھوک بجا کر ہوتا ہے۔کام میں کوئی نقص ہے تو ہمیں بتایا جائے، ہم اس پر بات کریں گے۔ ''96ء میں ان کی شادی ہوئی ،جو ارینج تھی۔ان کی ایک بیٹی ہے، جو ہائی اسکول میں پڑھتی ہے۔

ضیاء محی الدین کا نام وہ بڑے ادب اور احترام سے لیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جس زمانے میں اردو پڑھنے کے معاملے میںہاتھ تنگ تھا، اس زمانے میں ضیاء محی الدین کی بدولت کئی اردو ادیبوں کی نگارشات سے واقفیت حاصل ہوئی۔ ان کے پڑھنے کا اندازہمیشہ متاثر کن لگا ۔لاہور میں وہ خاص طور سے ضیاء محی الدین کی حال ہی میں چھپنے والی یادداشتوں'A Carrot is a Carrot' کی تلاش میں رہے۔دوسرے وہ افضال احمد سید کی ''مٹی کی کان''ڈھونڈتے رہے۔وہ داستان سنانے پہلی بار پاکستان آئے تو ان کے سامعین میں ممتاز سیاست دان اعتزاز احسن بھی شامل تھے۔کچھ عرصہ قبل ہندوستان میں انھیں دیکھ کر اعتراز احسن نے پہچان لیا ، جو ان کے لیے حیرت کا موجب بنا۔

کرکٹ سے انھیں کسی زمانے میں خاصا لگائو رہامگر اب مصروفیات کی وجہ سے وہ میچ دیکھنے کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال پاتے۔پاکستانی کھلاڑیوں میں ظہیر عباس ان کے فیورٹ رہے ، بھارتی بلے بازوں میں لکشمن انھیں پسند ہیں۔ دانش حسین کے رشتے دار لاہور اور کراچی دونوں جگہ قیام پذیر ہیں۔وہ دونوں شہروں میں داستان سناچکے ہیں۔لاہور میں یہ ان کاچوتھا پھیراتھا۔ادھر آنااور پرفارم کرنا انھیں اچھا لگتا ہے۔ وہ عدم برداشت اور تعصب کو انسانی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔

تعریف جو ہے وہ لمحات کی چیز ہے۔اس لہجہ کا لطف اٹھایا اور نکل لیے۔اس کو آپ باندھ کر نہ رکھیں۔ یہ چیز ایک خاص وقت کے لیے ہے۔اب اگرمیں اگلی بار خراب کردوں گا تو پھر کیا سابقہ تعریف مجھے بچالے گی؟تعریف وقتی بات ہے، اس کو سینے سے لگا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ مشہور ہونا سب کو اچھا لگتاہے۔یہ بات انسانی فطرت میں ہے مگر فطرت الگ چیز ہے، فطرت کو عادت بنالینا غلط ہے۔تعریف پر اور داد پر خوشی ہوتی ہے لیکن داد کو نشہ بنالیں تو کام بگڑ جاتا ہے کیونکہ جو داد ملتی ہے وہ خاص پرفارمنس کے لیے ہوتی ہے اس لیے اس کو ساتھ نہیں رکھاجاسکتا۔تنقید بھی کان دھر کر سننا چاہیے، کیونکہ ہر انسان اپنے بارے میں ایک رائے اور نظریہ قائم کرلیتا ہے۔ دوسروں کی آراء سے کام کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ پی آر کے ذریعے زندہ نہیں رہا جاسکتا۔ کام ہی آپ کو زندہ رکھتا ہے۔محمد حسین جاہ مرگئے تھے سو سال بعد پھر زندہ ہوگئے۔خسرو اور بلھے شاہ آج کے زمانے میں بھی زندہ ہے۔ کتنے لوگ تھے، جن کا میڈیا میں ایک خاص زمانے میں تذکرہ رہا آج کوئی انھیں جانتا نہیں۔ہمیشگی اور بقا کا معاملہ آدمی کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔

حبیب تنویر سے بھلا کیا سیکھا

حبیب تنویر صاحب سے میرا تعارف اس طرح ہوا کہ میں جس بینک میں منیجرتھا، اس میں ان کا کھاتہ تھا۔وہ بڑی شرافت سے آتے اور چھڑی لے کر کھڑے ہوجاتے، میں انھیں دیکھتے ہی فوراً بھاگ کر جاتا اور اپنے کیبن میں لے آتا۔خیریت دریافت کرتا اور چائے وغیرہ پلاتا۔بینک میں کسی کی ڈیوٹی لگاتا کہ حبیب صاحب جو چاہتے ہیں، بغیر تردد کے سب ہوجائے۔وہ مجھ سے بڑے خوش تھے۔2004ء میں کسی نے میرا تعارف ان سے یہ کہہ کر کرایا کہ یہ لڑکا نیا نیا تھیٹر میں آیا ہے، جب ان سے بات چیت کا سلسلہ تھوڑا چل نکلا تو میں نے انھیں یاد دلایاکہ میں وہی لڑکا ہوں،جس کی بینک میں ان سے ملاقات رہتی تھی۔انھوں نے مجھے پہچان لیا اور بڑی محبت اور اپنائیت سے ملے۔

ان کے معروف ڈرامے''آگرہ بازار'' میں کئی رول کئے۔حبیب صاحب مجھے ''آگرہ بازار''کی اسٹپنی کہتے تھے، کوئی اداکاربوجوہ نہ آسکتاتو اس کا کردار میں کرتا۔ان کی زندگی میں''آگرہ بازار''کا آخری پتنگ والا میں تھا۔میں نے تھیٹرکی باقاعدہ تربیت نہیں لی بلکہ کام کرکے سیکھا ہے۔بیری جون میرے استاد ہیں، ان سے بہت سیکھا ۔اور بھی لوگوں سے سیکھا۔حبیب تنویرصاحب سے تھیٹر کے بارے میں بہت جانا۔حبیب صاحب بڑے زیرک اور حسب حال کام کرتے تھے۔وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ڈراما شروع ہونے سے اگر آدھ گھنٹہ قبل بھی انھیں پتا چلا کہ فلاں اداکار نہیں آسکا، فلاں نے بغاوت کردی، فلاں سامان نہیں پہنچا، تو وہ گھبراتے نہیں تھے،کوئی بات انھیں ڈرا نہیں سکتی تھی کہ صاحب آج ناٹک نہیں ہوپائے گا۔ہرچیز کا توڑ ان کے پاس تھا۔کچھ ہوجائے ناٹک رکتا نہیں تھا اور وقت پرہوتا۔

یہ بات میں نے ان سے سیکھی اور جب خود ڈائریکٹر بنایا داستان گوئی شروع کی تو اس کو اپنے کام کے سلسلے میں لاگو کیا۔حبیب صاحب سے اداکاری کے بارے میں بہت سیکھا۔مکالمے کی ادائیگی کیسے ہوتی ہے۔اسکرپٹ کی باریکیاں کیا ہوتی ہیں،یہ بھی انھی سے پتا چلیں۔وہ اسکرپٹ کا جو کلچرل کانٹکسٹ ہوتا، وہ ایسے بتاتے کہ ذہن میں ہمیشہ کے لیے بیٹھ جاتا۔یعنی اسکرپٹ کا جو فوری معنی ہے،نہ صرف وہ آپ سمجھ رہے ہیں بلکہ اس کاآگا پیچھا بھی جان رہے ہیں۔ اسکرپٹ پراداکار کو اتھارٹی ہونا چاہیے۔ اسکرپٹ خون میں رواں ہونا چاہیے ، پھر وہ اداکاری میں رچ کر نکلتاہے۔ایسے میں اگر آپ ذرا سے گردن بھی موڑیں گے تو وہ ادا بن جائے گی۔سطحی اداکار اور منجھے اداکارکا فرق بھی یہیں سے واضح ہوتا ہے۔آواز کا اتار چڑھائواپنی جگہ مگر یہ سب چیزیں Cosmaticنظرآتی ہیں، اسکرپٹ کو سمجھے بغیر، اسے اپنے اندر اتارے بغیرکام کرنے سے کھوکھلا پن کہیں نہ کہیں ظاہر ہوجاتا ہے۔

منٹو کی بے باکی نے بہت متاثر کیا

منٹو سے ان کا پہلا تعارف 1999ء میں ہوا، جب انھوں نے ڈراما ''منٹو'' میں کام کیا، اس وقت انھوں نے منٹو کو انگریزی میں پڑھا۔ 2012ء میں منٹو سال کی مناسبت سے محمود فاروقی اور انھوں نے منٹوکی داستان دہلی میں بھی سنائی اور پاکستان میں بھی دو مختلف مقامات پر منٹویات کے عنوان سے اس ممتاز افسانہ نگار کی زندگی کا افسانہ سنایا۔لاہور میں وہ خاص طور پرمنٹو کا گھر دیکھنے لکشمی مینشن گئے، جہاںمنٹوکی بیٹیوں سے ان کی ملاقات رہی۔

منٹو کا گھر دیکھناان کے لیے بڑا زبردست تجربہ رہا۔بعد ازاں انھوں نے منٹو کی قبر پر حاضری دی۔ منٹوکے بارے میں بہ انداز داستان محمود فاروقی اور دانش حسین نے ایسے پڑھا، کہ جیتا جاگتا منٹو سامنے آگیا۔ منٹوکے خاندان کے سبھی افراد نے ان کی پرفارمنس کو شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا۔منٹو کی شخصیت کے جس پہلو نے دانش حسین کو سب سے بڑھ کر متاثر کیا، وہ ان کا بے باک پن ہے۔ان کے خیال میں ''وہ جیسے تھے، ویسا ہی دکھنا چاہتے تھے، شخصیت میں کھلا ڈلا پن اور تصنع نام کو نہیں تھا۔یعنی ظاہر اور باطن میں تضاد نہیں تھا۔کہانی کاربہت بڑے تھے، اس لیے لوگ انھیں کبھی بھولے نہیںاور ان سے محبت کرتے ہیں۔''
Load Next Story