بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں نئی روح پھونک دی

بلاول بھٹو نے اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے ایک کارکن کو صدر بنا دیا۔


Khalid Qayyum December 07, 2016
عمران خاں کا المیہ یہ بھی ہے کہ ان کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اور تمام تر مواقع ملنے کے باوجود تبدیلی نہیں لاسکے۔ فوٹو؛ فائل

پیپلزپارٹی نے بلاول ہاؤس لاہور میں ایک ہفتہ تک 49 ویںیوم تاسیس کے پروگرام کئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے نئی پارٹی پالیسی دی اور اپنے ٹارگٹ واضح کئے۔ پیپلزپارٹی نے طویل عرصے بعد لاہور میں بھرپور پارٹی سرگرمیاں کیں۔ پچھلے چھ سات سال سے ورکرز کو جو عزت وقار اور توجہ نہیں مل سکی وہ یوم تاسیس کے موقع پر دی گئی ہے۔

پارٹی کارکنوں کو ٹرانسپورٹ دی گئی، ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا ، اچھے کھانوں اور میوزیکل شوز کا اہتمام کیا گیا۔ بلاول بھٹو کے ساتھ کارکنوں کی ریکارڈ سلفیاں بنی ہیں جس سے ڈرائنگ روم میں کارکنوں کی اپنے قائد کے ساتھ تصویر ہوگی۔ یوم تاسیس پر ایسی مینجمنٹ کی گئی جس سے پارٹی میں دھڑے بندی بھی کم ہوگئی ہے۔ تاہم خیبر پختونخوا کے کنونشن میں کچھ دھڑے بندی نظر آئی ۔ انور سیف اللہ کے حامی بعض کارکنوں نے نظر انداز کئے جانے پر شکایات کیں۔

پنجاب میں ایک ہفے تک یوم تاسیس منانا بڑا اہم ہے اس سے یہ تاثر ختم ہوگیا ہے کہ پنجاب پیپلزپارٹی کی ترجیح نہیں ہے۔ جیالوں میںایک بار پھر جوش و خروش ہے اور وہ جدوجہد کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ بلاول بھٹونے اپنی تقریر وں میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت خصوصاً نواز شریف کو ٹارگٹ کیا۔ تاہم انھوں نے اپوزیشن اورعمران خاں کیخلاف کوئی بات نہیں کی ۔ بلاول ہاؤس پنڈال میںکسی کارکن نے ''روعمران رو ''کا نعرہ لگا دیا جس پر بلاول بھٹو نے کہا کہ میرے چچا کو تنگ نہ کریں وہ پہلے ہیرو رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پارٹی عہدوں کیلئے امیدواروں کے انٹرویو بھی کر رہے ہیں۔

ان انٹرویوز میں وہ اس بات کو بھی بڑی اہمیت دے رہے ہیں کہ کیا پارٹی عہدیدار ایشوز سے واقف ہیں، سیاسی طورپر اچھا بول سکتے ہیں اور ٹی وی چینلز پر پارٹی کا دفاع کر سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو خود کہتے ہیں کہ انھوں نے نئی تنظیمی ٹیم ٹی وی چینلز سے اٹھائی ہے۔ بلاول بھٹونے بلوچستان کے سرداروں اور پارٹی کی دیگر بااثر شخصیات کی مرضی کیخلاف پارٹی کارکن علی مدد جتک کو پیپلزپارٹی بلوچستان کا صدر بنا دیا۔ خیبرپختونخوا میں ہمایوں خاں کو صدر بنانے کی مخالفت کی گئی۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت پنجاب کی تمام قیادت اور دیگر بڑے عہدیدارفیصل کریم کنڈی کو کے پی کے کاصدر بنانا چاہتے تھے لیکن بلاول بھٹو نے اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے ایک کارکن کو صدر بنا دیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری، قمرزمان کائرہ کی صدارت پر متفق نہیں تھے یہاں بلاول بھٹونے اپنے والد کو قائل کیا اوریہ فیصلہ درست ثابت ہو رہا ہے۔

بلاول بھٹو نے صوبائی جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن اور سیکرٹری اطلاعات مصطفی نواز کھوکھر کوآخری دو دنوں کے دوران تنظیم میں شامل کرنے پرقائل کیا۔ اس وقت پارٹی تنظیموں کیلئے جوانٹرویوز ہو رہے ہیں اس میں بھی بلاول بھٹو اپنی اتھارٹی استعمال کر رہے ہیں اور تمام عہدوں پر اپنے تیار کردہ میرٹ پر لوگوں کو عہدے دے رہے ہیں۔ ان کے پاس زیادہ تر امیدواروں کی ماضی میں پیپلزپارٹی کیلئے خدمات اور پیپلزپارٹی کے خلاف کئے گئے اقدامات کی فہرست بھی موجود ہے۔ اس میں انھوں نے امیدواروں سے یہاں تک پوچھا کہ آپ نے ماضی میں پارٹی چھوڑ دی تو اب آپ پارٹی کا عہدہ کیوں لے رہے ہیں۔

