کچھ انمول تصویریں
چند روز کے بعد 27 دسمبر ہے۔ وہ تاریخ جس دن جہالت اور جرم اور ظلم نے ہماری تاریخ کے سینے پر سیاہی کو تصویر کیا تھا۔
میں سردیوں کی ایک بھیگی شام میں اپنے گھر کے ٹیرس میں بید کی کرسی پر بیٹھا ہوں،گرم چائے اور خشک میوہ جات سے کھیل رہا ہوں، درختوں کا سبز رنگ نکھرگیا ہے اور پتوں سے پانی کی اکا دکا بوند اب بھی ٹپک رہی ہے۔ تھمی ہوئی ہوا مزید بوندا باندی کی خبر دیتی ہے پر بادلوں پر بکھرے ہوئے ڈوبتے سورج کے صد ہزار رنگ اس امکان کی نفی کرتے ہیں۔ ایک بھٹکی ہوئی کوئل اڑتی ہوئی گزری تو میں نے اپنے موبائل فون کے شیشے پر دو بار ہولے سے ہاتھ مس کیا۔ ''کلک'' کی ایک آواز آئی اور کوئل ایک دلکش اور گلرنگ پس منظر میں تصویر کا حصہ بن گئی۔ فوٹو کھینچنا اب اتنا ہی آسان اور عام ہے۔ چند برس قبل اتنا سہل نہیں تھا اور اس سے پہلے تو اور بھی مشکل۔ چلیے! اسی بھیگی شام، چائے اورکوئل کی تصویر کو ایک طرف رکھ کے میں آپ کو اس مشکل دور کی چند تصویریں دکھاتا ہوں۔ پہلے ایک ایسی تصویر کا ذکر جو کھینچی ہی نہ جاسکی۔
یہ سارا ذکر بھٹو کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کا ہے۔ اپنی صحافتی ذمے داریوں کے سلسلے میں دور طالبعلمی سے ہی مجھے متعدد بار وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں ان دنوں ''دھنک'' کا ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھا۔ اداسی کا کوئی پہلا لمحہ میں نے وہاں اس وقت دیکھا تھا جب بھٹو صاحب جیل میں تھے۔ اس وقت پارٹی کی باگ ڈور بیگم نصرت بھٹو کے ہاتھ میں تھی۔ بھٹو صاحب مقدمہ ہار رہے تھے۔ حالات کچھ اچھے نہ تھے اور 70 کلفٹن کے مکینوں پر ایک بے یقینی کی کیفیت طاری تھی۔ بے نظیر بھٹو فی الحال ان تمام معاملات سے لاتعلق تھیں اور اپنی والدہ کی بھرپور شخصیت کے کہیں پیچھے گم تھیں۔ نصرت بھٹو نہ صرف پارٹی کے معاملات چلا رہی تھیں بلکہ اپنے شوہر کے مقدمے، بچوں کی نگہداشت اور عوام سے رابطے کا کام بھی انجام دے رہی تھیں۔ وہ ہر وقت سفر میں رہتیں۔ جب کبھی کراچی آتیں تو لوگوں کا ایک ہجوم ان سے ملاقات کے لیے بے تاب ہوتا۔
لاہور سے سرور سکھیرا کا فون آیا تو مجھے ایک آرٹیکل کے سلسلے میں نصرت بھٹو صاحبہ سے کچھ باتیں کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ جلدی اور وقت کی قلت کے باعث میں کسی اپائنمنٹ کے بغیر وہاں پہنچ گیا۔ میں یہ ذکر پہلے بھی کرچکا ہوں کہ لاہور کے واپڈا ہاؤس کے وسیع و عریض ہال میں ایک معرکۃ الآراء تقریب کی مہمان خصوصی بناکر اور جریدے کے سرورق پر ان کی تصویر شایع کرکے ہم لوگ بھٹو کے دور حکومت میں ہی ان سے اپنے تعلقات کو خاصا وسیع کرچکے تھے۔ بلکہ اس گھر کے بعض ملازمین سے بھی میری علیک سلیک ہوگئی تھی۔ ایسے تعلقات صحافتی پیشے کا اہم تقاضا ہوتے ہیں۔
علی حسن اور غلام علی نے مجھے دیکھتے ہی ملاقاتیوں کے اس ہجوم سے علیحدہ ایک جگہ بٹھادیا اور کہا کہ بیگم صاحبہ ابھی وکیلوں سے فارغ ہونے والی ہیں، پھر وہ کسی سے نہیں ملیں گی۔ لیکن آپ فوراً اندر آجائیے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ جونہی وکیل باہر نکلے علی حسن مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا اور میں نے ایک تھکی ہاری بیگم صاحبہ کو کچھ دیر کے لیے اور مصروف کردیا۔ یہ ملاقات میری توقع سے پہلے تو ہو ہی گئی تھی لیکن میرا فوٹو گرافر تو جانے ابھی کہاں تھا۔ واپسی کے لیے اٹھا تو وہ کہیں موجود نہیں تھا۔ میں 70 کلفٹن میں بنائی جانے والی ایک یادگار تصویر سے محروم ہوچکا تھا۔
