کراچی میں تھیٹر کی تباہی کا ذمے دار کون

کراچی میں کوشش کے باوجود تھیٹر فعال نہ ہوسکا۔ معیاری ڈراموں کی پیش کش کے باجود لوگ تھیٹر کی طرف واپس نہ آسکے۔

کراچی کے عوام نے غیر معیاری تھیٹر کو مسترد کردیا۔ فوٹو : فائل

پاکستانی عوام بالخصوص کراچی کے لوگوں کو تفریح سے محروم کرنے کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں، اس بارے میں کسی نے بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔

پاکستانی فلمیں ایک طویل عرصہ سے عوام کا اعتماد کھو چکی ہیں۔ کراچی کے سنیمائوں میں بھارتی فلمیں تو دکھائی جارہی ہیں لیکن پاکستانی فلمیں اب ان کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ کراچی میں گزشتہ چند سالوں سے سنیمائوں کی تعداد میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے اور لوگ تفریح کی غرض سے سنیمائوں کی طرف متوجہ ہورہے ہیں لیکن وہ سنیمائوں میں اپنی ثقافت اور کلچر دیکھنا چاہتے ہیں جو انہیں دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ ایک دور تھا جب کراچی میں اسٹیج ڈراموں نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ لوگوں نے وی سی آر پر بھارتی فلموں کو مسترد کردیا۔ جب پاکستانی اسٹیج ڈرامے ریکارڈ ہوکر ویڈیو پر ریلیز ہوتے تھے تو وہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھارتی اداکار امیتابھ بچن کی فلم شہنشاہ ایک ویڈیو ڈیلر نے ریلیز کی جبکہ اسی روز عمر شریف کا ڈرامہ '' بکرا قسطوں پر'' بھی ریلیز کیا گیا۔ اس ویڈیو نے فروخت کے تمام ریکاڈ توڑ دیئے۔

فلم سے زیادہ اسٹیج ڈرامے کی فروخت نے ایک نئی روایت کا جنم دیا، پاکستانی کے سٹیج ڈراموں نے دنیا بھر میں اتنی شہرت حاصل کی کہ کراچی سٹیج کے فنکاروں کی غیر ممالک میں مانگ میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرامے کے ڈائریکٹر سید فرقان حیدر اپنے تھیٹر فنکاروں کے ہمراہ امریکا چلے گئے،کراچی کے تھیٹر کے فنکاروں کا امریکا میں شاندار استقبال ہوا اور امریکا کے تمام شہروں میں شوز بے حد کامیاب ہوئے۔

جس دور میں کراچی میںکمرشل اسٹیج ڈراموں کا آغاز ہوا اس وقت شہر میں صرف آدم جی آڈیٹوریم موجود تھا۔ اس آڈیٹوریم میں اداکار عمر شریف اور معین اختر نے پہلی مرتبہ ایک ساتھ کام کیا ، اسٹیج ڈراموں کی کراچی میں روایت لاہور کے فنکاروں نے شروع کی تھی۔ نذیر ضیغم، قوی خان ،مسعود اختر دیگر فنکاروں نے کامیاب ڈرامے کیے اس کے بعد گجراتی اور میمنی ڈراموں نے تھیٹر کو ایک نئی زندگی دی۔ کراچی میں تھیٹر کو فروغ دینے میں بلاشبہ فنکاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن تھیٹر کو انجام تک پہنچانے میں بھی فنکاروں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جس دور میں کراچی میںحالات بدترین تھے اور خونریزی ہورہی تھی تھیٹر کے فنکاروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسے زندہ رکھا۔ خاص طور سے عمر شریف کو اگر خراج تحسین پیش کیا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔


انھوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی تھیٹر کرکے ثابت کردیا کہ کہ ہم خوف کو اپنے ڈراموں سے ختم کردیں گے لیکن جوں جوں وقت نے کروٹ لی اور حالات خراب سے خراب ہوتے گئے تھیٹر بحران بڑھتا گیا۔ کراچی میں ڈر خوف اور امن امان کی صورت نے تھیٹر کو بہت نقصان پہنچایا، پھر کراچی کا ریکس آڈیٹوریم اور ریو آڈیٹوریم بھی شاپنگ پلازہ میں تبدیل ہوگئے۔ کراچی میں بہاد آباد کے سینما گھر امبر کو آڈیٹوریم میں تبدیل کردیا گیا لیکن شہر سے دور ہونے کی وجہ سے تھیٹر کی رونقیں واپس نہ آسکیں۔ تھیٹر لکھنے والوں نے لکھنا چھوڑ دیا ایک ہی ڈرامے کو نام بدل بدل کر پیش کرنے سے بھی عوام کو مایوسی ہوئی،اچھی کہانی اور کمزور پروڈکشن نے تھیٹر کی رہی سہی کسر پوری کردی، ایک دور ایسا آیا کہ فنکاروں اور پروڈیوسرز نے تھیٹر کو کامیاب بنانے کے لیے اسے میوزیکل پروگرام میں تبدیل کردیا، ڈراموں میں شہر کی رقاصائوں کو شامل کرکے غیر معیاری رقص شامل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھیٹر دیکھنے والے سنجیدہ افراد کے لیے یہ لمحہ فکریہ بن گیا۔

وہ لوگ جو تھیٹر اپنی فیملی کے ہمراہ آکر دیکھتے تھے تھیٹر سے دو ہوتے چلے گئے، اب تھیٹر اوباش افراد کی آماجگاہ بن گیا۔ تھیٹر کی فنکارائوں نے بھی اس صورتحال میں اپنے آپ کو تھیٹر سے علیحدہ کرلیا، ذو معنی جملوں نے تھیٹر کا مزاج بدل دیا، عریانیت اور فحاشی کی وجہ سے تھیٹر کا امیج بری طرح متاثر ہوا اور پھر وہ ہوا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا جو کل تک تھیٹر کے بہی خواہ تھے۔ انھوں نے خود ہی اپنا کیریئر تباہ کرلیا، سلومی،زیبا شہناز، شہزاد رضا، اور بہت سے فنکار تھیٹر کے اس ماحول سے بہت مایوس ہوئے کیونکہ انھوں نے بہت محنت اور لگن سے کام کرکے تھیٹر کو عوام کی تفریح کا بہترین ذریعہ بنایا تھا، کراچی میں پندرہ پندرہ روز تھیٹر ہوا کرتا تھا اس کی رہرسل ایک ایک ماہ ہوا کرتی تھی پھر وہ دور آیا کہ تھیٹرصرف عید اور بقر عید تک محدود ہوگیا۔ وہ بھی عمر شریف، لیاقت سولجر(مرحوم) شہزاد رضا، سکندر صنم ،رئوف لالہ،شکیل صدیقی،سلیم آفریدی،نعیمہ گرج، نائلہ رحمن اور دیگر فنکار اپنے مشن پر ڈٹے رہے ہیں لیکن ان میں چند وہ فنکار بھی تھے جو تھیٹر کی ناکامی کے ذمہ دار بھی ہیں۔

آج کراچی میں کوشش کے باوجود تھیٹر دوبارہ فعال نہ ہوسکا۔ اچھے اور معیاری ڈراموں کی پیش کش کے باجود لوگ تھیٹر کی طرف واپس نہ آسکے،اب جبکہ آرٹس کونسل کا تھیٹر آڈیٹوریم بن چکا ہے۔ سید فرقان حیدر نے اپنی بہترین کوششوں سے کراچی میں سٹی آڈیٹوریم قائم کیا،سید فرقان حیدر کی تھیٹر کے لیے خدمات قابل ستائش ہیں لیکن ان کی کوششوں پر تھیٹر سے وابستہ چند فنکاروں نے پانی پھیر دیا۔ اگر یہ فنکار تھیٹر کا معیار بہتر بنانے اور معیاری ڈرامے پیش کرنے کے لیے کام کرتے توآج کراچی کا تھیٹر کراچی کے عوام کے لیے بہترین تفریح کا ذریعہ ہوتا۔ آرٹس کونسل کراچی میں سنجیدہ تھیٹر کے لیے جو بھی کام ہوا اس کے نتائج بہت بہتر ثابت ہوئے اور آج آرٹس کونسل کراچی میں لوگ اپنی فیملی کے ہمراہ تھیٹر دیکھنے آتے ہیں۔

ملک کے معروف ادکار کمپیئر اور رائٹر انور مقصود کا ڈرامہ ''پونے 14اگست'' دو مرتبہ 15,15روز بے حد کامیابی سے پیش کیا گیا جس کا ٹکٹ15سو روپے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کے عوام اچھا اور معیاری تھیٹر دیکھنا چاہتے ہیں اسی وجہ سے انھوں نے غیر معیاری تھیٹر کو مسترد کردیا اور آج تھیٹر کے یہ سپراسٹارز اپنی کوتاہیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔کراچی میں تھیٹر اب ختم ہوچکا ہے، جس شعبہ سے فنکاروں کو شہرت ملی وہی ان کی پہنچ سے دور ہوچکا ہے۔ تھیٹر کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے یہ سوال ان لوگوں سے ہے جنھوں نے اس سے عزت دولت اور شہرت حاصل کی لیکن اپنے کام سے انصاف نہ کرسکے۔
Load Next Story