ساری شرارت خرگوش کی تھی

دیکھا جائے تو قیامت کا شوشہ سب سے پہلے خرگوش نے چھوڑا تھا۔


Zahida Hina December 22, 2012
[email protected]

آج 23 دسمبر 2012ء ہے۔ دنیا کے ختم ہونے کی جو پیش گوئیاں ہو رہی تھیں، وہ امکانی لمحہ48 گھنٹوں پہلے خیریت سے گزر گیا۔ دنیا اپنے مدار پر گھوم رہی ہے اور ان تمام لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے جن کا خیال تھا کہ 21 دسمبر کے بعد وہ کسی سورج کو طلوع ہوتے نہیں دیکھ سکیں گے۔ دنیا بھر میں مہینوں اور ہفتوں سے ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔

وہ لوگ جو مایا اور سمیری کیلنڈر پر یقین کیے بیٹھے تھے، انھوں نے کھانے پینے کا خشک سامان خریدنا شروع کر دیا تھا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ قیامت آئے اور وہ بچ جائیں۔ کچھ تو انتظام کھانے پینے اور کپڑے لتے کا کر لیا جائے۔ پستہ، بادام، بھنے ہوئے کاجو اور چنے کی تھیلی کے ساتھ گڑ بھی رکھ لیا جائے تو کیا اچھا ہو۔ بہت سے لوگوںنے میکسیکو کے اس علاقے کا رخ کیا جہاں مایا تہذیب کے کھنڈر پائے جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو زیادہ سمجھدار تھے انھوں نے فرانس کے ایک چھوٹے سے دیہات Bugarach بوگا راش کے لیے رخت سفر باندھا۔

یہ وہ جگہ تھی جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ آنے والی قیامت سے محفوظ رہ سکے گا۔ بوگا راش کے میئر کی پریشانی کا عالم نہ پوچھیے۔ بہت سارے صحافیوں اور ٹیلی ویژن کیمروں کا رخ اس کے قصبے کی طرف تھا۔ اس نے آنے والوں پر کئی پابندیاں لگائیں لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ بات اس کے کام آئی کہ لوگ اب بہت ذہین ہو گئے ہیں۔ کچھ نے تو قیامت کی آمد پر کان نہیں دھرے اور زیادہ ترکا خیال تھا کہ اگر قیامت آ ہی گئی تو کیا فرق پڑتا ہے۔

اس افراتفری میں کچھ لوگوں نے روزے، نمازیں شروع کر دیں، کوئی چرچ کی طرف دوڑا۔ کسی نے مسجد اور مندر کا رخ کیا اور کوئی گھر میں ہی مصلیٰ بچھا کر بیٹھ گیا۔ سمجھدار وہ لوگ رہے جنہوں نے خشک سامان کے پیکٹ بنا کر بیچنا شروع کر دیے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر دنیا بچ گئی تو منافع کام آئے گا اور اگر قیامت واقعی آ گئی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سب سے دور کی کوڑی ہانگ کانگ کے 'اکوا ریسٹورنٹ' کا مالک لایا۔ اس نے قیامت سے پہلے کے ڈنر کا اعلان کر دیا۔ جسے چھ کورس کے خوش ذائقہ آخری ڈنر سے لطف اندوز ہونا ہو ، وہ فوراً اپنی نشست مخصوص کرا لے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ اس ریستوران میں 200 نشستیں ہیں، وہ آن کی آن میں مخصوص کرا لی گئیں۔ قیمت صرف 272 ڈالر فی کس، پاکستانی روپوں میں 27 ہزار سے کچھ زیادہ۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سب سے آخر میں جو میٹھا آپ نوش جاں کریں گے وہ چاکلیٹ سے تیار کیا جائے گا اور اس پر 24 قیراط سونے کا برادہ چھڑکا جائے گا۔ دنیا اپنے مدار پر گھوم رہی ہے اور ہانگ کانگ کے 'اکوا ریستوران'' کے مالک کی چاندی ہو گئی ہے۔

نیدر لینڈز کے ایک صاحب نے ایک کشتی تیار کر لی تھی جس میں وہ اپنے 35 دوستوں اور کتے وغیرہ کے ساتھ روانگی کا ارادہ رکھتے تھے۔ کچھ کا خیال تھا کہ جیسے ہی دنیا کا دم لبوں پر ہو گا، ویسے ہی کشتی نوح ظہور کرے گی۔ یہ خیال رکھنے والے ہزاروں افراد ترکی کے ایجین سی کے کنارے ایک قصبے کے چوک میں جوق در جوق جمع ہو گئے۔ جمعے کے دن کچھ فاصلے پر پہاڑی کے اوپر کشتی نوح دیکھنے کے لیے ہزاروں کا مجمع سانس روکے انتظار کرتا رہا پھر سیکنڈوں کی گنتی شروع ہوئی اور جب وہ بری گھڑی ٹل گئی تو چوک میں خوشی کے نعرے لگائے جانے لگے۔ لوگ ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے اور نائو نوش کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

سب سے بُری تو چین والوں پر گزری۔ سوشلزم میں اس قسم کی توہمات کی بھلا کیا گنجائش لیکن انسان آخر انسان ہے۔ اپنی تمام خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ۔ چنانچہ وہاں بھی کچھ لوگوں نے قیامت آنے کا واویلا شروع کر دیا۔ شمعیں اور اگربتیاں جلائی جانے لگیں، یہ گروہ جس نے خدا اور اس کی طرف سے آنے والے عذاب کا شور مچانا شروع کر دیا تھا، اسے پہلے تو چینی حکام نے ڈرایا، دھمکایا لیکن جب اس نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ ''سرخ اژدھے'' (کیمونسٹ پارٹی) کے ٹکڑے اڑانے کا وقت آ پہنچا ہے۔ اور پمفلٹ بھی بانٹنے لگے تو چینی حکام کو غصہ آ گیا۔ پولیس ڈنڈے لے کر سرخ اژدھے کے مخالفین پر ٹوٹ پڑی۔ پہلے تو ان کی ڈنڈوں سے ٹھکائی ہوئی اور پھر ہزار سے زیادہ ''بداعتقاد'' بلکہ ''ضیعف الاعتقاد'' افراد کو مختلف حوالات میں بند کر دیا گیا۔ قیامت ان بے چاروں کے لیے تو یقیناً آ گئی جو اس وقت بھی تھانوں میں بند ہیں او ر ڈنڈے کھا رہے ہیں۔ جانے ان کی رہائی کب ہو گی۔

قیامت کے آنے کی افواہیں صرف انسانوں میں ہی گشت نہیں کرتیں۔ جانوروں کی دنیا بھی ان افواہوں کی لپیٹ میں رہتی ہے۔ ڈھائی ہزار برس پہلے ایسی ہی ایک کہانی مہاتما بدھ نے بھی سنائی تھی اور ان کی جاتک کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ کہانی دوسری جنگ عظیم کی ہندوستانی نژاد فرانسیسی ہیروئن نور عنایت خان نے بچوں کے لیے ریڈیو پیرس سے سنائی تھی جسے آصف فرخی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ غرض ہمارے برصغیر کی یہ کہانی جو مہاتما بدھ کے لبوں سے نکلی تھی۔ وہ لوٹ کر اپنے گھر آ گئی ہے۔ اس جاتک کہانی میں ساری شرارت ایک خرگوش کی ہے۔ اس خرگوش کا قصہ کچھ یوں ہے کہ جنگل کے ایک پیڑ کی چھائوں میں دبک کر وہ سوچتا رہا کہ جب یہ دنیا ختم ہو جائے گی تو میرا کیا ہو گا''؟ خرگوش یہ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔ اتنے میں اس پیڑ کا ایک پھل جو پک چکا تھا، ڈال سے ٹوٹ کر خرگوش کے سر پر گر گیا۔ خرگوش سر پر پائوں رکھ کر بھاگا۔ سہما ہوا خرگوش یہ سمجھ بیٹھا کہ دھرتی کا کلیجہ پھٹ رہا ہے اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوئی جا رہی ہے۔ خرگوش کو اس طرح حیران پریشان بھاگتے دیکھ کر ایک دوسرے خرگوش نے اسے آواز دی۔ ''اے میرے بھائی! کیا ہو گیا جو تم اس طرح بھاگے چلے جا رہے ہو؟'' اور اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔

تب کہیں جا کر وہ پہلا خرگوش سانس لینے کے لیے رکا اور ہانپتے ہوئے جواباً کہا ''دھرتی کا وقت پورا ہو گیا! اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جا رہے ہیں؟'' اور یہ کہہ کر پھر بھاگنے لگا۔

ان کی دیکھا دیکھی ایک تیسرا خرگوش بھاگا اور پھر چوتھا۔ یہاں تک کہ جنگل کے سارے خرگوش ایک ایک کر کے بھاگنے لگے۔ کھیتوں، جنگلوں میں سارے خرگوش بھاگ رہے تھے اور پھر ہرن، جنگلی سور، نیل گائے، جنگلی بھینسے، سانبھر، چیتل، چنکارے، اود بلائو، بندر، گینڈے، چیتے، شیر، گلدار، تیندوے، ہاتھی یہاں تک کہ گلہری اور چوہے بھی یہ سن کر کہ دنیا ختم ہونے والی ہے بھاگنے لگے اور بھاگتے چلے گئے۔

اس جنگل میں ایک شیر رہتا تھا جو بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس نے جو یہ دیکھا کہ جنگل میں بھگدڑ مچ گئی ہے اور سیکڑوں، ہزاروں جانور بھاگے چلے جا رہے ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ دنیا ختم ہونے جا رہی ہے تو وہ سوچنے لگا کہ

''یہ دنیا اس طرح تو ختم نہیں ہونے والی لیکن یہ سارے جانور اس طرح بھاگتے بھاگتے ضرور ختم ہو جائیں گے کیونکہ زمین سے بچ کر یہ سمندر کی طرف بھاگیں گے اور اس میں گر کر مر جائیں گے۔''

شیر نے چھلانگ لگائی اور ایک اونچی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں بھاگتے ہوئے جانور صاف نظر آ رہے تھے۔ پہاڑی پر چڑھ کر شیر زور سے دھاڑا اور جانوروں سے پوچھا، کہ تم سب اتنی تیزی سے کیوں بھاگ رہے ہو؟

''اس لیے کہ دنیا ختم ہونے والی ہے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے ہیں۔'' ان سب نے ایک زبان ہوکر جواب دیا۔ ان کی بات شیر کی سمجھ میں نہ آئی۔

''زمین کے ٹکڑے ہوتے ہوئے کس نے دیکھا''؟ اس نے جانوروں سے پوچھا۔ آخر کار خرگوش سے پوچھا گیا ۔ خرگوش نے جو کہانی سنائی تو شیر کی سمجھ گیا کہ خرگوش نے پیڑ سے گرنے والے کسی پھل کی آواز سنی ہو گی اور ادھر ادھر دیکھے بغیر یہ سمجھ کر دوڑتا چلا گیا کہ دھرتی چٹخ رہی ہے۔ شیر نے اس جگہ کو جا کر دیکھا اور پھر خرگوش کے ساتھ واپس آ گیا۔ جہاں تمام جانور اس کا انتظار کر رہے تھے۔ شیر نے ان کو بتایا کہ خرگوش نے جو آواز سنی تھی وہ پیڑ سے پھل ٹپکنے کی آواز ہو گی، اس لیے کہ وہاں زمین چٹخنے کے کوئی آثار نہ تھے۔

یہ سن کر سارے جانور مطمئن ہوئے اور ایک ایک کر کے واپس چلے گئے۔ خرگوش بھی اسی پیڑ کی چھائوں میں جا کر لیٹ گیا۔ اب اسے اطمینان تھا کہ دنیا کا وقت ابھی پورا نہیں ہوا۔ اور ابھی دنیا کا وقت باقی ہے تو کیوں نہ آرام کیا جائے؟

دیکھا جائے تو قیامت کا شوشہ سب سے پہلے خرگوش نے چھوڑا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں