گردشِ ایام ابھی باقی ہے
دھاندلی دھاندلی کا سارا شور کسی غیبی طاقت کے اشارے پر کیا گیا
میاں نواز شریف نے جب 11مئی2013ء کی شام کو الیکشن کے نتائج اپنے حق میں آتے دیکھ کر میڈیا کے سامنے اپنی اِس خواہش کا برملا اظہارکر ڈالا کہ حکومت بنانے کے لیے انھیں اتنی اکثریت مل جائے کہ مسلم لیگ تنہا حکومت بنا پائے، اُسے کسی اور سیاسی پارٹی کی خوشامد اورمنت سماجت نہ کرنی پڑے توکسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ مطلوبہ اکثریت مل جانے کے بعد بھی صرف ایک سال میں ہی وہ اتنے بے بس اور لاچار ہوجائیں گے کہ حکومت کرنا اُن کے لیے مشکل ترین کام بن جائے گا اوروہ دوسری سیاسی جماعتوں کے مرہونِ منت یا رحم وکرم پر ہوجائیں گے۔ شاید اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اُنہیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ موقعہ نہیں دیں گے کہ وہ چین وسکون سے حکومت کر پائیں۔
خان صاحب نے اُن کی اُسی خواہش کو الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا جواز بناکر''گو نواز گو '' کی ایسی مہم چلائی کہ حکومت کے خاتمے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھ چھوڑی۔الیکشن کے پروسس کے دوران ہونے والی عام بے ضابطگیوں کو منظم دھاندلی کا الزام دے کر اُنہوں نے 126دنوں تک اسلام آباد کے ڈی چوک کے دھرنے میں ایسے ایسے ثبوت پیش کیے کہ حقائق سے نابلد عام اورسادہ آدمی یقین کیے بنا نہیں رہ پائے۔لاہورکے اُردو بازار سے بیلٹ پیپرز چھپوانے سے لے کر نجم سیٹھی کے 35پنکچروں تک کیا کچھ نہیں کہا گیا جن کا حقیقتاً کوئی وجود ہی نہ تھا۔بات جب جوڈیشل کمیشن تک پہنچی تو پتا چلا کہ یہ سب کچھ سیاسی اسٹنٹ کے طور پرکیا جا رہا تھا۔
دھاندلی دھاندلی کا سارا شور کسی غیبی طاقت کے اشارے پر کیا گیا ۔شومئی قسمت کہ یہ دھرنا اور احتجاج پارلیمنٹ میں ساری جماعتوں کے اتحاد اور یکجہتی کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا اور باقی رہا سہا کام جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نے کرڈالا۔خان صاحب کے استعفے بھی واپس ہوئے اور وہ طوعاً وکرہاً پارلیمنٹ میں بھی واپس آئے ۔اِسی دوران وہ شادی کے اُس نئے بندھن میں بھی بندھ گئے جس کااشارہ اُنہوں نے دھرنے کے دنوں میں دے رکھا تھا ۔ میاں صاحب کو کچھ دنوں کے لیے سکون کا سانس نصیب ہونے لگااور وہ اپنے منشور اور ایجنڈے پر توجہ دینے لگے۔
اپریل 2016میں ایک نیا طوفان'' پانامہ لیکس '' کی شکل میں آدھمکا۔ پھرکیا تھا خان صاحب جو رشتہ ازدواج کی الجھنوں سے اب چونکہ ایک بار پھر آزاد ہوچکے تھے اِسے ایک موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے۔ گزشتہ سات آٹھ مہینوں سے وہ اس سلسلے میںاپنی بھرپور احتجاجی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میاں نواز شریف اِن سات آٹھ مہینوں میں شاید ہی کسی دن چین کی نیند سو پائے ہوں گے۔ اِن ہی مہینوں کے دوران وہ ایک دو ماہ کے لیے لندن بھی نکل کھڑے ہوئے تاکہ اپنے دل کے معاملات درست کروا پائیں۔بیرونِ ملک ہونے والی اُن کی ہارٹ سرجری کے بارے میں بھی اُن کے مخالفوں کی جانب سے کیا کچھ نہیں کہاگیااور اُسے بھی اُن کے بچوں کی آف شورکمپنیوں اورفلیٹوں کی طرح مبہم اور مشکوک بنادیا گیا۔
