آج کی موسیقی میں ماضی جیسی مٹھاس اور معیارنہیں رہا
خیبرپختونخواہ میں صلاحیتوں کی کمی نہیں تاہم مواقع کی کمی ہے۔ پختون ایک امن پسنداورفن سے پیارکرنے والے لوگ ہیں۔
مثبت کام کے لئے جہاں محنت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اپنے کام سے محبت بھی ہر شعبے میں معیاری اور بہترین کام کی اولین ضمانت قرار دی جا سکتی ہے، شوبز کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں پرچی اور سفارش کام چلانے کے لئے تو استعمال کی جاسکتی ہے۔
تاہم کامیابی کے لئے اس شعبہ میں مہارت اور اپنے کام سے اخلاص بہت ضروری ہے، ہر شعبے کی طرح اس شعبے سے بھی بے شمار ایسے لوگ وابستہ ہیں جو صرف چل چلائو سے کام نمٹا کر وقت گزاری کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے کام میں معیار کا شائبہ تک نہیں ملتا، لیکن اسی شعبے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت ہی نہیں عشق بھی کرتے ہیں، اور یہی عشق اور جنون جب محنت اور لگن کی بھٹی میں تپ کر ان کے کام میں دکھائی دیتا ہے تو اس کو کندن قراردیا جا سکتا ہے،ایسے ہی فن کاروں میں ایک نام پشتو کے ابھرتے ہوئے نوجوان گلوکار کا بھی ہے جن کا تعلق صوابی کے زرخیز اور مردم خیز ضلع اورخصوصاًتاریخی گائوں لاہور، جسے عرب مورخین نے سلاطورا کے نام سے ذکرکیاہے اور جہاں دنیا کے پہلے گرائمرلکھنے والے سنسکرت زبان کے ماہرلسانیات،عالم اوردانشورپانینی نے بھی جنم لیا ہے جہاں اب بھی انہی کے نام سے ''پانینی ونڈ'' موجودہے۔
ہمارے یہ نوجوان گلوکارامتیازخان کوبھی اپنے علاقے میں یہ امتیازحاصل ہے کہ انہوں نے اپنی محنت اورلگن سے بہت کم عرصے میں اپنے لیے ایک امتیازی مقام حاصل کیاہے، ان کا نیا البم ''یوارمان'' کو پاکستان اورافغانستان کے پختونوں نے زبردست پذیرائی بخشی اوراسے ہاتھوں ہاتھ خریدا ۔امتیازخان کا کہنا ہے کہ فن گلوکاری میں آنے کا مقصد یہ تھا کہ کچھ بن کر فلاح وبہبود کے کاموں میں بھرپو ر حصہ لے سکوں، انہوں نے بتایا کہ آج ملک میں جوصورتحال بنی ہے ایسے حالات میں فنکاروں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اورامن کے قیام میں فنون لطیفہ اہم کرداراداکرسکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخواہ میں صلاحیتوں کی کمی نہیں تاہم مواقع کی کمی ہے۔ پختون ایک امن پسنداورفن سے پیارکرنے والے لوگ ہیں۔
امتیازخان نے کا کہناہے کہ شوبز کی دنیا میں قسمت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے لیکن باوجود اس کے جو محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے محنت کا پھل ضرور دیتا ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ فن کی دنیا میں نام اور مقام بنانا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے، تاہم اگر انسان خلوص نیت سے محنت کرے تو ضرورکامیاب ہوتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں امتیازخان سکول وکالج کی تفریحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاکرتے تھے، ابتدا میں تو ان کے والدین اورقریبی رشتہ دار ان کی مخالفت کیاکرتے تھے مگر بعد میں ان کے بھائی مرحوم وحیدخان اپنے چھوٹے بھائی امتیاز کا شوق کودیکھ کر ان کا بھرپورساتھ دیا۔ اس بارے میں امتیازخان کہتے ہیں کہ آج میں جوکچھ بھی ہوں، اس کا سہرا میرے مرحوم بھائی وحیدخان کے سرجاتا ہے۔
امتیازخان ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کی سیاسی صورتحال سے بھی اپنے آپ کوباخبررکھتے ہیں، اورسیاسی موضوعات پربحث مباحثہ بھی کرتے ہیں، وہ کئی سال برطانیہ میں بھی رہ چکے ہیں اوروہاں بے شمارپروگراموں میں اپنی سریلی آواز کا جادو جگاچکے ہیں۔ انہیں فن گائیکی میں کئی ایوارڈز بھی ملے ہیں، ماضی اورحال کی پشتو موسیقی کے بارے میں امتیازخان کا کہنا ہے کہ اگرچہ موجودہ دورکی پشتوموسیقی میں ماضی کی موسیقی جیسا معیار نظرنہیں آتا جس کی ایک وجہ مقابلے کی تیزدوڑ بھی ہے اورآج کی موسیقی میں جوشاعری اورکلچرپیش کیاجاتا ہے اس کا اصل پختون کلچرسے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ ہمارا کلچر کلاشنکوف،''خودکشہ دہماکہ یم'' جیسی شاعری اورموسیقی نہیں بلکہ امن، محبت، انسانیت اور علم سے پیار ہے اگرموجودہ موسیقی کا قبلہ درست کیاگیا تویہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گلوکاری بھی ایک طرح کا نفی ذات کانام ہے اور بعض اوقات گائیک کو شاعری اورموسیقی میں ڈوبنا پڑتا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں نئی چیزوں سے ڈرنا نہیں چاہیئے اور پھرفن کی توکوئی سرحد ہی نہیں ہوتی اگرہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے تواپنی موسیقی میں''نیاپن''لانا ہوگا، ایسا نیاپن جس سے ہماری ثقافتی اورتہذیبی روح مجروح نہ ہو، انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ غلط ہے کہ سیکنڈل بنوانے سے کسی فنکار کو شہرت مل سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ شوبز ایسا میدان ہے کہ جس میں صرف اور صرف محنت کے بل بوتے پر ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز نے بہت ترقی کر لی ہے تاہم ریڈیو اوراخبارات کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں مزید آگے بڑھے گی۔امتیازخان فن گائیکی کی جانب آنے والے نوجوانوں کو مشورہ دیتاہے کہ وہ اگر اس میدان میں نام کمانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے علم کی روشنی اورفن موسیقی کے تمام رموز واشاروں سے واقفیت ضروری ہے۔
تاہم کامیابی کے لئے اس شعبہ میں مہارت اور اپنے کام سے اخلاص بہت ضروری ہے، ہر شعبے کی طرح اس شعبے سے بھی بے شمار ایسے لوگ وابستہ ہیں جو صرف چل چلائو سے کام نمٹا کر وقت گزاری کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے کام میں معیار کا شائبہ تک نہیں ملتا، لیکن اسی شعبے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت ہی نہیں عشق بھی کرتے ہیں، اور یہی عشق اور جنون جب محنت اور لگن کی بھٹی میں تپ کر ان کے کام میں دکھائی دیتا ہے تو اس کو کندن قراردیا جا سکتا ہے،ایسے ہی فن کاروں میں ایک نام پشتو کے ابھرتے ہوئے نوجوان گلوکار کا بھی ہے جن کا تعلق صوابی کے زرخیز اور مردم خیز ضلع اورخصوصاًتاریخی گائوں لاہور، جسے عرب مورخین نے سلاطورا کے نام سے ذکرکیاہے اور جہاں دنیا کے پہلے گرائمرلکھنے والے سنسکرت زبان کے ماہرلسانیات،عالم اوردانشورپانینی نے بھی جنم لیا ہے جہاں اب بھی انہی کے نام سے ''پانینی ونڈ'' موجودہے۔
ہمارے یہ نوجوان گلوکارامتیازخان کوبھی اپنے علاقے میں یہ امتیازحاصل ہے کہ انہوں نے اپنی محنت اورلگن سے بہت کم عرصے میں اپنے لیے ایک امتیازی مقام حاصل کیاہے، ان کا نیا البم ''یوارمان'' کو پاکستان اورافغانستان کے پختونوں نے زبردست پذیرائی بخشی اوراسے ہاتھوں ہاتھ خریدا ۔امتیازخان کا کہنا ہے کہ فن گلوکاری میں آنے کا مقصد یہ تھا کہ کچھ بن کر فلاح وبہبود کے کاموں میں بھرپو ر حصہ لے سکوں، انہوں نے بتایا کہ آج ملک میں جوصورتحال بنی ہے ایسے حالات میں فنکاروں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اورامن کے قیام میں فنون لطیفہ اہم کرداراداکرسکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخواہ میں صلاحیتوں کی کمی نہیں تاہم مواقع کی کمی ہے۔ پختون ایک امن پسنداورفن سے پیارکرنے والے لوگ ہیں۔
امتیازخان نے کا کہناہے کہ شوبز کی دنیا میں قسمت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے لیکن باوجود اس کے جو محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے محنت کا پھل ضرور دیتا ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ فن کی دنیا میں نام اور مقام بنانا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے، تاہم اگر انسان خلوص نیت سے محنت کرے تو ضرورکامیاب ہوتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں امتیازخان سکول وکالج کی تفریحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاکرتے تھے، ابتدا میں تو ان کے والدین اورقریبی رشتہ دار ان کی مخالفت کیاکرتے تھے مگر بعد میں ان کے بھائی مرحوم وحیدخان اپنے چھوٹے بھائی امتیاز کا شوق کودیکھ کر ان کا بھرپورساتھ دیا۔ اس بارے میں امتیازخان کہتے ہیں کہ آج میں جوکچھ بھی ہوں، اس کا سہرا میرے مرحوم بھائی وحیدخان کے سرجاتا ہے۔
امتیازخان ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کی سیاسی صورتحال سے بھی اپنے آپ کوباخبررکھتے ہیں، اورسیاسی موضوعات پربحث مباحثہ بھی کرتے ہیں، وہ کئی سال برطانیہ میں بھی رہ چکے ہیں اوروہاں بے شمارپروگراموں میں اپنی سریلی آواز کا جادو جگاچکے ہیں۔ انہیں فن گائیکی میں کئی ایوارڈز بھی ملے ہیں، ماضی اورحال کی پشتو موسیقی کے بارے میں امتیازخان کا کہنا ہے کہ اگرچہ موجودہ دورکی پشتوموسیقی میں ماضی کی موسیقی جیسا معیار نظرنہیں آتا جس کی ایک وجہ مقابلے کی تیزدوڑ بھی ہے اورآج کی موسیقی میں جوشاعری اورکلچرپیش کیاجاتا ہے اس کا اصل پختون کلچرسے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ ہمارا کلچر کلاشنکوف،''خودکشہ دہماکہ یم'' جیسی شاعری اورموسیقی نہیں بلکہ امن، محبت، انسانیت اور علم سے پیار ہے اگرموجودہ موسیقی کا قبلہ درست کیاگیا تویہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گلوکاری بھی ایک طرح کا نفی ذات کانام ہے اور بعض اوقات گائیک کو شاعری اورموسیقی میں ڈوبنا پڑتا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں نئی چیزوں سے ڈرنا نہیں چاہیئے اور پھرفن کی توکوئی سرحد ہی نہیں ہوتی اگرہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے تواپنی موسیقی میں''نیاپن''لانا ہوگا، ایسا نیاپن جس سے ہماری ثقافتی اورتہذیبی روح مجروح نہ ہو، انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ غلط ہے کہ سیکنڈل بنوانے سے کسی فنکار کو شہرت مل سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ شوبز ایسا میدان ہے کہ جس میں صرف اور صرف محنت کے بل بوتے پر ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز نے بہت ترقی کر لی ہے تاہم ریڈیو اوراخبارات کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں مزید آگے بڑھے گی۔امتیازخان فن گائیکی کی جانب آنے والے نوجوانوں کو مشورہ دیتاہے کہ وہ اگر اس میدان میں نام کمانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے علم کی روشنی اورفن موسیقی کے تمام رموز واشاروں سے واقفیت ضروری ہے۔