’’قائد اعظم حکومت پر تنقید کرتے وقت قانون نہ توڑتے تھے‘‘

قائد اعظم پر حملے کی خبر سن کر جی ایم سید بے ہوش ہوگئے، خودکشی کرنے لگے


Press Release July 26, 2012
قائد اعظم پر حملے کی خبر سن کر جی ایم سید بے ہوش ہوگئے، خودکشی کرنے لگے فوٹو فائل

26جولائی 1943ء کو ایک خاکسار رفیق صابرمزنگوی نے جب قائداعظم پر قاتلانہ حملہ کیا اور یہ خبر سندھ اسمبلی میں پہنچی تو جی ایم سید بے ہوش ہو گئے۔ پانی ڈال کے انھیں ہوش میں لایا گیا۔ بول نہیں سکتے تھے۔ آ.....آ.....آ کر رہے تھے۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ بمبئی محترمہ فاطمہ جناح کو فون کر کے صحیح صورت حال معلوم کی گئی۔

ایک گھنٹے کے بعد اسمبلی دوبارہ بیٹھی تو وزیراعظم سندھ اللہ بخش سومرو نے کہا: آپ لوگوں کو مبارک ہو۔ قائداعظم بالکل سلامت ہیں۔ اتنی جی ایم سید کی قائداعظم کے ساتھ عقیدت تھی۔ بے انتہا عقیدت تھی۔ یہ انکشاف سندھ اسمبلی کے دیرینہ رکن غلام مصطفی بھُرگری نے ایڈیٹر ماہنامہ آتش فشاں منیر احمد منیر کے ساتھ اس انٹر ویو میں کیا ہے جو قائداعظم کے ساتھ ذاتی یادداشتوں کے حوالے سے اردو میں شائع ہونیوالی کتاب ''دی گریٹ لیڈر'' کی دوسری جلد میں شائع ہو ا ہے۔

اس کتاب میں ایک دوسرے سندھی لیڈر، قومی سیاستدان اور قائداعظم کے قریبی ساتھی آغا غلام نبی پٹھان نے جی ایم سید کی قائداعظم کے ساتھ عقیدت کے حوالے سے اپنے انٹرویو میں کہا ہے: قائداعظم جی ایم سید کی بہت عزت کرتے تھے۔ اور جی ایم سید قائداعظم کی بہت عزت کرتا تھا۔

جی ایم سید وہ ہیں، جب بمبے میں قائداعظم پر ایک خاکسار نے قاتلانہ حملہ کیا تو یہاں ہمیں خبر یہ ملی کہ قائداعظم اس حملے میں انتقال کر گئے ہیں تو جی ایم سید اسمبلی کی بلڈنگ سے چھلانگ مار کر خودکشی کرنے لگے تھے کہ ایک اور ممبر اسمبلی سید خیر شاہ نے انہیں شلوار سے پکڑ کے بٹھا لیا کہ جب تک پورا پتہ نہ لگے آپ خاموش رہیں۔ پھر اطلاع آئی کہ قائداعظم کو تھوڑا سا زخم آیا تھا۔ اس پر پٹی وٹی لگا دی تھی۔

''دی گریٹ لیڈر'' (اردو) جلد دوم میں بھی قائداعظم کے 23 ساتھیوں کے قائداعظم کے حوالے سے چشم دید واقعات اور یادداشتوں پر مبنی انٹرویوز دیئے گئے ہیں، جو ایڈیٹر آتش فشاں منیر احمد منیر نے ملک بھر میں گھوم کر کیے اور جسے ماہنامہ آتش فشاں 78 ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور نے شائع کیا ہے۔ خاموش اور بعد ازاں ٹاکی فلموں کے ویلن ایم ظہور نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ وہ اخبار میں اشتہار پڑھ کر قائداعظم سے ان کی کار خریدنے گئے۔ سودا محض اس لئے نہ ہو سکا کہ قائداعظم اپنی گاڑی کا نمبر 786 سرینڈر کرنے کیلیے تیار نہ تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں