اسحاق ڈار آپشن
حکومت کی خواہش ہے اسحاق ڈار حکومت سنبھالیں‘ یہ معیشت کو سنبھالا دیں اور اس کے بعد الیکشن کرا دیے جائیں۔
آج سے دو ہفتے قبل میں لاہور سے اسلام آباد آ رہا تھا' جہاز میں ڈاکٹر عبدالقدیر ہم سفر تھے' ڈاکٹر صاحب نے راستے میں یورپ کی یادیں تازہ کرنا شروع کر دیں' انھوں نے اپنے ہالینڈ کے اس قیام کا ذکر کیا جب یہ طالب علم تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہالینڈ کی زندگی کو بھی انجوائے کر رہے تھے' انھوں نے اپنے برلن کے قیام کی باتیں بھی دہرائیں' انھوں نے بتایا یہ مغربی برلن میں رہ رہے تھے' یہ اور ان کی اہلیہ شام کے وقت دریا کے کنارے واک کرتے تھے' یہ دیوار برلن کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دور نکل جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے زمانے میں غیر ملکی طالب علم ویزے کے بغیر مشرقی برلن جا سکتے تھے' یہ ''ویک اینڈ'' پر مشرقی جرمنی چلے جاتے تھے' اس دور میں مشرقی جرمنی بے انتہا پسماندہ تھا' سردی میں عمارتیں گرم رکھنے تک کی سہولت نہیں تھی' مشرقی جرمنی کی ٹرینیں' بسیں اور سڑکیں بھی خراب تھیں جب کہ اس کے مقابلے میں مغربی جرمنی اور مغربی برلن تیزی سے ترقی کر رہا تھا' ڈاکٹر صاحب ہر ہفتے 'دس دن بعد شہر کے دونوں حصوں کا مشاہدہ کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے دوران یورپ کی کرسمس کا ذکر چھیڑ دیا' ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا آپ اگر اصل یورپ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو کرسمس کے دنوں میں یورپ جانا چاہیے' آپ فرینکفرٹ جائیں' برسلز' ایمسٹرڈیم اور پیرس جائیں' آپ لندن دیکھیں' آپ کو ایک نیا یورپ ملے گا۔اس گفتگو کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا ''آپ کبھی کرسمس یا نیو ایئر پر یورپ گئے ہیں'' میں نے عرض کیا ''میں گرمی کا جانور ہوں' میں سردی اور برف میں ایزی فیل نہیں کرتا'' ڈاکٹر صاحب نے قہقہہ لگایا اور حکم دیا ''آپ کو یورپ کی کرسمس اور نیو ایئر نائٹ ضرور دیکھنی چاہیے' یہ لائف ٹائم تجربہ ہے'' ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ''آپ کرسمس کی تقریبات اور اہتمام سے یورپی اقوام کے دل میں موجود مذہب کی محبت کا انداز کر سکتے ہیں' آپ دیکھیں گے یہ لوگ کس طرح پورے پورے شہر کو سجا دیتے ہیں' کرسمس ٹری پر چھوٹے بچوں کے لیے تحفے کیسے لٹکا دیتے ہیں' سانتاکلاز کا سوانگ کیسے بھرا جاتا ہے اور یہ لوگ کرسمس کی شام کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور پورا خاندان مل کر کھانا کھاتا ہے۔ آپ کرسمس پر یورپ کی سیل بھی دیکھیں' یہ لوگ کس طرح اپنی اشیاء کے نرخ کم کر دیتے ہیں تا کہ غریب سے غریب شخص بھی اچھی کرسمس منا سکے'' ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ''آپ نیوایئر نائٹ بھی دیکھیے' آپ دیکھیے یہ لوگ کس طرح ٹوٹ کر نئے سال کا استقبال کرتے ہیں''۔
مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کی تجویز اچھی لگی' میں واقعی سردی میں کبھی یورپ نہیں آیا چنانچہ میں نے کرسمس اور نیوایئر کی تقریبات دیکھنے کے لیے یورپ جانے کا فیصلہ کر لیا' چوہدری عبدالمجید میرے دوست اور کزن ہیں' ہم انھیں مجید بھائی کہتے ہیں' یہ مجھ سے بارہ' تیرہ سال بڑے ہیں' اسلام آباد میں کاروبار کرتے ہیں اور نیک انسان ہیں' میں نے انھیں بھی تیار کر لیا' یہ بھی روتے دھوتے میرے ساتھ تیار ہو گئے اور یوں ہم جمعہ کی شام فرینکفرٹ آ گئے' فرینکفرٹ میں ٹھنڈ ہے لیکن شہر کرسمس کی تیاریوں میں جتا ہوا ہے' گھروں کے صحنوں' دروازوں کے باہر' گلیوں' بازاروں' دکانوں کے شوکیسز' شاپنگ سینٹرز' ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کرسمس ٹری بنے ہوئے ہیں اور ان پر بچوں کے لیے گفٹ بھی لٹک رہے ہیں' سانتاکلاز بھی گلیوں' بازاروں اور محلوں میں گھوم رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے اس کی ٹانگوں' اس کے بازوئوں کے ساتھ جھول رہے ہیں' لوگ شام کے وقت کرسمس کی شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں اور بازاروں میں کھوے سے کھوا جھلتا ہے' لوگ ریستورانوں' کلبوں اور بارز میں بھی خوش ہیں اور ان کے قہقہے دور دور تک سنائی دیتے ہیں' یورپ بالخصوص فرینکفرٹ کو سردی میں دیکھنے کا واقعی اپنا مزہ ہے کیونکہ آپ جب بات کرنے کے لیے منہ کھولتے ہیں تو لفظوں سے پہلے آپ کے منہ سے بھاپ نکلتی ہے اور یہ بھاپ بات ختم ہونے کے بعد بھی دیر تک فضا میں رہتی ہے ۔کرسمس اور نیو ایئر کا سفر ابھی شروع ہوا ہے' میں آپ کو اس سفر کے مشاہدات ساتھ ساتھ بتاتا جائوں گا' ہم ان مشاہدات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
یورپ بعض معاملات میں ہم سے بہت آگے ہے اور ہم اگر معاشی' سماجی اور اخلاقی لحاظ سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان تجربات میں خوشی' تقریبات' حوصلہ' برداشت اور دوسروں کی رائے کا احترام مرکزی حیثیت رکھتا ہے' میں نے جرمنی آنے سے قبل اپنے فیس بک پر اس سفر کا ذکر کیا تو حسب روایت مہربان دوستوں نے گالی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا' میرے قریبی دوست میری اس عادت کے خلاف ہیں' ان کا مشورہ ہے مجھے ایسے تمام سفر اور اپنے ذاتی شوق خفیہ رکھنے چاہئیں' میں ان سے پوچھتا ہوں ''کیوں؟'' اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں ہمارے لوگ ذہنی لحاظ سے پختہ نہیں ہیں' یہ سفر کو عیاشی سمجھتے ہیں' ان کی نظر میں خوشی گناہ ہے اور یہ سمجھتے ہیں انسان کو اپنی خوشی' اپنے شوق اور سفر پر پیسہ برباد نہیں کرنا چاہیے' میں ان سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں ''میں جس دن لوگوں کے خوف' مخالفت یا گالیوں کی وجہ سے اپنے معاملات چھپائوں گا مجھے اس دن صحافت چھوڑ دینی چاہیے' صحافی یا لکھاری کی ذمے داری ہوتی ہے، یہ عوام کو اپنے مشاہدات میں شامل رکھے اور میں اگر خوف کی وجہ سے اس ذمے داری سے بچنے کی کوشش کروں گا تو یہ اس پروفیشن سے غداری ہو گی'' دنیا دیکھنا' سفر کرنا صرف شوق نہیں' یہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے' اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے وہاں دنیا کی سیر کرنے کی ہدایت بھی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس ہدایت پر عمل غلط نہیں ہو سکتا' یقین کیجیے میں نے سفر کے ذریعے آج تک جو کچھ سیکھا یہ شاید میں ایسی چار زندگیوں اور دو لاکھ کتابوں سے بھی نہ سیکھ سکتا' آپ کو بھی سفر کرنا چاہیے' آپ اگر ملک سے باہر نہیں جا سکتے تو آپ ملک کے اندر گھوم سکتے ہیں' یہ سفر آپ کا وژن' آپ کی تخلیقی طاقت' کام کرنے کی استطاعت اور برداشت میں اضافہ کرے گا' آپ زیادہ بہتر زندگی گزار سکیں گے۔
میں جب پاکستان سے آ رہا تھا تو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی بڑی شدت کے ساتھ سینیٹر اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی کوشش کر رہی تھی' حکومت کے بعض سینئر وزراء اپنی نجی محفلوں میں کہہ رہے تھے ہماری طرف سے ایک ہی امیدوار ہو گا اور یہ امیدوار اسحاق ڈار ہوں گے' یہ اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنانے کی چوتھی کوشش ہے' پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک ریاض کے ذریعے جنوری2010ء میں میاں نواز شریف کو پیغام پہنچایا تھا، ہم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کر دیتے ہیں' آپ اسحاق ڈار کو ایم این اے منتخب کرا کر وزیراعظم بنا لیں' ہم انھیں ووٹ دے دیں گے لیکن میاں صاحب اور چوہدری نثار نہیں مانے' 27جون 2011ء کو جب ایم کیو ایم حکومت سے نکلی اور یہ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ گئی تو ایم کیو ایم نے بھی اسحاق ڈار سے رابطہ کیا' یہ اسحاق ڈار کو کراچی سے ایم این اے کی سیٹ تک دینے کے لیے تیار تھی لیکن ڈار صاحب نے انکار کر دیا۔