کیا آپ بطور صدرضلعی سطح پر پارٹی سیکرٹریٹ بنائیں گے؟ کیا آپ پارٹی گراس روٹ لیول پر منظم کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں؟لوگوں کے پاس جانے کا آپ کے پاس کیا پروگرام ہے؟ ناراض کا رکنوں کو کیسے منائیں گے؟ وہ انفارمیشن سیکرٹری کے امیدوار سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے کبھی کو ئی آرٹیکل لکھاہے؟ پریس کلب کے ساتھ رابطے ہیںاور کوئی آئیڈیا ہے کہ انفارمیشن کوکس طرح چلاسکتے ہیں؟ وہ نئے تقاضوں کے مطابق پرانے اور نئے لوگوں میں ہم آہنگی چاہتے ہیں۔

سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پہلی بار پاکستان کی سیاست کے اہم مرکز لاہور میںپیپلزپارٹی بھرپور طریقے سے نظر آئی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو وسطی اور جنوبی پنجاب کی تنظیم میں صاف ستھر ے چہرے سامنے لے کر آئے ہیں جس سے واضح ہوگیا ہے کہ بلاول بھٹو، نواز شریف کے گڑھ کو توڑنا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی نئی تنظیم میں ایسے چہرے ہیں جنھوں نے بدترین حالات میں بھی اپنے علاقے میں خود کوسیاسی طور پر زندہ رکھا اور بلدیاتی الیکشن میں بھی بہتر نتائج حاصل کئے۔

مخدوم احمد محمود نے تمام حکومتی ہتھکنڈوں اور انتظامیہ کی مداخلت کے باوجود پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر ضلع کونسل رحیم یار خاں میں کامیابی حاصل کی جبکہ کائرہ خاندان، ندیم افضل چن، مصطفی نواز کھوکھر نے لالہ موسیٰ، سرگودھا اور اسلام آباد کے اپنے علاقوںمیں اچھے بلدیاتی نتائج حاصل کئے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی کی سیاست پیچھے چل گئی تھی اور اس علاقے میں عمران خاں دوسرے نمبر پر آگئے۔

اب عمران خاں اور ان کے ساتھیوں کے طرز سیاست سے تحریک انصاف کا کا رکن مایوس ہے اور جو لوگ پیپلزپارٹی کی مفاہمتی پالیسی کے باعث پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے وہ بلاول بھٹو کی اینٹی نواز پالیٹکس کے باعث دوبارہ پیپلزپارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ 2008ء کے بعد پیپلزپارٹی کا اس طرح نظر آنا حیران کن عنصر ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ بلاول بھٹو کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عمران خاں کا گراف نیچے گیا ہے۔

عمران خاں کا المیہ یہ بھی ہے کہ ان کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اور تمام تر مواقع ملنے کے باوجود تبدیلی نہیں لاسکے۔ اس سے نوجوان طبقہ ان سے تھوڑا پیچھے ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب نوجوان بلاول بھٹو کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ وہ 27، 28 سال کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ یوم تاسیس پروسطی اور جنوبی پنجاب نے اچھے شوکئے۔ اس دوران ''گونواز گو'' سب سے مقبول نعرہ رہا۔ بلاول بھٹو وزیرا عظم کی ریس میں شامل ہوگئے ہیں۔ اب بلاول بھٹو نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ 2018 ء میں وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔

پیپلزپارٹی کی سینئر رہنمافریال تالپور، بختاور بھٹواور آصفہ بھٹوبھی یوم تاسیس کی تقریبات میں شریک ہوئیں۔ آصفہ بھٹو وہیل چیئر پر شرکت کیلئے آتی رہیں۔ فریال تالپور، بختاور اور آصفہ کے ہمراہ جنوبی پنجاب کے ورکرز کنونشن میں شرکت کیلئے آئیں توپنڈال میں شریک ہزاروں کارکنوں نے کھڑے ہوکر ان کا شاندار استقبال کیا۔ اس دوران ایک سرائیکی لوک فنکار نے جوکلام پیش کیا اس میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ذکر آیا تو فریال تالپورکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

فریال تالپور زیادہ وقت آصفہ بھٹو کے ساتھ گزارتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ پارٹی امیدواروں کے انٹرویوز کیلئے بلاول بھٹو کے ساتھ اجلاس میں بھی شریک ہوتی ہیں۔فریال تالپور پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کی وفات پر تعزیت کیلئے ان کی رہائش گاہ پر بھی گئیں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ فریال تالپورنے کہا کہ جہانگیربدر پیپلزپارٹی کے بہت بڑے جیالے تھے۔ جہانگیر بدر کی وفات سے پیپلزپارٹی کو بہت نقصان پہنچاہے۔بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر پورے پاکستان میں ورکرز کو متحرک کر دیا ہے۔ اب وہ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پراپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں