کرپشن کے خلاف جہاد
جو فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں ان لوگوں کی اکثریت بدعنوانی کے حمام میں ننگی ہے۔
پاکستان میں جس وسیع پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے وہ دنیا سے کچھ بڑھ کر ہے۔ بدعنوانی تو دنیا کے اکثر ترقی پذیر ملکوں میں عام ہے لیکن جو چیز پاکستان کو دنیا کے دوسرے ملکوں سے مختلف بناتی ہے وہ ہے یہاں پر کرپشن کا ہمہ گیر ہونا اور اس کی شرح کا بہت زیادہ ہو جانا ۔
جب پاکستان بنا تو سرکاری منصوبوں کی کل مالیت کا نصف فیصد کرپشن کی نذر ہوتا تھا، اس رقم میں سے بدعنوان سرکاری عملہ اپنا اپنا حصّہ بانٹ لیا کرتا تھا۔ اب بڑھتے بڑھتے یہ حصّہ کُل رقم کے تیس سے پچاس فیصد تک جا پہنچا ہے۔ اگر کوئی پراجیکٹ کاغذوں کے مطابق مکمل ہو جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کی کل رقم کا تیس فیصد تک سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے کھایا ہے اور باقی رقم منصوبے پر خرچ ہوئی ہے ۔تاہم اگر منصوبہ کی تکمیل میں زیادہ گڑ بڑ کی جائے اور ناقص میٹریل اور سامان استعمال کیا جائے تو بدعنوانی کی نذر ہونے والی رقم کا تخمینہ کل پراجیکٹ کے پچاس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ سے کرپشن کی بھینٹ چڑھنے والی رقم ہی تین چار سو ارب روپے سالانہ سے کم نہیں۔ ہمارے ہاں وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر بھی کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ عام طور پر بڑے عہدہ پر فائز لوگ بڑے بڑے منصوبوں میں کمیشن کھایا کرتے ہیں مگر پاکستان میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر سرکاری افسروں کے تقرر کے بھی پیسے پکڑنے کی باتیں عام ہیں۔
اعلیٰ حکومتی سطح پر کرپشن کے علاوہ رشوت خوری پورے انتظامی ڈھانچہ کا لازمی حصّہ بن چکی ہے۔ ہر روز بے شمار مواقع پر رشوت کا لین دین ہوتا ہے۔سرکاری ادارے جو خریداری کرتے ہیں ان میں کمیشن کھائی جاتی ہے ۔ لوگ پنشن کے لیے اکائونٹنٹ جنرل آفس کے دھکّے کھاتے ہیں۔ اپنی زمین کی ملکیت کی فرد لینے کے لیے پٹواریوں اور ان کے منشیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اپنی اصل آمدن کو ٹیکس سے بچانے کے لیے ایف بی آر کے اہلکاروں کی جیبیں بھرتے ہیں۔ اپنا تبادلہ رکوانے یا کروانے کے لیے افسروں کی مٹھیاں گرم کرتے ہیں، نوکری لینے کے لیے سیاستدانوں اور افسروں کو بھاری رقوم ادا کرتے ہیں۔ پولیس کے ظلم سے بچنے کے لیے یا ظلم کروانے کے لیے تھانہ کے اہلکاروں کا پیٹ بھرتے ہیں۔
حتیٰ کہ اگر آپ کو اپنی جائز شکایت کی ایف آئی آر درج کروانا ہو تو اسٹیشنری کے نام پر تھانہ کے محرر کو ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ ہمارا ضلعی سطح تک عدالتی نظام انتہائی کرپشن کا شکار ہے۔ سول اور سیشن عدالت میں ہر کام کا ایک نرخ مقرر ہے۔ لوگ قتل کرتے ہیں، پولیس کے تفتیشی افسر کو رشوت دے کر تفتیش خراب کرا دیتے ہیں۔ مجسٹریٹ یا جج کو رشوت دے کر ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں ۔ بدعنوان سرکاری ملازمین اور ان کے سرپرست سیاستدان جتنی رقم ٹیکس کی صورت میں سرکاری خزانے کے لیے وصول کرتے ہیں ،تقریباً اتنی ہی رقم وہ اپنے اپنے ذاتی اکائونٹ کے لیے مختلف مدّوں میں عوام سے وصول کرتے ہیں۔ یہ وہ ادارہ جاتی بدعنوانی ہے جو پنجاب سمیت پورے ملک میں رائج ہے۔
دوسری طرف اس سال ہمارے ٹیکسوں کی وصولی کا کل ہدف دو ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قومی خزانہ اتنی ہی مالیت کی رقم سے ٹیکس چوری کی وجہ سے محروم رہتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو نیب کے چیئرمین کا کرپشن کا تخمینہ خاصا محتاط ہے ۔
پاکستان میں کرپشن ایک انتظامی مسئلہ تو ہے لیکن اس سے بڑھ کر اب یہ بیس کروڑ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ بن چکا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے غریب اور کم آمدن والے لوگ آئینی اور قانونی حقوق سے محروم ہو گئے ہیں کیونکہ عدالتوں سے انصاف لینے کے لیے اور سرکاری اداروں سے اپنے جائز قانونی حقوق لینے کے لیے رشوت درکار ہے۔ ملک کی اسّی فیصد غریب عوام کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، وہ رشوت دینے کے لیے پیسے کہاں سے لا سکتے ہیں۔ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی اٹھاون فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے یعنی اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اپنی غذا کے اخراجات بھی پورے کر سکے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال سیکڑوں ارب روپے عوام کی تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر خرچ کرتی ہیں مگر بدعنوانی کی وجہ سے ان کا فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ پاتا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا عام بے وسیلہ شہری ریاست سے اجنبیت اور مغائرت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اسے پولیس ، عدالت ، اسپتال اور اسکول سے جائز استفادہ اور قانونی حقوق میسّر نہیں۔ کرپشن نے ریاست اور عوام میں ایک وسیع خلیج پیدا کر دی ہے۔ ایک طبقہ اس گلے سڑے نظام سے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ لوگوں کی اکثریت ظلم کی چکّی میں پس رہی ہے۔ ان کا ریاستی اداروں پر سے اعتماد ختم نہیں تو بہت کم ضرور ہو گیا ہے۔ لسانی اور فرقہ وارانہ مسلّح گروہوں کے پھلنے پھولنے کے لیے یہ ایک مثالی صورت حال ہے۔ جب ریاست عام آدمی کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرے گی تو لوگ کسی نہ کسی ایسے گروہ کی طرف مائل ہوں گے جو انھیں قدرے تحفظ مہّیا کر سکے۔ ہمارے ملک میں کرپشن کی زیادتی نے ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کے ایک عامل کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
جن لوگوں کے پاس کوئی اختیار ہے اور جو فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں ان لوگوں کی اکثریت بدعنوانی کے اس حمام میں ننگی ہے۔ سیاستدانوں اور سول اور عسکری بیورو کریسی کے ارکان سے اس بات کی توقع کرنا فضول ہے کہ وہ لوٹ مار کے اس سلسلے کو ختم کریں گے کیونکہ ان کی غالب اکثریت تو اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہے۔ ان میں جو معدودے چند باضمیر لوگ ہیں وہ غیر موثر ہیں۔ اس حکمران طبقہ کے گروہوں میں اقتدار کی لڑائی زور پکڑتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کرپشن کا نعرہ لگاتے ہیں اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ واقعی اس لعنت سے قوم کو نجات دلانا چاہتے ہیں ، انھیں کرپشن کے خلاف ایک سماجی تحریک چلانا ہو گی تاکہ عوام کا دبائو اتنا بڑھ جائے کہ حکمران طبقہ کرپشن کے خلاف موثر اقدامات کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اگر پاکستان میں کسی قسم کے جہاد کی واقعی ضرورت ہے تو وہ ہے کرپشن کے خلاف جہاد ۔