افغانستان سے نیٹو کو نکلنا ہوگا
پاکستان کسی بھی طور پر نیٹو کو لاجسٹک راہداری کی اجازت نہ دے ورنہ اس کا حشر بھی بن علی اورحسنی مبارک سے کم نہ ہوگا۔
معروف امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کے بقول امریکی سامراج اب تک 88 ملکوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کرچکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ جن میں زیادہ قتل عام ویت نام ، کمبوڈیا، لاؤس، کوریا، انڈونیشیا، عراق اوراب افغانستان، ہیٹی ،ایکواڈور اورکولمبیا میں ہورہا ہے۔ درحقیقت امریکا کی 70 فیصد صنعتیں اسلحے کی پیداوار کرتی ہیں۔ اس وقت امریکی سامراج کے پاس 30 ہزار ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں اور روس کے پاس 20 ہزار۔ صرف امریکی بموں سے اس کرہ ارض کو 300 بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک کے ساتھ امریکی سامراج کے دیرینہ تعلقات ہیں اور اسرائیل سے نہیں۔ یہ ایسی کہاوت ہے کہ ''گڑ کھائیں اور گلگلے سے پرہیز''۔ امریکا اگر اسرائیلی حکمرانوں کی مددکرنا بند کردے تو اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر جارحیت اور ان کی زمینوں پر قبضہ بند ہوجائے گا۔ کون سا ایسا عرب ملک ہے جس کے دیرینہ تعلقات امریکا سے نہ ہوں۔ لیبیا اور شام کی ایک حد تک دوری تھی اس پر بھی سامراج اور اس کے آلہ کار انھیں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب،کویت اور بحرین میں تقریباً ڈھائی لاکھ امریکی فوج موجود ہے۔ ابھی حال ہی میں فلسطینیوں پر اسرائیل کی بمباری سے 200 فلسطینی قتل ہوئے۔ اس جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں جو مظاہرے ہوئے ان میں سب سے بڑا مظاہرہ اسرائیل کے دارالخلافہ تل ابیب میں ہوا، جس میں 10 لاکھ اسرائیلی عوام نے شرکت کی۔
وہ یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ''فلسطینیوں کا قتل بند کرو'' دوسری جانب امریکی سامراج نے اسرائیلی حکومت کو 6900 اسمارٹ بم فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ امریکا نے مزید 10ہزار بم اور 30 ہزار گولے فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا جن میں 650 ملین مالیت کے 6900 اسمارٹ بم فوری طور پر فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ پینٹاگون نے یہ اعلان کیا کہ غزہ میں اسرائیلی گولاباری سے اس کے اسلحے کے ذخیرے میں جو کمی ہوئی ہے اسے پورا کرے گا۔ واضح رہے کہ غزہ پر 8 روز کی جنگ میں اسرائیل نے 1500 فضائی حملے کیے جن میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف ہزاروں بم اور دوسرے مہلک گولا بارود استعمال کیے گئے۔
اس کے باوجود کسی بھی عرب ملک نے امریکا سے تعلقات ختم نہیں کیے۔ ایک بار ایک نجی ٹی وی چینل نے مجھ سے (راقم) فون پر پوچھا کہ ''کیا آپ اسرائیل کو تسلیم کرنا پسند کریں گے؟'' تو میں نے جواب دیا تھا کہ ''ایک شرط پر کہ امریکا سے تعلقات پہلے ختم کیے جائیں پھر اسرائیل کو فوراً تسلیم کیا جائے''۔ اس کے بعد اس اینکر پرسن نے مجھے انٹرویو میں نہیں بلایا۔امریکی سامراج، برطانوی سامراج، جاپانی سامراج، چینی سامراج اور فرانسیسی سامراج وغیرہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنادیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یمن اور بحرین کے حکمرانوں کو مظلوم بناکر پیش کیا جارہا ہے اور سعودی عرب کی فوج جب بحرین کے انقلاب کو کچلنے پہنچتی ہے تو امریکا شاباشی دیتا ہے۔ اسی طرح جب سوشلسٹ نوجوانوں نے تحریر اسکوائر کو انسانوں کا سمندر بنادیا تو ہلیری کلنٹن اپنے مصری ایجنٹ اسمٰعیل سے سازش کرکے محمد مرسی کو اقتدار میں لائیں۔
اب عوام انھیں بار بار چیلنج کر رہے ہیں۔ حال ہی میں غیر جمہوری اور بنیاد پرستی پر مبنی آئین کو عوام نے ٹھکرا دیا۔ حکومت نے جبراً نام نہاد ریفرنڈم کروائے اور 56 فیصد ووٹ حاصل کرنے کا سرکار نے اپنے طور پر اعلان کردیا۔ جس کے خلاف حزب اختلاف نے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ان دھاندلیوں کے باوجود قاہرہ جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ڈھائی کروڑ کی آبادی والا شہر ہے، سرکاری اعلان میں غیرسرکاری نتیجے کے طور پر 68 فیصد مخالفت میں ووٹ پڑنے کا اعلان ہوا۔ پہلے حسنی مبارک کی شکل میں انقلاب نے صرف فرد کو تبدیل کردیا اور اب نظام کی تبدیلی کے لیے سوشلسٹ نوجوان اور ناصری برسر بیکار ہیں۔ یہی صورت حال افغانستان کی بھی ہونی تھی۔ مگر طالبان حکومت کو امریکا نے خود قائم کیا اور جب ظلم کی انتہا ہونے لگی تو اپنے دوسرے پٹھو حامد کرزئی کو امریکا سے امپورٹ کرکے چغہ اور ٹوپی اوڑھا کر اقتدار میں بٹھا دیا جس میں طالبان مظلوم بن جائیں ۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو سماجی ناانصافی، عدم مساوات، بے روزگاری، طبقاتی تفریق، بھوک اور افلاس سے تنگ آکر کب کے عوام طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیتے۔ اگر حامد کرزئی کو اقتدار میں نہ لایا جاتا تو مختصر عرصے میں عوام طالبان حکومت کو اکھاڑ پھینکتے جیساکہ مصر میں محمد مرسی کے خلاف ہورہا ہے۔ افغانستان میں اس وقت 43 پارٹیاں اور تنظیمیں افغانستان سے نیٹو افواج کو نکال باہر کرنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ مگر سامراجی میڈیا طالبان کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے علاوہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA)، وطن پارٹی، شعلہ جاوید، ریولوشنری وومن آف افغانستان (RWA)اور دیگر درجنوں، کمیونسٹ، سوشلسٹ، انقلابی سوشلسٹ، قوم پرست، جمہوریت پسند، انارکسٹ اور دیگر مذہبی پارٹیاں اور تنظیمیں مسلح جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ PDPA اپنا ہفت روزہ رسالہ ''خلق'' باقاعدگی سے کابل سے شایع کر رہی ہے۔
جہاں تک امریکی سامراج کا یہ کہنا تھا کہ ''اسامہ بن لادن افغانستان میں ہے اور اس کی رہنمائی میں ٹوئن ٹاور (WTO) پر حملہ ہوا، اسے ہمارے حوالے کرو، ورنہ ہم حملہ کردیں گے''۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسامہ کو امریکا نے ہی افغانستان میں داخل کروایا جب کہ چی گویرا عوام کی پیداوار تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاک افغان سرحد پر 113 تربیتی کیمپ موجود تھے جن کے تربیتی استاد (انسٹرکٹرز) امریکی، برطانوی، اسرائیلی، فرانسیسی، جرمنی، ڈچ، اطالوی اور کینیڈین وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسلام کا دلدادہ نہیں تھا، مگر اسلام پسندوں کی رہنمائی کرتے رہے اور سارے علماء نے ان کی رہنمائی اور تربیت کو سر آنکھوں پر بٹھا رکھا تھا۔ ضیاء الحق کے بعد پرویز مشرف نے بھی امریکی فوج کو افغانستان میں مداخلت کرنے کی اجازت دی اور اب کراچی سی پورٹ سے روزانہ ہزاروں کنٹینرز افغانستان جارہے ہیں جب کہ طالبان اور کرزئی کے ادوار سے اگر بائیں بازو کے دور کا موازنہ کیا جائے تو چار بڑی اہم چیزیں سامنے آتی ہیں۔
1۔ سودی نظام کا خاتمہ ( اس سلسلے میں کابلی پٹھان بہت بدنام تھے)۔ 2۔ولور ۔بردہ فروشی کا خاتمہ 3۔ جاگیرداری کا خاتمہ 4۔ شرح تعلیم کو 40 فیصد پر پہنچانا اور جہیز کا خاتمہ۔ اب تو شمالی علاقے میں امریکا اور کرزئی حکومت جب کہ جنوب میں طالبان ہیروئن کی کاشت میں مصروف ہیں۔ امریکا کو اسلحے کی پیداوار کو استعمال کرنے کے لیے میدان جنگ چاہیے اور وہ فی الحال افغانستان میں میسر ہے۔ اس سے افغان حکومت اور طالبان دونوں اسلحہ خریدتے ہیں۔ نیٹو افواج بے دردی اور بے ہودگی سے افغان محنت کش اور عوام کا قتل عام کر رہی ہیں جس کے خلاف نہ صرف افغان عوام لڑ رہے ہیں بلکہ امریکی اور یورپی عوام بھی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر امڈ آئے ہیں اب وہ دن دور نہیں جب نیٹو افواج افغانستان سے بھاگ کھڑی ہوگی۔
ویسے بھی تقریباً6000 نیٹو افواج نے میدان جنگ چھوڑ کر کینیڈا میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور ہزاروں افواج اور ان کے رشتے دار نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، بہت جلد افغان عوام سامراجی، ریاستی اور سرمایہ داری جاگیرداری کے جبر سے آزاد ہوں گے۔ طبقاتی نظام اور نجی ملکیت کو ختم کرکے ایک خوشحال، بے غرض، اشتراک، محبت اور امن وسکون کا معاشرہ قائم کریں گے۔ ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ نیٹو افواج کو ملک سے نکال باہر کرنا ہوگا۔ کولمبیا اور اسرائیل کی طرح پاکستان، سعودی عرب اور افغانستان کے حکمران بھی سامراجی آلہ کار ہیں۔ اس خطے کے عوام کا اول ترین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ نیٹو افواج کو افغانستان سے نکال باہر کریں اور پاکستان کی حکومت کسی بھی طور پر نیٹو کو لاجسٹک کی راہداری کی اجازت نہ دے ورنہ ان حکومتوں کا حشر بھی بن علی اور حسنی مبارک سے کم نہ ہوگا۔