اب جیسے تیسے نومبرکے مہینے میں اسلام آباد بند کردینے کے عمرانی دھمکیوں سے جان چھوٹی ہے تو سپریم کورٹ میں جوابدہی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ وہ بھی سوچتے ہونگے کہ جن لوگوں کے ہاتھ کرپشن کی آمدنی میں لدے ہوئے ہیں وہ تو آج انتہائی پارسا اور نیک بنے ہوئے ہیں اور وہ خود بے چارے اُس منی لانڈرنگ کیس میں پھنسے ہوئے ہیں جو مبینہ طور پر اُن دنوں میں کی گئی جب وہ پرویز مشرف دور میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبورکردیے گئے تھے۔
اُن کی مشکل یہ ہے کہ وہ اِس الزام کی صحت سے اگر انکار نہ کریں تو اور کیا کریں۔ اپنے آپ کو منی لانڈرنگ کے الزام سے بچانے کے لیے اُنہیں وہ پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں جن کا شاید اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے اپنا سارا حساب کتاب رکھنا پڑا۔ بھٹو دور سے جلاوطنی تک ساری رام کہانی سنانی پڑی۔الزام لگانے والوں کو پھر بھی قرار نہ آیا تو قطری شہزادے کا اقرار نامہ بھی پیش کرنا پڑا۔
اب یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے سپرد ہوچکا ہے جس نے فیصلہ صرف الزامات کو دیکھتے ہوئے نہیں کرنا ہے بلکہ ثبوت وشواہد اور حقائق کی روشنی میں کرنا ہے۔ خان صاحب یہ سمجھنے میں کسی حد تک حق بجانب ہونگے کہ پیسہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر ہی گیا ہے چونکہ میاںصاحب کو اپنی جلاوطنی کے دور میں کاروبارکرنے کے لیے بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑا ہوگا اورکسی بھی کاروبار کے لیے پیسہ ہی سب سے بڑی ضرورت ہوتا ہے۔ اب یہ میاں صاحب پر منحصر ہے کہ وہ عدالت کی سامنے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہاں ہم نے یہ پیسہ پاکستان سے ہی باہر بھیجاتھا مگر یہ پیسہ جائز تھا یا پھر اُس الزام سے بچنے کے لیے وہ کچھ اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔
فیصلہ اگر اُن کے حق میں بھی آگیا تو یہ بات طے ہے کہ وہ اپنے دورِ اقتدار کے باقی ایام بھی چین و سکون سے نہیں گذارپائیں گے۔اِس کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی بھی اب تیار ہوچکی ہے۔وہ میاںصاحب کو ٹف ٹائم دینے کے لیے بالکل ایک نئی ٹیم کے ساتھ پنجاب میں متحرک اور فعال ہو چکی ہے۔اب میاں صاحب کو ایک نہیں دو مخالف قوتوں کے ساتھ زورآزمائی کرنا ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا نواز حکومت کے خلاف سرگرم ہوجانا ایک فطری اور ناگزیر عمل ہے۔یہ بات تو طے شدہ تھی کہ جوں جوں الیکشن قریب آتے جائیں گے پاکستان پیپلزپارٹی اپنا رنگ جمانے لگے گی اور اِس مقصد کے حصول کے لیے سب سے اہم کام حکومتِ وقت کے ہرکام کی اور ہر بات کی مخالفت کرنا ہے۔ ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی جب تک جارحانہ طرزِ عمل اختیار نہیں کرے گی وہ پی ٹی آئی کو دوسری بڑی سیاسی قوت بننے سے نہیں روک پائے گی۔ یہ اُس کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔اِسی لیے اُس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں کے لب و لہجے میں تلخی اور ترشی بڑھتی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اگر میاں صاحب کو پاناما کیس میں ریلیف مل بھی گیا تو پھر بھی 2017ء کا سال اُن کے لیے کوئی اتنا آسان اور سہل نہیں ہوگا۔میاں صاحب کو یہ جان لینا چاہیے کہ اُن کے ستارے آیندہ برس بھی گردش میں ہی رہیں گے۔اگر اُنہوں نے اپنے دورِ اقتدار کے باقی ایام بخیر وخوبی گذار لیے تو یہ ازخود انہونی بات ہوگی ورنہ حالات تو یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے پانچ سال باآسانی پورے بھی نہیں کرپائیں گے۔ابھی تک توصرف پارٹی کے باہر ہی سے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں لیکن جب یہ حربہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا دکھائی نہیں دے گا تو پھر پارٹی کے اندر ہی سے کوئی نیا حامد ناصر چٹھہ اورمنظور وٹو پیدا کردیا جائے گا۔
ویسے بھی میاں صاحب کچھ کام ہی ایسے کیا کرتے ہیں جن سے غیر ملکی قوتیں ناراض اورخفا ہوجایا کرتی ہیں۔ اپنے پہلے دورِاقتدار میں اُنہوں نے موٹروے شروع کرکے وسط ایشیائی ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کا خواب دیکھا تھا جوآئین کی شق نمبر 58-B2کی تلوارچلاکرپورا نہیں کرنے دیا گیا۔ اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر ایک بار پھر وہ اپنے اِس مشن پر نئے عزم وحوصلے سے سرگرم ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے 1998ء میں امریکی صدرکلنٹن کی بھر پور مخالفت کے باوجود ایٹمی دھماکے کر ڈالے جس کے بعد اُن کا اقتدار میں رہنا تقریباً ناممکن قرار دے دیا گیا۔
اب ایک بار پھر وہ برادر ملک چین کو'' سی پیک '' کے ذریعے گوادر تک رسائی دینے کا عظیم گناہ سرزد کرنے جا رہے ہیںجس کی سزا تو اُنہیں بھگتنا ہی ہوگی۔اِس سزا کا طریقہ کارکس طرح طے پاتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔اُنہیں پانامہ کیس کے ذریعے اپنے کسی سابقہ جرم کی پاداش میں اقتدار سے بیدخل کردیا جاتا ہے یا پھر پارٹی کے اندر بغاوت کاکھیل رچا کرساری گیم ہی ختم کردی جاتی ہے۔
خان صاحب نے اُن کی اُسی خواہش کو الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا جواز بناکر''گو نواز گو '' کی ایسی مہم چلائی کہ حکومت کے خاتمے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھ چھوڑی۔الیکشن کے پروسس کے دوران ہونے والی عام بے ضابطگیوں کو منظم دھاندلی کا الزام دے کر اُنہوں نے 126دنوں تک اسلام آباد کے ڈی چوک کے دھرنے میں ایسے ایسے ثبوت پیش کیے کہ حقائق سے نابلد عام اورسادہ آدمی یقین کیے بنا نہیں رہ پائے۔لاہورکے اُردو بازار سے بیلٹ پیپرز چھپوانے سے لے کر نجم سیٹھی کے 35پنکچروں تک کیا کچھ نہیں کہا گیا جن کا حقیقتاً کوئی وجود ہی نہ تھا۔بات جب جوڈیشل کمیشن تک پہنچی تو پتا چلا کہ یہ سب کچھ سیاسی اسٹنٹ کے طور پرکیا جا رہا تھا۔
دھاندلی دھاندلی کا سارا شور کسی غیبی طاقت کے اشارے پر کیا گیا ۔شومئی قسمت کہ یہ دھرنا اور احتجاج پارلیمنٹ میں ساری جماعتوں کے اتحاد اور یکجہتی کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا اور باقی رہا سہا کام جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نے کرڈالا۔خان صاحب کے استعفے بھی واپس ہوئے اور وہ طوعاً وکرہاً پارلیمنٹ میں بھی واپس آئے ۔اِسی دوران وہ شادی کے اُس نئے بندھن میں بھی بندھ گئے جس کااشارہ اُنہوں نے دھرنے کے دنوں میں دے رکھا تھا ۔ میاں صاحب کو کچھ دنوں کے لیے سکون کا سانس نصیب ہونے لگااور وہ اپنے منشور اور ایجنڈے پر توجہ دینے لگے۔
اپریل 2016میں ایک نیا طوفان'' پانامہ لیکس '' کی شکل میں آدھمکا۔ پھرکیا تھا خان صاحب جو رشتہ ازدواج کی الجھنوں سے اب چونکہ ایک بار پھر آزاد ہوچکے تھے اِسے ایک موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے۔ گزشتہ سات آٹھ مہینوں سے وہ اس سلسلے میںاپنی بھرپور احتجاجی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میاں نواز شریف اِن سات آٹھ مہینوں میں شاید ہی کسی دن چین کی نیند سو پائے ہوں گے۔ اِن ہی مہینوں کے دوران وہ ایک دو ماہ کے لیے لندن بھی نکل کھڑے ہوئے تاکہ اپنے دل کے معاملات درست کروا پائیں۔بیرونِ ملک ہونے والی اُن کی ہارٹ سرجری کے بارے میں بھی اُن کے مخالفوں کی جانب سے کیا کچھ نہیں کہاگیااور اُسے بھی اُن کے بچوں کی آف شورکمپنیوں اورفلیٹوں کی طرح مبہم اور مشکوک بنادیا گیا۔
اب جیسے تیسے نومبرکے مہینے میں اسلام آباد بند کردینے کے عمرانی دھمکیوں سے جان چھوٹی ہے تو سپریم کورٹ میں جوابدہی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ وہ بھی سوچتے ہونگے کہ جن لوگوں کے ہاتھ کرپشن کی آمدنی میں لدے ہوئے ہیں وہ تو آج انتہائی پارسا اور نیک بنے ہوئے ہیں اور وہ خود بے چارے اُس منی لانڈرنگ کیس میں پھنسے ہوئے ہیں جو مبینہ طور پر اُن دنوں میں کی گئی جب وہ پرویز مشرف دور میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبورکردیے گئے تھے۔
اُن کی مشکل یہ ہے کہ وہ اِس الزام کی صحت سے اگر انکار نہ کریں تو اور کیا کریں۔ اپنے آپ کو منی لانڈرنگ کے الزام سے بچانے کے لیے اُنہیں وہ پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں جن کا شاید اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے اپنا سارا حساب کتاب رکھنا پڑا۔ بھٹو دور سے جلاوطنی تک ساری رام کہانی سنانی پڑی۔الزام لگانے والوں کو پھر بھی قرار نہ آیا تو قطری شہزادے کا اقرار نامہ بھی پیش کرنا پڑا۔
اب یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے سپرد ہوچکا ہے جس نے فیصلہ صرف الزامات کو دیکھتے ہوئے نہیں کرنا ہے بلکہ ثبوت وشواہد اور حقائق کی روشنی میں کرنا ہے۔ خان صاحب یہ سمجھنے میں کسی حد تک حق بجانب ہونگے کہ پیسہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر ہی گیا ہے چونکہ میاںصاحب کو اپنی جلاوطنی کے دور میں کاروبارکرنے کے لیے بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑا ہوگا اورکسی بھی کاروبار کے لیے پیسہ ہی سب سے بڑی ضرورت ہوتا ہے۔ اب یہ میاں صاحب پر منحصر ہے کہ وہ عدالت کی سامنے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہاں ہم نے یہ پیسہ پاکستان سے ہی باہر بھیجاتھا مگر یہ پیسہ جائز تھا یا پھر اُس الزام سے بچنے کے لیے وہ کچھ اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔
فیصلہ اگر اُن کے حق میں بھی آگیا تو یہ بات طے ہے کہ وہ اپنے دورِ اقتدار کے باقی ایام بھی چین و سکون سے نہیں گذارپائیں گے۔اِس کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی بھی اب تیار ہوچکی ہے۔وہ میاںصاحب کو ٹف ٹائم دینے کے لیے بالکل ایک نئی ٹیم کے ساتھ پنجاب میں متحرک اور فعال ہو چکی ہے۔اب میاں صاحب کو ایک نہیں دو مخالف قوتوں کے ساتھ زورآزمائی کرنا ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا نواز حکومت کے خلاف سرگرم ہوجانا ایک فطری اور ناگزیر عمل ہے۔یہ بات تو طے شدہ تھی کہ جوں جوں الیکشن قریب آتے جائیں گے پاکستان پیپلزپارٹی اپنا رنگ جمانے لگے گی اور اِس مقصد کے حصول کے لیے سب سے اہم کام حکومتِ وقت کے ہرکام کی اور ہر بات کی مخالفت کرنا ہے۔ ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی جب تک جارحانہ طرزِ عمل اختیار نہیں کرے گی وہ پی ٹی آئی کو دوسری بڑی سیاسی قوت بننے سے نہیں روک پائے گی۔ یہ اُس کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔اِسی لیے اُس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں کے لب و لہجے میں تلخی اور ترشی بڑھتی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اگر میاں صاحب کو پاناما کیس میں ریلیف مل بھی گیا تو پھر بھی 2017ء کا سال اُن کے لیے کوئی اتنا آسان اور سہل نہیں ہوگا۔میاں صاحب کو یہ جان لینا چاہیے کہ اُن کے ستارے آیندہ برس بھی گردش میں ہی رہیں گے۔اگر اُنہوں نے اپنے دورِ اقتدار کے باقی ایام بخیر وخوبی گذار لیے تو یہ ازخود انہونی بات ہوگی ورنہ حالات تو یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے پانچ سال باآسانی پورے بھی نہیں کرپائیں گے۔ابھی تک توصرف پارٹی کے باہر ہی سے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں لیکن جب یہ حربہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا دکھائی نہیں دے گا تو پھر پارٹی کے اندر ہی سے کوئی نیا حامد ناصر چٹھہ اورمنظور وٹو پیدا کردیا جائے گا۔
ویسے بھی میاں صاحب کچھ کام ہی ایسے کیا کرتے ہیں جن سے غیر ملکی قوتیں ناراض اورخفا ہوجایا کرتی ہیں۔ اپنے پہلے دورِاقتدار میں اُنہوں نے موٹروے شروع کرکے وسط ایشیائی ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کا خواب دیکھا تھا جوآئین کی شق نمبر 58-B2کی تلوارچلاکرپورا نہیں کرنے دیا گیا۔ اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر ایک بار پھر وہ اپنے اِس مشن پر نئے عزم وحوصلے سے سرگرم ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے 1998ء میں امریکی صدرکلنٹن کی بھر پور مخالفت کے باوجود ایٹمی دھماکے کر ڈالے جس کے بعد اُن کا اقتدار میں رہنا تقریباً ناممکن قرار دے دیا گیا۔
اب ایک بار پھر وہ برادر ملک چین کو'' سی پیک '' کے ذریعے گوادر تک رسائی دینے کا عظیم گناہ سرزد کرنے جا رہے ہیںجس کی سزا تو اُنہیں بھگتنا ہی ہوگی۔اِس سزا کا طریقہ کارکس طرح طے پاتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔اُنہیں پانامہ کیس کے ذریعے اپنے کسی سابقہ جرم کی پاداش میں اقتدار سے بیدخل کردیا جاتا ہے یا پھر پارٹی کے اندر بغاوت کاکھیل رچا کرساری گیم ہی ختم کردی جاتی ہے۔