بلوچستان امن واستحکام کا منتظر
بلوچستان میں بدامنی اور خاموش دہشتگردی کے خطرات سے ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے
اس حقیقت میں اب کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) بلوچستان ہی نہیں پورے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے جب کہ اس کی ترقیاتی رفتار اور سیکیورٹی سسٹم کو ہر قسم کے خطرات سے محفوط رکھنے کے لیے وفاق اور صوبائی حکومت کے مابین غیر مزید ٹھوس اشتراک عمل ناگزیر ہے۔ غالباً اسی سمت میں گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشتگردی کے خلاف کارروائی کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے واضح طور پر کہا کہ دہشتگردی ناقابل قبول ہے ، یہ ہدایت دی کہ شدت پسندوں کے خلاف بلاامتیاز آپریشنز کیے جائیں اور قیام امن کے لیے صوبائی حکومت اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں سے تعاون کیا جائے ۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کو بلوچستان کے بارے میں دی جانے والی بریفنگ سے خطے میں بلوچستان اور اس میں مداخلت کے لیے کمربستہ بھارت اور دیگر قوتوں سے نمٹنے کی ایک واضح گائیڈ لائن بھی متعلقہ اداروں کو مل چکی ہوگی ۔ بلوچستان شورش اور بدامنی کی مختلف النوع وارداتوں اور سیاسی بے چینی کا گہوارہ رہا ہے ۔
مزاحمت کاروں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے غیر ملکی قوتوں سے مالیاتی اور دہشتگردانہ گٹھ جوڑ نے صوبے کی ترقی اور عوام کی بدحالی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی تاہم موجودہ حکومت نے جہاں بلوچستان کے سیاسی و معاشی امور اور دیرینہ مسائل کے حل پر توجہ دی وہاں طویل المدت اقتصادی منصوبوں پر عملدرآمد کے حوالے سے سی پیک کا گیم چینجر منصوبہ پیش کیا اور اس پر جس تیز رفتاری سے کام جاری ہے اس سے بلوچستان کی سیاسی حرکیات اور اقتصادی پیش رفت جتنی خوشگوار ہوگی اسی رفتار سے فرقہ واریت ، انتہائی پسندی اور غیر ملکی سازشوں اور بھارت کی کھلم کھلا مداخلت کا زور ٹوٹے گا، لیکن بلوچستان کا مسئلہ صرف حقوق پیکج یا معاشی ریلیف کا نہیں ہے اس کی قبائلی کشیدگی، بدامنی میں ملوث مختلف الخیال عسکری تنظیموں ، طالبان فیکٹر ، سامراجی اور استعماری قوتوں کی ریشہ دوانیوں کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
سی پیک ایک بڑی پیش قدمی ہے، اسی کے ساتھ خطے میں مستقل سلامتی، ترقی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بیرون ملک مقیم بلوچ رہنماؤں سے مکالمہ ضروری ہے تاکہ سی پیک منصوبہ کی تکمیل میں سیکیورٹی خدشات اور اربوں روپے کے اخراجات کے بجائے دائمی امن و خیر سگالی کی فضا پیدا ہو، چینی ماہرین محفوظ رہیں اور مصالحت و مفاہمت کے ذریعے بلوچستان کو اس کے اندوہ ناک مزاحمتی ماضی سے الگ کیا جائے، معروف سماجی کارکن ادیب اور پبلشر عبدالواحد بلوچ کی رہائی ایک خوش آیند اقدام ہے، دیگر مسنگ پرسنز کی بازیابی بھی ہونی چاہیے،اس بات کی ہر پاکستانی کو خوشی ہے کہ بلوچستان کی مزاحمتی اور بدامنی کی بڑی لہر دم توڑ چکی ہے۔
وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری مستعد ی سے کام کررہے ہیں، حکومت عوام کو معاشی ریلیف دینے کے لیے کوشاں ہے، گوادر پورٹ کی ہمہ گیر ترقی اور پاکستان کے معاشی روڈ میپ سے پیوستہ سی پیک کی سیکیورٹی کے ضمن میں چین پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، چینی صدر شی چن پنگ نے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف کے نام اپنے حالیہ پیغام میں اس امر کا یقین دلایا ہے کہ پاک چین راہداری منصوبہ کو لاحق غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے چین پاکستان کے ساتھ کام کریگا، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سی پیک میں باہمی تعاون کی سیکیورٹی ضمانت کے لیے پاکستان خود کو اکیلا نہ سمجھے، کیونکہ پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک پارٹنرشپ تک لے جانے پر بھی دوطرفہ اتفاق ہوگیا ہے۔
ادھر اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات اور چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کے اشتراک سے سی پیک کی ویب سائٹ بھی متعارف کرائی گئی ہے جو وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو کے مطابق سی پیک سے متعلق غلط اطلاعات کی گھناؤنی گردش کو روکنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ جنرل باجوہ کا عزم بھی سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے عزم سے مختلف نہیں ، انھوں نے کہا ہے کہ بلوچستان کی ترقی و استحکام سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی منصوبوں میں بھر پور مدد دی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ بلوچوں نے امن و امان کی بہتری کے لیے قربانیاں دی ہیں، سیکیورٹی اداروں ، عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، پاک فوج بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی سیکیورٹی اور امن کی بحالی کے لیے صوبائی حکومت کو مکمل معاونت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی استعداد میں اضافے کے لیے مدد کریگی۔ بہرکیف اس مثبت اقتصادی منظر نامے سے قطع نظریہ بات وفاق اور سیکیورٹی حکام کے ادراک میں آنی چاہیے کہ بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل ملکی مفاد میں ہے، مزاحمت ، فوجی آپریشن اور شورش و بدامنی سے بلوچستان لہو لہان ہوچکا ہے ، عام آدمی کو کسی چیز سے کوئی غرض نہیں انھیں دروزگار، عزت کی زندگی اور رہنے کو گھر چاہیے۔
بلوچستان ملکی رقبے کا 44 فیصد اور آبادی کے لحاظ سے 5 فیصد ہے اس لیے جو زندگی بلوچستان کے عوام گزارتے ہیں وہ درد انگیز ہے، تبدیلی آئی ضرور ہے، مگر عوام کو جدید دور کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی شرط اول ہے۔ بلوچستان کی غربت سینے میں خنجر کی طرح چبھتی ہے اور آج بھی بدامنی اور خاموش دہشتگردی کے خطرات سے ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