اُلٹا اتحاد اُلٹی تنظیم اُلٹا یقین

میں اتحاد تنظیم اور یقین کی برکتوں سے آگاہ ضرور ہوں۔ لیکن صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے


Moosa Raza Afandi December 22, 2012
[email protected]

25 دسمبر کو یوم قائد ہے، قائد نے تین رہنما اصول دیے لیکن ان اصولوں کی وضاحت نہیں کی یہ نہیں بتایا کہ کیسا اتحاد کونسی تنظیم کونسا یقین۔ میں نے زندگی بھر کسی دوسرے ملک میں مستقل سکونت اختیا ر کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ مجھے اس سلسلے میں مواقعے بھی میسر آئے لیکن میں نے دنیا کے کسی ملک کو پاکستان پر ترجیح نہ دی۔ اس میں کمال میرا نہیں میرے ملک کا تھا اور ہے۔ جو لوگ لمبے عرصے تک ملک سے باہر رہے ہیں صرف وہی جانتے ہیں کہ پاکستان اور کسی دوسرے ملک میں چاہے وہ ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ کیا فرق ہے یہ فرق آدمی الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ الفاظ ان احساسات اور کیفیات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں جو ایک پاکستانی شہری کسی غیر ملک میں لمبے عرصے تک رہائش کے دوران محسوس کرتاہے۔

کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں جو کسی دوسرے ملک میں نہیں بہتیں؟ کیا اس کی وجہ پاکستان کے اندر لوگ اسقدر باہم شیروشکر ہیں اور ایک دوسرے کو پیار اور محبت بانٹنے میں اس قدر ہمہ وقت آمادہ اور تیار رہتے ہیں جو کسی اور ملک میں نہیں دیکھا جاتا ؟ کیا پاکستان بین الا قوامی طور پر اس قدر غیر معتبر ہوچکا ہے کہ ایک پاکستانی کسی دوسرے ملک میں رہ کر خود کو ایک کم تر مسافر تسلیم کرنے لگ جاتا ہے؟

میرے خیال میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر بفضل خدا اوپر بیان کردہ فضائل میں سے کو ئی بھی فضیلت موجود نہیں ہے بلکہ جو کچھ بھی ہے اس کے الٹ ہے البتہ اس میں ایک انوکھی بات ہے وہ یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ ساری کرامات اور فضیلتوں کے جراثیم اس کے اندر ضرورت سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور اس بات کا احساس پاکستان کے ہر اس بدنصیب شہری کو ہوتا ہے جو خصوصاً ملک کے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس بات کا ادراک من حیث القوم ہمیں ہو یا نہ ہو انفرادی طور پر ضرور ہے یہی وہ بات ہے جو پاکستان کو ایک عظیم ملک بنانے کی واحد وجہ بن سکتی ہے۔ ملک سے باہر رہنے والا پاکستانی باشندہ انھی باتوں پر تلملاتا ہے اور باپ کے ہوتے ہوئے اپنے کو لاوارث سمجھتا ہے۔

یہ میر ی سوچ ہے میرے خیالات ہیں میری امیدیں ہیں اور میری خواہشات ہیں اور آرزوئیں ہیں مجھے معلوم ہے کہ ہم قائد کے دیے گئے ان تین عظیم رہنما اصولوں پر بحیثیت قوم زندگی گذارنے کے پوری طرح اہل ہیں جب کہ بظاہر ہماری موجودہ مشکلات اور مسائل اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مجھے تفصیلات میں جانا پڑیگا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ یہ بات واضح ہو جائے کہ میں اتحاد تنظیم اور یقین کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ان کے فیض سے ناآشنا ہوں کیونکہ میں نے ان کا مطلب ہی اُلٹا لیا ہے۔

سب سے پہلے اتحاد کو لیجیے بظاہر اتحاد کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ ساری قوم اس وقت بے شمار قسم کے اختلافی نظریوں اور سوچوں میں گم ہو گئی ہے اس وقت میں پاکستانی کم اور پنجابی پٹھان بلوچی اور سندھی کشمیری بلتی وغیرہ زیادہ ہوں۔ میں دانائی کی بنیاد خوف خدا سے زیادہ سکّوں کی جھنکار بدمعاش کی رعونت بے غیرتی کی عزت و تکریم اور دھونس دھاندلی اور دھوکہ دیہی میں تلاش کر تا ہوں ۔کبھی شرمندہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خود کو نہیں بدلنا میرا فیصلہ اٹل ہے میر ے فیصلے کو کو ئی تبدیل نہیں کر سکتا کیونکہ میرے سب دوستوں ساتھیوں اور بہت سارے ہم وطنوں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور اب ہم یک جان ہوکہ اس بارے میں متحد ہو چکے ہیں ہمارا اتحاد اٹل ہے مضبوط ہے چٹان کی طرح مضبوط ہے۔

میرے اتحاد کو کوئی خطرہ نہیں ہے مجھے کسی بھی قسم کی دہشت گردی نقصان نہیں پہنچا سکتی کوئی بدامنی میرے اتحاد کو توڑ نہیں سکتی جہالت اور بیماری میرے اتحاد کے لیے ہرگز خطرہ نہیں بن سکتیں بعض درندے سمجھتے ہیں کہ پولیو جیسی موذی بیماری کے خلاف اپنے گھروں اور خاندانوں کے بھوکے ننگے بہن بھائیوں کے لیے چند ٹکے کمانے والی معصوم بچیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ سے وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے ناقابل شکست اتحاد کو توڑ سکتے ہیں تو یہ اُن کی غلط فہمی ہے وہ جو مرضی میں آئے کر لیں میں اور میرے ساتھی مُتحد ہیں کیونکہ قائد نے مجھے پہلا اصول اتحاد کا بتلا دیا تھا۔ میرے اور میرے دوستوں کے نزدیک اتحاد کا یہی مطلب ہے۔

قائد کا دوسرا رہنما اصول تنظیم تھا۔ میں نے زندگی بھر اس اصول پر پوری طرح عمل کیا ہے اور ہر کام باقاعدہ اور منظم طور پر کیا ہے۔ اگر میرے اندر تنظیم کا فقدان ہوتا تو آج دنیا بھر میں میرا نام نہ ہوتا ؟ میرا ایک نام ہے جسے سنتے ہی دنیا بھر کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں میں کیوں نہ فخر کروں ۔ میرے اندر وہ صلاحیتیں ہیں جن کے بارے میں دنیا کے کسی اور باشندے کو سوچنے کی ہمت ہی نہیں ہو سکتی ساری دنیا مجھ سے ڈرتی ہے کیونکہ میں نے اپنے اندر انتہائی محنت مشقت اور اتحاد اور تنظیم کے اعلیٰ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے نفرت کے بیج بوئے ہیں۔ یہ میری محنت شاقہ اور منظم منصوبہ بندی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب وہ بیج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور پھل گرنے شروع ہوگئے ہیں جنھیں میں اور میرے ساتھی مزے لے لے کر کھا رہے ہیں۔ مجھے اس اتحاد اور تنظیم نے جس عظیم مقام پر پہنچا دیا ہے میں اس پر جتنا فخر کروں کم ہے۔ کیا دنیا بھر میں تین تین میل موٹروں، ویگنوں بسوں، موٹر سائیکلوں، رکشوں ٹیکسیو ں کا اس قدر منظم اور باقاعدہ انتظار دیکھا جاسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں یہ فخر صرف مجھے حاصل ہے کیونکہ تنظیم میرے قائد کا بتایا ہوا اصول ہے۔ ذرایع آمدورفت کی یہ قطاریں دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں یکساں طور پر جس منظم انداز سے نظر آتی ہیں ساری دنیا اس پر رشک کرتی ہے۔ تنظیم کا یہ عظیم اصول میر ے قائد نے مجھے بتایا تھا۔ میں نے اس اصول کی جو بھی تشریح کی ہے وہ آپ کے سامنے ہے بہرحال میری تنظیمی استعداد سے کسی کو انکار ممکن نہیں۔

میری زندگی کا تیسرا اصول یقین محکم ہے جس کے بغیر آدمی آگے نہیں بڑھ سکتا یقین کے بغیر جہاد نہیں ہوسکتا کوئی بھی منزل یقین کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مجھے اس بات کا پورا پورا ادراک ہے مجھے کسی اور بات پر یقین ہو یا نہ ہو درھم و دینار کی عظمت پر غیر متزلزل یقین ہے۔ اس یقین کی بدولت اب میرے پاس سوائے درھم و دینار کے کچھ بھی نہیں رہا لیکن فکر کس بات کی؟ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے اور بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے کے لیے میرے پاس ''اﷲ کا فضل'' بے شمار ہے چونکہ میری طرح بہت سارے لوگ بھی سر بکف''اﷲ کے فضل'' کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس لیے اگر میں کسی ایسے ہی''فضل ربی'' کے متلاشی کے ہاتھوں لوٹ لیا جائوں تو مجھے یقین ہونا چاہے کہ میں نے اس جہاد دِرھم و دینار میں شہادت کا جام نوش فرما لیا ہے اور میری اسی طرح قدر ہونی چاہیے جس طرح شہدا کو پذیرائی ملتی ہے۔ اگر مجھے اس اعزاز سے نہ نوازا گیا تو میں اپنے استحقاق کے مجروح ہونے کے خلاف آواز اٹھائوں گا۔

ان سب باتوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟ ان سب باتوں سے صرف ایک بات ظاہر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ میں اتحاد تنظیم اور یقین کی برکتوں سے آگاہ ضرور ہوں۔ لیکن صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے ۔ اور کسی کے لیے نہیں۔ اگر میں قائد کے اِن سنہری اصولوں کو اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے لیے بھی پلّے باندھ لوں تو میرے سمیت ہم سب کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ لیکن شاید کایا پلٹنے کا مجھے یقین نہیں ہے کیونکہ میں تو اچھی بات کے کرنے اور بری بات سے روکنے کے لیے بھی پیسے لیتا ہوں ۔ میں کیونکر کایا کے پلٹ جانے کا یقین کروں؟ میری کایا تو پہلے ہی پلٹی ہوئی ہے۔ پتہ نہیں لوگ کیوں کہتے ہیں کہ مجھے شلوار پہن لینی چاہیے حالانکہ مجھے پورا یقین ہے کہ میں نے شلوار پہنی ہوئی ہے۔ میرے اتنے بڑے یقین پر اگر کسی کو اعتبار نہیں ہے تو میں اتحاد اور تنظیم پر یقین رکھ کر کیا کروں گا؟ آخر انصاف بھی تو ہونا چاہیے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں