قدیم تاریخی شہر ملتان
انسانی وجود جسم اور روح کا مجموعہ ہے
انسانی وجود جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ خالق کائنات نے انسان کے مادی جسم کی مدت حیات مختصر اور انسانی روح کو طویل عمری عطا فرمائی ہے۔ مادی وجود کی نشوونما، بقا اور راحت کے لیے قدرت نے مادی تقاضے وضع کیے، روحانی وجود کے لیے روحانی تقاضے ہیں۔ روح کے تقاضے کہیں انفرادی حیثیت رکھتے ہیں اورکہیں کہیں یہ مادی تقاضوں سے کچھ ملاپ بھی رکھتے ہیں۔دیگر انواع سے انسان کی ایک انفرادیت اس کے جمالیاتی تقاضے بھی ہیں۔ جمالیات کا وجود مادی اور روحانی تقاضوں کے درمیان ہے۔
جمالیاتی تقاضوں کو سمجھنے اور ان کی تکمیل کے لیے انسان کو جمالیاتی حس عطا کی گئی ہے۔ رنگ وبو، فنون لطیفہ، ادب، شاعری، موسیقی، نغمہ، مصوری، فن تعمیر،آرٹ وکلچر کے دیگرشعبے انسان کی جمالیاتی حس کے اظہار اور جمالیاتی ذوق کی تسکین کا ذریعہ ہیں۔ انسانی جذبات اورمحسوسات کے اظہار کے نمایاں ذرایع ادب وشاعری، موسیقی اور مصوری ہیں۔ان ذرایع نے ہر دورکے انسان کو نا صرف اطمینان وسکون عطا کیا ہے بلکہ صدیوں پرانی روایات اورتاریخ سے بھی جوڑے رکھا ہے۔ ثقافتی وسماجی کئی اعلیٰ روایات کا تسلسل بھی انھی ذرایع کا مرہون منت ہے۔
سرزمین پاکستان ایک نہیں کئی قدم ترین انسانی تہذیبوں کی وارث ہے۔ بلوچستان میں مہرگڑھ آٹھ ہزار سال، سندھ میں لاڑکانہ کے قریب موہنجوداڑو اورخیر پور کے نزدیک کوٹ ڈیجی، پنجاب میں ساہیوال کے نزدیک ہڑپہ کے آثار تقریباً پانچ ہزار سال پرانے واقعات کے راوی ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جین مت، ہندو مت اور بدھ مت کے کئی آثار موجود ہیں۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کی جنم بھومی بھی پاکستان میں ہے۔
کئی قدیم تہذیبوں کا وارث ہونا اہل پاکستان کے لیے باعث فخر ہے تاہم یہ تہذیبیں اب صرف قدیم آثار یا تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ پاکستان میں ایک انفرادیت صرف ملتان شہرکی ہے۔ ملتان پانچ ہزار سال پہلے سے قائم اور آباد ہے۔ بعض اقوال کے مطابق ملتان شہر موہنجوداڑو سے بھی قدیم ہے۔ یہ تاریخی شہر اپنی کئی اعلیٰ روایات کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اللہ میرے وطن کے سب شہروں، سب بستیوں کو آباد رکھے۔ قدیم اورکئی لحاظ سے تاریخی شہر ملتان کو اللہ کے کئی دوستوں نے بھی اس کثرت سے اپنا مسکن بنایا کہ اس شہرکا نام ہی مدینتہ الاولیاء پڑگیا۔ ملتان فن و ثقافت، تعمیرات کے حوالے سے بھی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ صوفیانہ رنگ میں ڈھلے اہل ملتان کا ایک تعارف یہ ہے کہ یہ خوش اخلاق ، شیریں زبان اور مہمان نواز ہیں۔
ملتان کے ایک ملنسار، متحرک اور فعال فرزند، اسلام آباد میں پیراگوئے کے اعزازی کونسل جنرل کنور طارق نے گزشتہ ہفتے ملتان میں ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا۔اس ثقافتی پروگرام کا اہتمام پاکستان میں ارجنٹائن کے سفارت خانے اور پیراگوئے کے قونصلیٹ جنرل نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد پروگرام کے مہمانان اعزازی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، پاکستان کے لائق صد احترام قومی ہیرو جہانگیر خان، پاکستان میں ارجنٹائن کے سابق سفیر روڈولفو جے مارٹن مہمانان اعزازی تھے۔