2مارچ 2012 ء کو سینیٹ کے الیکشن سے قبل ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا' دو جنرل اسحاق ڈار سے ملے مگر ڈار صاحب اور میاں صاحب راضی نہیں ہوئے اور چوتھی بار پاکستان پیپلزپارٹی انھیں نگران وزیراعظم بنانا چاہتی ہے' حکومت کو اس معاملے میں بیرونی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے کیونکہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت کو قرضے کی قسط جاری کرنے کے لیے تیار نہیں اور ملک اس قسط کے بغیر مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے گا تا ہم آئی ایم ایف اور دوسرے ڈونرز اسحاق ڈار پر اعتماد کے لیے تیار ہیں' حکومت کی خواہش ہے اسحاق ڈار حکومت سنبھالیں' یہ معیشت کو سنبھالا دیں اور اس کے بعد الیکشن کرا دیے جائیں' معیشت کی بحالی میں اگر الیکشن سال' چھ مہینے کے لیے موخر بھی کرنا پڑتے ہیں تو کر دیے جائیں' یہ منصوبہ اس وقت اسلام آباد میں گردش کر رہا ہے تاہم جب تک میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار اس کی منظوری نہیں دیتے، یہ اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکے گا' پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک بڑے لیڈر اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں' یہ صاحب اسحاق ڈار کی جگہ لینا چاہتے ہیں چنانچہ یہ راضی نہیں ہیں' میاں صاحبان اور حکومت کو انھیں بھی راضی کرنا ہوگاجو اس وقت بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔یہ آپشن قابل عمل ہے یا نہیں مگر یہ آپشن ہے اچھا کیونکہ اس سے سیاست بھی بچ جائے گی' جمہوریت بھی اور ملک بھی ورنہ دوسری صورت میں اگلے الیکشن ملک کو مزید تباہی تک لے جائیں گے۔ میاں صاحبان اور صدر زرداری کو اس نازک وقت میں ایک بڑا فیصلہ کرنا ہوگا اور اسحاق ڈار آپشن اچھا اور بڑا فیصلہ ہے کیونکہ ان پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا' یہ تمام پارٹیوں میں مقبول ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے دوران یورپ کی کرسمس کا ذکر چھیڑ دیا' ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا آپ اگر اصل یورپ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو کرسمس کے دنوں میں یورپ جانا چاہیے' آپ فرینکفرٹ جائیں' برسلز' ایمسٹرڈیم اور پیرس جائیں' آپ لندن دیکھیں' آپ کو ایک نیا یورپ ملے گا۔اس گفتگو کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا ''آپ کبھی کرسمس یا نیو ایئر پر یورپ گئے ہیں'' میں نے عرض کیا ''میں گرمی کا جانور ہوں' میں سردی اور برف میں ایزی فیل نہیں کرتا'' ڈاکٹر صاحب نے قہقہہ لگایا اور حکم دیا ''آپ کو یورپ کی کرسمس اور نیو ایئر نائٹ ضرور دیکھنی چاہیے' یہ لائف ٹائم تجربہ ہے'' ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ''آپ کرسمس کی تقریبات اور اہتمام سے یورپی اقوام کے دل میں موجود مذہب کی محبت کا انداز کر سکتے ہیں' آپ دیکھیں گے یہ لوگ کس طرح پورے پورے شہر کو سجا دیتے ہیں' کرسمس ٹری پر چھوٹے بچوں کے لیے تحفے کیسے لٹکا دیتے ہیں' سانتاکلاز کا سوانگ کیسے بھرا جاتا ہے اور یہ لوگ کرسمس کی شام کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور پورا خاندان مل کر کھانا کھاتا ہے۔ آپ کرسمس پر یورپ کی سیل بھی دیکھیں' یہ لوگ کس طرح اپنی اشیاء کے نرخ کم کر دیتے ہیں تا کہ غریب سے غریب شخص بھی اچھی کرسمس منا سکے'' ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ''آپ نیوایئر نائٹ بھی دیکھیے' آپ دیکھیے یہ لوگ کس طرح ٹوٹ کر نئے سال کا استقبال کرتے ہیں''۔
مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کی تجویز اچھی لگی' میں واقعی سردی میں کبھی یورپ نہیں آیا چنانچہ میں نے کرسمس اور نیوایئر کی تقریبات دیکھنے کے لیے یورپ جانے کا فیصلہ کر لیا' چوہدری عبدالمجید میرے دوست اور کزن ہیں' ہم انھیں مجید بھائی کہتے ہیں' یہ مجھ سے بارہ' تیرہ سال بڑے ہیں' اسلام آباد میں کاروبار کرتے ہیں اور نیک انسان ہیں' میں نے انھیں بھی تیار کر لیا' یہ بھی روتے دھوتے میرے ساتھ تیار ہو گئے اور یوں ہم جمعہ کی شام فرینکفرٹ آ گئے' فرینکفرٹ میں ٹھنڈ ہے لیکن شہر کرسمس کی تیاریوں میں جتا ہوا ہے' گھروں کے صحنوں' دروازوں کے باہر' گلیوں' بازاروں' دکانوں کے شوکیسز' شاپنگ سینٹرز' ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کرسمس ٹری بنے ہوئے ہیں اور ان پر بچوں کے لیے گفٹ بھی لٹک رہے ہیں' سانتاکلاز بھی گلیوں' بازاروں اور محلوں میں گھوم رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے اس کی ٹانگوں' اس کے بازوئوں کے ساتھ جھول رہے ہیں' لوگ شام کے وقت کرسمس کی شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں اور بازاروں میں کھوے سے کھوا جھلتا ہے' لوگ ریستورانوں' کلبوں اور بارز میں بھی خوش ہیں اور ان کے قہقہے دور دور تک سنائی دیتے ہیں' یورپ بالخصوص فرینکفرٹ کو سردی میں دیکھنے کا واقعی اپنا مزہ ہے کیونکہ آپ جب بات کرنے کے لیے منہ کھولتے ہیں تو لفظوں سے پہلے آپ کے منہ سے بھاپ نکلتی ہے اور یہ بھاپ بات ختم ہونے کے بعد بھی دیر تک فضا میں رہتی ہے ۔کرسمس اور نیو ایئر کا سفر ابھی شروع ہوا ہے' میں آپ کو اس سفر کے مشاہدات ساتھ ساتھ بتاتا جائوں گا' ہم ان مشاہدات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
یورپ بعض معاملات میں ہم سے بہت آگے ہے اور ہم اگر معاشی' سماجی اور اخلاقی لحاظ سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان تجربات میں خوشی' تقریبات' حوصلہ' برداشت اور دوسروں کی رائے کا احترام مرکزی حیثیت رکھتا ہے' میں نے جرمنی آنے سے قبل اپنے فیس بک پر اس سفر کا ذکر کیا تو حسب روایت مہربان دوستوں نے گالی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا' میرے قریبی دوست میری اس عادت کے خلاف ہیں' ان کا مشورہ ہے مجھے ایسے تمام سفر اور اپنے ذاتی شوق خفیہ رکھنے چاہئیں' میں ان سے پوچھتا ہوں ''کیوں؟'' اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں ہمارے لوگ ذہنی لحاظ سے پختہ نہیں ہیں' یہ سفر کو عیاشی سمجھتے ہیں' ان کی نظر میں خوشی گناہ ہے اور یہ سمجھتے ہیں انسان کو اپنی خوشی' اپنے شوق اور سفر پر پیسہ برباد نہیں کرنا چاہیے' میں ان سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں ''میں جس دن لوگوں کے خوف' مخالفت یا گالیوں کی وجہ سے اپنے معاملات چھپائوں گا مجھے اس دن صحافت چھوڑ دینی چاہیے' صحافی یا لکھاری کی ذمے داری ہوتی ہے، یہ عوام کو اپنے مشاہدات میں شامل رکھے اور میں اگر خوف کی وجہ سے اس ذمے داری سے بچنے کی کوشش کروں گا تو یہ اس پروفیشن سے غداری ہو گی'' دنیا دیکھنا' سفر کرنا صرف شوق نہیں' یہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے' اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے وہاں دنیا کی سیر کرنے کی ہدایت بھی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس ہدایت پر عمل غلط نہیں ہو سکتا' یقین کیجیے میں نے سفر کے ذریعے آج تک جو کچھ سیکھا یہ شاید میں ایسی چار زندگیوں اور دو لاکھ کتابوں سے بھی نہ سیکھ سکتا' آپ کو بھی سفر کرنا چاہیے' آپ اگر ملک سے باہر نہیں جا سکتے تو آپ ملک کے اندر گھوم سکتے ہیں' یہ سفر آپ کا وژن' آپ کی تخلیقی طاقت' کام کرنے کی استطاعت اور برداشت میں اضافہ کرے گا' آپ زیادہ بہتر زندگی گزار سکیں گے۔
میں جب پاکستان سے آ رہا تھا تو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی بڑی شدت کے ساتھ سینیٹر اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی کوشش کر رہی تھی' حکومت کے بعض سینئر وزراء اپنی نجی محفلوں میں کہہ رہے تھے ہماری طرف سے ایک ہی امیدوار ہو گا اور یہ امیدوار اسحاق ڈار ہوں گے' یہ اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنانے کی چوتھی کوشش ہے' پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک ریاض کے ذریعے جنوری2010ء میں میاں نواز شریف کو پیغام پہنچایا تھا، ہم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کر دیتے ہیں' آپ اسحاق ڈار کو ایم این اے منتخب کرا کر وزیراعظم بنا لیں' ہم انھیں ووٹ دے دیں گے لیکن میاں صاحب اور چوہدری نثار نہیں مانے' 27جون 2011ء کو جب ایم کیو ایم حکومت سے نکلی اور یہ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ گئی تو ایم کیو ایم نے بھی اسحاق ڈار سے رابطہ کیا' یہ اسحاق ڈار کو کراچی سے ایم این اے کی سیٹ تک دینے کے لیے تیار تھی لیکن ڈار صاحب نے انکار کر دیا۔2مارچ 2012 ء کو سینیٹ کے الیکشن سے قبل ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا' دو جنرل اسحاق ڈار سے ملے مگر ڈار صاحب اور میاں صاحب راضی نہیں ہوئے اور چوتھی بار پاکستان پیپلزپارٹی انھیں نگران وزیراعظم بنانا چاہتی ہے' حکومت کو اس معاملے میں بیرونی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے کیونکہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت کو قرضے کی قسط جاری کرنے کے لیے تیار نہیں اور ملک اس قسط کے بغیر مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے گا تا ہم آئی ایم ایف اور دوسرے ڈونرز اسحاق ڈار پر اعتماد کے لیے تیار ہیں' حکومت کی خواہش ہے اسحاق ڈار حکومت سنبھالیں' یہ معیشت کو سنبھالا دیں اور اس کے بعد الیکشن کرا دیے جائیں' معیشت کی بحالی میں اگر الیکشن سال' چھ مہینے کے لیے موخر بھی کرنا پڑتے ہیں تو کر دیے جائیں' یہ منصوبہ اس وقت اسلام آباد میں گردش کر رہا ہے تاہم جب تک میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار اس کی منظوری نہیں دیتے، یہ اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکے گا' پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک بڑے لیڈر اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں' یہ صاحب اسحاق ڈار کی جگہ لینا چاہتے ہیں چنانچہ یہ راضی نہیں ہیں' میاں صاحبان اور حکومت کو انھیں بھی راضی کرنا ہوگاجو اس وقت بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔یہ آپشن قابل عمل ہے یا نہیں مگر یہ آپشن ہے اچھا کیونکہ اس سے سیاست بھی بچ جائے گی' جمہوریت بھی اور ملک بھی ورنہ دوسری صورت میں اگلے الیکشن ملک کو مزید تباہی تک لے جائیں گے۔ میاں صاحبان اور صدر زرداری کو اس نازک وقت میں ایک بڑا فیصلہ کرنا ہوگا اور اسحاق ڈار آپشن اچھا اور بڑا فیصلہ ہے کیونکہ ان پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا' یہ تمام پارٹیوں میں مقبول ہیں۔