پھر اس کے بعد تعلیم سے فارغ ہوا تو میں نے اپنا رسالہ نکال لیا۔ طاہر مسعود میرے ساتھ تھے۔ ایک روز معلوم ہوا کہ بے نظیر بھٹو کراچی آئی ہیں اور 70 کلفٹن میں یوتھ ونگ کے ایک اجتماع سے خطاب کریں گی۔ یہ عملی سیاست میں ان کا پہلا قدم تھا۔ طاہر مسعود کہنے لگے ''اس کی کوریج کے لیے میں جاؤں گا'' طاہر ان دنوں آج کے باریش پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نہیں بلکہ ایم اے سال آخر کے طالب علم اور لمبے بال رکھ کے جینز پہننے والے بڑے شاندار نوجوان تھے۔ میں نے کہا: ''آپ جائیں لیکن تصویر ضرور بننی چاہیے'' فوری طور پر فوٹو گرافر دستیاب نہیں تھا۔ میں نے میز کی دراز سے اپنا کیمرہ نکالا۔ یہ روسی ساخت کا ایک طاقتور کیمرہ تھا جسے بڑے بھائی صاحب نے چند برس پہلے کابل سے پونے دو سو روپے میں خریدا تھا۔ طاہر مسعود نے کہا ''میں اس سلسلے میں بالکل کورا ہوں اور میں نے آج تک کوئی تصویر نہیں کھینچی'' میں نے کہا: ''فکر کی کوئی بات نہیں، آپ کو بس گول شیشے والے اس سوراخ سے جھانکنا ہے اور بے نظیر کو تاک کے یہ بٹن دبادینا ہے''۔ یہ کہہ کر میں نے کیمرے کو پوری طرح لوڈ کیا اور طاہر کے حوالے کردیا۔ انھوں نے اسے پستول کی طرح گلے میں ڈالا اور یہ جا وہ جا۔ پھر شام کو آکے کیمرہ میرے حوالے کردیا اور تقریب کی روداد شیئر کی۔ کچھ دنوں کے بعد فلم دھل کے آگئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دن کے بعد پھر کبھی طاہر نے کیمرے کو ہاتھ بھی لگایا ہے کہ نہیں لیکن اس روز انھوں نے ایک شاندار تصویر کھینچی تھی۔ اس میں بے نظیر بھٹو نے ایک سفید چادر اوڑھ رکھی ہے اور وہ پرجوش نوجوانوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے نعرے لگا رہی ہیں۔ یہ تصویر ایک ٹرانسپیرنسی کی شکل میں آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
تبھی وہ دن بھی آیا جب ہماری تاریخ کا ایک اور المناک باب رقم ہوا۔یہ جناب بھٹو کی پھانسی تھی۔ 70 کلفٹن کی دیواروں پر جو اداسی بال کھول کے سوئی تھی اس کی زلفیں بہت دراز ہوگئیں۔ سیاسی ہماہمی معطل ہوگئی اور خاموشی نے ڈیرے ڈال دیے۔ بیگم نصرت بھٹو اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ اب گھر پر ہی قیام پذیر تھیں۔ ایسے میں پھانسی سے چند ہی روز کے بعد ہمارے فوٹو گرافر نے ان کی تصاویر کھینچیں۔ یہ ایک بھرپور فوٹوسیشن تھا جس میں تینوں نے سیاہ لباس پہن کے حصہ لیا۔ ان میں سے تین ٹرانسپیرنسیز میں نے منتخب کیں اور انھیں اپنے پاس رکھ لیا۔ ایک تصویر بیگم نصرت بھٹو کی ہے۔ اندوہ والم کی کیفیت لیکن عزم وہمت کی جھلک۔ دوسری تصویر 25 سالہ بے نظیر بھٹو کی ہے۔ سیاہ لباس، چمکتی ہوئی آنکھیں، سرخ لپ اسٹک، اچھا میک اپ اورکٹے ہوئے چھوٹے بال۔ تیسری تصویر میں بیگم بھٹو کے ہمراہ محبت بھرے انداز میں ان کی دونوں بیٹیاں، بے نظیر بھٹو اور صنم بھٹو بیٹھی ہیں۔
