پاکستانی طیاروں کو پیش آنے والے 16 بڑے حادثات
حادثات کے اعتبار سے سال 2010 بدترین سال ثابت ہوا جسں میں تین بڑے حادثات رونما ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان اور اس سے باہر قومی اور مقامی ایئرلائنز کو 16 ایسے بڑے حادثات پیش آئے جن میں سیکڑوں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔
پاکستان ایئرلائن کے طیارہ بوئنگ 707 20 مئی 1965 کو مصر کے لئے اپنی پہلی ہی پرواز پر حادثے کا شکار ہوا جس میں سوارتمام 124 مسافر جاں بحق ہوئے جس کے بعد 6 اگست 1970 کو پی آئی اے کا ہی فوکر طیارہ ایف 27 اسلام آباد ایئرپورٹ سے پرواز بھرنے کے فوراً بعد ہی زمین پر آگرا جس میں سوار تمام 30 افراد جاں بحق ہوگئے۔
8 دسمبر 1972 کو پی آئی اے کا ہی فوکر طیارہ ایف 27 راولپنڈی میں حادثے کا شکار ہوا جس میں سوار تمام 26 افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد چوتھا بڑا حادثہ 26 نومبر 1979 میں اس وقت پیش آیا جب پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارہ حاجیوں کو لے کر اسلام آباد آرہا تھا اور جدہ ایئرپورٹ سے اڑان بھری ہی تھی کہ زمین پر آگرا جس میں سوار تمام 156 حاجی جاں بحق ہوئے۔
اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر ایف 27 پشاور میں لینڈ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا جس میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے جب کہ 17 اگست 1988 کو پاک فوج کا امریکی ساختہ ہرکولس سی 130 طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہوا جس میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاالحق سمیت 30 عکسری حکام جاں بحق ہوئے اور ان میں ایک امریکی سفیر بھی شامل تھے۔
25 اگست 1989 کو گلگت بلتستان سے پرواز بھرنے والا پی آئی اے کا فوکر طیارہ اچانک لاپتہ ہوگیا جس کا آج تک کچھ علم نہیں جب کہ طیارے میں 54 مسافر سوار تھے۔ 28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ایئربس اے 300 نیپال کے کھٹمنڈو ایئرپورٹ کے قریب پہاڑیوں سے ٹکرا گیا تھا جس میں سوار تمام 167 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ اسی طرح 19 فروری 2003 کو ایئرفورس کا فوکر ایف 27 کوہاٹ میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار ایئرچیف مارشل مصحف علی میر اور ان کی اہلیہ سمیت 15 افراد جاں بحق ہوئے۔
24 فروری 2003 کو چارٹرطیارہ سیسنا 402 بی کراچی کے قریب سمندر میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار افغانستان کے وزیرمعدنیات جمعہ محمد محمدی، 4 افغان حکام، چینی ماہر اور دو پاکستانی جاں بحق ہوگئے تھے۔ 10 جولائی 2006 کو ملتان سے پرواز بھرنے والا پی آئی اے کا فوکر ایف 27 طیارہ لاہور کے قریب کھیتوں میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار تمام 41 مسافر اور عملے کے 4 افراد جاں بحق ہوئے۔
فضائی حادثات کے اعتبار سے سال 2010 بدترین سال ثابت ہوا جسں میں تین بڑے حادثات رونما ہوئے جب کہ صرف نومبر کے مہینے میں ہی 2 بڑے حادثات واقع ہوئے۔ 28 جولائی 2010 کو ایئربلو کی ایئربس 321 طیارہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ سے قبل مارگلہ پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوا جس میں سوار تمام 152 مسافر جاں بحق ہوئے جس کے بعد اسی سال 5 نومبر کو کراچی ایئرپورٹ سے پرواز بھرنے والا چارٹر طیارہ گر کر تباہ ہوا جس میں سوار اٹلی کی آئل کمپنی کے اسٹاف سمیت 21 مسافر ہلاک ہوئے جب کہ 28 نومبر کو روسی ساختہ الیوشن آئی ایل 76 کارگو طیارے نے کراچی ایئرپورٹ سے اڑان بھری ہی تھی کہ اس کے انجن میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں جہاز مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور اس میں سوار تمام 12 افراد ہلاک ہوئے۔
20 اپریل 2012 کو بھوجا ایئرلائن کا طیارہ 737 خراب موسم کے باعث اسلام آباد میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار تمام 130 مسافر جاں بحق ہوئے جب کہ 8 مئی 2015 کو پاک فوج کا ہیلی کاپٹر غیرملکیوں کو لے کر گلگت بلتستان جا رہا تھا کہ نلتر کے مقام پر گر کر تباہ ہوا جس میں سوار 8 افراد ہلاک ہوگئے جب کہ مرنے والوں میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ان کی ازدواج سمیت ملائیشیا اور انڈونیشا کے سفیر شامل تھے۔
پاکستان ایئرلائن کے طیارہ بوئنگ 707 20 مئی 1965 کو مصر کے لئے اپنی پہلی ہی پرواز پر حادثے کا شکار ہوا جس میں سوارتمام 124 مسافر جاں بحق ہوئے جس کے بعد 6 اگست 1970 کو پی آئی اے کا ہی فوکر طیارہ ایف 27 اسلام آباد ایئرپورٹ سے پرواز بھرنے کے فوراً بعد ہی زمین پر آگرا جس میں سوار تمام 30 افراد جاں بحق ہوگئے۔
8 دسمبر 1972 کو پی آئی اے کا ہی فوکر طیارہ ایف 27 راولپنڈی میں حادثے کا شکار ہوا جس میں سوار تمام 26 افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد چوتھا بڑا حادثہ 26 نومبر 1979 میں اس وقت پیش آیا جب پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارہ حاجیوں کو لے کر اسلام آباد آرہا تھا اور جدہ ایئرپورٹ سے اڑان بھری ہی تھی کہ زمین پر آگرا جس میں سوار تمام 156 حاجی جاں بحق ہوئے۔
اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر ایف 27 پشاور میں لینڈ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا جس میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے جب کہ 17 اگست 1988 کو پاک فوج کا امریکی ساختہ ہرکولس سی 130 طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہوا جس میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاالحق سمیت 30 عکسری حکام جاں بحق ہوئے اور ان میں ایک امریکی سفیر بھی شامل تھے۔
25 اگست 1989 کو گلگت بلتستان سے پرواز بھرنے والا پی آئی اے کا فوکر طیارہ اچانک لاپتہ ہوگیا جس کا آج تک کچھ علم نہیں جب کہ طیارے میں 54 مسافر سوار تھے۔ 28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ایئربس اے 300 نیپال کے کھٹمنڈو ایئرپورٹ کے قریب پہاڑیوں سے ٹکرا گیا تھا جس میں سوار تمام 167 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ اسی طرح 19 فروری 2003 کو ایئرفورس کا فوکر ایف 27 کوہاٹ میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار ایئرچیف مارشل مصحف علی میر اور ان کی اہلیہ سمیت 15 افراد جاں بحق ہوئے۔
24 فروری 2003 کو چارٹرطیارہ سیسنا 402 بی کراچی کے قریب سمندر میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار افغانستان کے وزیرمعدنیات جمعہ محمد محمدی، 4 افغان حکام، چینی ماہر اور دو پاکستانی جاں بحق ہوگئے تھے۔ 10 جولائی 2006 کو ملتان سے پرواز بھرنے والا پی آئی اے کا فوکر ایف 27 طیارہ لاہور کے قریب کھیتوں میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار تمام 41 مسافر اور عملے کے 4 افراد جاں بحق ہوئے۔
فضائی حادثات کے اعتبار سے سال 2010 بدترین سال ثابت ہوا جسں میں تین بڑے حادثات رونما ہوئے جب کہ صرف نومبر کے مہینے میں ہی 2 بڑے حادثات واقع ہوئے۔ 28 جولائی 2010 کو ایئربلو کی ایئربس 321 طیارہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ سے قبل مارگلہ پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوا جس میں سوار تمام 152 مسافر جاں بحق ہوئے جس کے بعد اسی سال 5 نومبر کو کراچی ایئرپورٹ سے پرواز بھرنے والا چارٹر طیارہ گر کر تباہ ہوا جس میں سوار اٹلی کی آئل کمپنی کے اسٹاف سمیت 21 مسافر ہلاک ہوئے جب کہ 28 نومبر کو روسی ساختہ الیوشن آئی ایل 76 کارگو طیارے نے کراچی ایئرپورٹ سے اڑان بھری ہی تھی کہ اس کے انجن میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں جہاز مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور اس میں سوار تمام 12 افراد ہلاک ہوئے۔
20 اپریل 2012 کو بھوجا ایئرلائن کا طیارہ 737 خراب موسم کے باعث اسلام آباد میں گر کر تباہ ہوا جس میں سوار تمام 130 مسافر جاں بحق ہوئے جب کہ 8 مئی 2015 کو پاک فوج کا ہیلی کاپٹر غیرملکیوں کو لے کر گلگت بلتستان جا رہا تھا کہ نلتر کے مقام پر گر کر تباہ ہوا جس میں سوار 8 افراد ہلاک ہوگئے جب کہ مرنے والوں میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ان کی ازدواج سمیت ملائیشیا اور انڈونیشا کے سفیر شامل تھے۔