عوامی مسائل
نادرا دفتر میں داخل ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
ڈائریکٹر جنرل نادرا سندھ ریجن کرنل (ر) محمد احمد خٹک سے لیاری کے سیاسی وسماجی وفد نے ان کے آفس میں ملاقات کی۔وفد نے لیاری نادرا آفس میں لوگوں کو شناختی کارڈ بنوانے میں حائل مشکلات سے آگاہ کیا اوران کے حل کے لیے تحریری طور پر12نکاتی تجاویز بھی دیں۔ وفد میں بلوچ اتحاد تحریک (امن دوست ) کے چیئرمین عابد حسین بروہی، افغان کارپیٹ کے مالک افتخارحسین،سنگولین یونین کونسل 12کے چیئر مین حبیب حسن،عارف بلوچ ، پی پی پی کے مقامی رہنما لیاقت بلوچ، سماجی رہنما وایکسپریس کے کالم نگارشبیراحمدارمان، حاجی عبدالستار،عمیر رزاق، فہیم شاد،کامران بلوچ ، ندیم اورعبداللہ بروہی شامل تھے۔
وفد نے قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے لیاری کے عوام کی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لوگ فجر سے پہلے دفترکے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ٹوکن کے لیے وہاں موجود ایجنٹس ان سے مخصوص رقم لیتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کوکافی مشکلات کا سامنا ہے ۔
وفد نے لیاری نادرا آفس میں عوام کو درپیش مسائل حل کے لیے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ لیاری میں ایک نادرا میگا سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے، ساتھ ہی لیاری کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں مزید تین ،چارنادرا دفاترقائم کیے جائیں،عورتوں اور ضعیف العمر افراد کے لیے علیٰحدہ کاونٹر قائم کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی قسم کی تکالیف سے بچ سکیں اورعوام کو ممکنہ پریشانی سے بچانے کے لیے رہنمائی ڈیسک قائم کیا جائے تاکہ بر وقت ان کی دستا ویزات کی جانچ پڑتال کی جائے ۔ ڈی جی نادرا نے وفدکی باتوں کو بغور سنا اور ان مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بہت جلد لیاری میں میگا نادرا سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور رہنما ڈیسک قائم کیا جائے گا اور آپ کے تعاون سے دیگر مسائل کو بھی حل کیا جائے گا ۔
ڈی جی نادرا سندھ ریجن محمد احمد خٹک نے اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ لیاری نادرا آفس کاخفیہ دورہ کرچکے ہیں لوگوں کے مسائل خود معلوم کیے ہیں،اس لیے وہ وہاں کے لوگوں کی پریشانیوں سے ذاتی طور پر آگا ہ ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لیاری میں نادرا آفس کا قیام 2007ء میں عمل میں لایا گیا تھا، جسے عوامی سطح پر سراہا گیا تھا اور اس جدید نظام کی بدولت لوگوں کو اپنے شناختی کارڈ بنوانے میں کافی آسانی میسر تھی، لیکن رفتہ رفتہ مقامی نادرا افسران کی روایتی ہٹ دھرمی اور دلالوںکی ملی بھگت سے اس نظام میں بھی دڑاریں پڑنا شروع ہوئیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ یہ دڑیں گڑھوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ نادرا برانچ جوکہ لیاری والوں کی سہولت کے لیے ملا فاضل ہال لیاری میں قائم کی گئی تھی، اس کی حالت زار اب پرانے شناختی کارڈ کے دفتر سے بھی بدتر ہوگئی ہے، جہاں لوگ اپنے شناختی کارڈ کے حصول کے لیے رات 4بجے سے ہی مرکزی دروازے پر قطار میں لگنا شروع ہوجاتے ہیں ۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب میں فلم بینی کا شوقین تھا ، یہ سن70ء کی دہائی کی بات ہے،اس زمانے میں پاکستانی فلموں کا عروج تھا، سینما گھروں میں بہت رش رہتا تھا، ٹکٹ گھر تک پہنچنے کے لیے لمبی لائن میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ بعض مرتبہ ڈبل لائن کو سیدھا کرنے کے لیے سینما کا عملہ جسے عرف عام میں پیدا گیرکہتے تھے ۔ ہنٹر اور ڈنڈا استعمال کیا کرتے تھے،لیکن نشاط سینما کی انتظامیہ نے اس رش کا ایک حل یہ نکالا کہ ٹکٹ گھر کھلنے سے دوگھنٹے قبل فلم بینوں کے دائیں ہاتھ پر ایک مخصوص مہر لگانا شروع کی اور جب ٹکٹ گھرکھلتا تو ٹکٹ اسے دیا جاتا تھا جس کے ہاتھ میں یہ مخصوص مہر لگی ہوتی تھی۔
ماضی کا یہ منظر مدتوں بعد مجھے لیاری میں واقع نادرا آفس میں نظر آنے لگا ہے جہاں غیر متعلقہ اشخاص آدھی رات کو شناختی کارڈ کے حصول کے لیے آنے والوں کے ہاتھوں پر مہر لگاتے ہیں یا پھر خود ساختہ ٹوکن جاری کرتے ہیں مفت میں نہیں بلکہ مخصوص رقم بٹورکر یہی وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیںجو ٹوکن والی کھڑکی میں ٹوکن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن دفترکے اندر وہ کن پریشانیوں سے گزرتے ہیں وہ الگ داستان ہے ۔
جن کے ہاتھوں میں یہ مخصوص مہر یا خود ساختہ ٹوکن نہیں ہوتا وہ صبح سے لے کر شام تک لائن میں کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں سوائے پریشانیوں اور اذیت کے انھیں کچھ نہیں ملتا ۔ یعنی دفتر کھلنے کے بعد بھی ان افراد کو پانچ سے چھ گھنٹے انتظارکے بعد بھی اپنی باری کا انتظارکرنا پڑتا ہے ۔جدید نظام کے باوجود مرد اورخواتین جن میں ضعیف العمرافراد بھی شامل ہوتے ہیں، بھیڑبکریوں کی طرح سخت دھوپ میںصرف انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔ایسے میں دفتری اوقات کار کے ختم ہونے کا اعلان کردیا جاتا ہے لیکن ان کی باری نہیں آتی، یہ ہر روزکا معمول ہے۔ ایسے میں دلال حضرات کا نیٹ ورک بذریعہ موبائل فون فعال رہتا ہے۔ تنگ آئے ہوئے غریب لوگ ٹوکن مہنگے داموں میں مجبورا خرید لیتے ہیں اور جوں جوں ٹوکن نمبرز آگے بڑھتے ہیں توں توں رشوت کے نرخ بھی بڑھتے جاتے ہیں ۔لیاری کی عوام شناختی کارڈ کے حصول کے لیے عجیب اذیت میں مبتلا ہیں۔
نادرا کی نئی پالیسی کے مطابق شناختی کارڈ اوردیگر دستاویزات بنوانے میں رکاوٹ کا سبب بننے والی کئی شرائط ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق پاکستانی شہری اب بیس روپے کے اسٹامپ پیپرکے ذریعے قومی شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات میں تبدیلی کراسکیں گے اور انھیں اضافی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوگی۔
٭گریڈ 17 کے افسر سے فارم کی تصدیق بھی نہیں کروانا پڑے گی اوراب ہر شناختی کارڈ ہولڈر تصدیق کرسکے گا ۔ ٭ تاریخ پیدائش کے لیے کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفکیٹ بھی پیش نہیں کرنا پڑے گا۔٭شناختی کارڈ میں نام کی تبدیلی کے لیے اخبار میں اشتہارکی پابندی بھی ختم کردی گئی ہے صرف بیان حلفی سے نام تبدیل ہوسکے گا۔ ٭شناختی کارڈ میں بیوی کا نام درج کرانے کے لیے نکاح نامے کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے، اب مرد صرف فنگر پرنٹس دے کر شریک حیات کا نام درج کراسکے گا۔
اس کے باوجود کراچی میں شہریوں کو شناختی کارڈ، ب فارم اور دیگر دستاویزات بنوانے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔لیاری کی طرح شہرکراچی کے بیشترسینٹرز پر بھی لمبی لائنیں لگتی ہیں تاہم شہریوں کا نمبر نہیں آتا،ایجنٹ مافیا ٹوکن فروخت کرکے دیر سے آنے والوں کو نادرا دفتر میں داخل کرادیتی ہے۔ نادرا کا عملہ شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کرتا ہے اوردستاویزات پر بیجا اعتراضات لگا کر چکر لگواتا ہے۔ پاکستانی شہریوں پر تارکین وطن کا شبہ ظاہرکرکے ان سے دادا ، دادی کے شناختی کارڈ،منسوخ شدہ پرانے کارڈ اوردیگر دستاویزات بھی طلب کی جاتی ہیں۔
روزانہ ہزاروں شہری شہر میں قائم اڑتالیس نادرا رجسٹریشن سینٹرز میں شناختی کارڈ ، ب فارم اور دیگر دستاویزات بنانے کے لیے آتے ہیں تاہم وہ نادرا کے عملے کے ہاتھوں خوار ہوتے ہیں، نادرا کے کچھ سینٹرز بند ہوچکے ہیں جس کے باعث دوسرے علاقوں میں قائم نادرا سینٹرز پر رش بڑھ گیا ہے ۔ دلال مافیا لیاری،اورنگی،کورنگی،ملیر، لیاقت آباد، بلدیہ ،عوامی مرکز اوردیگر سینٹرز پر سرگرم عمل ہیں۔ان سینٹرز پر شہریوں کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔
نادرا دفتر میں داخل ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،اگرکوئی شہری نادرا دفتر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوبھی جائے تو اسے نادرا کے عملے کے توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی مدت میں توسیع، ایڈریس وغیرہ کی تبدیلی کے لیے جمع ہونے والی درخواستوں پر بے جا اعتراضات لگائے جاتے ہیں۔ رشوت نہ دینے والے شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ان کومہینوں نادرا دفاترکے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ الغرض نادرا کا عملہ ایجنٹس حضرات کے ذریعے شہریوں کو لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ جس کی روک تھام اشد ضروری ہے ۔
وفد نے قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے لیاری کے عوام کی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لوگ فجر سے پہلے دفترکے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ٹوکن کے لیے وہاں موجود ایجنٹس ان سے مخصوص رقم لیتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کوکافی مشکلات کا سامنا ہے ۔
وفد نے لیاری نادرا آفس میں عوام کو درپیش مسائل حل کے لیے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ لیاری میں ایک نادرا میگا سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے، ساتھ ہی لیاری کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں مزید تین ،چارنادرا دفاترقائم کیے جائیں،عورتوں اور ضعیف العمر افراد کے لیے علیٰحدہ کاونٹر قائم کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی قسم کی تکالیف سے بچ سکیں اورعوام کو ممکنہ پریشانی سے بچانے کے لیے رہنمائی ڈیسک قائم کیا جائے تاکہ بر وقت ان کی دستا ویزات کی جانچ پڑتال کی جائے ۔ ڈی جی نادرا نے وفدکی باتوں کو بغور سنا اور ان مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بہت جلد لیاری میں میگا نادرا سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور رہنما ڈیسک قائم کیا جائے گا اور آپ کے تعاون سے دیگر مسائل کو بھی حل کیا جائے گا ۔
ڈی جی نادرا سندھ ریجن محمد احمد خٹک نے اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ لیاری نادرا آفس کاخفیہ دورہ کرچکے ہیں لوگوں کے مسائل خود معلوم کیے ہیں،اس لیے وہ وہاں کے لوگوں کی پریشانیوں سے ذاتی طور پر آگا ہ ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لیاری میں نادرا آفس کا قیام 2007ء میں عمل میں لایا گیا تھا، جسے عوامی سطح پر سراہا گیا تھا اور اس جدید نظام کی بدولت لوگوں کو اپنے شناختی کارڈ بنوانے میں کافی آسانی میسر تھی، لیکن رفتہ رفتہ مقامی نادرا افسران کی روایتی ہٹ دھرمی اور دلالوںکی ملی بھگت سے اس نظام میں بھی دڑاریں پڑنا شروع ہوئیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ یہ دڑیں گڑھوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ نادرا برانچ جوکہ لیاری والوں کی سہولت کے لیے ملا فاضل ہال لیاری میں قائم کی گئی تھی، اس کی حالت زار اب پرانے شناختی کارڈ کے دفتر سے بھی بدتر ہوگئی ہے، جہاں لوگ اپنے شناختی کارڈ کے حصول کے لیے رات 4بجے سے ہی مرکزی دروازے پر قطار میں لگنا شروع ہوجاتے ہیں ۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب میں فلم بینی کا شوقین تھا ، یہ سن70ء کی دہائی کی بات ہے،اس زمانے میں پاکستانی فلموں کا عروج تھا، سینما گھروں میں بہت رش رہتا تھا، ٹکٹ گھر تک پہنچنے کے لیے لمبی لائن میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ بعض مرتبہ ڈبل لائن کو سیدھا کرنے کے لیے سینما کا عملہ جسے عرف عام میں پیدا گیرکہتے تھے ۔ ہنٹر اور ڈنڈا استعمال کیا کرتے تھے،لیکن نشاط سینما کی انتظامیہ نے اس رش کا ایک حل یہ نکالا کہ ٹکٹ گھر کھلنے سے دوگھنٹے قبل فلم بینوں کے دائیں ہاتھ پر ایک مخصوص مہر لگانا شروع کی اور جب ٹکٹ گھرکھلتا تو ٹکٹ اسے دیا جاتا تھا جس کے ہاتھ میں یہ مخصوص مہر لگی ہوتی تھی۔
ماضی کا یہ منظر مدتوں بعد مجھے لیاری میں واقع نادرا آفس میں نظر آنے لگا ہے جہاں غیر متعلقہ اشخاص آدھی رات کو شناختی کارڈ کے حصول کے لیے آنے والوں کے ہاتھوں پر مہر لگاتے ہیں یا پھر خود ساختہ ٹوکن جاری کرتے ہیں مفت میں نہیں بلکہ مخصوص رقم بٹورکر یہی وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیںجو ٹوکن والی کھڑکی میں ٹوکن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن دفترکے اندر وہ کن پریشانیوں سے گزرتے ہیں وہ الگ داستان ہے ۔
جن کے ہاتھوں میں یہ مخصوص مہر یا خود ساختہ ٹوکن نہیں ہوتا وہ صبح سے لے کر شام تک لائن میں کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں سوائے پریشانیوں اور اذیت کے انھیں کچھ نہیں ملتا ۔ یعنی دفتر کھلنے کے بعد بھی ان افراد کو پانچ سے چھ گھنٹے انتظارکے بعد بھی اپنی باری کا انتظارکرنا پڑتا ہے ۔جدید نظام کے باوجود مرد اورخواتین جن میں ضعیف العمرافراد بھی شامل ہوتے ہیں، بھیڑبکریوں کی طرح سخت دھوپ میںصرف انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔ایسے میں دفتری اوقات کار کے ختم ہونے کا اعلان کردیا جاتا ہے لیکن ان کی باری نہیں آتی، یہ ہر روزکا معمول ہے۔ ایسے میں دلال حضرات کا نیٹ ورک بذریعہ موبائل فون فعال رہتا ہے۔ تنگ آئے ہوئے غریب لوگ ٹوکن مہنگے داموں میں مجبورا خرید لیتے ہیں اور جوں جوں ٹوکن نمبرز آگے بڑھتے ہیں توں توں رشوت کے نرخ بھی بڑھتے جاتے ہیں ۔لیاری کی عوام شناختی کارڈ کے حصول کے لیے عجیب اذیت میں مبتلا ہیں۔
نادرا کی نئی پالیسی کے مطابق شناختی کارڈ اوردیگر دستاویزات بنوانے میں رکاوٹ کا سبب بننے والی کئی شرائط ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق پاکستانی شہری اب بیس روپے کے اسٹامپ پیپرکے ذریعے قومی شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات میں تبدیلی کراسکیں گے اور انھیں اضافی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوگی۔
٭گریڈ 17 کے افسر سے فارم کی تصدیق بھی نہیں کروانا پڑے گی اوراب ہر شناختی کارڈ ہولڈر تصدیق کرسکے گا ۔ ٭ تاریخ پیدائش کے لیے کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفکیٹ بھی پیش نہیں کرنا پڑے گا۔٭شناختی کارڈ میں نام کی تبدیلی کے لیے اخبار میں اشتہارکی پابندی بھی ختم کردی گئی ہے صرف بیان حلفی سے نام تبدیل ہوسکے گا۔ ٭شناختی کارڈ میں بیوی کا نام درج کرانے کے لیے نکاح نامے کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے، اب مرد صرف فنگر پرنٹس دے کر شریک حیات کا نام درج کراسکے گا۔
اس کے باوجود کراچی میں شہریوں کو شناختی کارڈ، ب فارم اور دیگر دستاویزات بنوانے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔لیاری کی طرح شہرکراچی کے بیشترسینٹرز پر بھی لمبی لائنیں لگتی ہیں تاہم شہریوں کا نمبر نہیں آتا،ایجنٹ مافیا ٹوکن فروخت کرکے دیر سے آنے والوں کو نادرا دفتر میں داخل کرادیتی ہے۔ نادرا کا عملہ شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کرتا ہے اوردستاویزات پر بیجا اعتراضات لگا کر چکر لگواتا ہے۔ پاکستانی شہریوں پر تارکین وطن کا شبہ ظاہرکرکے ان سے دادا ، دادی کے شناختی کارڈ،منسوخ شدہ پرانے کارڈ اوردیگر دستاویزات بھی طلب کی جاتی ہیں۔
روزانہ ہزاروں شہری شہر میں قائم اڑتالیس نادرا رجسٹریشن سینٹرز میں شناختی کارڈ ، ب فارم اور دیگر دستاویزات بنانے کے لیے آتے ہیں تاہم وہ نادرا کے عملے کے ہاتھوں خوار ہوتے ہیں، نادرا کے کچھ سینٹرز بند ہوچکے ہیں جس کے باعث دوسرے علاقوں میں قائم نادرا سینٹرز پر رش بڑھ گیا ہے ۔ دلال مافیا لیاری،اورنگی،کورنگی،ملیر، لیاقت آباد، بلدیہ ،عوامی مرکز اوردیگر سینٹرز پر سرگرم عمل ہیں۔ان سینٹرز پر شہریوں کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔
نادرا دفتر میں داخل ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،اگرکوئی شہری نادرا دفتر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوبھی جائے تو اسے نادرا کے عملے کے توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی مدت میں توسیع، ایڈریس وغیرہ کی تبدیلی کے لیے جمع ہونے والی درخواستوں پر بے جا اعتراضات لگائے جاتے ہیں۔ رشوت نہ دینے والے شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ان کومہینوں نادرا دفاترکے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ الغرض نادرا کا عملہ ایجنٹس حضرات کے ذریعے شہریوں کو لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ جس کی روک تھام اشد ضروری ہے ۔