یہ تمام تصویریں اہم اس لیے ہیں کہ آج تک شایع نہیں ہوئیں۔ اس وقت حالات کے فریم میں فٹ نہیں بیٹھیں اور بعد میں میرا خودساختہ کوڈ آف کنڈکٹ آڑے آگیا۔ اب یہ میری یادوں کا اثاثہ ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے میں تیس برس تک ڈائری صرف اپنے لیے لکھتا رہا۔
آج یہ تصاویر یوں یاد آگئیں کہ چند روز کے بعد 27 دسمبر ہے۔ وہ تاریخ جس دن جہالت اور جرم اور ظلم نے ہماری تاریخ کے سینے پر سیاہی کو تصویر کیا تھا۔ایک ''کلک'' کی آواز آئی تھی اور کوئل کا سیاہ رنگ اس مملکت خداداد کے شیشے کے ایک ایک حصے پر ثبت ہوکے رہ گیا تھا۔
یہ سارا ذکر بھٹو کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کا ہے۔ اپنی صحافتی ذمے داریوں کے سلسلے میں دور طالبعلمی سے ہی مجھے متعدد بار وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں ان دنوں ''دھنک'' کا ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھا۔ اداسی کا کوئی پہلا لمحہ میں نے وہاں اس وقت دیکھا تھا جب بھٹو صاحب جیل میں تھے۔ اس وقت پارٹی کی باگ ڈور بیگم نصرت بھٹو کے ہاتھ میں تھی۔ بھٹو صاحب مقدمہ ہار رہے تھے۔ حالات کچھ اچھے نہ تھے اور 70 کلفٹن کے مکینوں پر ایک بے یقینی کی کیفیت طاری تھی۔ بے نظیر بھٹو فی الحال ان تمام معاملات سے لاتعلق تھیں اور اپنی والدہ کی بھرپور شخصیت کے کہیں پیچھے گم تھیں۔ نصرت بھٹو نہ صرف پارٹی کے معاملات چلا رہی تھیں بلکہ اپنے شوہر کے مقدمے، بچوں کی نگہداشت اور عوام سے رابطے کا کام بھی انجام دے رہی تھیں۔ وہ ہر وقت سفر میں رہتیں۔ جب کبھی کراچی آتیں تو لوگوں کا ایک ہجوم ان سے ملاقات کے لیے بے تاب ہوتا۔
لاہور سے سرور سکھیرا کا فون آیا تو مجھے ایک آرٹیکل کے سلسلے میں نصرت بھٹو صاحبہ سے کچھ باتیں کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ جلدی اور وقت کی قلت کے باعث میں کسی اپائنمنٹ کے بغیر وہاں پہنچ گیا۔ میں یہ ذکر پہلے بھی کرچکا ہوں کہ لاہور کے واپڈا ہاؤس کے وسیع و عریض ہال میں ایک معرکۃ الآراء تقریب کی مہمان خصوصی بناکر اور جریدے کے سرورق پر ان کی تصویر شایع کرکے ہم لوگ بھٹو کے دور حکومت میں ہی ان سے اپنے تعلقات کو خاصا وسیع کرچکے تھے۔ بلکہ اس گھر کے بعض ملازمین سے بھی میری علیک سلیک ہوگئی تھی۔ ایسے تعلقات صحافتی پیشے کا اہم تقاضا ہوتے ہیں۔
علی حسن اور غلام علی نے مجھے دیکھتے ہی ملاقاتیوں کے اس ہجوم سے علیحدہ ایک جگہ بٹھادیا اور کہا کہ بیگم صاحبہ ابھی وکیلوں سے فارغ ہونے والی ہیں، پھر وہ کسی سے نہیں ملیں گی۔ لیکن آپ فوراً اندر آجائیے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ جونہی وکیل باہر نکلے علی حسن مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا اور میں نے ایک تھکی ہاری بیگم صاحبہ کو کچھ دیر کے لیے اور مصروف کردیا۔ یہ ملاقات میری توقع سے پہلے تو ہو ہی گئی تھی لیکن میرا فوٹو گرافر تو جانے ابھی کہاں تھا۔ واپسی کے لیے اٹھا تو وہ کہیں موجود نہیں تھا۔ میں 70 کلفٹن میں بنائی جانے والی ایک یادگار تصویر سے محروم ہوچکا تھا۔
پھر اس کے بعد تعلیم سے فارغ ہوا تو میں نے اپنا رسالہ نکال لیا۔ طاہر مسعود میرے ساتھ تھے۔ ایک روز معلوم ہوا کہ بے نظیر بھٹو کراچی آئی ہیں اور 70 کلفٹن میں یوتھ ونگ کے ایک اجتماع سے خطاب کریں گی۔ یہ عملی سیاست میں ان کا پہلا قدم تھا۔ طاہر مسعود کہنے لگے ''اس کی کوریج کے لیے میں جاؤں گا'' طاہر ان دنوں آج کے باریش پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نہیں بلکہ ایم اے سال آخر کے طالب علم اور لمبے بال رکھ کے جینز پہننے والے بڑے شاندار نوجوان تھے۔ میں نے کہا: ''آپ جائیں لیکن تصویر ضرور بننی چاہیے'' فوری طور پر فوٹو گرافر دستیاب نہیں تھا۔ میں نے میز کی دراز سے اپنا کیمرہ نکالا۔ یہ روسی ساخت کا ایک طاقتور کیمرہ تھا جسے بڑے بھائی صاحب نے چند برس پہلے کابل سے پونے دو سو روپے میں خریدا تھا۔ طاہر مسعود نے کہا ''میں اس سلسلے میں بالکل کورا ہوں اور میں نے آج تک کوئی تصویر نہیں کھینچی'' میں نے کہا: ''فکر کی کوئی بات نہیں، آپ کو بس گول شیشے والے اس سوراخ سے جھانکنا ہے اور بے نظیر کو تاک کے یہ بٹن دبادینا ہے''۔ یہ کہہ کر میں نے کیمرے کو پوری طرح لوڈ کیا اور طاہر کے حوالے کردیا۔ انھوں نے اسے پستول کی طرح گلے میں ڈالا اور یہ جا وہ جا۔ پھر شام کو آکے کیمرہ میرے حوالے کردیا اور تقریب کی روداد شیئر کی۔ کچھ دنوں کے بعد فلم دھل کے آگئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دن کے بعد پھر کبھی طاہر نے کیمرے کو ہاتھ بھی لگایا ہے کہ نہیں لیکن اس روز انھوں نے ایک شاندار تصویر کھینچی تھی۔ اس میں بے نظیر بھٹو نے ایک سفید چادر اوڑھ رکھی ہے اور وہ پرجوش نوجوانوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے نعرے لگا رہی ہیں۔ یہ تصویر ایک ٹرانسپیرنسی کی شکل میں آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
تبھی وہ دن بھی آیا جب ہماری تاریخ کا ایک اور المناک باب رقم ہوا۔یہ جناب بھٹو کی پھانسی تھی۔ 70 کلفٹن کی دیواروں پر جو اداسی بال کھول کے سوئی تھی اس کی زلفیں بہت دراز ہوگئیں۔ سیاسی ہماہمی معطل ہوگئی اور خاموشی نے ڈیرے ڈال دیے۔ بیگم نصرت بھٹو اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ اب گھر پر ہی قیام پذیر تھیں۔ ایسے میں پھانسی سے چند ہی روز کے بعد ہمارے فوٹو گرافر نے ان کی تصاویر کھینچیں۔ یہ ایک بھرپور فوٹوسیشن تھا جس میں تینوں نے سیاہ لباس پہن کے حصہ لیا۔ ان میں سے تین ٹرانسپیرنسیز میں نے منتخب کیں اور انھیں اپنے پاس رکھ لیا۔ ایک تصویر بیگم نصرت بھٹو کی ہے۔ اندوہ والم کی کیفیت لیکن عزم وہمت کی جھلک۔ دوسری تصویر 25 سالہ بے نظیر بھٹو کی ہے۔ سیاہ لباس، چمکتی ہوئی آنکھیں، سرخ لپ اسٹک، اچھا میک اپ اورکٹے ہوئے چھوٹے بال۔ تیسری تصویر میں بیگم بھٹو کے ہمراہ محبت بھرے انداز میں ان کی دونوں بیٹیاں، بے نظیر بھٹو اور صنم بھٹو بیٹھی ہیں۔
یہ تمام تصویریں اہم اس لیے ہیں کہ آج تک شایع نہیں ہوئیں۔ اس وقت حالات کے فریم میں فٹ نہیں بیٹھیں اور بعد میں میرا خودساختہ کوڈ آف کنڈکٹ آڑے آگیا۔ اب یہ میری یادوں کا اثاثہ ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے میں تیس برس تک ڈائری صرف اپنے لیے لکھتا رہا۔
آج یہ تصاویر یوں یاد آگئیں کہ چند روز کے بعد 27 دسمبر ہے۔ وہ تاریخ جس دن جہالت اور جرم اور ظلم نے ہماری تاریخ کے سینے پر سیاہی کو تصویر کیا تھا۔ایک ''کلک'' کی آواز آئی تھی اور کوئل کا سیاہ رنگ اس مملکت خداداد کے شیشے کے ایک ایک حصے پر ثبت ہوکے رہ گیا تھا۔