کشمیر آزاد ہونے والا ہے

کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے اور یہ ہڈی بوٹی کے چکر میں بھارت نے خود گلے میں پھنسائی ہے

کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے اور یہ ہڈی بوٹی کے چکر میں بھارت نے خود گلے میں پھنسائی ہے۔ مستقبل قریب میں اس ہڈی سے بھارت کئی ''گلو خلاصی'' نظر نہیں آتی، سیکڑوں روزکا کرفیو، سیکڑوں کشمیریوں کی شہادت نے کشمیریوں کو ایک بار پھر جدوجہد آزادی کا ''عادی'' بنادیا ہے، وانی کی شہادت نے وادی کے امن کو تہہ وبالا کردیا ہے۔

کشمیرکی سیاست کیا ہے یہ آج ستر برس کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک علاقے پر بھارت کے ناجائز تسلط کو ستر برس ہوگئے۔ دنیا کا وہ ضمیر جو ''مشرقی تیمور'' کے لیے چند ماہ میں جاگ جاتا ہے اور اسے بزورآزادی ''عطا'' کردی جاتی ہے وہ ''زنگ آلود ضمیر'' ستر سال سے لڑکھڑا رہا ہے۔سرتاج عزیز کو ابھی تک بڑی کامیابی نہیں ملی جب وزیر خارجہ تھے تب بھی ایسا نہیں ہوا اور اب بھی۔ ہندوستان کی خاتون خارجہ سشما سوراج اقوام متحدہ میں بلوچستان کی آزادی کی بات کرتی ہیں یہ ہے ''طریقہ کار خارجہ'' پاکستان کے دریاؤں کا بھارت نے کیا حال کیا؟ ہمارے حکام کیا کر رہے تھے۔ ''خیر سگالی'' آؤ ہمارا پانی لے جاؤ ہمیں پیاسا ماردو۔

سرتاج عزیز نے درست کہا کہ جب تک نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں بھارت پاکستان کے تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔اس پر بھارت کے ایک کالم نگار جن کا تذکرہ میں کرتا رہتا ہوں بہت چراغ پا ہوئے ہیں کہ ایسی شخصیت کو ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی اور وہ مودی صاحب کا احسان بتارہے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کی نواسی کی سالگرہ میں بھارت کے وزیراعظم نے شرکت کرکے خیر سگالی کا ثبوت دیا تھا۔

محترم شاید بھول گئے گجرات کے اس قصاب کی حلف برداری میں شرکت کرکے پاکستان کے وزیراعظم نے پر امن رویے کا مظاہرہ کیا تھا پہلے۔ جس کا جواب ڈھاکہ میں پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے کی تصویر وصول کرتے وقت نریندر مودی نے دیا تھا کہ ہم نے بنگلہ دیش بنوایا ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کی منظوری سے کشمیر کی آزادی نہیں مل سکتی، یہ صرف ایک قومی تقاضا تھا جسے موجودہ حکومت نے نہ چاہتے ہوئے پورا کیا کیوںکہ ساری جماعتیں ایک طرف ہوگئی تھیں۔ خیر یہ تو ایک الگ مسئلہ ہے کہ پاکستان کو بحیثیت ملک اور قوم ناعاقبت اندیش حکمرانوں کا سامنا ہے جو اسے کسی صورت (پورے ملک کو) ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے نہ کرنے دیںگے۔

تو کالم نگار نے گورداسپور کا بھی ذکر کیا اور لارڈ ماؤنٹ بٹن کی بے ایمانی کا بھی ذکر کیا، مہاراجا کشمیر کے عوام کو ہندوستان کے ہاتھوں فروخت کرنے کا اجازت نامہ کس نے دیا؟ یہ تاریخی سوالات ہیں اور تاریخ ہی سے اس کا جواب ملے گا کبھی نہ کبھی۔کالم نگار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انگریز نے مسلمان بادشاہ سے اقتدار لیا تھا۔


ہندوؤں کی غداری اور مسلمان ایجنٹوں کی وطن فروشی کی وجہ سے جو بعد میں صاحب بہادر، میر صاحب، سر کہلائے دونوں قوم کے لوگ اس وقت بھارت کی ریاستوں کے زیادہ تر سربراہ مسلمان تھے، نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے نام تاریخ میں موجود ہیں بنگلہ دیش کی صورت ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ کو دوسری بار غداروں نے شکست دی ہے وہ ٹولہ ''حسینہ ٹولہ'' بھارت اور بنگلہ دیش پر یہی ٹولہ اس وقت قابض ہے، جو تاریخی دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی کے خلاف بات کرتے نہیں تھکتے۔

کشمیری کشمیر میں 1940 میں نہیں آئے تھے، صدیوں سے رہتے ہیں، ہندوستانی لوگ بعد میں یہاں آئے اور آباد ہوئے اورکشمیریوں نے اس سے اچھا برادرانہ سلوک کیا اورآج بھی کررہے ہیں جو وہاں رہتے ہیں سدا سے وہ کشمیری ہیں ہندو ہوں یا مسلمان۔

