بھارت کا ایک سفر

میں ان دنوں پھر لاہور میں ہوں اپنے گاؤں سے میلوں دور اس شہر میں ایک مصنوعی زندگی بسر کر رہا ہوں


Abdul Qadir Hassan December 06, 2016
[email protected]

میں ان دنوں پھر لاہور میں ہوں اپنے گاؤں سے میلوں دور اس شہر میں ایک مصنوعی زندگی بسر کر رہا ہوں ضرورت کی ہر چیز کے لیے ایک بازار ہے جہاں میں اپنی مہینے بھر کی کمائی لٹا دیتا ہوں جب کہ میرے گاؤں میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں ہوتا۔ گاؤں میں چند دکان دار ہیں جن سے ضرورت کی ہر چیز مل سکتی ہے۔ میرے بچپن میں یہ سب دکاندار ہندو تھے اور میں نے سادگی میں ایک بار بھارت کے دورے میں یہ لکھ دیا کہ میرے گاؤں کے دکاندار ہندو تھے اور میں آج یہاں ہندوستان میں شاپنگ کرنے نہیں آیا ہوں جو میں نے بچپن میں گاؤں کے ہندو دکانداروں سے جی بھر کر کر لی ہے۔

اس لیے میں یہاں آج کا ہندوستان دیکھنے آیا ہوں۔ میں سادگی میں یہ لکھ گیا کہ میں نے گاؤں کے ہندو دکانداروں سے جی بھر کر شاپنگ کر لی ہے اور اب مجھے خریدوفروخت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں اس کالم کے حیران کن ردعمل کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ ہندوستان کے تمام اخباروں نے میرے اس کالم پر برا منایا شاید اس لیے کہ میں نے یہ لکھ دیا تھا کہ میں بچپن میں اپنے گاؤں کے ہندو دکانداروں سے جی بھر کر شاپنگ کر چکا ہوں ہندوستان کے تمام اخباروں کا یہ متفقہ ردعمل دیکھ کر میں حیران بلکہ ہکا بکا رہ گیا کہ یہ محض ایک اخباری کالم نویس کی معمول کی بات تھی اس پر کسی ردعمل کی کوئی ضرورت نہ تھی اور وہ بھی اس حد تک کہ لمبے چوڑے بھارت کا کوئی اخبار اس ردعمل سے خالی نہیں تھا۔

جب میں دوسرے دن بھارت کے اعلیٰ میڈیا افسر سے ان کے دفتر میں ملا تو وہ چونکہ ایک اخبار نویس تھے اس لیے وہ قدرے شرمندہ بھی تھے اور راجندر سیرین جیسے بھارتی صحافیوں نے تعجب کا اظہار کیا حالانکہ راجندر بھارت کے میڈیا کے ایک سرگرم فرد تھے۔ میں جنرل ضیاء کے وفد میں شامل تھا اس لیے راجندر سیرین جو جنرل صاحب کے نیاز مند مشہور تھے بھارت کے میڈیا کے اس غیرضروری ردعمل پر حیران اور پریشان تھے۔

بہرکیف میں اس وقت بھارتی صحافت کی اس تنگ نظری کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اس نے میرے جیسے ایک عام سے کالم نگار کے ایک کالم پر دکھائی تھی اور سب کو حیران کر گئی یہانتک کہ بھارتی افسر بھی قدرے شرمندہ دکھائی دیے بلکہ انھوں نے آپس میں اس ردعمل پر افسوس کا اظہار بھی کیا، میری تسلی کے لیے مجھے پیش کش کی گئی کہ میں اب جب بھارت میں ہوں تو اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر اگر چاہوں تو سرکاری خرچ پر پورے بھارت کا یعنی ہر پسندیدہ جگہ کی سیر کر سکتا ہوں۔ اس دوران ہر طرح کی خاطر تواضع کی جائے گی۔

میں نے بھارتی افسر کا شکریہ ادا کیا اور اجازت چاہی۔ اس دوران راجندر سیرین نے ذاتی طور پر مجھ سے معذرت کی اور بھارتی غیرمعمولی ردعمل پر افسوس کا اظہار کیا۔ جب صدر صاحب کو جنرل مجیب الرحمن نے اس ردعمل کا ذکر کیا تو صدر صاحب بہت خوش ہوئے لیکن خاموش رہے کہ وہ اس بچپنے میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اس ردعمل کاایک فائدہ یہ ہوا کہ میں بھارت میں بہت مشہور ہو گیا اور مجھے ہر طرف سے دعوتیں موصول ہونے لگیں یہانتک بھارت کے مختلف شہروں سے مجھے دعوتیں ملیں کہ جب میں ان کا شہر دیکھنے آؤں تو ان کی میزبانی بھی قبول کروں۔

میں نے یہ ردعمل جمع کیا تھا لیکن افسوس کہ جس بریف کیس میں یہ سب رکھا گیا تھا وہ کہیں چوری ہو گیا جس کا مجھے افسوس رہا لیکن اصل بات بھارتی صحافت کی یہ تنگ نظری ہے جس پر مجھے اتنا تعجب ہوا کہ میں نے اس دن کے بے شمار اخبارات جمع کر کے اس ردعمل کا مطالعہ کیا۔

صدر صاحب تو ظاہر ہے کہ خاموش رہے لیکن ان کا عملہ مجھ پر بہت خوش تھا کہ میں نے وہ کام کرایا جو وہ نہیں کر سکتے تھے۔ بھارتی ردعمل خود بھارت کے کئی صحافیوں کے لیے بھی افسوس اور تعجب کا باعث تھا بلکہ بعض نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا شاید بھارتی حکومت کے محکمہ اطلاعات نے اس بارے میں ہدایات جاری کی تھیں ورنہ بیک زبان ایسا ردعمل ظاہر کرنا بہت مشکل تھا مگر یہ سوال اپنی جگہ پر کہ بھارت کا میڈیا اس قدر تنگ نظر ہے کہ وہ اپنے مخالف ملک کے ایک اخبار نویس کے عام سے کالم پر اس قدر برہم ہوا۔ ہم پاکستانیوں کو بھارت کی طرف سے اس قدر مخالفت یا دشمنی کی توقع نہیں تھی لیکن ہم کھلے دل کے پاکستانی ایسی چھوٹی بات سوچ نہیں سکتے۔ اس کالم پر بھارت کے کئی صحافیوں نے اپنے میڈیا کے ردعمل پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی مگر اس وقت لگتا تھا کہ بھارت کا میڈیا سرکاری حکم کا پابند ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