عوام پر جمہوری بوجھ
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اپنے پیش کردہ پچھلے بجٹوں میں عوام کے ساتھ توکوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اپنے پیش کردہ پچھلے بجٹوں میں عوام کے ساتھ توکوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا، بلکہ سال رواں کے بجٹ کے موقعے پر انھوں نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ہے۔ اپنے وعدے کو پورا کرنے پر جب ایوان میں ڈپٹی اسپیکر کے کہنے پر ارکان نے کھڑے ہوکر ان کا پرجوش استقبال کیا اور تالیاں بجائیں کیونکہ یہ اعلان ملک کے کروڑوں لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے نہیں بلکہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے فخریہ کہا کہ میں نے رواں بجٹ میں جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ہے اور اس حوالے سے کسی قانون کی بھی ضرورت نہیں ہے اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوجائے گا۔ وزیر خزانہ کے اعلان پر ارکان بہت خوش نظر آئے اور اس اعلان کی خبر میڈیا پر آنے کے بعد کروڑوں لوگوں کے چہرے اترگئے جنھیں مہنگائی، ٹیکسوں کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں دیا گیا اور عوام کو چاروں طرف سے نچوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے اپنے با اعتماد وزیر خزانہ کے ارکان پارلیمنٹ سے کیے گئے وعدے کو پورا کرا دیا اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ بڑھانے کی منظوری دے دی اور سرکاری ہر طرح کی مراعات کے حامل وزیر کیسے محروم رہتے ان کی تنخواہ بھی بڑھ گئی اور عوام پر جمہوری بوجھ میں مزید اضافہ ہوگیا۔
وزیرخزانہ امیروں کی تنخواہ بڑھانے کا اعلان کرنے قومی اسمبلی کے جس ایوان میں آئے تھے وہاں ارکان اسمبلی حسب معمول نہ ہونے کے برابر تھے اور تنخواہیں بڑھنے کی خوشی میں مزید ارکان اعلان کے بعد ایوان سے چلے گئے اور پی پی کے ایک رکن نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کردی اور ڈپٹی اسپیکر کو اجلاس اگلے روز کے لیے ملتوی کرنا پڑا اور اگلے روز جب اجلاس شروع ہوا تو ایوان کی اکثر خالی نشستیں اس قوم کو منہ چڑا رہی تھیں جن پر حکومت نے ٹیکسوں کا بوجھ آئے روز بڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور یہ جمہوری بوجھ ٹیکسوں کے بوجھ میں دبی قوم پر ہی پڑنا ہے۔
وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ پینتالیس ہزار سے بڑھاکر ڈیڑھ لاکھ روپے کردی گئی ہے جب کہ وفاقی وزیر دو لاکھ روپے اور وزیر مملکت ایک لاکھ اکسی ہزار روپے تنخواہ لیںگے جو مکمل وفاقی وزیر سے صرف بیس ہزار روپے کم ہے جب کہ وہ آدھے وزیر شمار ہوتے ہیں اور جس دن تنخواہ بڑھی اس روز بقول اپوزیشن لیڈر ایوان میں ڈھائی وزیر موجود تھے۔
ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں کے ساتھ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہیں بھی بڑھاکر دو لاکھ روپے اور ان کے نائبین کی تنخواہ بڑھاکر ایک لاکھ 85 ہزار روپے کردی گئی ہے اور پارلیمنٹ کے ان ارکان کی تنخواہیں بڑھنے سے سالانہ چالیس کروڑ روپے کا اثر پڑے گا جب کہ عوام پر جمہوری بوجھ کہیں زیادہ ہوگا۔ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھنے کے بعد وزیر مملکت کا کہناتھا کہ وفاقی وزیروں کی تنخواہیں بلوچستان کے وزیروں سے اب بھی کم ہیں جب کہ ارکان پارلیمنٹ کے بعد ارکان صوبائی اسمبلیوں نے بھی اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی ہے۔
چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ارکان اسمبلی اپنی اسمبلیوں میں ارکان پارلیمنٹ کے مقابلے میں زیادہ شریک ہوتے ہیں اور وہاں کورم کا مسئلہ بھی کم ہی پیش آتا ہے اور ارکان کی بڑی تعداد ایوان میں موجود رہتی ہے کیوںکہ وہاں وزرائے اعلیٰ کے غیر حاضر رہنے کی اتنی شکایات نہیں ہیں جتنی وزیراعظم کی ہیں۔ وزرائے اعلیٰ سے ارکان صوبائی اسمبلی کا ملنا معمول کی بات ہے جب کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں نہ صرف بہت کم آتے ہیں ۔
ارکان پارلیمنٹ کی غیر حاضری کی اہم وجہ وزیراعظم اور وفاقی وزرا کا پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنا ہے جن کی عدم دلچسپی دیکھ کر پارلیمنٹ کے ارکان بھی اکثرایوان میں موجود نہیں ہوتے یا حاضری لگاکر اپنے کاموں کے لیے سیکریٹریٹ چلے جاتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف سے قبل ق لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں ظفر اﷲ جمالی، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف میں وزیراعظم رہے مگر ان کے ادوار میں پارلیمنٹ میں غیر حاضری کی صورتحال کبھی اتنی خراب نہیں رہی جتنی آج ہے، کیونکہ وہ چاروں ایوان میں ضرور آتے تھے اور کورم کا مسئلہ کم ہی پیدا ہوتا تھا حالانکہ ان میں شوکت عزیز غیر سیاسی شخصیت تھے مگر ان کی غیر حاضری موجودہ وزیراعظم جیسی نہیں تھی۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھنے سے سالانہ چالیس کروڑ روپے کا بوجھ بجٹ پر بڑھ گیا ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے ہی وصول کرکے ارکان پارلیمنٹ کو خوش کیا جائے گا جو ساڑھے تین سالوں میں پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنے کے عادی ہوچکے ہیں اور ان کی تنخواہ میں فی رکن ایک لاکھ پانچ ہزار روپے کا اضافہ بجٹ میں خسارہ بڑھائے گا مگر حکومت نے کسی نہ کسی طرح عوام کی طرف منتقل کرنا اور اضافی ٹیکس کی صورت میں وصول کرنا ہے۔
عوام کو ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ ارکان کی کون سی ایسی کارکردگی بہتر تھی کہ حکومت نے پہلے سے نوازے ہوؤں کو مزید نوازنا ضروری سمجھا۔ اپنے چار بجٹوں میں حکومت نے عوام کو خوشحالی کے جو خواب دکھائے ان کی تعبیر عام لوگوں کو ملی ہے نہ مہنگائی میں کمی آئی ہے اور مزید ظلم کہ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ڈالر چند روز کے لیے 98 روپے پر لاکر اور شیخ رشید پر مستعفی ہونے کا طنز کرنے والی حکومت کے چوتھے بجٹ میں آج ڈالر کی ویلیو کہاں پہنچ چکی ہے اس پر حکومت نے باز پرس تک نہیں کی تو ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ بڑھانے کی وجہ ان سے کون پوچھے گا۔
حکومت نے جنھیں مالی فائدہ پہنچایا ہے وہی تو پارلیمنٹ کے ایوان میں اس پر ہر بجٹ پر تنقید کرتے آئے ہیں مگر کسی بھی رکن پارلیمنٹ نیحکومت کی اس فیاضی کی مخالفت نہیں کی کیوںکہ ان کی تو تنخواہیں بڑھی ہیں وہ صرف دکھاوے کے لیے ہر بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر سیاسی مفاد کے لیے اس کی مخالفت کرتے ہیں اور حکومت ہر بار اپنی مرضی کا بجٹ ان ہی ارکان سے منظور کرالیتی ہے۔حکمران ہر بار عوام پر بوجھ نہ پڑنے کے وعدے کرتے ہیں مگر متاثر غریب عوام ہی ہوتے ہیں ارکان پارلیمنٹ نہیں کیوںکہ حکومت ان کا خاص خیال رکھتی ہے اور یہ جمہوری بوجھ عوام نے اٹھانا ہوتا ہے۔