مہاراج اگر مسلمان ہوتا تو وہ پاکستان سے رجوع کرتا، ہندو تھا، دھرم کا پالن کیا مگر دھرم دوسری قوم کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔کشمیر میں کل بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی، آج بھی ہے کل بھی رہے گی، چاہے بھارت کچھ کرلے، چاہے کالم نگار کتنا ہی بھارت کو سپورٹ کرلیں۔ یہ ان کی روزی روٹی کا سوال ہے بھارت میں رہنا ہے جہاں صلہ گائے کا پیشاب سرکاری مشروب بن جائے گا۔ جو ہندوؤں کے ایک خاص قوم کے لوگوں کے علاوہ باقی لوگوں کا ''مقتل'' ہے جہاں گجرات میں قصاب وزیراعلیٰ نے مسلمان کو بے دریغ قتل کروایا اور ایک انٹرویو میں بے شرمی سے کہا کہ اگر پھر موقع ملا تو ایسا ہی کروںگا۔ اب تو پورا بھارت اس کے ہاتھ میں ہے اور ایک ہاتھ اس نے خفیہ طور پر ادھر بھی بڑھا رکھا ہے چند لوگوں نے تھام بھی رکھا ہے۔

کربلا سے کشمیر تک ایک تاریخ ہے مسلمانوں کو نام نہاد مسلمانوں نے برباد کیا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، تفصیل کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں بولتے نہیں، مفادات کا کھیل چل رہا ہے، آج میں کل تو، کل تو آج میں اقتدار کی بندر بانٹ میں انسانی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے ''پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اﷲ'' صرف مسلمانوں کے لیے تھا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کوئی اور پاکستان میں نہیں رہے گا۔ ستر برس سے سب رہ رہے ہیں۔ برے لوگ ہر قوم میں ہوتے ہیں یہاں بھی ہیں جو غیر مسلموں کو کبھی کبھار مشکل کا شکار کرتے ہیں مگر حکومت کی جانب سے ایسا نہیں ہورہا جیسا جلاد مودی بھارت میں کر رہا ہے کالم نگار کو جلنا ہے یا دفن ہونا ہے یہ تو نہیں پتا مگر بھگوان کے سامنے حاضر ہونا ہے وہاں مودی نہیں ہوگا نہ اندرا گاندھی نہ سونیا گاندھی نہ نہر، نہ گاندھی تو یہ بات تو آپ بھی جانتے ہوںگے اس کی فکر کرو سچ نہیں لکھتے نہ لکھو مگر جھوٹ بھی نہ لکھو۔کالم نگار نے لکھا کہ کاش قائد اعظم کا یہ خواب پورا ہوجائے کہ پاکستان اور بھارت امریکا اور کینیڈا کی طرح ساتھ رہیں۔

ضرور رہ سکتے ہیں اصولوں کے تحت، جھگڑے ختم کرو، حقوق دو، بھارت میں بھی، پاکستان میں بھی، امریکا کینیڈا میں سرکریک، کارگل سیاچن، کشمیر، حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور بہت کچھ نہیں ہے وہ ناگرا کے دونوں کناروں پر آرام سے رہ رہے ہیں۔ آپ پہلے ان سے یہ سیکھ لیں آپ بڑے ہیں آپ کے مسائل بہت ہیں کشمیر بھی بھارت کا مسئلہ ہے جو پاکستان کے سر ڈال کر وہ سمجھتا ہے کہ کشمیریوں کو مصروف رکھے، ڈیم پر ڈیم بنائے رکھے بناتا جائے اگر امریکا یا کینیڈا ایسا کرتے تو ان کا حال بھی ہم اور آپ سے مختلف نہ ہوتا۔

کشمیرکی آزادی کو عسکریت پسندی کا نام دینا ایک غلط روایت ہے، کالم نگار کو ایمانداری سے انھیں مجاہدین آزادی کشمیر کہنا اور لکھنا چاہیے تاریخ مسخ نہیں کرنا چاہیے وہ پاکستان کے غیور قبائلی عوام تھے جنھوں نے آزاد کشمیر کو آزاد کروایا اور اگر سیاسی فیصلے میں تھوڑی سی تاخیر کرلیتے تو کشمیر پورا آزاد ہوتا یہ پاکستان کے اس وقت کے سیاست دانوں کی سیاسی غلطی تھی۔

قلم خاموش ہے، تاریخ پر پردے پڑے ہیں، کبھی نہ کبھی یہ پردے ہٹیںگے۔ مگرکالم نگار کو میں یقین دلاتا ہوں کہ میں نہیں ہوںگا آپ نہیں ہوںگے پورا کشمیر ضرور آزاد ہوگا۔ خود فیصلہ کرے گا، یہ قدرت کا فیصلہ ہے۔
Load Next Story