ارجنٹائن کے سفیر ایوان ایوانسوچ، پرتگال کے سفیر جوآو پالو کوسٹا ، مصرکے سفیر شریف محمد کمال الدین شاہین ، سری لنکا کے ہائی کمشنر میجر جنرل (ر) جے ناتھ ، یواین مشن کے ڈپٹی چیف ساچے، ڈین آف کونسلرز کوراسلام آباد میاں حبیب اللہ، تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر اسلام آباد سے ملتان آئے تھے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچرکی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغرا صدف، لاہورآرٹس کونسل الحمرا کے کیپٹن عطا محمد خان، سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر کی اہلیہ اور صاحبزادے بھی مہمانوں میں شامل تھے۔
یہاں ایک خاص اور منفرد بات میں نے یہ دیکھی کہ تقریب کے منتظم اعلیٰ کنور ایم طارق نے کسی ایک فرد کو مہمان خصوصی بنانے کے بجائے ملتان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نابینا اور دیگر کئی معذور بچوں یعنی اسپیشل چلڈرن کو تقریب کے مہمانان خصوصی کا درجہ دیا۔ ان اسپیشل چلڈرن کو نام بنام اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ مہمانان اعزازی نے اسٹیج پر آکر ان معذور بچوںکے ساتھ ملاقات کی اورگروپ تصاویر بنوائیں۔ اسپیشل چلڈرن کی عزت افزائی کے اس عمل کی ہمارے ملک کے دیگر اداروں کو بھی پیروی کرنی چاہیے۔
اس ثقافتی پروگرام میں پاکستان اور ارجنٹائن کے فنکاروں نے پرفارم کیا۔ پاکستانی فنکاروں نے جن میں مشہور فنکار عارف لوہار بھی شامل تھے پاکستان کے چاروں صوبوں کی موسیقی اور صوفیانہ کلام کے ذریعے سامعین سے خوب خوب داد سمیٹی۔ 1980ء کی دہائی میں پاکستان کی بہت مقبول فنکارہ شہناز شیخ اور پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی اناؤنسرکنول نصیرنے بھی پاکستانی ثقافت کی نمایندگی کی۔ آبادی کے لحاظ سے ملتان کوئی چھوٹا شہر تو نہیں لیکن اس قدیم تاریخی شہر میں کراچی، لاہور یا اسلام آباد کی طرح کئی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
ملتان میں غیر ملکی سفراء کو مہمان بنا کر ایک بڑا ثقافتی پروگرام احسن انداز میں منعقد کرنا یقیناً ایک بڑا چیلنج تھا۔ ملتان آئے ہوئے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کے لیے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ اور حضرت شاہ رکن عالم ؒ کی درگاہوں کی زیارت ، بعد ازاں ملتان کے ثقافتی رنگوں کے اظہار کا اہتمام بھی کیا گیا۔ بہت اچھے انتظامات کے لیے کنور ایم طارق اور ان کے ساتھی خصوصاً ڈاکٹر راشد متین، سلمان عامر بھٹہ، ڈاکٹر لیاقت علی، اشرف حنیف اور دیگر مبارکباد کے حق دار ہیں۔ ملتان سے پی ٹی آئی کے ایم این اے ملک عامر ڈوگر نے مندوبین کے لیے ایک پُر تکلف عشائیہ کے ذریعے میزبانی کا حق ادا کیا۔
اس پروگرام میں شرکت کے لیے میں اپنے ایک عزیز دوست حیدرآباد کے محمد شعیب سومرو کے ہمراہ کراچی سے ملتان گیا تھا۔ دوران سفراور ملتان میں قیام کے دوران اپنے قومی ہیرو جہانگیر خان کا ساتھ رہا۔ جہانگیر خان کی شہرت نا صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں ہے۔ وہ اسکواش کی دنیا میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ نومبر 2016ء میں انھیں ورلڈ اسکواش فیڈریشن کا اعزازی صدر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس قدر کامیابیوں، اتنی شہرت اور مقبولیت کے باوجود بھی جہانگیر خان عجزوانکسار کا پیکر ہیں۔ جہانگیر خان کی شخصیت کے یہ اوصاف مصنوعی یا بناوٹی نہیں بلکہ ان کی طبیعت کا حصہ ہیں اور یقیناً ان کے والدین کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ ہیں۔
ملتان میں ہونے والا منفرد ثقافتی پروگرام پاکستان اور ارجنٹائن کے سفارتی تعلقات میں استحکام اور ان ممالک کے عوام کے ایک دوسرے کے فنون و ثقافتوں سے آگاہی کا ذریعہ بنے گا۔ پاکستان کے کھلاڑیوں، فن کاروں مختلف ہنر مندوں نے دنیا بھر میں پاکستان کو بہت اعلیٰ انداز میں متعارف کروایا ہے۔ کرکٹ، ہاکی، اسکواش، اسنوکر اور دیگر کھیلوں کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کرنے والوں کے ساتھ ساتھ غلام فرید صابری، نصرت فتح علی خان،عابدہ پروین، امجد صابری، راحت فتح علی خان، ان سے قبل روشن آرا بیگم، مہدی حسن، نور جہاں، فریدہ خانم، شعراء میں فیض احمد فیض، جمیل الدین عالی، احمد فراز، پروین شاکر، امجد اسلام امجد، ادیبوں میں انتظارحسین، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشاء ، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، اشفاق احمد سمیت کئی اسماء گرامی بیرون ملک پاکستان کے محبت بھرے اور محترم تعارف کا ذریعہ بنے ہیں۔
پاکستانی ثقافت کے کئی رنگ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ پاکستانی آرٹ اور کلچر بہت حسین اور پرکشش ہے۔ ادب، شاعری، شعرونغمہ کے علاوہ حسین ڈیزائن اور پرکشش رنگوں والے ملبوسات، انتہائی اعلیٰ معیار کے فن کوزہ گری کی وجہ سے بننے والے خوبصورت ظروف، تعمیرات میں استعمال ہونے والے دلکش ٹائلز، مختلف رنگوں کا مسحور کن استعمال کرتے ہوئے مینا کاری، خطاطی اور ایک انتہائی نایاب ومشکل فن کاشی گری بھی پاکستان کی پہچان ہیں۔ملتان میں نسلوں سے آباد کاشی گر گھرانے کے استاد اللہ وسایا اور ان کے شاگرد استاد محمد عالم کے فن کی ایک دنیا میں دھوم ہے۔
آرٹ اورکلچر ملتان کا ایک بڑا حوالہ ہے۔ ملتان اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے ہنر مندوں کی مسحور کن اور پرکشش تخلیقات کی بہتر انداز میں مارکیٹنگ کرکے ناصرف کئی قدیم فنون کی بقا اور ان سے وابستہ ہنر مندوں اور فن کاروں کی خوش حالی کا اہتمام کیا جاسکتا ہے بلکہ ان تخلیقات کو بیرون ملک متعارف کراکے پاکستان کے لیے قیمتی زر مبادلہ بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ ۔ ملتان کا نیا ائیرپورٹ دیدہ زیب، کشادہ، سہولتوںسے مزین اورجنوبی پنجاب کی ثقافت کا عکاس ہے، ملتان اورگردو نواح کے عوام کو مبارک باد۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی، میاں نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کا شکریہ۔
جمالیاتی تقاضوں کو سمجھنے اور ان کی تکمیل کے لیے انسان کو جمالیاتی حس عطا کی گئی ہے۔ رنگ وبو، فنون لطیفہ، ادب، شاعری، موسیقی، نغمہ، مصوری، فن تعمیر،آرٹ وکلچر کے دیگرشعبے انسان کی جمالیاتی حس کے اظہار اور جمالیاتی ذوق کی تسکین کا ذریعہ ہیں۔ انسانی جذبات اورمحسوسات کے اظہار کے نمایاں ذرایع ادب وشاعری، موسیقی اور مصوری ہیں۔ان ذرایع نے ہر دورکے انسان کو نا صرف اطمینان وسکون عطا کیا ہے بلکہ صدیوں پرانی روایات اورتاریخ سے بھی جوڑے رکھا ہے۔ ثقافتی وسماجی کئی اعلیٰ روایات کا تسلسل بھی انھی ذرایع کا مرہون منت ہے۔
سرزمین پاکستان ایک نہیں کئی قدم ترین انسانی تہذیبوں کی وارث ہے۔ بلوچستان میں مہرگڑھ آٹھ ہزار سال، سندھ میں لاڑکانہ کے قریب موہنجوداڑو اورخیر پور کے نزدیک کوٹ ڈیجی، پنجاب میں ساہیوال کے نزدیک ہڑپہ کے آثار تقریباً پانچ ہزار سال پرانے واقعات کے راوی ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جین مت، ہندو مت اور بدھ مت کے کئی آثار موجود ہیں۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کی جنم بھومی بھی پاکستان میں ہے۔
کئی قدیم تہذیبوں کا وارث ہونا اہل پاکستان کے لیے باعث فخر ہے تاہم یہ تہذیبیں اب صرف قدیم آثار یا تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ پاکستان میں ایک انفرادیت صرف ملتان شہرکی ہے۔ ملتان پانچ ہزار سال پہلے سے قائم اور آباد ہے۔ بعض اقوال کے مطابق ملتان شہر موہنجوداڑو سے بھی قدیم ہے۔ یہ تاریخی شہر اپنی کئی اعلیٰ روایات کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اللہ میرے وطن کے سب شہروں، سب بستیوں کو آباد رکھے۔ قدیم اورکئی لحاظ سے تاریخی شہر ملتان کو اللہ کے کئی دوستوں نے بھی اس کثرت سے اپنا مسکن بنایا کہ اس شہرکا نام ہی مدینتہ الاولیاء پڑگیا۔ ملتان فن و ثقافت، تعمیرات کے حوالے سے بھی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ صوفیانہ رنگ میں ڈھلے اہل ملتان کا ایک تعارف یہ ہے کہ یہ خوش اخلاق ، شیریں زبان اور مہمان نواز ہیں۔
ملتان کے ایک ملنسار، متحرک اور فعال فرزند، اسلام آباد میں پیراگوئے کے اعزازی کونسل جنرل کنور طارق نے گزشتہ ہفتے ملتان میں ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا۔اس ثقافتی پروگرام کا اہتمام پاکستان میں ارجنٹائن کے سفارت خانے اور پیراگوئے کے قونصلیٹ جنرل نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد پروگرام کے مہمانان اعزازی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، پاکستان کے لائق صد احترام قومی ہیرو جہانگیر خان، پاکستان میں ارجنٹائن کے سابق سفیر روڈولفو جے مارٹن مہمانان اعزازی تھے۔
ارجنٹائن کے سفیر ایوان ایوانسوچ، پرتگال کے سفیر جوآو پالو کوسٹا ، مصرکے سفیر شریف محمد کمال الدین شاہین ، سری لنکا کے ہائی کمشنر میجر جنرل (ر) جے ناتھ ، یواین مشن کے ڈپٹی چیف ساچے، ڈین آف کونسلرز کوراسلام آباد میاں حبیب اللہ، تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر اسلام آباد سے ملتان آئے تھے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچرکی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغرا صدف، لاہورآرٹس کونسل الحمرا کے کیپٹن عطا محمد خان، سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر کی اہلیہ اور صاحبزادے بھی مہمانوں میں شامل تھے۔
یہاں ایک خاص اور منفرد بات میں نے یہ دیکھی کہ تقریب کے منتظم اعلیٰ کنور ایم طارق نے کسی ایک فرد کو مہمان خصوصی بنانے کے بجائے ملتان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نابینا اور دیگر کئی معذور بچوں یعنی اسپیشل چلڈرن کو تقریب کے مہمانان خصوصی کا درجہ دیا۔ ان اسپیشل چلڈرن کو نام بنام اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ مہمانان اعزازی نے اسٹیج پر آکر ان معذور بچوںکے ساتھ ملاقات کی اورگروپ تصاویر بنوائیں۔ اسپیشل چلڈرن کی عزت افزائی کے اس عمل کی ہمارے ملک کے دیگر اداروں کو بھی پیروی کرنی چاہیے۔
اس ثقافتی پروگرام میں پاکستان اور ارجنٹائن کے فنکاروں نے پرفارم کیا۔ پاکستانی فنکاروں نے جن میں مشہور فنکار عارف لوہار بھی شامل تھے پاکستان کے چاروں صوبوں کی موسیقی اور صوفیانہ کلام کے ذریعے سامعین سے خوب خوب داد سمیٹی۔ 1980ء کی دہائی میں پاکستان کی بہت مقبول فنکارہ شہناز شیخ اور پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی اناؤنسرکنول نصیرنے بھی پاکستانی ثقافت کی نمایندگی کی۔ آبادی کے لحاظ سے ملتان کوئی چھوٹا شہر تو نہیں لیکن اس قدیم تاریخی شہر میں کراچی، لاہور یا اسلام آباد کی طرح کئی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
ملتان میں غیر ملکی سفراء کو مہمان بنا کر ایک بڑا ثقافتی پروگرام احسن انداز میں منعقد کرنا یقیناً ایک بڑا چیلنج تھا۔ ملتان آئے ہوئے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کے لیے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ اور حضرت شاہ رکن عالم ؒ کی درگاہوں کی زیارت ، بعد ازاں ملتان کے ثقافتی رنگوں کے اظہار کا اہتمام بھی کیا گیا۔ بہت اچھے انتظامات کے لیے کنور ایم طارق اور ان کے ساتھی خصوصاً ڈاکٹر راشد متین، سلمان عامر بھٹہ، ڈاکٹر لیاقت علی، اشرف حنیف اور دیگر مبارکباد کے حق دار ہیں۔ ملتان سے پی ٹی آئی کے ایم این اے ملک عامر ڈوگر نے مندوبین کے لیے ایک پُر تکلف عشائیہ کے ذریعے میزبانی کا حق ادا کیا۔
اس پروگرام میں شرکت کے لیے میں اپنے ایک عزیز دوست حیدرآباد کے محمد شعیب سومرو کے ہمراہ کراچی سے ملتان گیا تھا۔ دوران سفراور ملتان میں قیام کے دوران اپنے قومی ہیرو جہانگیر خان کا ساتھ رہا۔ جہانگیر خان کی شہرت نا صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں ہے۔ وہ اسکواش کی دنیا میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ نومبر 2016ء میں انھیں ورلڈ اسکواش فیڈریشن کا اعزازی صدر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس قدر کامیابیوں، اتنی شہرت اور مقبولیت کے باوجود بھی جہانگیر خان عجزوانکسار کا پیکر ہیں۔ جہانگیر خان کی شخصیت کے یہ اوصاف مصنوعی یا بناوٹی نہیں بلکہ ان کی طبیعت کا حصہ ہیں اور یقیناً ان کے والدین کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ ہیں۔
ملتان میں ہونے والا منفرد ثقافتی پروگرام پاکستان اور ارجنٹائن کے سفارتی تعلقات میں استحکام اور ان ممالک کے عوام کے ایک دوسرے کے فنون و ثقافتوں سے آگاہی کا ذریعہ بنے گا۔ پاکستان کے کھلاڑیوں، فن کاروں مختلف ہنر مندوں نے دنیا بھر میں پاکستان کو بہت اعلیٰ انداز میں متعارف کروایا ہے۔ کرکٹ، ہاکی، اسکواش، اسنوکر اور دیگر کھیلوں کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کرنے والوں کے ساتھ ساتھ غلام فرید صابری، نصرت فتح علی خان،عابدہ پروین، امجد صابری، راحت فتح علی خان، ان سے قبل روشن آرا بیگم، مہدی حسن، نور جہاں، فریدہ خانم، شعراء میں فیض احمد فیض، جمیل الدین عالی، احمد فراز، پروین شاکر، امجد اسلام امجد، ادیبوں میں انتظارحسین، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشاء ، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، اشفاق احمد سمیت کئی اسماء گرامی بیرون ملک پاکستان کے محبت بھرے اور محترم تعارف کا ذریعہ بنے ہیں۔
پاکستانی ثقافت کے کئی رنگ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ پاکستانی آرٹ اور کلچر بہت حسین اور پرکشش ہے۔ ادب، شاعری، شعرونغمہ کے علاوہ حسین ڈیزائن اور پرکشش رنگوں والے ملبوسات، انتہائی اعلیٰ معیار کے فن کوزہ گری کی وجہ سے بننے والے خوبصورت ظروف، تعمیرات میں استعمال ہونے والے دلکش ٹائلز، مختلف رنگوں کا مسحور کن استعمال کرتے ہوئے مینا کاری، خطاطی اور ایک انتہائی نایاب ومشکل فن کاشی گری بھی پاکستان کی پہچان ہیں۔ملتان میں نسلوں سے آباد کاشی گر گھرانے کے استاد اللہ وسایا اور ان کے شاگرد استاد محمد عالم کے فن کی ایک دنیا میں دھوم ہے۔
آرٹ اورکلچر ملتان کا ایک بڑا حوالہ ہے۔ ملتان اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے ہنر مندوں کی مسحور کن اور پرکشش تخلیقات کی بہتر انداز میں مارکیٹنگ کرکے ناصرف کئی قدیم فنون کی بقا اور ان سے وابستہ ہنر مندوں اور فن کاروں کی خوش حالی کا اہتمام کیا جاسکتا ہے بلکہ ان تخلیقات کو بیرون ملک متعارف کراکے پاکستان کے لیے قیمتی زر مبادلہ بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ ۔ ملتان کا نیا ائیرپورٹ دیدہ زیب، کشادہ، سہولتوںسے مزین اورجنوبی پنجاب کی ثقافت کا عکاس ہے، ملتان اورگردو نواح کے عوام کو مبارک باد۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی، میاں نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کا شکریہ۔