ٹیکس ایمنسٹی اسکیم

پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے


Editorial December 07, 2016
۔ فوٹو: فائل

پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، اور اس شعبے میں اربوں کھربوں روپے کی کثیرسرمایہ کاری نہ صرف ہورہی ہے بلکہ مزید سرمایہ کاری ملکی اورغیرملکی سطح پر بڑھنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ ملک میںاس وقت پراپرٹی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ، جہاں یہ اس سیکٹرکا ایک روشن پہلو ہے وہیں پراس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔

اس سیکٹر میں بلڈرزکا اہم کردار ہے، ملکی تعمیروترقی اور معیشت کی مضبوطی میں یقیناً وہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں ، لیکن اس سیکٹر میں کالا دھن بھی لگا ہوا تھا لہذا ٹیکس کی عدم ادائیگی کے باعث بہت سے معاملات اتنے پچیدہ صورت اختیار کر گئے تھے کہ حکومت کو بلاخر انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ2016ء بھی نافذالعمل کرنا پڑا ۔ کالے دھن کوسفیدکرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا نفاذ ہوچکا ہے جس کے تحت غیر منقولہ جائیدادکی فروخت پرتین فیصد ٹیکس اداکرکے اسے قانونی حیثیت دلوائی جاسکتی ہے۔

یہ تین فیصد ٹیکس فروخت ہونے والی غیرمنقولہ جائیداد پراس کے ڈی سی ریٹ اورایف بی آرکی مقررکردہ قیمت کے درمیان پائے جانے والے فرق کی رقم پر اداکرنا ہوگا اوراس اسکیم سے جو فائدہ اٹھایا جائے گا۔ حکومت نہیں پوچھے گی کہ یہ پیسہ پاس کہاں سے آیا۔ اس فیصلے سے بلاشبہ حکومت کو اچھا خاصا ریوینو حاصل ہونے کی توقع ہے، لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ اس عمل کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے شفاف ترین طریقہ اختیارکیا جائے اوردستاویزات کو اس طرح تیارکیا جائے کہ اس میں مزید کرپشن کی راہیں ہموار نہ ہوں۔ ورنہ ایک در بند تو ہزار در رشوت کے کھل جائیں گے ۔

ایک ایسا ملک جس میں سات کروڑ افراد کو رہنے کے لیے چھت میسر نہ ہو۔ وہ دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوں اورفی زمانہ جائیداد اورمکانات کی قیمتیں کئی سو گنا بڑھ گئی ہوں،ایک عام آدمی تو اپنا گھر اپنی جنت کے خواب کو توکئی نسلوں تک شرمندہ تعبیر ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ یہ وہ انسانی پہلو ہے جس پر حکومت نے شایدکبھی غورکرنے کا سوچا تک نہیں،کبھی کبھار سرکاری سطح پر سستے مکانات تعمیرکرنے کی اسکیموں کا اعلان کردیا جاتا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام اسکیمیں یا تو سرخ فیتے کی نظر ہوگئیں،ادھورے تعمیری ڈھانچوں تک محدود رہی یا پھر فائلوں میں دفن ہوگئیں ۔

بے گھر لوگوں کی تعداد چند دہائیوں میں ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے سات کروڑ تک پہنچ گئی لیکن غریبوں کی ہمدرد جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹ کر رخصت ہوتی رہیں ، آمریت بھی رہی ۔ لیکن غریبوں کے دن نہ بدلے اور انھیں چھت میسر نہ آئی ۔ یہ درست ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں اگر بیرونی سرمایہ کار دلچسپی لیتے ہیں اور اپنا سرمایہ لگاتے ہیں تو اس طرح ملک ترقی کے شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوگا اور اس کے بہت ہی روشن اور واضح امکانات بھی موجود ہیں پھر وہ پاکستانی جو دنیا کے دیگر ممالک میں آباد ہیں وہ بھی اس بات کے خواہشمند ہیں کہ وہ اپنا گھر پاکستان میں ہی بنانا چاہتے ہیں ۔

اور اس ضمن میں اپنا سرمایہ بھی لگاتے ہیں لیکن اکثر لٹ جاتے ہیں اور اپنی برسوں کی محنت سے کمائی بھاری آمدنی سے محروم ہوجاتے ہیں، بعض ایسے ہوتے ہیں جو دل برداشتہ ہوکر ملک میں جائیداد بنانے کا خیال ہی ترک کردیتے ہیں ۔ لہذا قانون سازی کرتے وقت اور نئے قواعد وضوابط بناتے اور انھیں لاگو کرتے وقت حکومتی اداروں کو تمام ممکنہ مثبت اور منفی پہلوؤں کا اس انداز میں جائزہ لینا چاہیے کہ اس عمل سے عوام الناس کو ریلیف میسر آسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں